Sunday 27 November 2011

انسانی حقوق اسلامی تناظر میں



محمد جسیم الدین قاسمی
Email.jasimqasmi@gmail.com

انسانی حقوق کا عالمی منشور
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے10 دسمبر1948ء کو انسانی حقوق سے متعلق جس عالمی منشور کا اعلان کیا وہ تیس دفعات پر مشتمل ہے۔ مختصر تمہید کے بعد دفعات کا تذکرہ یوں ہے:
١۔ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں امتیازات و حقوق کے معاملے میں مساوی الحیثیت ہیں۔
٢۔ہر فرد کے لیے نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاسی یا دوسرے نظریات، قومی و سماجی حیثیت، املاک، پیدائش یا کوئی اور حیثیت وجہ امتیاز نہیں بن سکتی۔
٣۔ہر فرد کو زندہ رہنے اور اپنی جان کی حفاظت کرنے کا حق حاصل ہے۔
٤۔ کسی بھی شخص کو نہ غلام بنایا جائے گا اور نہ محکوم رکھا جائے گا، غلامی اور غلاموں کی تجارت اپنی تمام شکلوں میں ممنوع ہوگی۔
٥۔کسی بھی شخص کو تشدد، ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی کسی کے ساتھ تذلیل آمیز برتاؤ کیا جائے گا۔
٦۔ہر فرد کو قانون کی نظر میں بحیثیت فرد ایک تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہوگی۔
٧۔ قانون کی نگاہ میں سب کی حیثیت مساوی ہوگی اور انہیں کسی امتیاز کے بغیر یکساں قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔
٨۔ ہر فرد کو آئین یا قانون کے ذریعے ملنے والے بنیادی حقوق کے منافی قوانین کے خلاف با اختیار قومی ٹریبونل کے ذریعے موثر چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔
٩۔ کسی بھی فرد کو بلا جواز گرفتاری، نظر بندی یا جلاوطنی کی سزا نہیں دی جائے گی۔
١٠۔ ہر شخص کو اپنے بنیادی حقوق و فرائض کے تعین یا اپنے خلاف عائد کردہ الزامات سے برات کے لیے آزاد و خود مختار اور غیر جانبدار ٹربیونل کے ذریعے کھلی اور منصفانہ سماعت کا یکساں حق حاصل ہوگا۔
١١ (الف)۔ کسی تعزیری جرم کی صورت میں ہر فرد کو اس وقت تک بے قصور سمجھے جانے کا حق حاصل ہوگا، جب تک ایسی کھلی عدالت میں اسے قانون کے مطابق مجرم ثابت نہ کر دیا جائے، جہاں اسے اپنی صفائی کی تمام ضمانتیں فراہم کی گئی ہوں۔
(ب)۔ کسی فرد کو کسی ایسے ارادی یا غیر ارادی فعل کی بنیاد پر قابل تعزیر جرم کا مرتکب قرار نہیں دیا جاسکتا جو فی الواقع قومی یا بین الاقوامی قانون کے تحت قابل تعزیر نہ ہو۔
١٢۔ کسی بھی فرد کی خلوت، خاندانی امور، گھریلو زندگی اور خط وکتابت میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس کی عزت پر حملہ کیا جائے گا۔
١٣(الف)۔ ہر فرد کو اپنی ریاست کی سرحدوں میں نقل و حرکت اور رہائش کی مکمل آزادی کا حق حاصل ہوگا۔
(ب)۔ ہر فرد کو بیرون ملک جانے اور اپنے ملک واپس آنے کا حق حاصل ہوگا۔
١٤(الف)۔ ہر فرد کو ظلم و تشدد سے بچنے کے لیے دوسرے ممالک میں پناہ لینے کا حق حاصل ہوگا۔
 ب)۔ غیر سیاسی جرائم یا اقوام متحدہ کے اصول و مقاصد کے منافی اعمال کے سلسلے میں مقدمات سے بچنے کے لیے یہ حق قابل استعمال نہیں ہوگا۔
١٥(الف)۔ ہر فرد کو شہریت حاصل کرنے کا حق ہوگا۔
(ب)۔ کسی فرد کو بلا جواز اس کی شہریت سے محروم نہیں کیاجائے گا اور نہ شہریت کی تبدیلی کا حق سلب کیا جائے گا۔
١٦(الف)۔ ہر بالغ مرد اور عورت کو بلا امتیاز نسل، شہریت یا عقیدہ شادی کرنے اور گھر بسانے کا حق حاصل ہوگا۔
(ب)۔ شادی زن و شوہر کی آزادانہ مرضی و منظوری سے ہوگی۔
(ج)۔ خاندان: معاشرہ کا بنیادی اور فطری حصہ ہے جو ریاست کی طرف سے مکمل تحفظ کا مستحق ہے۔
١٧(الف)۔ ہر فرد کو تنہا یا دوسرے کے ساتھ مل کر جائداد رکھنے کا حق حاصل ہوگا۔
(ب)۔ کسی کو بلا جواز اس کی ملکیت سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
١٨۔ ہر فرد کو فکر و خیال، ضمیر اور عقیدے کی آزادی حاصل ہوگی اور اس میں تبدیلی عقیدہ، اظہار عقیدہ، تبلیغ عقیدہ اور عبادت کا بھی حق شامل ہے۔
١٩۔ ہر فرد کو اظہارِ خیال کی آزادی کا حق حاصل ہے اس میں کسی مداخلت کے بغیر کوئی بھی رائے رکھنے، کسی بھی ذریعہ سے اور سرحدوں کا لحاظ کیے بغیر خیال و معلومات حاصل کرنے اور پہنچانے کا بھی حق شامل ہے۔
٢٠(الف)۔ ہر فرد کو پر امن اجتماع و تنظیم کا حق حاصل ہے۔
(ب) کسی کو کسی خاص تنظیم سے وابستہ ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
٢١۔(الف)۔ ہر فرد کو اپنے ملک کی حکومت میں براہ راست یا منتخب نمائندوں کے ذریعے شرکت کا حق ہے۔
(ب)۔ ہر فرد کو اپنے ملک کی سرکاری ملازمت کے حصول کا مساوی حق ہے۔
(ج)۔ حکومت کے اختیار کی اصل بنیاد عوام کی خواہش و مرضی ہوگی، جس کا اظہار انتخابات کے ذریعہ آزادانہ رائے شماری اور خفیہ رائے دہی کی صورت میں ہوگا۔
٢٢۔ ہر فرد کو اپنی باوقار زندگی اور تعمیر شخصیت کے لیے سماجی تحفظ کا حق حاصل ہوگا اور وہ قومی مساعی اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعہ اور ہر ریاست کے وسائل کے مطابق معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کا مستحق ہوگا۔
٢٣(الف)۔ ہر فرد کو کام کرنے، اپنی پسند کا پیشہ منتخب کرنے، بہتر اور منصفانہ شرائط پر کام حاصل کرنے اور بے روزگاری سے تحفظ پانے کا حق حاصل ہوگا۔
(ب)۔ ہر فرد کو بلا امتیاز یکساں کام کی یکساں اجرت ملے گی۔
(ج)۔ ہر فرد کو بہتر اور منصفانہ معاوضہ حاصل کرنے کا حق ہے جو اس کی ذات اور اس کے خاندان کے لیے باعزت زندگی بسر کرنے کی ضمانت فراہم کر سکے اور ضروری ہو تو اس کے سماجی تحفظ کے لیے کچھ دوسرے ذرائع بھی مہیا کیے جائیں۔
(د)۔ ہر فرد کو اپنے مفادات کے لیے ٹریڈ یونین بنانے اور ان میں شامل ہونے کا حق حاصل ہوگا۔
٢٤۔ ہر فرد کو راحت و آرام، تفریح، اوقات کار کے معقول تعین اور تنخواہ کے ساتھ چھٹیوں کا حق ہوگا۔
٢٥۔ ہر فرد کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی صحت و خوش حالی کے لیے معقول معیار زندگی برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ جس میں خوراک، لباس، رہائش، طبی امداد اور ضروری سروس جس سے بیروزگاری، بیماری، معذوری، بیوگی، بڑھاپے اور اس نوعیت کے دوسرے حالات میں تحفظ حاصل ہوگا۔
٢٦(الف)۔ ہر فرد کو حصول تعلیم کا حق حاصل ہے۔
(ب)۔ تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی مکمل تعمیر اور انسانی حقوق و آزادیوں کے احترام کو مستحکم بنانا ہوگا۔
(ج)۔ والدین کو اپنے بچوں کے لیے نوعیت تعلیم کے انتخاب کا حق حاصل ہوگا۔
٢٧۔ہر فرد کو معاشرہ کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے، علوم و فنون سے لطف اندوز ہونے اور سائنسی ترقی کے ثمرات سے متمتع ہونے کا حق ہے۔
(ب)۔ ہر فرد کو اپنی سائنسی، ادبی یا فنی تخلیقات کے اخلاقی و مادی ثمرات کے تحفظ کا حق حاصل ہوگا۔
٢٨۔ ہر فرد ایسے معاشرتی اور بین الاقوامی ماحول میں زندگی بسر کرنے کا مستحق ہے جس میں منشور کے ان حقوق اور آزادیوں سے بہرہ ور ہونے کی ضمانت ہو۔
٢٩۔ ہر فرد پر اس معاشرے کی طرف سے ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جس میں رہ کر ہی اس کی شخصیت کی آزادانہ اور مکمل نشو و نما ممکن ہے۔
(ب)۔ اپنے حقوق اور آزادیوں کے سلسلے میں ہر شخص صرف قانون کی عائد کردہ ان پابندیوں کے دائرہ میں رہے گا، جن کا مقصد دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کے احترام کو یقینی بنانا ہے۔
(ج)۔ ان حقوق اور آزادیوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے منافی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
٣٠۔ اس منشور کے کسی بھی حصے کی ایسی تعبیر نہیں کی جا سکے گی جس کا مقصد کسی بھی ریاست، گروپ یا فرد کو کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہونے کا حق دلاتا، جس کے ذریعے وہ ان متعین حقوق اور آزادیوں کا ہی صفایا کر دے۔

