Tuesday 4 May 2021

علم وقلم کا مہر درخشاں غروب ہوگیا

مولانا نور عالم خلیل الامینی:

علم وقلم کا مہر درخشاں غروب ہوگیا
(ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی)
استاذ الاساتذہ مولانا نور عالم خلیل امینی کی وفات سے اتنا مغموم ومحزون ہوں کہ شیرازۂ خیال کو یکجا کرنے سے خود کو قاصر پارہا ہوں،دو دن گزرجانے کے بعد آج کچھ سپرد قرطاس کرنے کی ہمت جٹائی ہے ، یہاں یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، استاذ محترم کی کس کس خوبی کو شمار کراؤں اور کس سے صرف نظر کروں، حقیقت یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کا ہر پہلو اس کا متقاضی ہے کہ الگ الگ عنوان سے لکھا جائے۔ آج صرف استاذ محترم کی یادیں باقی رہ گئی ہیں، موت سے کس کو رستگاری ہے، ہم مرنے کے لیے ہی پید ا ہوئے ہیں ،لیکن مقام تأ سف یہ ہے کہ بعض قد آور شخصیت اتنی جلدی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہے کہ چہار سو اندھیرا اٹھتا نظر آتاہے، استاذ محترم بھی ایک نازک مرحلہ میں ہم سب سے بچھڑگئے ، یہ وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ آپ اتنی جلدی ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجائیں گے،رمضان شروع ہونے سے قبل ہی ہوئی بات چیت میں جو شگفتگی تھی وہ یہ بتارہی تھی کہ آپ کی صحت کو فی الحال کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ، البتہ حضرت مولانا ولی رحمانی کی وفات پر اظہار رنج وغم کرتے ہوئے اپنے اس کرب کا بھی برملااظہار کیا کہ ’پتہ نہیں یہ کوروناہم سے کتنے لعل وگہر کو چھین لے گا، میرے بہت مخلص اورمجھ سے بے لوث محبت کرنے والے ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی ،گزشتہ سال اسی وبا کی نذر ہوگئے اوررواں سال پھر بڑی تیزی سے اس وبانے کئی قدر آور شخصیات کو اپنا نوالہ بنالیاہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اللہ تعالی ہم سب کواپنے حفظ وامان میں رکھے ‘۔اسی گفتگو کے چند دن بعد سوشل میڈیا پر آپ کی صحت کے لیے دعا کی اپیل نظر سے گزری ،میں نے فوراً مولانا کے چھوٹے صاحبزادے مولانا ثمامہ نور سے بذریعہ واٹس ایپ مزاج پرسی کی ،انھوں نے وائس کال کے ذریعہ یہ اطلاع دی کہ ہاں ابو کی طبیعت ناساز ہے ،لیکن خطرے سے باہر ہیں، اس پیغام کو سن کر کچھ راحت ملی، لیکن پھر دوسرے دن طبیعت میں غیر معمولی خلجان کی خبریں پاکر ذہنی طور پر کرب میں مبتلا ہوگیا کہ ہونہ ہو کوئی انہونی خبر سننے کو ملےاور آخر کاروقت سحر 3 مئی بمطابق 20 رمضان المبارک وقت سحر میرٹھ شہر میں واقع آنند اسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہنے کی خبر گشت کرنے لگی۔انا الیہ وانا الیہ راجعون۔
راقم السطور کو آپ کی ذات والا صفات سے سناشائی تو اسی وقت ہوگئی جب 1998 میں شمالی بہار کی قدیم دینی درسگاہ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر راجو پٹی سیتامڑھی میں زیر تعلیم تھا ، یہاں کے محنتی طلبہ میں خوشخط بننے کا شوق تھا،مجھے بھی یہ شوق جامعہ اسلامیہ قاسمیہ دارالعلوم بالاساتھ سے ہی استاذ محترم مولانا سمیع احمد شمسی نائب مہتمم جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کی توجہ اور عنایت سے ملاتھا، امدادیہ اشرفیہ جاکر اس شوق کو مزید پروان چڑھایا، یہاں عربی خوشخطی کے لیے حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی کی کتاب’خط رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں‘ معلم کا فریضہ انجام دے رہی تھی ،لیکن اس وقت میرے پاس یہ کتاب دستیاب نہیں تھی ،دیوبند سے جب مذکورہ کتاب منگوانے کا ارادہ کیا تو یہاں کے مؤقر استاذ مفتی اسلم صاحب سنہپوری نے یہ مشورہ دیا کہ میں مولانا نور عالم خلیل امینی کی تازہ تصنیف ’حرف شیریں‘ بھی منگوا لوں۔یہ دونوں کتابیں میں نے دیوبند سے منگوالیں، خط رقعہ سے تو بعد میں استفادہ کیا،لیکن ’حرف شیریں‘ کا حرف حرف میرے لوح دل پر مولانا کی عظمت ورفعت کے نقوش مرتسم کردیے اور یہ ارمان دل میں سجانے لگا کہ کب دیوبند جاؤں گا اور اس مقناطیسی شخصیت کی سحر آفریں تحریرسے جس طرح مسحور ہوا،ویسے ہی سحر انگیز بالمشافہ گفتگو کا موقع کب میسر آئے گا۔وقت گزرتا گیا اور میں بھی جلالین شریفین پڑھ کر مشکاۃ المصابیح (درجہ ہفتم عربی) میں داخلہ کے لیےدیوبند کا رخت سفر باندھ لیا۔اللہ اللہ کرکے میرا داخلہ بھی مطلوبہ درجے میں ہوگیا۔اور یہ میری سعادت مندی و نیک بختی ہےکہ 2002 میں دورۂ حدیث (فضیلت) میں امتیازی نمبر سے کامیاب ہونے کے بعد تکمیل افتا میں داخلہ لینے کے بجائے تکمیل ادب عربی میں داخلہ لیا ،تاکہ ادیب دوراں حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینی کے چشمۂ صافی سے سیرابی حاصل کرکے عربی زبان کو صحیح پڑھنے اور لکھنے پر قادر ہوجاؤں۔اللہ اللہ کرکے 2003 میں شعبۂ تکمیل ادب عربی میں داخلہ پاکر حضرت الاستاذ کی خوشہ چینی کا شرف حاصل کرلیا۔یوں تو 2000 میں دار العلوم دیوبندمیں عربی سال ہفتم (موقوف علیہ) میں داخلہ ملتے ہی اس قدر فرحاں وشاداں تھا کہ زندگی میں اب تک اس خوشی کا تقابل کسی دوسری خوشی نہیں کیا جاسکتا۔یہاں کے پرکیف علمی وروحانی ماحول میں جبال العلم اساتذہ سے کسب فیض کا موقع میسر آیا۔فضیلت کے بعد جب تکمیل ادب عربی میں داخلے کی کارروائی مکمل ہوگئی ، تعلیمی سال کا آغاز ہوتے ہی ادب کی کلاس میں جب حضرت الاستاذ کا ورود مسعود ہوا تو بے پناہ خوشی ہوئی ، نہایت نفیس شیروانی ، موٹے فریم کا چشمہ ، اس کےاندر سے جھانکتی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں، علی گڑھ پائجامہ، پالیش سے چمچماتا ہوا لیدر کے جوتے، ساتھ میں دائیں بائیں دوطلبہ کی معیت ۔ اس شان کے ساتھ جب کلاس روم میں آپ کا نزول اجلال ہوا تو جی بھر کر پہلے آپ کے سراپا کو دیکھتارہا اور مسحور ہوتاگیا۔ جب تکلم کا سلسلہ شروع ہوا تو خوشی مزید دوچند ہوگئ۔آپ کی پرکیف تقریر نے عربی زبان کی اہمیت وافادیت کے تئیں جوش وجذبہ سے سرشار کردیا۔اور پڑھانے کے انداز نے اپنا گرویدہ بنالیا۔عبارت خوانی میں تلفظ کی ادائیگی کے ساتھ عربی کا نطق صحیح اور پرکیف لہجہ نے سمجھوکہ اپنا اسیر بنالیا۔آپ طلبہ سے عبارت خوانی میں زبان کی صحت کے ساتھ لہجہ پر بھی خاص توجہ مرکوز رکھتے تھے۔پھر نثر جدید میں عربی تعبیرات ومحاورات کا استعمال اس طرح کرواتے کہ سال کے اختتام تک تکمیل ادب عربی میں داخل ہر طالب علم اس قدر خود اعتمادی میں آجاتاکہ وہ بلاتکلف مختلف موضوعات پر بولنے اور لکھنے میں کسی طرح کا کوئی پریشر اور تکلف محسوس نہیں کرتا۔آپ کا انداز تدریس سے ایسا محسوس ہوتاکہ آپ کی ذات میں مولانا وحید الزماں کیرانوی کی شخصیت حلول کرگئی ہے۔ان کا عکس جمیل آپ کی ذات میںنمایاں طور پر نظر آتا۔پورے سال اسباق کی پابندی اور وقت مقررہ پر حاضری آپ کا معمول تھا۔دوران درس آپ کے بولتے ہوئے فقروں میں ایک مسکراہٹ ہوتی اور کبھی کبھی طلبہ پر کیے جانے والے طنز لطیف سے پورا درس قہقہ زار بن جاتا۔ سال کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے حضرت الاستاذ کی بارعب شخصیت سے یک گونہ قربت بھی ہوگئی اور آپ کے دولت کدے پر بھی گاہے بگاہے حاضری کا شرف حاصل ہوتارہا اور ہر ملاقات میں آپ نے نظام زندگی کو مرتب کرنے کے حوالے درس وعبر سے مالامال کیا، معمولی معمولی باتوں کو اس اہمیت سے پیش کرتے کہ اب اس کا ادراک ہوا کہ عملی زندگی میں آنے کے بعد آپ کی بتائی ہوئی سبق آموز باتیں کس قدر کار آمد ثابت ہوئیں۔
اب جب کہ دارالعلوم کے احاطہ سے نکلے ہوئے ایک عرصہ گذرچکاہے ، لیکن حضرت الاستاذ کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے بذریعہ فون مزاج پرسی کی سعادت ملتی رہی۔گزشتہ سال جب حضرت لاستاذ کو عربی زبان وادب میں نمایاں خدمات کے عوض صدرجمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا تویہ حسن اتفاق ہے کہ ایک میرے ادب عربی کے دارالعلوم کے استاذ اور دوسرے میرے شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے میرے استاذ پروفیسر محمد نعمان خان کو بھی صدر جمہوریہ ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا، اس طرح سے میرے دو نو ں اداروں کے عظیم اساتذہ کو ایوارڈ ملنا جہاں دیگر لوگوں کے لیے باعث فرحت وانبساط تھا، وہیں مجھے دہری خوشی تھی کہ میرے دونوں عظیم المرتبت اساتذہ کو بیک وقت صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا جارہاہے، حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی جب ایوارڈ قبول کرنے کے لیے دہلی تشریف لائے تو اس وقت مجھے ملاقات کی شدید خواہش تھی، لیکن حضرت الاستاذ کی عدیم الفرصتی نے ملاقات سے روک دیا۔اور یوں حضرت اسی دن شام کو دیوبند واپس ہوگئے۔تاہم میں نے حضرت الاستاذ سے موبائل پر بات چیت کرکے ایوارڈ کی حصولیابی پر اظہار مسرت کیا اور صحت وعافیت کے آپ کی درازی عمر کی دعاکی۔حضرت الاستاذ کی ذرہ نوازی کا سلسلہ یوں بھی جاری تھا کہ گاہے بگاہے ’الداعی‘ جیسے معیاری مجلہ میں مجھ جیسے بے بضاعتوں کے مضامین کو جگہ دیتے رہے۔
آپ کی ادارت میں دار العلوم دیوبند سے شائع ہونے والے رسالہ''الداعی'' کی برصغیر میں نکلنے والے دیگر مجلات و رسائل کے مقابلے دو نمایاں خصوصیات ہیں۔ پہلی تو اس کی ظاہری خوب صورتی ہے اور دوسری خصوصیت اس کا مواد سے لبریزہونا ہے،کیوں کہ اس کا سرِورق اور اس کا مرکزی لوگو اپنے وقت کے عظیم خطاط خلیق ٹونکی کا تیار کردہ ہے۔اس کے مشمولات حضرت الاستاذکے ذوق کی بلندی کو بتاتے ہیں تو سرورق کی تزئین اور طباعت کی آراستگی آپ طبیعت کی نفاست پر دلالت کرتی ہے۔ آپ اپنے شان دار اور شستہ ادبی اسلوب کے لیے مشہور ہیں، جو خالص عربی رنگ سے مزین ہوتا تھا۔عجمیت زدہ عربی نہیں ہوتی تھی ۔الداعی میں ’اشراقۃ‘ حضرت الاستاذ مولانا نورعالم خلیل الامینی دامت برکاتہم کا ایک دائمی قلمی شاہ کارہواکرتاتھا، جس میں آپ الفاظ و محاورے کچھ اس طرز سے ڈھالتے تھے جیسے سُنار موتیوں اور زیورات کو ڈھالتا ہے۔ ''کلمۃ العدد'' اور ''کلمۃ المحرر‘‘' یہ دونوں بھی آپ کے جادوئی قلم سے ہی نکلتے تھے۔درحقیقت استاذ محترم مولانا نور عالم خلیل الامینی ہندوستان کے مایہ ناز ادیب تھے۔ آپ عظیم مردم ساز شخصیت مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی نور اللہ مرقدہ کےنہ صرف خاص شاگرد،بلکہ ان کا عکس جمیل تھے۔ یوں تو آپ کو عربی ادب سے شروع ہی سے کافی شغف رہا ہے؛ لیکن علامہ وحید الزماں کیرانوی کی صحبتِ کیمیا اثر اور غیر معمولی تدریسی صلاحیت اور تخلیقی مواہب نے حضرت الاستاذ کے اندر ہمیشہ کے لیے ادب کی چنگاری بھڑکادی، جس نے آپ کی لسانی اور ادبی صلاحیتوں کو کندن بنا دیا، اورآپ عربی ادب کے میدان میں واقعی نورِ عالم (دینا کے لیے روشنی) کی حیثیت سے ابھرے۔
آپ کی ذات اسلاف کا نمونہ تھی، اس قسم کے لوگ تاریخ کے اوراق میں تو ملتے ہیں، مگر انسانوں کے غول میں نہیں، جن لوگوں کو مرنا چاہیے ان کی رسی مشیت ایزدی دراز کررہی ہےاور جنھیں مدتوں زندہ رہنا چاہیے وہ جلد ہی داعی اجل کولبیک کہہ جاتے ہیں، صیاد اجل گھات میں بیٹھا ہوا ہے ان کی زندگی کا شکار کرلیتاہے:
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھودیے
ڈھونڈا تھا آسمان نے جنھیں خاک چھان کے
بلاشبہ آپ کی زندگی اہل علم ودانش کے لیے علم ومعرفت کا سرچشمہ تھی، آپ کے چشمۂ صافی سے نہ جانے مجھ جیسے کتنے تشنہ لبوں نے سیرابی حاصل کی ۔اور اپنے علم وادب سے ایک کائنات کو فیضیاب کررہے ہیں۔آپ اپنی تحریروں میں احساس کی جمالیاتی لہروں کو دل کا خون دے کر پیش کرتے تھےجو قاری کو مسحور کیے بغیر نہیں رہتی۔آپ مجلسی آدمی نہیں تھے ، لیکن جس مجلس میں ہوتے میر مجلس ہوتے۔نفاست مولانا کی طبیعت ثانیہ تھی، نزاکت بھی ان کی زندگی کا احاطہ کیے ہوئی تھی، وہ خلقی طور پر نفیس ونازک تھے، یہاں تک کہ بول چال ،لب ولہجہ میں بھی یہی خصوصیات ملحوظ رکھتے ۔وہ نہ صرف شیشہ ہائے دل سے بھی زیادہ نرم ونازک الفاظ بولتے ،بلکہ مزاجاًبھی اسی نہج پر چلتے۔مولانا کی بات چیت اتنی شستہ ورفتہ ہوتی کہ کوثر وتسنیم کی لہریں نچھاور ہوتیں اورلہجہ اتنا پیاراکہ الفاظ اس کی تاثیر بیان کرنے سے معذور ہیں۔قدرت نے مولانا کو عجم کا حسن طبیعت اور عرب کا سوز دروں دے کر پیدا کیاتھا، مولانا کی ذات نگہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز کا مرقع تھی۔آپ کی رحلت ایک عظیم انسان کی موت نہیں، بلکہ ایک فقید المثال ادارہ کی موت ہے۔آخری وقت تک آپ نے قلم وکاغذ اور کتاب وقرطاس کے ساتھ زندگی بسر کی،وہ پڑھتے پڑھتے اور لکھتے لکھتے پروردگار حقیقی سے جاملے، آپ کی رحلت سے ایک ایسا وجود اٹھ گیاکہ شاید پورے ملک میں علم وقلم کے اعتبار سے ان کے رتبہ ومقام کا ایک شخص بھی نہیں، ان کےاشہب قلم سے بیسیوں مفید سے مفید تر
کتابیں منظر عام پر آکر شرف قبولیت حاصل کرچکی ہیں۔،آپ کا وجود علم وقلم کا گنج گراں مایہ تھا، جب تک زندہ رہے عربی وا ردو کے افق ادب پر مثل آ فتاب چمکتے رہے ۔
استاذ محترم کی شخصیت پر لکھنے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر لکھنے والے انشاء اللہ خوب لکھیں گے، میں بھی لکھوں گا، فی الحال میں استاذ مکرم کے اہل خانہ بالخصوص آپ کے صاحبزادےاسامہ نور، عمارہ نور، ثمامہ نور،صاحبزادیاں اوران سب کی والدہ محترمہ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتاہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ جل شانہ استاذ محترم کو جنت الفردوس نصیب فرمائے، آپ کی زریں و سنہری خدمات کوشرف قبولیت عطا فرمائے اور دار العلوم دیوبند کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔(9711484126)

