Tuesday 25 August 2020

دیدہ ور صحافی ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی کی رحلت



واقعی ’شمس ‘تھے جس کی ضیاپاشی ہر ایک پر یکساں ہوتی تھی
ڈاکٹر جسیم الدین، دہلی
ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی کی رحلت ایک فرد کی رحلت نہیں ،بلکہ ایک فکر صحیح کے ترجمان کی رحلت ہے، ان کے زرخیزذہن سے سپرد قرطاس ہونے والی فکری تحریرمیں جہاں ملت کے درد کا درما ں تھا، وہیں نوجوان نسل کے لیے متاع گراں مایہ ہوتاتھا، قرطاس وقلم سے ان کا رشتہ بہت قدیم اور مضبوط تھا، وہ زمانۂ طالب علمی سے ہی اپنی تقریروتحریر کی بدولت معاصرین کے درمیان ممتاز تھے ہی، ساتھ ہی اپنے احباب کے محبوب نظر ہونے کے ساتھ اساتذہ کے منظورنظر بھی تھے۔ پھریہ کہ سرزمین ہند کی مردم ساز شخصیت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی،سابق صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی صحبت صالح اور بے مثال تربیت نے جہاں ان کی قلمی صلاحیتوں کو جلابخشی ،وہیں ان کے زرخیزذہن کی فکری آبیاری بھی کی، جس کا اثر تادم زیست باقی رہا، وہ آفس ٹائم میں ضرور پتلون شرٹ زیب تن کیا کرتے تھے ، لیکن یہ ان کا اختیاری عمل نہ تھا،بلکہ اضطراری تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی علما وصلحا کی مجلسوں میں جلوہ افروز ہوتے تودرویشانہ لباس میں ہی نظر آتے۔ شرافت ان کے چہرے سے، انسانیت ان کی حالت سے ،خوبصورتی ان کی صورت سے اور محبت ان کی باتوں سے ظاہر ہوتی تھی۔ آپ کے قلم سے جمال ٹپکتا تھا اور ہرجملہ نگاہوں سے لپٹ جاتا تھا، آپ کی نثری تاب وتب شاعری کو شرمادیتی تھی۔
1995 سے قاضی صاحب کی وفات 2002 تک وہ جہاں قاضی صاحب علیہ الرحمہ کے پریس سکریٹری تھے ،وہیں آل انڈیا ملی کونسل بہار کے آرگنائزربھی رہے۔ قاضی صاحب کی وفات کے بعد انھوں نے اردو عربی ادبیات کے ممتاز قلمکارمولانا بدرالحسن قاسمی حال مقیم کویت،سابق اڈیٹر ’الداعی‘ دارالعلوم دیوبند کی خوشہ چینی اختیارکی اور ہنوز ان سے استفادہ وافادہ کا عمل جاری تھا۔ جس کا اظہار مولانابدرالحسن قاسمی نے اپنی ایک تاثراتی تحریر میں بھی کیاہے۔ اسی دوران جب سہارا انڈیا میڈیا نے راشٹریہ سہارا اور عالمی سہاراکی اشاعت شروع کی تو آپ نے بحیثیت صحافی یہاں ملازمت شروع کی اور تادم زیست ملازمت کرتے رہے، اس دوران انھوں نے ملک کی مایہ ناز یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔وہ بظاہر ایک صحافتی ادارے سے وابستہ ضرورتھے ،لیکن فکر صحیح کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں ان کا قبلہ بالکل واضح تھا۔ وہ دہلی میں کسی بھی نووارد صحافت کے طلبہ اور صحافی کی ذہنی وفکری تربیت میں لیت ولعل سے کام نہیں لیتے ،بلکہ ہر وقت اورہرگام پہ مدد کے لیے تیاررہتے۔ انھوں نے اردو کے بہت سے بے نام چہرے کو سہارا کے پلیٹ فارم سے مضامین کی نشرواشاعت کے ذریعے نہ صرف شناخت دی ،بلکہ ان کے لیے ترقی کی راہیں ہموارکیں۔ کبرونخوت سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا، وہ ہمیشہ اپنے احباب کی ترقی کو اپنی ترقی سمجھتے تھے، ایسے ہی عزیز واقارب کی حوصلہ افزائی میں کبھی بخل نہیں کرتے ۔
خود راقم الحروف کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت مختلف الجہات تھی، وہ کہیں پر بحیثیت سرپرست ومربی اپنا فرض نبھاتے تو کہیں پر بطور دوست خندہ پیشانی سے روبروہوتے اور کہیں پر اپنا عزیزخیال کرتے ہوئے علمی وعملی تعاون کرنے میں دریغ نہیں کرتے ۔آل انڈیا ریڈیو پر ٹاک پیش کرنے کا معاملہ ہو،یا مختلف سیاسی وعلمی موضوعات پر مضامین لکھنے کی بات ہو یا کسی علمی وادبی سمینار وکانفرنس میں شرکت کی چاہت ،ہر موقع پر بغیر کسی صلہ وستائش کہ میری چاہت کی تکمیل کرتے ۔ ان کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوتاتھا، وہ اسم بامسمیٰ تھے ،جتنی اتنی قدرت تھی اس سے کہیں زیادہ فیضیاب کرتے ،کیا قاسمی، کیا ندوی، کیا فلاحی، کیا اصلاحی، کیا سنابلی او ر کیا مصباحی ہر ایک کے لیے آپ واقعی ’شمس ‘تھے جس کی ضیاپاشی ہر ایک پر یکساں ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ آج  آپ کی رحلت پر بالکل راحت اندوری کی رحلت کے دن کی طرح سوشل میڈیا پر بلا تفریق مسلک ومشرب ہر شخص غم واندوہ سے نڈھال ہے اور ہرایک اپنے اپنے الفاظ میں اپنی شکستہ دلی کو بیان کررہاہے۔ آپ کے چہرے کی شگفتگی آپ کی تحریروں میں بھی عیاں ہوتی۔ جب آپ کسی سے روبرو ہوتے تو بوجہ کامل ہوتے اور مکمل انہماک سے مخاطب ہوتے اورزیر لب تبسم ہوتا،اس کیفیت کی ملاقات سے ہرشخص پہلی ملاقات کے ختم ہوتے دوسری ملاقات کا خواہاں ہوجاتا۔ آپ کی اس کیفیت کا اظہار معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے اپنے تاثراتی مضمون ’اے فلک پیر،عارف ابھی جواں تھا‘میں کیاہے ۔
حال ہی میں یکم جولائی کو جب آپ وطن مالوف ’ڈوبا‘ارریہ ،بہارسے دہلی واپس ہوئے تو مجھے کسی اہم علمی پہلوپرکیےگئے کام کو تکمیل تک پہنچانے میں تعاون کی ضرورت تھی ،تو انھوں نے ہی خلوص ووفا کا وہ کارنامہ انجام دیا،جسے میں تادم زیست بھلا نہیں سکتا، اس طرح درجنوں ایسے احسانات ہیں میرے اوپر کہ میں انھیں شمار نہیں کراسکتا۔ جب بھی ملاقات کے لیے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا ،علمی کاموں میں مصروف پایا۔ وہ قرطاس وقلم کے شہ سوارتھے، رات دن لکھنا ہی ان کا مشغلہ تھا، یہ سعادت بھی انھیں حاصل ہے کہ عظیم شخصیات کی بافیض صحبت ومجالست نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میدان صحافت میں پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود ان کے قلم میں وہی جولانی ہے جو ایک داعی کے اندر ہوتی ہے۔ اکابر علما سے عقیدت ومحبت اور ان کی زندگی کے لیل ونہار کو دیکھ کر سپرد قرطاس کرنا یقینا ًایک لائق تحسین ہی نہیں بلکہ قابل تقلید عمل ہے۔ 
اردوصحافت سے ان کی وابستگی طویل اور گہری تھی،ایک عرصے سے سماجی، سیاسی، سوانحی، ادبی  وعلمی موضوعات پر ان کی تجزیاتی تحریریں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ آپ کا قلم بالکل آپ کی فکر کا ترجمان تھا۔آپ نےاپنے پیچھے ایسی مستقل تصانیف چھوڑی ہیں ،جن سے آپ کی فکر کی گہرائی اور قلم کی عظمت کا احساس ہوتاہے۔ ہرکتاب کا انداز موضوع کی مناسبت سے جداگانہ ہے، ہر مقام پر موقع ومحل کے مطابق مناسب الفاظ، متناسب اسلوب،چبھتے جملے اور بولتے استعارے ایک خاص سلیقے اور قرینے کے ساتھ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ آپ کے اسلوب تحریر میں ندرت کی شگفتگی اورجدت کی شادابی دونوں پائے جاتے ہیں۔ آپ کے اشہب قلم سے ’جن سے روشن ہے کائنات‘ عظیم شخصیات کے سوانحی نقوش پر مشتمل کتاب منظر عام پر آکر شرف قبولیت حاصل کرچکی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے شخصیات پر لکھے ہوئے مضامین کو جمع کیا ہے، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ اعتدال پسندقلمکارکے لیے اعتدال وتوازن کو ملحوظ رکھتے شخصیت سے متعلق حقائق وکارناموں کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ کہیں عقیدت تو کہیں دیگراسباب قلمکار کے قدم کو متزلزل کرتے رہتےہیں، لیکن ڈاکٹرعبد القادر شمس نے شخصیات پر قلم اٹھاتے ہوئے اعتدال کو ملحوظ رکھا ،جو بھی لکھا ، وہ حقیقت کے آئینے میں لکھا ’جن سے روشن ہے کائنات‘کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جن شخصیات کوموضوعِ تحریر بنایاگیاہے،ان میں علمائے دین کے علاوہ معروف و مشہور دانشوران و مفکرین اور سیاست داں بھی شامل ہیں،ایک اور اچھی بات اس کتاب کی یہ ہے کہ اس میں مذہبی و مسلکی بنیادوں کی بجائے علمی،سماجی و سیاسی میدانوں میں شخصیات کے کارناموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا تذکرہ کیا گیا ہے؛چنانچہ مختلف مکاتبِ فکرکے مسلم رہنما،علما ودانشوران کے ساتھ جواہرلال نہرو، ڈاکٹر رادھا کرشنن، اندرا گاندھی،اننت مورتی جیسے غیرمسلم قومی رہنماؤں اور مفکرین کے نقوشِ حیات پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ بنیادی طورپراس کتاب کے دوابواب ہیں،پہلے باب میں’ممتازعلما واکابرِ امت‘کے عنوان سے مختلف علماے کرام کا مختصرتذکرہ اور ان کی خدمات کا ذکر ہے۔