یہ ہے دنیا کا وہ جدید ترین منشور جسے دنیا کی تمام قوموں نے مختلف علاقائی، قومی، الہامی وغیر الہامی قوانین و دساتیر کو سامنے رکھ کر مرتب کیا اور جس کو آخری شکل پائے ہوئے پچاس سال سے زیادہ عرصہ ہورہا ہے، مگر مذکورہ بالا عالمی منشور، معنویت، نفاذ اور دائرہ عمل کے لحاظ سے آج تک تشنہ ہے، جس کا احساس خود مغربی مفکرین کو بھی ہے۔
تھامیس پین نے کہا:'' آج ہزاروں چکنی چپڑی باتوں، ہزاروں اعلانات اور منشوروں کے بعد بھی آزادی ہنوز عنقا ہے، امریکہ ہو، روس ہو، پرتگال ہو، انگلستان ہو، رہوڈیشیا ہو، بوسٹن ہو یا مس سپی اس کا کہیں نام و نشان نہیں۔''ایک مبصر نے یہاں تک کہا ہے کہ:
 ''عالمی منشور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک خوش نما دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس میں حقوق کی ایک فہرست تو مرتب کر دی گئی ہے لیکن ان میں سے کوئی ایک حق بھی اپنے پیچھے قوت نافذہ نہیں رکھتا۔''
ان تبصروں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انسان کی اجتماعی کوششیں بھی اس کے لیے پروقار اور آبرو مندانہ زندگی کی ضمانت کو مہیا نہ کر سکیں۔

انسانی حقوق اور عصرِ حاضر
موجودہ دور میں حقوق انسانی کا نعرہ دراصل ایک فیشن بن گیا ہے۔ ہر ملک اور ہر گروہ اپنے مفاد کے مطابق حقوق انسانی کی تشریح کرتا ہے، جو بات اس کے مفاد میں ہوتی ہے اسے اپنا لیتا ہے اور جو اس کے مفاد کے خلاف جاتی ہے اس پر تنقید کرتا ہے۔