Tuesday 20 October 2020

قمرعالم: ایک مخلص دوست جو بچھڑگیا

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

(ڈاکٹرجسیم الدین، گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی)

یہ میری سعادت مندی ہے کہ میری صبح کا آغاز اپنی والدہ محترمہ کی مزاج پرسی سے ہوتاہے اور دن کا اختتام بھی عموماًانھی کی گفتگو سے ہوتاہے ، مغرب کی نمازکے بعد بٹلہ ہاؤس مرزا سپر مارکیٹ سے کچھ ضروری سامان خرید نے کے بعد جیسے ہی ایگزٹ ڈور کی طرف بڑھاکہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی ، جیب سے نکالاتو دیکھا کہ والدہ کی کال آرہی ہے ، ان کی طرف سے کال آنے کا مطلب ہی یہ ہوتاہے کہ کوئی انہونی ہے،چوں کہ عموماً دن بھر میں دو تین بار میں خیریت دریافت کرہی لیتاہوں ،اس لیے انھیں کال کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، کال رسیو کرتے ہی والدہ نے یہ اطلاع دی کہ قمرعالم کا انتقال ہوگیا۔یہ خبر سنتے ہی میں سکتے میں آگیا اور کسی طرح ترجیع کی اورکچھ دیر خاموش رہ کر کال منقطع ہوگئی۔