اس ذیل میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی،علامہ شبلی نعمانی،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی،اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان، مولاناابوالمحاسن محمد سجاد، حکیم الاسلام قاری محمد طیب،امیر شریعت مولانامنت اللہ رحمانی،قاری صدیق احمد باندوی، مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندوی،قاضی مجاہد الاسلام قاسمی،مولانا شفیق الرحمن ندوی،مولانااحمد شاہ نورانی،مولانامجیب اللہ ندوی،مولانااخلاق حسین دہلوی، ڈاکٹرمحمودغازی اور مفتی ظفیر الدین مفتاحی کا ذکرِ خیر ہے۔ان میں سے بیشتر شخصیات ایسی ہیں،جن پر ان کے متعلقین و متوسلین نے پہلے ہی بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں،ان کتابوں میں ان حضرات کی زندگی ،ان کی خدمات اور کارناموں کا تفصیلی ذکر ملے گا،مگر ڈاکٹرعبدالقادرشمس نے اپنے ان مضامین اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان شخصیات کی خا ص خاص خوبیوں اور مخصوص کارناموں کوروشنی میں لایاجائے۔ ان کی نگاہ ایسی درویشانہ شخصیت پر مرتکز ہوجاتی تھی اور وہ ان کے علمی واصلاحی کارناموں کو اجاگر کرکے نیک بختی کا ثبوت پیش کرتے ۔ڈاکٹر عبدا لقادر شمس کے اشہب قلم سے ’جن سے روشن ہے کائنات‘ کے علاوہ کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں،جن میں ’چند نامور علما‘(مرتب)، مولانا ظریف احمدندوی ،شیخ الحدیث مولانایونس : چندباتیں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
 ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی صاحب نوجوان نسل قلمکاروں کے لیے آئیڈیل تھے ،صلہ وستائش کی پروا کیے بغیر ہر شخص کا علمی وعملی تعاون کرنے میں تردد نہیں کرتے ، یہ شاید انہی نیک طینت شخصیات کی صحبتوں کا اثر ہےکہ وہ خود بھی حسن سلوک اور خوش خلقی جیسے عظیم اوصاف ان کے رگ وپے میں خون کی طرح گردش کررہےتھے۔
بے کس وبے بس کے حق وانصاف کے لیے ہمہ دم اٹھنے والی توانا آواز ، دوسروں کے غم کو اپنا درد وغم سمجھنے والی شخصیت ، اپنی اولاد کی طرح اپنے ملنے جلنے والے بے روزگاروں کو روزگار سے جوڑنے کے مسلسل فکرمند رہنے والےمیرے محسن ومربی ڈاکٹر مولانا عبد القادر شمس قاسمی نے کئی ہفتہ تک علاج ومعالجہ کے بعد جامعہ ہمدرد کے مجیدیہ اسپتال میں بوقت ایک بج کر دس منٹ پر جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ 12 اگست کو 08.56pm پر بات چیت آخری ثابت ہوگی جب میں نے فون کیا تو آواز میں غیر معمولی نقاہت تھی ،انھوں نے بس اتنا بتایاکہ سانس لینے میں بہت مشقت ہورہی ہے ، دعا کیجیے اور اپنے احباب سے بھی دعا کے لیے کہیے ۔میری طبیعت بہت خراب ہے۔میں نے جلد شفایابی کے لیے دعائیہ کلمات کہے اور بعد میں وقفے وقفے سے آپ کے بھانجا مولانا خطیب ندوی سے رابطے میں تھا اور ایک دن کے وقفے سے کبھی جناب شاہ عالم اصلاحی نیوز اڈیٹر روزنامہ انقلاب اور کبھی خطیب سے ڈاکٹر صاحب کی مزاج پرسی کرتارہا۔لیکن جانکاہ خبر سنتے ہی صدمے میں آگیا۔ کئی بار کچھ لکھنے کو بیٹھا  لیکن لکھتے وقت بار بار احباب کے فون کی وجہ سے خلل واقع ہوتا رہا، اب شب کی تنہائی میں اپنے احساسات کو لفظوں کا سہارا دیاہے ، اس دعا کے ساتھ کہ خدا ڈاکٹر عبد القادرشمس صاحب کو مغفرت کاملہ سے ڈھانپ لے اور آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور پسماندگان میں شامل اہلیہ، صاحبزادیاں وصاحبزادے مولانا عمار ندوی کو صبر جمیل عطا فرمائے۔