اسلام کا تصور حقوق انسانی
اسلامی معاشرے میں فرد کی حیثیت اس کی پیدائش، نسل، ذات یا طبقہ سے متعلق نہیں ہوتی بلکہ تقویٰ اور خیر سے متعلق ہوتی ہے۔ اسلامی ریاست کا ہر شہری، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، زندگی کے وسائل، شہری حقوق اور سیاسی عمل کی شراکت میں عدل و انصاف کا مستحق ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی بڑی اہم ہے کہ اسلامی قانون میں سربراہِ مملکت بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ قانون کی نگاہ میں خلیفہ، حکمران اور ایک عام شہری یکساں حیثیت کے مالک ہیں۔ اسلام نے انسانوں کو جو فطری حقوق دیے ہیں وہ ہر لحاظ سے حاوی، نہایت جامع اور با معنی ہیں۔ ان میں انسانی نفسیات، رحجانات، ضروریات اور تقاضوں کی مکمل رعایت موجود ہے اس کی کسی دفعہ پر جانب داری یا معیار اعتدال سے گرے ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ اسلام نے بحیثیت انسان پوری انسانی برادری کے ساتھ یکساں معاملہ کیا ہے۔ انفرادی زندگی کے دائرے میں وہ ہر فرد کو اتنا کچھ سامان حیات فراہم کر دینا چاہتا ہے جس کی مدد سے وہ صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی گزار سکے اور اجتماعی دائرہ حیات میں اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسا معاشرہ وجود میں آئے جس کی ساری توانائیاں انسانیت کی مجموعی ترقی میں صرف ہوں اور قافلہ انسانیت تہذیب اسلام کے نظریہ حیات کی روشنی میں رواں دواں رہے۔

انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات
اسلام حقوق انسانی کا بہت وسیع تصور رکھتا ہے، اسلامی نقطہ نظر سے اس میں وہ تمام حقوق شامل ہیں جو حالت جنین سے لے کر زندگی کے آخری مراحل تک بلکہ قبر کی مٹی میں حلول کرنے تک بحیثیت انسان ایک شخص کے لیے قرآن و سنت سے ثابت ہیں، یہ شریعت اسلامیہ کے پورے مجموعہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور قانون کی کسی خاص شاخ یا شق میں محدود نہیں ہیں۔ اجتماعی زندگی میں انسان مختلف حیثیتوں یا رشتوں سے ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور ایک دوسرے پر بہت سے حقوق بھی لاتا ہے، اسلام کا تصور حقوق انسانی ان تمام سے بحث کرتا ہے۔

کمزوروں کی نصرت
اسلام میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس مال و دولت ہے وہ اس کو صرف اپنی ذات کے لیے خاص نہ کر لیں بلکہ اسے دوسروں پر خصوصاً کمزور، بے سہارا اور معذور لوگوں پر خرچ کریں۔ اس کا سبب ایک حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم کو مدد ملتی ہے اور جو رزق تمہارے پاس پہنچتا ہے وہ تمہارے کمزوروں کے ہی سبب پہنچتا ہے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:''عن مصعب بن سعد قال رأی سعد أن لہ فضلا علی من دونہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھل تنصرون و ترزقون الا بضعفا ئکم''
 حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت سعد نے خیال کیا کہ انہیں ان سے کم تر درجہ کے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو جو مدد ملتی ہے اور تم کو جو رزق پہنچتا ہے وہ فقرا ہی کی وجہ سے ہے۔
  اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ بلا تخصیص ملت و مذہب جو شخص لوگوں کے کام آیا جائے۔رحمت دو عالم جناب محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے:
 ''عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من یسر علی معسر فی الدنیا یسر اللہ علیہ فی الدنیا والآخرۃ''
 حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص دنیا میں کسی تنگ حال کو آسانی دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت میں آسانی فراہم کریں گے۔

زندگی اور اس کے تحفظ کا حق
اسلام میں ہر شخص کو خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم یہ حق دیا گیا ہے کہ اس کی جان محفوظ رہے گی لیکن یہ حفاظت اور زندگی کی ضمانت دو شرطوں سے مشروط کر دی گئی ہے۔ اول، یہ کہ وہ کسی دوسری جان کو ختم نہ کرے۔ دوم، یہ کہ وہ زمین میں فساد برپا نہ کرے۔
 ایک حدیث شریف میں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ''قتل نفس'' کو قرار دیا گیا ہے۔یہ حدیث شریف صاف صراحت کرتی ہے کہ کسی انسان کو ہلاک کرنا گناہ عظیم ہے خواہ وہ کسی کی بھی ہو۔
اسلام میں جان اور اس کے تحفظ کے بنیادی انسانی حق کو عالم گیر اور آفاقی قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ دنیاوی قوانین و دساتیر میں یہ دونوں انسانی حقوق صرف ایک ریاست یا مملکت کے شہریوں کو ہی ملتے ہیں۔ لیکن اسلام نے تمام انسانوں کو بلا لحاظ ملت و مذہب اور بلا تفریق رنگ و نسل یہ دونوں حقوق عطا کیے ہیں۔ اسی طرح موجودہ عہد کے انسانی حقوق کے تمام اعلانات و معاہدات صرف ایک فرد کے نقطہ نظر سے اس کے حق حیات کی بات کرتے ہیں جب کہ اسلام افراد اور اجتماع، نفوس اور معاشرہ، انسان اور سماج دونوں لحاظ سے ضمانت فراہم کرتا ہے اور صرف یہی نہیں اجتماعی حقوق کے درمیان بھی توازن و اعتدال برقرار رکھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف افراد یا کسی خاص معاشرہ کو زندگی کا تحفظ ملتا ہے بلکہ پوری انسانی زندگی یا بنی نوعِ انسان کی زندگی کو تحفظ کی ضمانت حاصل ہوتی ہے۔
انسانی حیات کے تقدس و احترام کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی شخص کو خواہ وہ مریض یا مجرم ہی کیوں نہ ہوں، اپنی جان لینے کا حق حاصل نہیں۔ جان کی حفاظت ہر انسان پر واجب ہے، وہ اسے بلاوجہ ہلاکت میں ڈالنے کا مجاز نہیں۔
 عام مسلمانوں اور تمام انسانوں کے علاوہ اسلام نے زندگی کا حق اور اس کے تحفظ کا حق ملزموں اور مجرموں کو بھی دیا ہے۔ اسلامی قانون انصاف کا تقاضا ہے کہ جب تک کسی پر الزام رہے اور اس کا جرم ثابت نہ ہوجائے اس کو نہ سزا دی جاسکتی ہے اور نہ اس کی جان لی جاسکتی ہے۔
زندگی اور اس کے تحفظ کے جن حقوق کی ضمانت اسلام نے فراہم کی ہے اگر ان کا موازانہ موجودہ حقوق انسانی کی دستاویزات سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلامی حقوق انسانی کی بنیاد سب کی خیر اور فلاح عام کی آدرش پر رکھی گئی ہے۔ وہ آدرش جو انسانی بہبود کی ضمانت دیتا اور اجتماعی عدل و انصاف کو بروئے کار لاتا ہے۔