یہ سچ ہے کہ کوئی انسان قدرت کی بارگاہ سے ہمیشہ کی زندگی لے کر نہیں آیاہے،ہر انسان جو پیدا ہوا ہے، اس کی زندگی کے پہلے دن سے ہی اس کے ساتھ موت چلی آرہی ہے، لیکن خویش واقارب کی موت جس طرح دل فگار ہوتی ہے ،ایسے ہی کوئی بچپن کا دوست ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائے تو جگر لخت لخت ہونا فطری ہے، دوستی ذہنی مسرت کا نام ہے، لیکن ساتھ ہی حقیقی دوستی حسن کی طرح نا پائیدار ہے، جب امیدیں دلوں میں حصار بنالیتی ہیںتو دوستی کا مطلع دھندلاجاتاہے۔قمر عالم کے ساتھ میرے  بیتے ہوئےماہ و سال میری زندگی کے متاع گراں مایہ سے کم نہیں، بچپن کی دوستی کی بنیاد ہی اخلاص پر ہوتی ہے، یہی دوستی جب پختہ ہوجاتی ہے تو وہ پھر قربانی وایثار کی طرف لے جاتی ہےاور زندۂ جاوید بن جاتی ہے۔قمر عالم سے میری قربت اور دوستی کی متعدد وجوہات ہیں ،وہ میرے ہم سبق ہونے کے ساتھ ساتھ میرے محلے کے بھی تھے ،رشتے میں چچا تھے ،لیکن ہم سبق ہونے کی وجہ سے چچا بھتیجے والا رشتہ نہیں رہا ،ہمیشہ ایک دوسرے ساتھ پڑھائی لکھائی کے ساتھ شام کے اوقات میں کھیل کود اور سیر وتفریح میں بھی ساتھ ساتھ رہتے۔پڑھنے میں جہاں وہ ذہین وفطین تھے ،وہیں مترنم آواز میں نعت خوانی کے لیے بھی مشہوررہے۔گاؤں میں جب بھی کسی دینی تقریب کا انعقاد کیاجاتا،اس میں مترنم آواز میں نعت خوانی کے ذریعے سماں باندھ دیتے ۔ابتدائی درجات سے لے کر ہم دونوں نےفارسی کی پہلی، آمدنامہ، اسلامی معلومات اور اردو کی چوتھی کتاب ساتھ میں پڑھی، ان کی ذہانت وفطانت کی ستائش اساتذہ بھی کرتے تھے۔  قمر عالم مرحوم کا گھرانہ بھی پڑھالکھا تھا،ان کے دادا حنیف مرحوم تادم زیست جامع مسجد ددری میں جمعہ کے مؤذن رہے۔ان کے چچامولانا یاسین صاحب کوبھی زبان وبیان پر عبورحاصل ہے، جب یہ ددری گاؤں کے مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تو مجھے بھی ان سے شرف تلمذ حاصل ہوا، ان دنوں الٰہ آباد میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں، قمر عالم کے والد محترم جناب عبد القیوم صاحب بھی پڑھے لکھے ہیں اور آج بھی دینی کتابوں کے مطالعہ کے شوقین ہیں ، میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو کوئی دینی کتاب کی فرمائش کرتے اور  میں نے بھی متعدد بار ان کی فرمائش پوری کی۔قمرعالم کا گھرانہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود معاشی مسائل سے دوچار رہا اوراسی معاشی تنگی نے قمر عالم کی  تعلیمی راہ میں رکاوٹ ڈال دی اور آخر کار وہ فارسی کی پہلی جماعت کے بعد کسب معاش کے لیے ممبئی کا رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوگئے اور میں نے اپنا گھرانا پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود حالات کے پیچ وخم سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بھی تعلیمی سلسلہ جاری رکھااور گاؤں کے مدرسہ سے فارسی کی پہلی کی تعلیم کے بعد علاقہ کے مشہور مدرسہ دارالعلوم بالاساتھ میں داخلہ لیا ، یہاں سے بھی کئی بار بھاگ کر گھرآیا ،لیکن والد مرحوم کی سختی کی وجہ سے اسی وقت گھر سے مدرسہ بھیج دیا جاتااور اس طرح میں  نے بھی یہ طے کر لیاکہ اب مدرسہ سے فرار ہوکر گھر نہیں جاناہے۔اوراس طرح بالاساتھ مدرسہ سے عربی سوم (کافیہ ، قدوری وغیرہ)تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجوپٹی سیتامڑھی  آکر جلالین تک تعلیم حاصل کی ، بعد ازاں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی اس دوران قمر عالم میرے ذہن ودماغ سے کبھی جدا نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ مجھ سے الگ ہوئے ،ہرچندکہ وہ ممبئی میں کسب معاش کے لیے اقامت پذیر تھے ،لیکن برابر رابطے میں رہتے اور جب بھی ہم گاؤں میں ایک دوسرے سے ملتے تو وہی زمانۂ طالب علمی کے واقعات کا اعادہ کرتے ،وہ کبھی افسوس کرتے تو کبھی اظہار خوشی کرتے ۔مدرسہ کی تعلیم کے بعد میں نے جب جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور دہلی یونیورسٹی  جیسی درسگاہوں سے استفاہ کیا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی ، وہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے کہ میرا بدلہ بھی آپ ہی پڑھ رہے ہیں۔ان کے یہ جملے مجھے باربار اشکبار کررہے ہیں۔

ادھر پچھلے چند برسوں سے کڈنی کا عارضہ لاحق ہوگیا اورمسلسل علاج ومعالجہ کے بعد بھی وہ جانبر نہ ہوسکے  اورآج بتاریخ 20 اکتوبر2020 بعد نماز مغرب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

قمر عالم کی زندگی گرچہ مختصر رہی مگر بامقصد رہی اور مختصر بامقصد زندگی بے مقصد طویل زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔ایسے خوش فہم اور مخلص دوست کم ہی کسی کو ملتے ہیں اور جس کو بھی مل جائے سمجھیے کہ نعمت عظمیٰ مل گئی۔ان کے ساتھ گزرے ہوئے یادوں اور باتوں کا لامتناہی سلسلہ ہے ، جب تک زندہ رہے میری ہر خوشی اورغم میں شریک رہے ، اتفاق ہے کہ انھوں نے جہاں شادی کی ، وہیں میرے لیے بھی  میری  پسندکے مطابق ایک مناسب رشتہ بھی تلاش دیا اور میں نے بھی اپنی بچپن کی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے ان پر مکمل اعتماد جتایا اور رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگیا ،اس من پسند رشتے نے میرے دل میں ان کے حوالے سے عظمت کا پہاڑنصب کردیااور مجھے یہ احساس ہواکہ قمر عالم کی لائن گرچہ مجھ سے مختلف ہوگئ ،لیکن  اس نے حق رفاقت میں نبھانے میں کبھی بھی ،کہیں بھی لیت ولعل سے کام نہیں لیا۔انسان اٹھ جاتاہے تو اس کی یادیں ہمیشہ کے لیے دل میں کسک بن کر بیٹھ جاتی ہیں، آج وہ جسمانی طور پر مجھ سے بہت دورجہاں سے واپسی ناممکن ہے ،چلے گئے ،لیکن ان کی یادیں میرے لوح دل پر منقش ہیں، میں دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس کو اس کا مسکن بنائے اور پسماندگان میں شامل بیوہ ، تین بیٹے اور ایک بیٹی کی کفالت کا مسئلہ آسان فرمائے ۔ان کے والد محترم جناب عبد القیوم دادا ، دادی مہر النسا اور ان کے دونوں بھائی ظفر عالم  اوربدر عالم   کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

آتی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا



Monday 21 September 2020

مولانا امین اشرف قاسمی کی رحلت



مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
(ڈاکٹر جسيم الدين، شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی )
موت سے کسی کو مفر نہیں، ایک اللہ کی ذات ہے جس کو فنا نہیں، باقی سب کے لیے موت برحق ہے، کوئی شخص موت سے لڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کو ٹال سکتا ہے اگر انسانوں کو ان کے امتیازی خصائص کی وجہ سے موت نہ آتی تو بے شمار انسان صبح قیامت تک زندہ رہتے، اس لیے جب کوئی شخص داعی اجل کو لبیک کہتا ہے تو ہمیں موت حادثہ معلوم نہیں ہوتی، بلکہ جو شخص کائنات کی بزم سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی رحلت ایک سانحہ نظر آتی ہے، پھر یہ کہ جانے والا کوئی بلند وبالا عالم، زاہد شب بیدار، متقی وپرہیزگار، عابد وصالح اور مرجع خلائق عمر فانی پوری کرکے راہی عالم بقا ہوتا ہے تو صدمہ یہ نہیں ہوتا کہ موت نے اپنا مشن کیوں پورا کیا، صدمہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ اور دن بزم کائنات سجائے رکھتے تو اس میں حرج کیا تھا. سرزمین بہار کے ضلع سیتامڑھی میں واقع ممتاز ومنفرد دینی و تعلیمی ادارہ دعوۃ الحق مادھو پور سلطانپور کے مہتمم اور میرے محب ومخلص دوست نجیب اشرف نجمی حال مقیم ریاض کے والد محترم مولانا امین اشرف کی ذات والا صفات اور ان کا وجود مسعود نہ صرف سرزمین سیتامڑھی بلکہ پورے بہار کے لیے رحمت وحیات کا سرچشمہ تھا، ان کی رحلت نے عجیب و غریب انداز میں سکتہ طاری کردیا ہے، ان کی وفات کی اطلاع میرے عزیز دوست حسان جامی قاسمی حال مقیم دبئی نے بذریعہ واٹس ایپ دی، موبائل کے اسکرین پر جیسے یہ پیغام ملا، میرے ہوش اڑ گئے اور کچھ دیر کے لیے دار العلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے نجیب اشرف قاسمی کے ساتھ گزرے ہوئے حسین لمحات کے نقوش رواں دواں ہوگئے، نجیب اشرف قاسمی سے قربت کی متعدد وجوہات تھیں جن کا ذکر یہاں ضروری نہیں ہے یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ مولانا امین اشرف کو اللہ تعالیٰ نے جن اوصاف وکمالات سے نوازا تھا وہ تمام خوبیاں اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی دیوبند تشریف لاتے تو اپنے صاحبزادے کے علمی اشتغال و انہماک کی پوری روداد طلب کرتے، مولانا مرحوم کا آبائی وطن رونی سید پور کے مضافات میں واقع مادھوپور سلطان پور تھا، یہاں سے میرے گاؤں کی مسافت تقریباً دس کلومیٹر ہے، بارہا میں نے مولانا کے چمنستان علم ادارہ دعوۃ الحق کو قریب سے دیکھا کئی ایکڑ اراضی پر انھوں نے ایک دور افتادہ گاؤں میں علم وفضل کا روشن مینارہ قائم کیا ہے وہ قابل رشک ہی نہیں لائق تحسین بھی ہے.
مولانا سے میری دہلی میں ایک آفس میں ملاقات ہوئی جہاں میں جزوقتی اکیڈمک اسسٹنٹ تھا، مولانا نے مجھے یہاں پاکر اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز طالب علم رہے ہیں، آپ یہاں وقت برباد نہ کریں آپ دعوۃ الحق میں عز وشرف کے ساتھ تدریسی خدمت کے لیے خود کو آمادہ کریں، مولانا کا یہ مشورہ کوئی مفاد پر مبنی نہ تھا، بلکہ میرے ساتھ ہورہے ناروا سلوک سے دلبرداشتہ ہوکر انھوں نے یہ پیش کش کی تھی، لیکن جب میں نے اپنے مستقبل کے عزائم سے انھیں آگاہ کیا تو انہوں نے نہ صرف حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ ہر طرح کے علمی ومادی تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی.
مولانا ایک عظیم ادارہ کے مہتمم نہیں تھے، بلکہ پورے علاقے میں علمی و اصلاحی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے ان کا تعلق اہل اللہ سے بھی تھا، وہ علاقے کی بزرگ ہستیاں مولانا شمس الہدی راجو، مولانا عبد المنان قاسمی ناظم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجوپٹی، خلیفہ محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے چشمہ صافی سے تزکیہ قلب کیا کرتے تھے. مولانا کا پورا خانوادہ علمی خانوادہ آپ کے سبھی برادران اعلی تعلیم یافتہ ہیں، آپ کے بڑے بھائی مفتی ثمین اشرف قاسمی حبطور مسجد دبئی کے امام و خطیب ہیں، مولانا فطین اشرف، رزین اشرف وغیرہ سب اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہیں. مولانا امین اشرف اپنی بے مثال قوت لسانی، فکر ونظر کی پختگی اور انسانیت سے بے لوث محبت کے پیش نظر شمالی بہار کی ہر دل عزیز شخصیت تھے، لوگوں کے عیب پر پردہ پوشی عمر بھر کا شیوہ رہا، خوبیوں پر نگاہ رکھتے اور کمزوریوں کو در گزر فرماتے.
قسام ازل نے آپ کو گوناگوں امتیازی خصوصیات سے نوازا تھا، آپ اپنی ذات میں بے مثال خطیب، متبحر عالم دین، اعلیٰ مدبر نابغہ اور صاحب بصیرت انسان تو تھے ہی مگر ساتھ ہی معاملہ فہمی، مزاج شناسی، دوست داری، وضع داری، تحمل وروا داری جیسی صفات بھی آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں، یہی وہ بنیادی وجوہ ہیں کہ آپ مرجع خلائق اور عوام وخواص کے دلوں کی دھڑکن تھے. زندگی کے تمام مراحل میں نیک نام اور ہر دل عزیز رہے. آپ کی وفات ایک خانوادے کے لیے دل گیر نہیں بلکہ پورے ملک بطور خاص شمالی بہار کے عوام وخواص کے لیے ناقابل تلافی خسارہ ہے. مولانا نے دور افتادہ علاقوں میں شبانہ روز کی جدوجہد سے جہالت و خرافات کا قلع قمع کیا ساتھ ہی انھوں نے فضائل ومسائل زکوٰۃ، فضائل ومسائل رمضان وروزہ جیسی متعدد علمی تصانیف کے ذریعے امت کو فیضیاب کیا. خدا ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے. میں اپنی غیر مربوط تحریر جو میرے احساسات ہیں کے ذریعے آپ کے جملہ برادران مفتی ثمین اشرف، مولانا رزین اشرف، ڈاکٹر فطین اشرف، مولانا حسین اشرف اور صاحبزادے نجیب اشرف قاسمی، لبیب اشرف وجملہ اہل خانہ کی خدمت میں تعزیہ مسنونہ پیش کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرماکر ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے ذریعے کیے گئے علمی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے.
فروغ شمع تو باقی رہے گا صبح محشر تک
مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے

Tuesday 25 August 2020

دیدہ ور صحافی ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی کی رحلت



واقعی ’شمس ‘تھے جس کی ضیاپاشی ہر ایک پر یکساں ہوتی تھی
ڈاکٹر جسیم الدین، دہلی
ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی کی رحلت ایک فرد کی رحلت نہیں ،بلکہ ایک فکر صحیح کے ترجمان کی رحلت ہے، ان کے زرخیزذہن سے سپرد قرطاس ہونے والی فکری تحریرمیں جہاں ملت کے درد کا درما ں تھا، وہیں نوجوان نسل کے لیے متاع گراں مایہ ہوتاتھا، قرطاس وقلم سے ان کا رشتہ بہت قدیم اور مضبوط تھا، وہ زمانۂ طالب علمی سے ہی اپنی تقریروتحریر کی بدولت معاصرین کے درمیان ممتاز تھے ہی، ساتھ ہی اپنے احباب کے محبوب نظر ہونے کے ساتھ اساتذہ کے منظورنظر بھی تھے۔ پھریہ کہ سرزمین ہند کی مردم ساز شخصیت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی،سابق صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی صحبت صالح اور بے مثال تربیت نے جہاں ان کی قلمی صلاحیتوں کو جلابخشی ،وہیں ان کے زرخیزذہن کی فکری آبیاری بھی کی، جس کا اثر تادم زیست باقی رہا، وہ آفس ٹائم میں ضرور پتلون شرٹ زیب تن کیا کرتے تھے ، لیکن یہ ان کا اختیاری عمل نہ تھا،بلکہ اضطراری تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی علما وصلحا کی مجلسوں میں جلوہ افروز ہوتے تودرویشانہ لباس میں ہی نظر آتے۔ شرافت ان کے چہرے سے، انسانیت ان کی حالت سے ،خوبصورتی ان کی صورت سے اور محبت ان کی باتوں سے ظاہر ہوتی تھی۔ آپ کے قلم سے جمال ٹپکتا تھا اور ہرجملہ نگاہوں سے لپٹ جاتا تھا، آپ کی نثری تاب وتب شاعری کو شرمادیتی تھی۔
1995 سے قاضی صاحب کی وفات 2002 تک وہ جہاں قاضی صاحب علیہ الرحمہ کے پریس سکریٹری تھے ،وہیں آل انڈیا ملی کونسل بہار کے آرگنائزربھی رہے۔ قاضی صاحب کی وفات کے بعد انھوں نے اردو عربی ادبیات کے ممتاز قلمکارمولانا بدرالحسن قاسمی حال مقیم کویت،سابق اڈیٹر ’الداعی‘ دارالعلوم دیوبند کی خوشہ چینی اختیارکی اور ہنوز ان سے استفادہ وافادہ کا عمل جاری تھا۔ جس کا اظہار مولانابدرالحسن قاسمی نے اپنی ایک تاثراتی تحریر میں بھی کیاہے۔ اسی دوران جب سہارا انڈیا میڈیا نے راشٹریہ سہارا اور عالمی سہاراکی اشاعت شروع کی تو آپ نے بحیثیت صحافی یہاں ملازمت شروع کی اور تادم زیست ملازمت کرتے رہے، اس دوران انھوں نے ملک کی مایہ ناز یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔وہ بظاہر ایک صحافتی ادارے سے وابستہ ضرورتھے ،لیکن فکر صحیح کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں ان کا قبلہ بالکل واضح تھا۔ وہ دہلی میں کسی بھی نووارد صحافت کے طلبہ اور صحافی کی ذہنی وفکری تربیت میں لیت ولعل سے کام نہیں لیتے ،بلکہ ہر وقت اورہرگام پہ مدد کے لیے تیاررہتے۔ انھوں نے اردو کے بہت سے بے نام چہرے کو سہارا کے پلیٹ فارم سے مضامین کی نشرواشاعت کے ذریعے نہ صرف شناخت دی ،بلکہ ان کے لیے ترقی کی راہیں ہموارکیں۔ کبرونخوت سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا، وہ ہمیشہ اپنے احباب کی ترقی کو اپنی ترقی سمجھتے تھے، ایسے ہی عزیز واقارب کی حوصلہ افزائی میں کبھی بخل نہیں کرتے ۔
خود راقم الحروف کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت مختلف الجہات تھی، وہ کہیں پر بحیثیت سرپرست ومربی اپنا فرض نبھاتے تو کہیں پر بطور دوست خندہ پیشانی سے روبروہوتے اور کہیں پر اپنا عزیزخیال کرتے ہوئے علمی وعملی تعاون کرنے میں دریغ نہیں کرتے ۔آل انڈیا ریڈیو پر ٹاک پیش کرنے کا معاملہ ہو،یا مختلف سیاسی وعلمی موضوعات پر مضامین لکھنے کی بات ہو یا کسی علمی وادبی سمینار وکانفرنس میں شرکت کی چاہت ،ہر موقع پر بغیر کسی صلہ وستائش کہ میری چاہت کی تکمیل کرتے ۔ ان کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوتاتھا، وہ اسم بامسمیٰ تھے ،جتنی اتنی قدرت تھی اس سے کہیں زیادہ فیضیاب کرتے ،کیا قاسمی، کیا ندوی، کیا فلاحی، کیا اصلاحی، کیا سنابلی او ر کیا مصباحی ہر ایک کے لیے آپ واقعی ’شمس ‘تھے جس کی ضیاپاشی ہر ایک پر یکساں ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ آج  آپ کی رحلت پر بالکل راحت اندوری کی رحلت کے دن کی طرح سوشل میڈیا پر بلا تفریق مسلک ومشرب ہر شخص غم واندوہ سے نڈھال ہے اور ہرایک اپنے اپنے الفاظ میں اپنی شکستہ دلی کو بیان کررہاہے۔ آپ کے چہرے کی شگفتگی آپ کی تحریروں میں بھی عیاں ہوتی۔ جب آپ کسی سے روبرو ہوتے تو بوجہ کامل ہوتے اور مکمل انہماک سے مخاطب ہوتے اورزیر لب تبسم ہوتا،اس کیفیت کی ملاقات سے ہرشخص پہلی ملاقات کے ختم ہوتے دوسری ملاقات کا خواہاں ہوجاتا۔ آپ کی اس کیفیت کا اظہار معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے اپنے تاثراتی مضمون ’اے فلک پیر،عارف ابھی جواں تھا‘میں کیاہے ۔
حال ہی میں یکم جولائی کو جب آپ وطن مالوف ’ڈوبا‘ارریہ ،بہارسے دہلی واپس ہوئے تو مجھے کسی اہم علمی پہلوپرکیےگئے کام کو تکمیل تک پہنچانے میں تعاون کی ضرورت تھی ،تو انھوں نے ہی خلوص ووفا کا وہ کارنامہ انجام دیا،جسے میں تادم زیست بھلا نہیں سکتا، اس طرح درجنوں ایسے احسانات ہیں میرے اوپر کہ میں انھیں شمار نہیں کراسکتا۔ جب بھی ملاقات کے لیے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا ،علمی کاموں میں مصروف پایا۔ وہ قرطاس وقلم کے شہ سوارتھے، رات دن لکھنا ہی ان کا مشغلہ تھا، یہ سعادت بھی انھیں حاصل ہے کہ عظیم شخصیات کی بافیض صحبت ومجالست نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میدان صحافت میں پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود ان کے قلم میں وہی جولانی ہے جو ایک داعی کے اندر ہوتی ہے۔ اکابر علما سے عقیدت ومحبت اور ان کی زندگی کے لیل ونہار کو دیکھ کر سپرد قرطاس کرنا یقینا ًایک لائق تحسین ہی نہیں بلکہ قابل تقلید عمل ہے۔ 
اردوصحافت سے ان کی وابستگی طویل اور گہری تھی،ایک عرصے سے سماجی، سیاسی، سوانحی، ادبی  وعلمی موضوعات پر ان کی تجزیاتی تحریریں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ آپ کا قلم بالکل آپ کی فکر کا ترجمان تھا۔آپ نےاپنے پیچھے ایسی مستقل تصانیف چھوڑی ہیں ،جن سے آپ کی فکر کی گہرائی اور قلم کی عظمت کا احساس ہوتاہے۔ ہرکتاب کا انداز موضوع کی مناسبت سے جداگانہ ہے، ہر مقام پر موقع ومحل کے مطابق مناسب الفاظ، متناسب اسلوب،چبھتے جملے اور بولتے استعارے ایک خاص سلیقے اور قرینے کے ساتھ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ آپ کے اسلوب تحریر میں ندرت کی شگفتگی اورجدت کی شادابی دونوں پائے جاتے ہیں۔ آپ کے اشہب قلم سے ’جن سے روشن ہے کائنات‘ عظیم شخصیات کے سوانحی نقوش پر مشتمل کتاب منظر عام پر آکر شرف قبولیت حاصل کرچکی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے شخصیات پر لکھے ہوئے مضامین کو جمع کیا ہے، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ اعتدال پسندقلمکارکے لیے اعتدال وتوازن کو ملحوظ رکھتے شخصیت سے متعلق حقائق وکارناموں کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ کہیں عقیدت تو کہیں دیگراسباب قلمکار کے قدم کو متزلزل کرتے رہتےہیں، لیکن ڈاکٹرعبد القادر شمس نے شخصیات پر قلم اٹھاتے ہوئے اعتدال کو ملحوظ رکھا ،جو بھی لکھا ، وہ حقیقت کے آئینے میں لکھا ’جن سے روشن ہے کائنات‘کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جن شخصیات کوموضوعِ تحریر بنایاگیاہے،ان میں علمائے دین کے علاوہ معروف و مشہور دانشوران و مفکرین اور سیاست داں بھی شامل ہیں،ایک اور اچھی بات اس کتاب کی یہ ہے کہ اس میں مذہبی و مسلکی بنیادوں کی بجائے علمی،سماجی و سیاسی میدانوں میں شخصیات کے کارناموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا تذکرہ کیا گیا ہے؛چنانچہ مختلف مکاتبِ فکرکے مسلم رہنما،علما ودانشوران کے ساتھ جواہرلال نہرو، ڈاکٹر رادھا کرشنن، اندرا گاندھی،اننت مورتی جیسے غیرمسلم قومی رہنماؤں اور مفکرین کے نقوشِ حیات پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ بنیادی طورپراس کتاب کے دوابواب ہیں،پہلے باب میں’ممتازعلما واکابرِ امت‘کے عنوان سے مختلف علماے کرام کا مختصرتذکرہ اور ان کی خدمات کا ذکر ہے۔اس ذیل میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی،علامہ شبلی نعمانی،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی،اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان، مولاناابوالمحاسن محمد سجاد، حکیم الاسلام قاری محمد طیب،امیر شریعت مولانامنت اللہ رحمانی،قاری صدیق احمد باندوی، مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندوی،قاضی مجاہد الاسلام قاسمی،مولانا شفیق الرحمن ندوی،مولانااحمد شاہ نورانی،مولانامجیب اللہ ندوی،مولانااخلاق حسین دہلوی، ڈاکٹرمحمودغازی اور مفتی ظفیر الدین مفتاحی کا ذکرِ خیر ہے۔ان میں سے بیشتر شخصیات ایسی ہیں،جن پر ان کے متعلقین و متوسلین نے پہلے ہی بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں،ان کتابوں میں ان حضرات کی زندگی ،ان کی خدمات اور کارناموں کا تفصیلی ذکر ملے گا،مگر ڈاکٹرعبدالقادرشمس نے اپنے ان مضامین اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان شخصیات کی خا ص خاص خوبیوں اور مخصوص کارناموں کوروشنی میں لایاجائے۔ ان کی نگاہ ایسی درویشانہ شخصیت پر مرتکز ہوجاتی تھی اور وہ ان کے علمی واصلاحی کارناموں کو اجاگر کرکے نیک بختی کا ثبوت پیش کرتے ۔ڈاکٹر عبدا لقادر شمس کے اشہب قلم سے ’جن سے روشن ہے کائنات‘ کے علاوہ کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں،جن میں ’چند نامور علما‘(مرتب)، مولانا ظریف احمدندوی ،شیخ الحدیث مولانایونس : چندباتیں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
 ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی صاحب نوجوان نسل قلمکاروں کے لیے آئیڈیل تھے ،صلہ وستائش کی پروا کیے بغیر ہر شخص کا علمی وعملی تعاون کرنے میں تردد نہیں کرتے ، یہ شاید انہی نیک طینت شخصیات کی صحبتوں کا اثر ہےکہ وہ خود بھی حسن سلوک اور خوش خلقی جیسے عظیم اوصاف ان کے رگ وپے میں خون کی طرح گردش کررہےتھے۔
بے کس وبے بس کے حق وانصاف کے لیے ہمہ دم اٹھنے والی توانا آواز ، دوسروں کے غم کو اپنا درد وغم سمجھنے والی شخصیت ، اپنی اولاد کی طرح اپنے ملنے جلنے والے بے روزگاروں کو روزگار سے جوڑنے کے مسلسل فکرمند رہنے والےمیرے محسن ومربی ڈاکٹر مولانا عبد القادر شمس قاسمی نے کئی ہفتہ تک علاج ومعالجہ کے بعد جامعہ ہمدرد کے مجیدیہ اسپتال میں بوقت ایک بج کر دس منٹ پر جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ 12 اگست کو 08.56pm پر بات چیت آخری ثابت ہوگی جب میں نے فون کیا تو آواز میں غیر معمولی نقاہت تھی ،انھوں نے بس اتنا بتایاکہ سانس لینے میں بہت مشقت ہورہی ہے ، دعا کیجیے اور اپنے احباب سے بھی دعا کے لیے کہیے ۔میری طبیعت بہت خراب ہے۔میں نے جلد شفایابی کے لیے دعائیہ کلمات کہے اور بعد میں وقفے وقفے سے آپ کے بھانجا مولانا خطیب ندوی سے رابطے میں تھا اور ایک دن کے وقفے سے کبھی جناب شاہ عالم اصلاحی نیوز اڈیٹر روزنامہ انقلاب اور کبھی خطیب سے ڈاکٹر صاحب کی مزاج پرسی کرتارہا۔لیکن جانکاہ خبر سنتے ہی صدمے میں آگیا۔ کئی بار کچھ لکھنے کو بیٹھا  لیکن لکھتے وقت بار بار احباب کے فون کی وجہ سے خلل واقع ہوتا رہا، اب شب کی تنہائی میں اپنے احساسات کو لفظوں کا سہارا دیاہے ، اس دعا کے ساتھ کہ خدا ڈاکٹر عبد القادرشمس صاحب کو مغفرت کاملہ سے ڈھانپ لے اور آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور پسماندگان میں شامل اہلیہ، صاحبزادیاں وصاحبزادے مولانا عمار ندوی کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