اسلام اور آزادی
قانون فطرت ہے کہ تمام انسانوں کو آزاد پیدا کیا گیا ہے۔اس حوالے سے احادیث نبوی میں سب سے اہم وہ فرمان ہے جس کے مطابق رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم قیامت کے دن اس شخص کے خلاف مدعی اور وکیل استغاثہ ہوں گے جو آزاد انسانوں کو غلام بناتا، ان کی خریدوفروخت کرتا اور اس سے روزی کھاتا ہے۔
 حضرت عمر رضي اللہ عنہ کا مشہور مقولہ ہے کہ تمام لوگ آزاد پیدا ہوئے ہیں اور تم نے ان کو غلام کیسے بنا لیا۔ شخصی آزادی کا اہم پہلو یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم محض شبہ کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ حالات و قرائن یا ثبوت اگر ارتکاب جرم کی نشاندہی کریں تو ایسے شخص کو گرفتار کرکے فوراً قاضی عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے۔ پھر عدالت اور قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد از جلد اس کے مقدمہ کا فیصلہ صادر کریں۔ بلا ثبوت جرم کسی شخص کو اس کی شخصی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کو سزا دی جاسکتی ہے۔
شخصی آزادی کا ایک نادر و نایاب حق جو اسلام تمام انسانوں کو بلا تفریق مذہب وملت عطا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فعل اور اپنے جرم کا ذمہ دار ہوتا ہے، کسی شخص کو اس کے والدین، بھائی، بہن یا دوسرے متعلقین کے کيے پر نہیں پکڑا جا سکتا۔ یہ حق آیت کریمہ: ''ولاتزر وازرۃ وزر اخریٰ'' اور کوئی شخص دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ (اپنے اوپر) نہیں لے گا۔'' سے ملتا ہے۔ پورے اسلامی دور حکمرانی میں یہ حق تمام انسانوں کو برابر حاصل رہا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کے جرم کی سزا کسی دوسرے بے خطا کو دی گئی ہو۔ جب کہ آج کے دور میں مجرم کے کیے کی یا محض ملزم پر شبہ کی پاداش میں سزا اس کے متعلقین کو دی جاتی ہے۔
موجودہ دور کی حکومتی کارروائیوں سے اگر اسلامی حقوق انسانی کا موازنہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آج کی تہذیب و تمدن اور تعلیم یافتہ اقوام کسی طرح انسانی حقوق پامال کر رہی ہیں۔ ہندستان میں سیاہ قانون 'ٹاڈا' اس کے بعد 'پوٹا' اس کی بد ترین مثال ہیں، جسے خاص کر اقلیت کے خلاف استعمال کر کے انسانی حقوق ہی کو نہیں انسانیت کو پاما ل کیا جارہا ہے۔

عزت و آبرو کے تحفظ کا حق
اسلام ہر شخص کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت یا بچہ، یا غیر مسلم یہ حق عطا کرتا ہے کہ اس کی عزت و آبرو پر کیچڑ نہیں اچھالا جائے گا۔ اسی لیے اسلام نے بہتان تراشی اور الزام طرازی کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے مجرموں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ الزام تراشی کا سرچشمہ دراصل استہزا، بے جا مذاق اور تحقیر کے دھاروں سے پھوٹتا ہے اس لیے اسلام نے مسلمانوں کو خاص کر اور ان کے ذریعے دوسرے انسانوں کو بالعموم یہ حکم دیا ہے کہ وہ چغل خوری، استہزاء اور طنز و تعریض سے پرہیز کریں اور کسی پر الزام نہ لگائیں، کسی کی پیٹھ پیچھے اس کا ایسا ذکر نہ کریں جو اگر اس کے سامنے کیا جاتا تو اس کو ناگوار گزرتا۔
 ایک غلط فہمی آج یہ پیدا ہوگئی ہے کہ عزت و آبرو محفوظ رکھنے کے حق کو عام طور پر عورتوں کے ليے خاص کر دیا جاتا ہے۔ غالباً اس کا سبب یہ سماجی عدم توازن ہے کہ عورت پر اس کے کمزور ہونے کے سبب زیادہ آسانی اور تیزی سے الزام سے لگایا جاسکتا ہے، ورنہ اسلام نے مرد اور عورت کی عزت و آبرو کے تحفظ کے حق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا ہے یہ حق سبھی کو حاصل ہے۔ حتی کہ غیر مسلم کو بھی۔
 موجودہ مغربی انسانی حقوق کے تصور کے مطابق توہین یا ہتک عزت کا الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری اس شخص پر ڈالی گئی ہے جس کی عزت و آبرو پر کیچڑ اچھالا گیا ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ''صاحب عزت'' اور آبرو مند ہونے کا ثبوت و شہادت فراہم کرے۔ اسلام نے مجرم کو ذمہ دار بنایا ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے، ہتک عزت کے شکار کو نہیں۔ اسلام بنیادی طور پر ہر شخص کو صاحب عزت و آبرو سمجھتا ہے جب کہ مغربی تصور میں شرافت و نجابت کا معیار اس کا سماجی وقارہوتا ہے۔

عقیدہ اظہار کی آزادی
 شخصی آزادی کے منجملہ دوسرے حقوق میں سے ایک عقیدہ کی آزادی ہے۔ یہ بہت وسیع تصور اور جامع حق ہے۔ اس میں مذہب و مسلک، سیاسی فکر، فقہی رائے، عقلی استدلال، علمی نظر، تحقیقی و تصنیفی طرز عمل غرض یہ کہ ہر طرح کے عقیدہ کی آزادی شامل ہے۔
 دنیا میں اسلام ہی وہ واحد دین اور نظام حیات ہے جو تمام انسانوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جو چاہے مذہب اختیار کريں، جو چاہے مسلک اپنائیں، جو چاہے فقہ اختیار کریں اور جس فکر و نظر کو پسند کریں اس کو اپنا لیں۔ یہاں تک کہ وہ ایسا نظام حیات اور سیاسی و مذہبی عقیدہ اختیار کر سکتے ہیں جو اسلامی نظریہ حیات کے قطعی مخالف ہو۔ دنیا کا کوئی دوسرا نظام ایسے عقیدہ اور فکر کی آزادی نہیں عطا نہیں کرتا۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:''لا اکراہ فی الدین'' کسی کو دین اسلام میں داخل کرنے کے لیے زور زبردستی کی اجازت نہیں۔
جس طرح اسلام دل و دماغ میں عقیدہ و فکر نظر رکھنے کی اجازت دیتا ہے اسی طرح ہر شخص کو اس کے عقیدہ اور مسلک و فکر کے مطابق اس کے اظہار اور اس پر عمل کی آزادی کا حق بھی عطا کرتا ہے مسلم ہو یا غیر مسلم ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنے مذہبی اعتقادات، مسلکی افکار، فقہی آرا اور سیاسی و سماجی نظریات وغیرہ کا اعلان و اظہار کرے۔
اسلام کے اس حکیمانہ تصور حقوق کا اثر تھا کہ تمام اسلامی یا مسلم ادوار میں کسی بھی شخص، طبقہ یا گروہ پر ان کے خیالات و نظریات کے سبب پابندی نہیں لگائی گئی ا ور نہ ان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ خواہ وہ شیعہ ہوں یا خوارج، معتزلہ، جبریہ، قدریہ اور مرجیہ جیسے مسلم فرقے رہے ہوں یا عیسائی، یہودی، زرتشتی، مجوسی، ہندو، جینی، بدھ متی اور قبطی وغیرہ غیر اسلامی طبقات رہے ہوں۔
 اظہار فکر و اعلان عقیدہ کے ضمن میں اسلام نے دو قسم کی پابندی البتہ عائد کی ہے، ایک یہ کہ ایسے عقائد و افکار کا اظہار نہ کیا جائے جن سے انسانی سماج میں انتشار و اضطراب پیدا ہوتا ہو اور دوسرے یہ کہ عام اخلاق اور اخلاقیات انسانی پر کوئی برا اثر نہ پڑتاہو۔

قانون کی نظر میں مساوات کا حق
 یہ حق انسانی برابری کے تصور کے نتیجہ ہے۔ اسلام نے انسانی مساوات کا تصور بہت سی قرآنی آیات اور احادیث میں واضح کیا ہے۔ کہیں یہ کہا ہے کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔
 کہیں فرمایا کہ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ کہیں انسانی مساوات کا تعلق ایک اللہ کی عیال، مخلوق، کنبہ وغیرہ سے جوڑا۔ مخلوقات الٰہی کے اجتماعی تصور کے حوالے سے ایک جگہ فرمایا کہ :'' کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور نہ کسی سیاہ فام کو سفید فام پر، بلندی صرف تقویٰ سے ہے۔''
 کہیں خاندان کی فضیلت کی نفی کی اور کہیں پیدائشی برتری اور نسبی تفوق کی، ان تمام احکام و فرامین کا ایک ہی مقصد ہے کہ تمام انسانوں کی بطور انسان برابری اور مساوات قائم کی جائے
 ظاہر ہے کہ جب تمام انسان اپنی پیدائش، اپنی خلقت اور اپنی بشریت کے سبب مساوی ہیں تو ان کو تمام قانونی اختیارات و حقوق بھی برابر حاصل ہیں۔ اسلام نے تمام انسانوں کو قانون کی نگاہ میں یکساں اور برابر قرار دیا ہے۔ رنگ و نسل، علاقہ و قبیلہ، تہذیب و تمدن، فکر وعقیدہ حتی کہ دین و مذہب کی بنا پر بھی ان میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اسی لیے اسلامی قانونِ فوج داری اور شہری دونوں میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ اس سے بڑھ کر یہ تصور و فکر ہے کہ حکمرانوں کو بھی قانون سے بالاتر کوئی حق حاصل نہیں۔ یعنی اسلامی حکومت میں سب سے بڑا انسانی حکمران خلیفہ بھی اور اس کے تمام کارندے اور عمال بھی قانون کی نظر میں یکساں اور برابر ہیں اور اگر وہ کسی شخص کے ساتھ ظلم و جبر کریں تو ان کے خلاف فریاد کی جاسکتی ہے اور ان کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ قانونی فکر اور دستوری دفعہ کے لحاظ سے اسلامی ریاست کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خلیفہ سے لے کر کسی بھی معمولی کارکن حکومت تک کے خلاف قاضی کی عدالت میں مقدمہ دائر کر سکتاہے اور اسے اس حق سے کوئی نہیں روک سکتا۔

بنیادی ضروریات کا حق
جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہر انسان کو بعض بنیادی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے جسے عام طور سے بنیادی ضروریات کا حق کہا جاتا ہے اور تمام مادی افکار و تصورات کے مطابق ان کو چند مادی آسائشوں تک محدود کر دیا جاتا ہے اور تمام روحانی، اخلاقی اور قلبی ضروریات کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے وہ جسمانی مادی ضروریات کے پہلو بہ پہلو روحانی اور اخلاقی ضروریات کا بھی برابر لحاظ کرتا ہے۔ چونکہ ان دونوں قسم کی ضروریات میں عدم توازن سے انسانی شخصیت میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور جب فرد و شخص کی فطرت متاثر ہوجاتی ہے تو پورا انسانی سماج اس سے متاثر و بیمار ہوجاتا ہے۔