Monday 20 July 2020

مولانا متین الحق اسامہ اور مولانا سید محمد سلمان کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کا خسارہ

مولانا متین الحق اسامہ اور مولانا سید محمد سلمان کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کا خسارہ


ڈاکٹر جسیم الدین، شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی
ابھی مولانا متین الحق اسامہ کانپوری صدرجمعیۃ علماء ہند یوپی کی وفات کا غم تازہ ہی تھاکہ یہ خبر سن کر دل کانپ اٹھاکہ جامعہ مظاہر علوم ناظم مولانا سیدمحمد سلمان صاحب ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارنپوربھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔انا للہ واناالیہ راجعون، موت سے کسی کو مفر نہیں ہے ، ہر انسان جو دنیا میں آیاہے ، اسے ایک نہ ایک دن اللہ کے یہاں ضرور جاناہے، لیکن جب کوئی منفرد وممتاز ہستی داغ مفارقت دیتی ہے تو اس کی سیرت وصورت کے نقوش دل ودماغ میں متحرک ہوکران کی رحلت سے واقع ہونے والے خلاکا ایک عجیب احساس پیدا کرتے ہیں، مولانا متین الحق اسامہ ہوں یامولاناسیدمحمد سلمان، بلاشبہ دونوں حضرات قرن اول کے ان مسلمانوں کی جیتی جاگتی تصویر تھے ،جن کے وجود میں علم وفقر اور غیرت وحمیت سمٹ آئے تھے۔مولانا متین الحق اسامہ کانپوری اور مولانا محمد سلمان دونوں ہی اسلاف کا نمونہ تھے۔دینی غیرت وحمیت کے ساتھ ساتھ علم ومعرفت سے بھی آراستہ تھے۔وضع قطع سے لے کر نشست وبرخاست تک سنت وشریعت کا آئینہ تھے۔اس قحط الرجال کے دور میں ایسی عظیم شخصیات کا رخصت ہونا بلاشبہ قرب قیامت کی علامات میں سے ہے۔حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ راسخین فی العلم کو دنیا سے اٹھاتے جائیں گے تاآں کہ قیامت آجائے گی ۔یکے بعد دیگرے تواتر کے ساتھ اہل علم ومعرفت کا قافلہ نہایت تیزی سے دارآخرت کی طرف رواں دواں ہے، جو یہ بتارہاہے کہ آنے والا وقت امت مسلمہ کے لیے سخت آزمائش والاہے۔خدا کی زمین کا اللہ والوں سے اس طرح خالی ہونا بندۂ مومن کے لیے ابتلاوآزمائش سے کم نہیں ہے۔ مولانا متین الحق اسامہ ایک جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے لیے آلام ومصائب کی گھڑی میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، آپ جمعیۃ علما ء اترپردیش کے صدر تھے ۔مسلسل رفاہی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔حال ہی میںپورے ملک میں پھیلی قاتل وبانے جب تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کو اپنا شکار بنایا اور پھر میڈیا کی ظالمانہ کارروائی سے ان بے چاروں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا نظرآیا تو ایسے نازک وقت میں ان مظلوموں اور بے کسوں کی فریاد رسی کے لیے مولانا متین الحق اسامہ کانپوری ہی میدان میں اترے اور اس بطل جلیل نے چند ہی دن قبل تبلیغی جماعت سے وابستہ ڈیڑھ سوافراد کی ضمانت منطور کراکر انھیں سلاخوں سے رہائی دلائی ، یہی نہیں فسادات میں لٹے پٹے بے یار ومددگار افراد کی بازآبادکاری اورراحت رسانی آپ کا وتیرہ تھا۔آپ نے جہاںمسجد ومدرسہ کے وقار کو بلند کیا۔وہیں مسلمانوں کوبطور خاص اترپردیش کے اقلیتوںکو سر اٹھاکر چلنے کا حوصلہ دیا۔
دوسری طرف مولانا محمد سلمان صاحب علیہ الرحمہ کی شخصیت بھی بے مثال رہی ہے ،آپ کی نسبت جتنی عظیم رہی ،آپ نے تادم زیست اس کے وقار وآبرو کی پاسداری کی ، دنیا جانتی ہے کہ آپ شیخ الحدیث شیخ زکریا علیہ الرحمہ کے داماد تھے، لیکن اس نسبت کی وجہ سے تفاخر بالانساب کو اپنا وتیرہ نہیں بنایا ،بلکہ منکسر المزاجی کو اپنا شعار بنایا۔آپ کا وجود مسعود اس امر کی دلیل تھا کہ جس کے پاس دین کا علم ہو وہ نہ امرا کے آستانے پر جبیں سائی کرتا اور نہ بادشاہوں کی ثنا خوانی کو اپنے سجادے کی آبرو گردانتا۔وہ ان سب سے بے نیاز ہوتاہے۔آپ کا سرجھکا تو صرف قادر مطلق کے آگے جھکا، آپ اخبارواشتہار کے انسان نہ تھے ، بلکہ قرآن وسنت کے علمبردارتھے۔ راقم سطور کو بارہا آپ کودیکھنے کا شرف حاصل ہے ،دارالعلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں کئی بار سہارنپور جانا ہوا ، اسی ضمن میں جامعہ مظاہر علوم کو بھی دیکھنے کی سعادت ملی لیکن آپ کی قربت کے حصول سے محروم رہا ۔آج جب سہ پہر میں جب سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ مولاناسید محمد سلمان صاحب بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تو طبیعت اچاٹ ہوگئی اور کچھ دیر کے لیے ورطۂ حیرت میں پڑا رہا اور بار بار یہ سوچتارہا کہ یا خدا آخر یہ کیا ہورہاہے کہ ہفتہ عشرہ نہیں بلکہ ایک دو دن کے وقفے سے عظیم شخصیات رخصت ہوتی جارہی ہیں۔اورخدا کی یہ سرزمین نیک طینت اور پاکباز لوگوں سے بہت تیزی سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ 
مذکورہ دونوں شخصیات کی رحلت سے صرف ایک خاص مکتب فکر سےوابستہ افراد کا نقصان نہیں ہوا ہے ، بلکہ پوری ملت کا خسارہ ہواہے، ملک بھر میں دین کی جو حالت ہے وہ ظاہر ہے کہ اس مرتبے کے لوگ جس رفتار سے اٹھتے جارہے ہیں ، اس سے ایک ایسا خلا پیدا ہورہاہے ،جس کا پر کرنا بظاہر ناممکن ہے۔یہ دونوں حضرات اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے ، انھوں نے جس تندہی ، ذوق وشوق، انہماک واشتغال، فہم وبصیرت اور اخلاص وللہیت  کے ساتھ جس طرح دین حنیف کی خدمت کی ہے ، اس کا اعتراف دینی حلقوں میں ضرور کیا جائے گا۔اہل اللہ فقر ودرویشی کی زندگی بسر کرتے ہیںتو نمائش کی یہ دنیا ان کی عظمت ورفعت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہتی ہے، لیکن جب وہ اس دنیا کو  چھوڑکر اپنے خالق حقیقی سے جاملتے ہیںتو پھر ایک دنیا سوگوار اور اشکبار ہوجاتی ہے۔ظاہر ہے کہ ان شخصیات کو اب ہم واپس نہیں لاسکتے ہیں، البتہ جس مشن کو وہ چلاتے رہے اور جس مشن ہی نے انھیں محبوب ومحترم بنایا ، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو جاری رکھیں ، یہی ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگااور ان کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنے گا۔جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کی جس آن بان شان کے ساتھ آپ نے آبیاری کی اور نامساعد حالات میں بھی جس طرح ثبات قدمی کا ثبوت دیا وہ آپ ہی کی ذات تک منحصر ہے۔درس وتدریس سے لے کر انتظام وانصرام اور پھر دعوت وتبلیغ ودیگر شعبہ ہائے دین کو جس تندہی اور چابک دستی سے آپ تادم زیست انجام دیتے رہے ،بارگاہ ایزدی میں اسے ضرور شرف قبولیت حاصل ہوگا۔آپ کا سراپا ایک ایسے شخص کا سراپا تھا، جس میں بیک وقت کئی شخصیتیں جمع ہوگئیں تھیں، آپ کی وسعت نظر، اسلوب فکر،علم آشنائی ، ذوق ایثار اور دینی جاہ وجلال نے آپ کو جامع صفات بنادیاتھا۔آپ کی رحلت سے ملت اسلامیہ ہند ایک عظیم سپوت سے تہی داماں ہوگئی۔اللہ آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور ملت اسلامیہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔

Sunday 14 June 2020

صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ پروفیسر ولی اختر ندوی کی رحلت

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہارکے
پیدائش: 3جولائی1968
وفات: 09 جون 2020 
ڈاکٹر جسیم الدین
jasimqasmi@gmail.com

 مشفق ومکرم استاذ محترم، عربی زبان وادب میں نمایاں خدمات کی بنیاد پر صدرجمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز،شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے مایہ ناز پروفیسر، استاذ الاساتذہ ڈاکٹر ولی اختر کے انتقال پر ملال کو چھ دن گزر چکے ہیں، لیکن طبیعت اس قدر مغموم اور بجھی ہوئی ہے کہ کچھ سپرد قرطاس کرنے میں خود کو بے بس محسوس کررہا ہوں، کئی بار کچھ لکھنے کی کوشش کی، لیکن ایک پیرا گراف بھی نہیں، بلکہ دو چار سطور قلمبند کرتے ہی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور دل پارہ پارہ ہونے لگتاہے اور سلسلہ موقوف کرنا پڑتا ہے، ایسا محسوس ہوتاہے کہ ذہن واعصاب نے ساتھ دینا چھوڑدیاہے، اپنی چونتیس سالہ زندگی میں کبھی بھی میں اس طرح جگر پارہ نہ ہوا، جس طرح استاذ محترم کے سانحہئ ارتحال پر دل فگار ہوں،آج جب برادر مکرم ڈاکٹر عبد الملک رسولپوری استاذ شعبۂ عربی ذاکر حسین دہلی کالج نے یہ پیغام بھیجا کہ:”سر(پروفیسر ولی اختر ندوی) کے تعلق سے کوئی تاثراتی مضمون قلمبند کیا ہو، تو ارسال فرمائیں“۔اس پیغام کو پڑھنے کے بعد کچھ لکھنے کی ہمت جٹائی ہے، اور کچھ قلمبند کرنے کے لیے طبیعت کو آمادہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ استاذ محترم پروفیسر ولی اخترسرکے ساتھ گزرے ہوئے لمحات بارہ برس پر محیط ہیں، جن میں دو سال ایم اے میں بحیثیت نووارد طالب علم عربی سے انگلش ترجمہ کی کلاسیزمیں جو لگاتار دوگھنٹوں پر مشتمل ہواکرتی تھیں۔اور پانچ سال بطور پی ایچ ڈی اسکالرآپ کی نگرانی میں اور پی ایچ ڈی کے بعد پھر ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن پوسٹ ڈاکٹورل فیلو یوجی سی کی حیثت سے تین سال اور بحیثیت گیسٹ فیکلٹی دوسال۔بارہ برس کا عرصہ کوئی معمولی نہیں ہے، اس طویل عرصے میں سر کو بہت ہی قریب سے جانا اور پہچانابھی۔یہاں یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، میری کوشش ہوگی کہ میں نے جیسا ان کو پایا، ویسا ہی سراپا پیش کروں۔ایم اے میں جب ترجمہ کی کلاس میں حاضری ہوئی تو تعارف کراتے ہی جب سیتامڑھی کا نام لیا تو فوراً چونکے سیتامڑھی میں کہاں؟ میں نے کہاکہ سیتامڑھی ضلع کے نانپور بلاک میں واقع ددری گاؤں کا ہوں۔ تو سر نے مسکراتے ہوئے کہاکہ میں بھی سیتامڑھی کا ہوں، لیکن کلاس میں اس بنیاد پر کوئی ہمدردی نہیں رہے گی۔یہاں آپ محنت سے پڑھیں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔مجھے بھی سر کی یہ بات بے حد پسند آئی اور ان کے یہ پوچھے جانے پر:’محنت کریں گے نا؟‘ میں نے ہامی بھری اور کلاسوں کی پابندی کی۔ایم اے کے سال میں مجھے دہلی یونیورسٹی میں ہاسٹل بھی مل گیاتھا، اس لیے بھی کلاس کی پابندی میں آسانی رہی، اسی دوران ایک بار جوبلی ہال دہلی یونیورسٹی سے متصل مسجد ’پٹھان والی‘خیبر پاس میں بعد نماز جمعہ میں نے استاذ محترم پروفیسر ولی اختر اور ڈاکٹر نعیم الحسن صاحبان کوظہرانے کی پیش کش کی، سر اولاًانکار کرتے رہے، لیکن میرے پیہم اصرار کے سامنے انکار کی گنجائش نہیں رہی، ہاسٹل کی صفائی ستھرائی دیکھ کر سر کافی متاثر ہوئے اور ظہرانہ تناول فرمانے کے دوران مفید باتیں بھی ہوتی رہیں۔ ایم اے میں دوران درس عربک ٹیکسٹ ریڈنگ میں جہاں عربی قواعد و محاورات کی بہترین وضاحت فرماتے، وہیں ترجمہ کے تکنک کو بھی نہایت سہل انداز میں سمجھاتے۔
 بلاشبہ آپ ایک قابل فخر، کہنہ مشق، طلبہ کی نفسیات کو سمجھنے والے ایک کامل استاذ تھے، خوش نصیب ہیں وہ تمام طلبہ وطالبات جن کو آپ سے استفادے کا موقع ملا۔طلبہ وطالبات کے درمیان مقبول ترین اساتذہ میں آپ کا شمار تھا، آپ کے شخصی رعب، علمی مقام اور وجاہت کی وجہ سے طلبہ اگرچہ آپ سے بے تکلفانہ گفتگو نہیں کرپاتے تھے، لیکن سبھی طلبہ وطالبات دل وجان سے آپ سے محبت کرتے تھے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے یہ علمی تفوق، بلند مقام، عوم وخواص کے درمیان مقبولیت ومحبوبیت اور ملک بھر کی متعدد جامعات میں سلیکشن کمیٹی کی رکنیت کسی بیساکھی کے ذریعہ حاصل نہیں کی، بلکہ اس کے پیچھے صرف اور صرف اللہ کا فضل وکرم اور آپ کی مفوضہ ذمے داری کے تئیں جفاکشی، وقت کا صحیح استعمال اور روزو شب جہد مسلسل اور سعی پیہم کارفرما رہی۔ ایم اے سال مکمل کرنے کے بعد آپ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن ہوا، اس دوران میں نے جے آر ایف کوالیفائی کیاتو سر بے حد خوش ہوئے اور کہاکہ یوجی سی فیلوشپ اس لیے مہیا نہیں کرتی آپ آرام سے کھا پی کر موٹے ہوتے رہیں، بلکہ آپ اپنی مطلوبہ وپسندیدہ کتابیں خریدیں اور پڑھنے لکھنے میں جن وسائل کی ضرورت درپیش ہوتی ہیں ان کی حصولیابی میں آپ کو کوئی دشورای کا سامنا نہ کرنا پڑے، اورآپ مالی تنگی کا سامنا کیے بغیر پرسکون انداز میں ریسرچ کریں۔سر کی یہ باتیں مجھے بے حد پسند آئیں اور وہ گاہے بگاہے یہ پوچھتے بھی رہتے کہ اس مہینے میں کونسی کتاب خریدی،لائبریری سے کن کن کتابوں کی فوٹو کاپی کرائی؟ جب بھی میں فیلو شپ کی رقم کی حصولیابی کے لیے فارم پر دستخط کرانے کے لیے حاضر خدمت ہوا، فوراً فرماتے کہ کام دکھائیے اگر کچھ کام بروقت دکھاتا تو ٹھیک اسی وقت دستخط فرمادیتے ورنہ ہفتہ عشرہ میں کچھ نہ کچھ متعلقہ موضوع پر مواد دکھانا پڑتا پھر دستخط فرماتے۔ایک بار سر تقریباًپندرہ بیس دنوں کے لیے اپنے وطن مالوف (ضلع سیتامڑھی میں بیرگنیا بلاک کے تحت واقع بھکورہر گاؤں) چلے گئے اور اس دوران مجھے ان سے کئی کاغذات پر دستخط کرانے تھے، سرنے وطن مالوف سے دہلی آتے ہی  فون کیا کہ آج جمعہ ہے اگر ضروری ہے  توگھر آکر دستخط کرالو، میں دہلی آچکا ہوں۔ قابل ذکر ہے کہ جب میراایم اے میں داخلہ ہوا تواسی سال آپ صدر شعبہ بنے۔صدر شعبہ بنتے ہی آپ نےدہلی یونیورسٹی کے سبھی کالجز میں عربی زبان وادب کی تعلیم شروع کرانے کے لیے سلسلے وارتمام کالجز کے پرنسپلوں کو خطوط لکھے، دو تین کالجز سے مثبت جواب آنے پر بے پناہ خوش ہوئے، اسی سلسلے کی ایک کڑی سینٹ اسٹیفنز کالج میں سرٹیفیکیٹ، ڈپلومہ او رایڈوانسڈ ڈپلومہ کی شروعات آپ کی رہین منت ہے۔آپ نے سینٹ اسٹیفنز میں عربی کے پارٹ ٹائم کورسیز شروع کرانے میں غیر معمولی دلچسپی لی اور یہاں لاک ڈاؤن سے پہلے تک کلاسیز لیتے رہے۔ جب میرا  پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن ہوا، اسی سال استاذ محترم پروفیسر کے عہدے سے سرفراز ہوئے میری بھی دیرینہ خواہش تھی کہ سرکے نام سے پہلے پروفیسر لکھوں، چوں کہ رجسٹریشن کے وقت جب میں نے سیناپسس پر پروفیسر لکھدیا تھا تو سر نے کاٹ دیا اور کہاکہ ابھی آفیشیل لیٹر نہیں موصول ہوا ہے، جب ہوجائے گا تب لکھنا۔خیر میں جمعہ کو عصر مغرب کے درمیان سر کی رہائش گاہ پر حاضر ہوگیا، حسن اتفاق کہ میری شریک حیات بھی ساتھ تھیں، ڈور بیل بجائی تو امینہ غالباً اس وقت پانچ چھ سال کی رہی ہوں گی،ڈور کھولا اور کہاکہ آجایئے، سر لنگی اور بنیان زیب تن کیے کرسی پر بیٹھے سامنے کمپیوٹر پر کچھ کام کررہے تھے اور بڑے صاحبزادے حماد گردان سنارہے تھے، میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے سر نے کہا کہ تمھاری شادی ہوگئی ہے اور فیلوشپ بھی مل رہی ہے تو وائف کو ساتھ کیوں نہیں رکھتے،میں نے کہاکہ سر ساتھ میں آئی ہوئی ہیں،سر بولے کہ کہاں ہیں؟ میں نے کہاکہ مجھے تو صرف دستخط کرانے تھے اس لیے ان کو دروازے  پر انتظار کرنے کو کہاہے، یہ کہتے ہی سر بھڑک گئے  اور کہاکہ  پاگل ہو، بلاؤ انھیں، جب میں نے بلایا تو سر نے امینہ کو بلاکر فرسٹ فلور پر امینہ کی والدہ کے پاس بھیج دیا اور مجھے اپنے پاس بٹھالیے، چائے ناشتے کے بعد دستخط کردیے اور کہاکہ پہلی بار تمھاری وائف آئی ہے، اس لیے ماحضر تناول کرکے واپس جانا، اس دوران مجھے وقت کے صحیح استعمال کی تلقین کرتے رہے اور عشا کی نماز سے قبل عشائیہ کھلاکر واپس کیے۔