روحانی ضروریات کی تسکین کا حق
 عام طور سے انسانی حقوق کی فہرست میں انسانوں کی روحانی ضرورتوں کی فراہمی کے حق کو شامل نہیں کیا جاتا، مگر فطرت انسانی اور طبیعت بشری کا تقاضا ہے کہ ان کو بھی مادی ضروریات کی فراہمی کے حق کے ساتھ شامل کیا جائے بلکہ ان کو بسا اوقات زیادہ اہم درجہ اور زور دیا جائے، کیوں کہ مادی ضروریات کی تکمیل کے بعد بھی انسان روحانی طور سے ضرورت مند رہ جاتا ہے۔ بہر کیف اس سے تو کسی صاحب نظر کو انکار نہیں ہوسکتا کہ مادہ و جسم کے ساتھ روح و قلب کی ضرورتیں بھی لگی رہتی ہیں اور ان کی تسکین و تکمیل بھی ضروری ہے۔
 اسلام نے دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ تمام انسانوں کی روحانی ضروریات کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا، اس کے لیے مسلمانوں پر ذمہ داری عائد کی کہ وہ تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچائیں اور ان کو اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کریں۔ اگر پوری امت مسلمہ اس فریضہ کو انجام نہ دے تو کم از کم ایک جماعت یہ کام ضرور انجام دے۔ ارشادِ ربانی ہے:''ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر''
  اس آیت سے مسلمانوں پر غیر مسلموں کا یہ حق ثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔
 اسی طرح نو مسلموں اور دوسرے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا حق ہے جو بحیثیت مجموعی امت اسلامی اور اسلامی حکومت پر بالخصوص اور علما و اہل علم و فضل پر بالعموم عائد ہوتا ہے۔

چند اہم نکات:
١۔ اسلام کے عطا کردہ انسانی حقوق کے باب میں اولین نکتہ یہ ہے کہ وہ حکیم و دانا اللہ رب العزت کے عطا کر دہ ہیں، جب کہ موجودہ دور میں انسانی حقوق انسانی تہذیب و تمدن کے ایک خاص ارتقا اور ایک حد تک مغربی افکار کی دین ہیں، ان دونوں میں وہی فرق ہے جو ایک حکیم و رحیم مالک کل کی عطا میں اور ناقص انسان کی کوتاہ فکر میں ہوتاہے۔
٢۔ اسلامی انسانی حقوق انسانی کی فطرت کے عین مطابق ہیں اور ان میں اس کی پوری رعایت رکھی گئی ہے، جب کہ عصری انسانی حقوق میں انسانی فطرت کا کامل لحاظ نہیں کیا گیا ہے۔
٣۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ حقوق انسانی ایک فرد و شخص کی پوری زندگی کے تمام گوشوں اور زاویوں کا احاطہ کرتے ہیں، جب کہ مغربی حقوق انسانی صرف چند شعبوں سے سروکار رکھتے ہیں۔
٤۔ اسلام کے انسانی حقوق کا دائرہ بہت وسیع ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انسانی حیات کے تمام گوشوں کے علاوہ اس کے تمام ممکنہ حصوں پر حاوی ہیں۔ دراصل اسلام میں تمام قسم کے حقوق انسانی حقوق کے دائرہ کار میں آتے ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مذہب و دین، رنگ و نسل، خاندان و نسب، رشتہ و قرابت، علاقہ و ملک اور دوسری تمام بنیادوں کو اسلامی حقوق کی تشکیل میں سامنے رکھا ہے۔
٥۔ تاثیر کے لحاظ سے بھی اسلام کے انسانی حقوق کو قانونی اور دینی و اخلاقی دونوں طرح کی اہمیت و حیثیت حاصل ہے کہ اگر فرد، گروہ یا حکومت ان کی خلاف ورزی کرے تو نہ صرف مجرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے، بلکہ وہ اللہ کے یہاں گناہ گار اور دنیا و آخرت میں سزائے الٰہی کا مستحق ہوگا۔
٦۔ اسلام کے انسانی حقوق کی اہم ترین خصوصیت اور صفت یہ ہے کہ وہ آفاقی بھی ہیں اور ابدی بھی، بلکہ ازلی بھی۔ جس دن سے یہ دنیا اور انسان وجود میں آیا ہے، اسے یہ حقوق بلا مطالبہ عطا کر دیے گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عطا کر دیے گئے۔ ان میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
٧۔ آفاقیت کے نقطہ نظر سے اسلام تمام انسانوں کو ان کی انسانیت کے رشتہ و تعلق سے انسانی حقوق عطا کرتا ہے۔ وہ مسلم، غیر مسلم، علاقہ وطن، رنگ و نسل غرض یہ کہ کسی قسم کی تفریق نہیں کرتا جب کہ مغربی دستور صرف اپنی قوم، ملک یا علاقے کے لوگوں کو یہ حقوق عطا کرتا ہے جب کہ یہ حقوق دوسرے لوگوں یا انسانوں کو نہیں دیتا۔
٨۔ اس دوغلی پالیسی یا منافقانہ حکمت عملی کا سبب محض یہ ہے کہ ہر مغربی ملک کو محض
اپنے مفادات عزیز ہیں، اس لیے وہ ایک دوسرے کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نہ صرف یہ کہ نوٹس نہیں لیتے، بلکہ ایک دوسرے کے سیاہ کرتوتوں کی تائید کرتے ہیں۔ جب کہ اسلام تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتا ہے اور سب کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔
 ٩۔ اسلام کے انسانی حقوق کی بنیاد چوں کہ ''خیر الکل'' یعنی ''فلاح عام'' پر رکھی گئی ہے، اس لیے وہ ہر انسانی سماج کے تمام افراد، تمام طبقات اور تمام حکومتوں کی فلاح و بہبود کا خیال کرتے ہیں۔ پھر وہ کسی انسانی سماج میں طبقاتی تقسیم اور اونچ نیچ کا لحاظ نہیں کرتے۔