سرکی یہ الفت وعنایت دیکھ کر میں گرویدہ ہوگیا۔دیکھتے دیکھتے میری پی ایچ ڈی بھی ہوگئی، ہرچندکہ بارہا گھر بلاکر سر نے پچاس پچاس صفحات ایک نشست میں بآواز بلندپڑھوائے اور جہاں اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی اصلاح کی، اس طر پوری پی ایچ ڈی کو سنابھی اور فائنل شکل دینے کے بعد بذات خود پڑھا بھی، ریڈ پین سے سر کی تصحیح شدہ کاپی میں نے بطور یادگار محفوظ رکھی ہے۔ میرے سبمیشن کے سال میں ہی سر کے والد محترم سایہئ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔پی ایچ ڈی کے بعد ایک سال گیسٹ فیکلٹی کے طور پر شعبہ میں درس وتدریس وابستہ رہا، اسی دوران پی ڈی ایف کے لیے میرا انتخاب ہوگیا تو پھر اسے جوائن کرلیا، اور گزشتہ سال کے تعلیمی سال میں دوسال پی ڈی ایف کرکے پھر گیسٹ جوائن کرلیا۔اس دوران آپ نے بارہ سال میں بارہ  باربھی کوئی ذاتی کام مجھ سے نہیں لیا، ہاں لائبریری سے مطلوبہ کتابیں بکثرت منگواتے اور جو کتاب انھیں پسند آتی فورا زیروکس کرواتے۔بطور خاص عربک گرامر، ٹرانسلیشن سے متعلق نئی کتابیں۔رواں سال چند کتابیں زیروکس کرائیں جن میں How to write in Arabic  اور ایڈوانسڈ میڈیا عربک، انٹرمیڈیٹ لیول اور اڈوانسڈ لیول قابل ذکر ہیں۔علمی اشتغال آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا، مزاج میں یکسوئی اور زندگی میں انتہائی سادگی تھی، یونیورسٹی کیمپس میں زیادہ لوگوں سے آپ کے راہ و رسم نہیں تھے اور علمی اشتغال کی وجہ سے آپ کے پاس اس کا موقع بھی نہیں تھا، جب بھی آپ کے چیمبر میں جاتا کچھ پڑھتے ہوئے، پڑھاتے ہوئے، لکھتے ہوئے، سنتے ہوئے یا نصیحت کرتے ہوئے ملتے۔
رمضان المبارک میں سر سے بکثرت رابطے میں رہا، اس کی وجہ یہ رہی سر Qura'anic Verbs  الافعال فی القرآن الکریم پر کچھ نئے انداز کا تحقیقی کام کررہے تھے، اس کی ترتیب یہ بنائی تھی کہ پہلے افعال کی جتنی قسمیں ہیں، وہ تمام کے تمام سامنے آجائیں، پھر بکثرت کون افعال استعمال ہوئے اور اسی درجہ بندی کے ساتھ اپنے لیے پندرہ پاروں کو مختص کیا اور پانچ پانچ پارے مجھے اور ڈاکٹر ظفیرالدین صاحب استاذ شعبۂ عربی ذاکر حسین دہلی کالج کے سپرد کیے۔ سر نے فون کرکے پہلے پوچھاکہ لاک ڈاؤن میں کیا کررہے ہو؟ میں نے بتایا کہ این سی پی یوایل حکومت ہند سے منظور شدہ علمی پروجیکٹ بعنوان ’شمالی ہند سے شائع ہونے والے عربی رسائل وجرائد کا مطالعہ‘ کو مکمل کررہاہوں، ڈھائی سو صفحات ہوچکے ہیں،پچاس صفحات باقی ہیں، سر نے کہا پہلے اپنا پروجیکٹ مکمل کرلو، پھر میرا کام کرنا، ثواب کی نیت سے۔یہ اکیلا کرنے والاکام نہیں ہے، میں نے بسروچشم قبول کیا، اور سر کی ہدایت کے مطابق جب سر نے مجھے ورڈ ٹیکسٹ میں مکمل قرآن اور پہلے نواں اور دسواں پارہ بھیجا، ان دونوں پاروں سے سارے افعال نکال کربھیجنے پر پھر پندرہ اورسولہواں پارہ سر نے بھیجا اور میں نے یہ دونوں پارے بھی اٹھائیس اور انتیسویں رمضان کی شب میں مکمل کرکے سر کو بھیج دیے، سر نے واٹس ایپ پر اطلاع دینے کے جواب میں کلمات تشکر بھی پیش کیے اور دعائیں بھی دیں۔پھر بتایا کہ عید کی شام میں تمھاری طرف آؤں گا، لیکن میں نے عید کے دن دوپہر میں سر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ سر کب تشریف لا رہے ہیں؟ تو سرنے معذرت کردی کہ آج نہیں کل آتا ہوں، عیدکے کل ہوکر میرے محسن وبہی خواہ ڈاکٹر مجیب اختر صاحب استاذ شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے گھرتشریف لائے، سر کی تشریف آوری سے قبل ڈاکٹر مجیب اختر صاحب نے مجھے بھی بلایا اور بتایاکہ سر سے یہیں ملاقات ہوگی۔در اصل سر کو ایک کتاب بھی دینی تھی، ڈاکٹر منورحسن کمال کی تصنیف ”تحریک آزادی اور خلافت“، یہ کتاب سر کے کوئی استاذ جو پٹنہ میں قیام پذیر ہیں، انھوں نے منگوائی تھی، سر نے مجھ سے لاک ڈاؤن سےقبل ہی یہ کتاب منگوائی، لیکن اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے سر سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی تو اسی ملاقات پر سر نے مذکورہ کتاب بھی اپنے استاذ کے لیے لے لی۔
دراصل  استاذ محترم پروفیسر  ولی اخترندوی کی شخصیت مختلف الجہات ہے، آپ جہاں ایک کامیاب وبے مثال معلم تھے، وہیں آپ کے پہلو میں ضرورتمندوں کے لیے دھڑکتاہوا دل بھی تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی رحلت سے نہ صرف عربی زبان وادب سے وابستہ شخصیات رنجیدہ وافسردہ ہیں،بلکہ آپ کے دم سے جن کی دادرسی ہوتی تھی وہ بھی مغموم ومحزون ہیں۔آپ اپنی زندگی متعدد بیواؤں کی کفالت فرماتے تھے، جس کا گواہ میں خود ہوں، متعدد خواتین کے نام سے ہرماہ کسی کو تین ہزار، کسی کو چار ہزار، کسی کوپانچ ہزار بھیجواتے،میں نے کئی بار پوچھا بھی کہ سر یہ کون خواتین ہیں، جن کو آپ پابندی سے پیسے بھیجتے ہیں، سر بولتے کہ میرے یہاں کام کرتی ہیں، میں پوچھتاکہ سر کام تو ایک کرتی ہوگی صفائی ستھرائی،لیکن سر ٹال دیتے کہ چھوڑو پیسے بھیج دو ان کو، ان کی وفات کے بعد پتہ چلاکہ یہ خواتین وہ ہیں جو بیوہ ہوچکی ہیں اور ان کی کفالت کا ذریعہ ہمارے سر بنے ہوئے تھے۔ اللہ اکبر!سر آن لائن بینکنگ استعمال نہیں کرتے تھے وہ اکثر بذریعہ چیک یا اے ٹی ایم پیسے نکالتے تھے، لیکن کسی کو پیسے آن لائن ٹرانسفر کرنا ہوتا تو مجھ سے یہ کام بکثرت لیا کرتے تھے اور مجھے چیک یا کیش کے ذریعہ ادا کردیتے۔حساب وکتاب ان کا بالکل کلیئر ہوا کرتاتھا، سود کی رقم سے حد درجہ محتاط تھے، پاس بک کو ٹائم ٹوٹائم اپڈیٹ کراتے اور سود کے طور پر بینک سے ملی ہوئی رقم پر ریڈ مارک لگاتے اور اس رقم کو فورا نکال کرباہر کرتے۔نام ونمود کے قول وعمل سے بالکل اپنی شخصیت کو آلودہ ہونے نہیں دیا، آپ کی نرم خوئی اور انسانیت نوازی قابل رشک تھی، غلطی پر سخت انتباہ کے لیے بھی آپ مشہور تھے۔کوئی بھی اسکالر بطور خاص فیلوشپ یافتہ اسکالر دستخط کرانے کے لیے یک بارگی چیمبر میں جانے کی ہمت نہیں کرپاتا، ایک دو بار ڈور کے پاس جاتا پھر واپس آجاتا دو تین بار کے بعد ہمت کرکے داخل ہوتا کامیاب ہوتا تو زہے نصیب نہیں تو منھ بنائے واپس لوٹتا۔
ایک بار مجھے بھی سر پر بہت غصہ آیا کہ انھوں نے ذاکر حسین دہلی کالج سے دوماہ کی ملی ہوئی تنخواہ مجھ سے واپس کرادی، اس کا پس منظر یہ ہے کہ میں ایس آر ایف کے دوسرے سال میں تھاکہ فیلو شپ کی رقم غیر معمولی طور پر بڑھ گئی،اس لیے میں گیسٹ چھوڑکر فیلوشپ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، میری خواہش تھی کہ ذاکر حسین دہلی کالج سے ملی ہوئی دوماہ کی تنخواہ واپس نہ کروں اور فیلو شپ بھی ری ایکٹیویٹ کرالوں، لیکن سر نے یہ قبول نہیں کیا، میرے چہرے کے اثرات کو دیکھتے ہوئے سر نے کہاکہ جسیم جب یونیورسٹی کا قانون ہے کہ گیسٹ رہتے ہوئے فیلوشپ نہیں لے سکتے تو یہ کیسے میں منظور کروں؟ اس دنیاکے بعد بھی ایک دنیا ہے۔ سر کے یہ الفاظ سنتے ہی میرا غم وغصہ کافور ہوگیا۔       
    استاذ محترم کی شخصیت پر لکھنے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر لکھنے والے انشاء اللہ خوب لکھیں گے، میں بھی لکھوں گا، فی الحال میں استاذ مکرم کے اہل خانہ بالخصوص آپ کے برادر گرامی اور اپنے محسن وکرم فرماشیخ علی اختر مکی حفظہ اللہ استاذ مدرسہ ریاض العلوم جامع مسجد اردو بازار جامع مسجد دہلی، بھائی جمیل اختر، مولانا سہیل اختر ندوی اور آپ کے صاحبزادے حماد و خطاب اور صاحبزادیاں ثمینہ اور امینہ اور ان سب کی والدہ محترمہ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتاہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ جل شانہ استاذ محترم کو جنت الفردوس نصیب فرمائے، آپ کی زریں و سنہری خدمات کوشرف قبولیت عطا فرمائے اور دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔
ویراں ہے میکدہ خم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے


Saturday 6 June 2020

مودی حکومت: کبر ونخوت اور خون مسلم کی ارزانی کے چھ سال



حکومت: کبر ونخوت اور خون مسلم کی ارزانی کے چھ سال 

ڈاکٹر جسیم الدین
jasimqasmi@gmail.com
9711484126
ہم نے ماناکہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مرزا اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر وطن عزیز کی موجودہ صورتحال کی ترجمانی کررہاہے، آج کوئی بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر لقمۂ اجل بننے کو ترجیح دے رہاہے ،تو کوئی معاشی تنگی کے دباؤ میں آکر اپنے ہی گمچھا کو پھندہ بناکر سرعام جھول جارہاہے تو کوئی اپنے اہل وعیال کے ساتھ اجتماعی خودکشی کرکے معاش کی تنگی سے نجات پا رہاہے، اور جو طبعی زندگی جینا چاہتاہے تو اسے ملک کے اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے شرپسند عناصر آلام ومصائب کی چکی میں پیسنا چاہتے ہیں، کبھی جبرا شری رام کے نعرے لگانے کے نام پر موت کے گھاٹ اتارنا ، تو کبھی بچہ چور کا الزام لگاکر ہجومی تشدد کا شکار بنانا  انھوں نے اپنا مقصد حیات بنالیاہے۔ یہ کوئی افسانوی کردار نہیں ہے ،بلکہ زمینی حقیقت ہے بھوک کی شدت سے تڑپ کر جان دینے والی ماں کی خبریں گونج ہی رہی تھی کہ کل گیا میں ایک معمولی دکاندار لاک ڈاؤن کی وجہ سے مالک کی طرف سے کرایہ کے لیے بار بار دباؤ بنائے جانے پر اپنے گمچھاکو ہی پھندہ بناکر سرعام دکان کے بالائی حصے پر بنی گیلری سے باندھ موت کو گلے لگا لیا، ایسے ہی اترپردیش کا ایک خانوادہ اپنے ارکان کے ساتھ معاشی تنگی کے سبب زندگی کو خیرآباد کہہ دیا۔ وطن عزیز میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو زندگی کے تمام مصائب وآلام کو سہتے ہوئے  اپنے دم پر جینا چاہتاہے تو اسے اکثریتی فرقے کا شرپسند طبقہ موت کے گھاٹ اتارنے میں لیت ولعل سے کام نہیں لیتا۔ کل ہی نان پور بلاک ضلع سیتامڑھی کے ددری پنچایت میں آنے والے بہورار موہن پور ٹولہ کے باشندہ محمد وحید عرف پپو کو گوری پنچایت کے اکثریتی فرقہ کے شرپسندوں نے چاقو سے تابڑ توڑ وار کیے اور پورا جسم زخموں سے چھلنی کردیا، شرپسندوں کو آخر اتنا حوصلہ کہاں سے مل رہاہے کہ وہ اتنے بدمست ہوکر قانون کو ہاتھ میں لینے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ظلم وجبر کی سنگین ترین واردات کو انجام دینے کے بعد بھی وہ بے خوف وخطر آزاد گھومتا نظر آتاہے۔ جب کہ ددری اور گوری پنچایت کے باشندگان میں آپسی میل جول بے مثال رہاہے، ماضی میں کبھی اس طرح کے ناخوشگوار واقعات پیش نہیں آئے،لیکن آج کیا شہر اور کیا دیہات اور گاؤں ، ہرشہر ، ہرقریہ اور ہر بستی میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ جاری ہے، آخر انسانی معاشرے میں مذہبی بالادستی کے نام پر زہر کون گھول رہاہے؟ کبھی چمپارن کے مسلم نوجوان کو اکثریتی فرقے کے شرپسند عناصر نشانہ بناتے ہیں تو کبھی سیتامڑھی کے مسلم نوجوانوں کو ہدف بناتے ہیں،آخر بے موت مرنے یامارے جانے کا تسلسل کب تک قائم رہے گا؟ کیا مودی حکومت  اقتدار کے نشے میں اتنا بدمست ہوگئی ہے کہ وہ انسانی جان کو شیٔ حقیر سمجھ کر ان کے خون کو ارزاں ٹھہرا دیا ہے۔ کیاقانون کی بالا دستی ختم کردی گئی ہے، یا پھرکمزوروں اور بے بسوں سے جینے کا حق سلب کرلیا گیا ہے، اگر جواب نفی میں ہے تو پھر حکمراں طبقہ کی خاموشی کس بات کا اشارہ دیتی ہے؟         
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگرمودی حکومت کے چھ سالہ دور اقتدار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آفتاب نصف النہار کی طرح سامنے آئے گی کہ  ملک کے بیشتر باشندگان خواہ وہ تعلیمی ادارے سے وابستہ ہوں، یاملک کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے صنعتی کارخانوں کے کارکنان، یا ملٹی نیشنل کمپنیوں میں برسرکار ملازمین، یا پھر روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرکے پیٹ کی آگ بجھانے والے یومیہ مزدور بحیثیت مجموعی سب کے سب پریشان حال اور منتشر الخیال ہیں۔ایک انصاف پسند حکمراں کی اساسی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایاکے بنیادی حقوق کا خیال رکھے، ناخواندگی کی شرح کو کم کرنے کے لیے نئے تعلیمی ادارے قائم کرے۔ متوسط اور کمزور طبقہ کی آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کے لیےصنعت وحرفت کو فروغ دے ۔کم ازکم خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے ایسا نظم ونسق کرے کہ وہ بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر لقمۂ اجل نہ بن جائے۔بلکہ وہ طبعی زندگی گزار سکے۔ متوسط طبقہ کی بھی اتنی پاسداری کرے کہ وہ اپنے چھوٹے موٹے کاروبار کے ذریعے خود کفیل ہوجائے۔خود کفیل (آتم نربھر) موجودہ حکومت کا سلوگن بھی بن چکا ہے، لیکن یہ صرف زبانی جمع خرچ سے منطقی انجام تک نہیں پہنچے گا ،بلکہ اسے عملی طور پر نفاذ کی راہیں ہموار کرنا ہوگی۔ یہ سچ ہے کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتااور نہ اس قافلہ کے ارکان آپس میں ایک دوسرے کے فدائی ہوتے ہیں، بلکہ ان کی رفاقت بسنت پہ اڑنے والے پتنگوں کی طرح ہے جو آپس میں اڑتے اور آپس میں ہی کٹتے ہیں۔ ایسے ہی اقتدار کسی کا دائمی ساتھی نہیں ہوتا، دوست کا دوست تو کیا،خود اپنا دوست نہیں، جو لوگ بھی اقتدار کی کشتی پر سوار ہوتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں یہ کشتیاں کھی غرقاب بھی ہوسکتی ہیں، سلطنتوں کا جاہ وجلال، وزارتوں کا عروج وزوال یہ سب روزوشب کے تماشے ہیں، موجودہ حکومت کی فضول خرچیوں اور وسائل کی غلط تقسیم و بندر بانٹ، نا تجربہ کاری اور بعض غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج عوام کی اکثریت مشکلات کا شکار اور غیر مطمئن نظر آتی ہے۔ ارکان حکومت اور ان کے محبوب نظر سرمایہ داروں کی لوٹ مار کا تسلسل، ناکافی وسائل، مذہبی انتہا پسندی، ناقص العقل مشیروں کی کج روی، جہالت اور بے سوچے سمجھے لیے گئے فیصلے ملک کو مزید اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے نہ ماضی سے سبق سیکھا نہ حال کی فکر ہے اور نہ ہی مستقبل کی پروا۔ ماضی قریب کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عجیب تماشا نظر آتا ہے۔ پچھلے چھ سال کی مدت دراز میں اگر ملک کا حکمراں طبقہ صدق دل سے چاہتا تو ملک کی  تقدیر بدل سکتاتھا مگر ایسا ہو نہ سکا اور وقت کا بے رحم پہیہ آگے نکل چکا ہے۔گاؤں گاؤں اور شہر شہر الغر ض ملک کے طول وعرض میں فرقہ پرستی کا عفریت سر ابھارچکاہے۔حکومت وقت کی عدم توجہ یا صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے جہاں ملک کی اقتصادی صورتحال نہایت تشویشناک ہے، وہیں عام سہولتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اور عوام میں بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ ایسا لگ رہاہے کہ قیامت سے پہلے اس حکومت نے قیامت لادی ہے۔