Thursday 10 November 2011

کیا یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے؟


!مکرمی
اس میں شک وشبہ کی گنجائش با لکل نہیں کہ مدارس ومساجدبر صغیر میں اسلام کے تحفظ وبقا کے مضبوط ذرائع ہیں، ہمارےبوریہ نشیں علما و اسلاف نے جس سادگی کے ساتھ دین کی خدمت انجام دی اس میں نام ونموداور جاہ طلبی کا دور دور تک شائبہ بھی نہ تھا،لیکن مقام حیرت وتاسف ہے کہ آج انھی اکابر واسلاف کے نام نہاد پیروکار سستی شہرت وجاہ طلبی کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں خواہ ان کو اس کے لیے مدارس ومساجد کی تعمیر ،ملت اسلامیہ کی بہبوداورغربا ومساکین کی اعانت کے نام پر دنیا بھرسے بٹوری گئی زکوۃ ،صدقات اورچرم قربانی کی رقوم کو پانی کی طرح کیوں نہ بہانا پڑے ،یہی نہیں چندہ دہندگان کے سامنے اپنی مقبولیت اور اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے بعض صاحب قلم سے اپنی زندگی کی روداد لکھواکراس کی تشہیر کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرکے سیاسی لیڈران ہی کو جمع کرنے پر قناعت نہیں کرتے ہیں ،بلکہ اس کا اجرا پٹنہ کے ایک مہنگےآڈیٹوریم (اے این سنہا)میںاس وزیر اعلی کے ہاتھوں کراتے ہیں جس نے بارہا انسانیت کے قاتل نریندرمودی سے ملایا ہے اور حال ہی میں پورے ہندستان کوفرقہ وارانہ فسادمیں جھونکنے والے بابری مسجد کومسمارکرکے جشن منانے والے اسلام ومسلمانوں کے ازلی دشمن لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کا افتتاح اسی سرزمین سے کرایاہے جہاں لالو پرسادکے دور اقتدار میں اس کو منھ کی کھانی پڑی تھی،اس کتاب میں امت کے فلاح وبہبود کی کیا ایسی  چیزیں ہیں وہ تو قارئین ہی اس کا مطالعہ کے بعدکریںگے ،راقم الحروف نے اس کے چند اوراق کو دیکھا تو اس کے مشمولات نے ماتم کرنے پر مجبور کردیا ،اس میں بیعت وخلافت کی فوٹو کاپی بھی شامل ہے،اس کا کیا مقصد ہے ؟ایک طرف  ان بوریہ نشیں عالموں سے بیعت وخلافت اور دوسری طرف اس کتاب کا اجرا انسانیت کے قاتل نریندر مودی کے دوست سے !’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘ ۔ہمارے اکابر واسلاف نے لامحدود کارنامے انجام دیے ،لیکن انھوں نے کبھی اپنی زندگی میں اس طرح کے کارناموں کانہ تو ڈھینڈورا پٹوایااور نہ جاہ طلبی کے لیے کسی سیاسی لیڈرکا سہارا لیا ۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف نے نام ونمود سے بے پروا ہوکرعلمی ودینی خدمات انجام دیں انھوں نے’نگہ بلند،سخن دلنواز ،جاں پرسوز‘کو اپنے لئے رخت سفر مانا ،نام ونمود ،جاہ و حشمت اور سستی شہرت کے تا عمر طلب گا رنہ ہوے ،ان کے تلامذہ نے حق شاگردی نبھاتے ہوئے ان کے کارناموں کو اجاگر کیااور ہونا بھی یہی چاہیے’مشک آں باشدکہ خود ببوید ،نہ کہ عطار بگوید‘لیکن آج علمی بے بضاعتی کے شکار چند شہرت پسند علما مدرسہ ،مسجد کی تعمیر ،اعانت غربا ومساکین کے نام پر نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک جاکر امراوروسا سے چندہ مانگتے ہیں اور جب خطیر رقم بٹور لیتے ہیں تو پھر اس کا نشہ سوار ہوتاہے اور اس وقت تک  ان کی طبیعت آسودہ نہیں ہوتی ہے ،جب تک کہ ’ان اللذین یاکلون اموال الیتامی ظلماما یاکلون فی بطونھم الا النار‘کے مطابق پوری رقم کو اپنے پیٹ کا ایندھن نہ بنالے،راقم الحروف کی ایسے سستی شہرت کے حریصوں سے درخواست ہے کہ خدارا ملت کے نام پر مختلف حیلوں ،حربوں سے بٹوری گئی رقم سے شکم پروری کی بجائے ملت کے لئے بھی کچھ کریںاور اپنے لئے بھی رخت سفر تیار کریں۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اترجائے تیرے دل میں مری بات

Wednesday 9 November 2011

مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت ’الہلال ‘کی روشنی میں

مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میںہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہنامہ’ لسان الصدق‘ جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا رسالہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔
مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں کانگریس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔ آپ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اخبار’الہلال‘ کے ذریعے مسلمانوں کو آزادئ ہند کی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔
انہوں نے مسلمانانِ ہند کو تنبیہ کی ، ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور ان کو بےحسی کے خواب سے بیدار کیا،انہوں نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ حکومت کے خلاف صف آراہوں اور علی گڑھ کی علیحدگی پسند سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے ملکی اور قومی سیاست میں عملاً حصہ لیں۔دسمبر 1913ء کے’الہلال‘ میں مسلمانوں کو تحریک آزادی میں شامل ہونے کیلئے وہ لکھتے ہیں :
 غفلت و سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہو چکیں
اب خدا کیلئے بستر مدہوشی سے سر اٹھا کر دیکھئے کہ آفتاب کہاں تک نکل آیا ہے؟
آپ کے ہمسفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں اور آپ کہاں پڑے ہیں؟
یہ نہ بھولئے کہ آپ اور کوئی نہیں بلکہ مسلم ہیں اور اسلام کی آواز آج آپ سے بہت سے مطالبات رکھتی ہے ،یاد رکھئے کہ ہندوؤں کے لئے ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنا داخل’حب الوطنی‘ ہے۔
تحریک آزادی میں’الہلال‘ نے جو خدمات انجام دی ہیں اس سے متعلق سیاسی بصیرت رکھنے والی کئی ایک ہستیوں نے اظہار خیال کیا ہے۔
چنانچہ نیاز فتح پوری اپنے ایک مضمون ’مولانا آزاد کی صحافتی عظمت‘ میں اظہار خیال کرتے ہیں :
’’مولانا نے الہلال بہت سوچ سمجھ کر جاری کیا تھا اور وہ ملک کے حالات کے نہایت غائر مطالعہ کا نتیجہ تھا۔ یہ فیصلہ تو الہلال کے اجراء سے قبل ہی وہ کر چکے تھے کہ ملک کو آزاد ہونا چاہئے اور فرنگی تسلط کو ختم۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ اس حقیقت سے بھی بےخبر نہ تھے کہ اس فیصلہ پر عمل کرنا بچوں کا کھیل نہیں اور یہ وہ راہ ہے جس میں ۔۔۔
شرائط اول قدم آن است کہ مجنوں باشی‘
وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جب تک ملک میں اجتماعی حیثیت سے ایک عام و مشترک جذبہء وطنیت پیدا کر کے مذہب و ملت کے اختلاف کو مٹایا نہ جائے حصول مقصود ممکن نہیں۔
ملک کی آئندہ سیاست کا جو نقشہ ان کے سامنے تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ تعمیر سے پہلے عملِ تخریب سے کام لیا جائے۔
کیونکہ مولانا کا نظریہ یہ تھا کہ : ’جب کوئی ڈھانچہ اتنا بگڑ جائے کہ اس کی اصلاح و مرمت ممکن نہ ہو تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے اس ڈھانچہ کو توڑا جائے اور پھر ازسرنو تعمیر کی جائے‘۔
وہ پرانے مٹے ہوئے نقوش اور کجی خطوط پر تعمیر کے قائل نہ تھے بلکہ وہ ان کو مٹا کر نئی داغ بیل پر عمارت قائم کرنے کے قائل تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب ذہن انسانی رسوم و روایات سے اس حد تک داغدار ہو جائے کہ اس کی اصلاح ممکن نہ ہو تو بہتر صورت یہی ہے کہ پہلے اس کے پرانے نقوش کو مٹایا جائے اور ذہن و دماغ کو صفحہء سادہ بنا کر اس پر دوسرے نقوش قائم کئے جائیں۔
جنگِ آزادی ہند کے عظیم سپہ سالار اورآزاد ہندوستان کے اوّلیں وزیرِ تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں ۔بہ قول مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ علیہ ،ہمارے ملک میں دوچار آدمیوں کی ایسی فہرست پوری احتیاط سے بنائی جائے جن پر’ جِینیَس ‘کا لفظ صحیح طور پر صادق آتا ہے ،تو میں پورے اعتماد وثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ مولانا آزاد کی جگہ اس میں محفو ظ میں رہے گی ۔نیز انھوں نے مولانا آزاد کی شخصیت پر یہ پیراگراف بڑے ہی خوب صورت پیرایے میں تحریر کیا ہے کہ :’’خودداری ،بصیرت ،اصا بتِ رائے،پختگی فکر،دقّتِ نظر،زہدوتقویٰ، ظاہر و باطن میں یکسانیت ،جہاد فی سبیل اللہ کا شوق ،جہدِ مسلسل کا ولولہ،پہاڑوں کی طرح بلند عزائم ،ستاروں کی طرح روشن خیالات ،چاند کی طرح شفاف کردار ،سورج کی طرح ہر ایک پر علم کی کرنیں ڈالنے کی خْو،سمندر کی طرح وسیع علم،زمین کی طرح ہموارگفتگو،دریاؤوں کی طرح رواںدواں طبیعت اور ہمہ گیر صلاحیتوں کے مجموعے کانام مولانا ابو الکلام آزاد تھا‘۔ آپ کو پورے عالم میں شہرت ملی ،۔آپ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے،آ پ نے اردو کے علاوہ عربی ،فارسی ،انگریزی ،ہندی اور بنگلہ میں اپنی شاعری کا جلوہ بکھیرا ہے آپ کے قادر الکلام شخصیت میں کسی کو کوئی شک وشبہ نہیں ،جب آپ بولتے تھے تو موتی رولتے تھے ،ایسا لگتا تھا کہ الفاظ لغات سے نکل نکل کر آپ کے دماغ کے نہا خانوں میں جاگْزیں ہو رہے ہیں اور وہاں سے صفائی حاصل کرکے آپ کی زبان کے راستے عوام تک پہنچتے تھے ،آپ کی خوش اسلوبی پر سامعین عش عش کرتے رہ جاتے تھے ،اسی بناپر انھیں ابو الکلام کے نام سے شہرت حاصل ہوئی ۔آپ کی تعلیمی خدمات کا ہر کس وناکس اعتراف کیے بغیر نہیں رہتا تھا ،آپ نے جو ہندوستانی اسکولوں کا نصاب مقر ر کیا تھا وہ بڑا ہی لائقِ تعر یف تھا ،انھی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومتِ ہند نے انھیں نوے کی دہائی میں ہندوستان کے سب سے عظیم اعزاز بھارت رتن سے نوازا تھا ۔ آپ کاخارجی مطالعہ اس قدر وسیع تھا کہ عالمی امور اور سیاست میں آپ کو یدِ طولیٰ حاصل تھا ،حقیت ہے کہ نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو، یدِ بیضائ لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں ،آپ کی خطابت کی سحر انگیزی ہی تھی کہ تاریخ کے صفحات میں بھی یہ رقم ہے کہ خالص اسلامی اجلاس جس میں مولانا کے مخاطب صرف مسلمان ہوتے اور ان کا موضوع دینی واسلامی ہوتا ،اس میں بھی سامعین میں ایک معتد بہ تعداد غیر مسلمین کی ہوتی ۔مولانا نے رام گڑھ کے کانگریس کے ایک اہم اجلاس میں جو وقیع خطبہ دیا تھا آئیے ذرا اس کے ایک پیراگراف پر ایک نظر ڈالتے ہیں :’میں مسلمان ہو ں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کے تیرہ سو برس کی شان دارر وایتیں میرے وِرثے میں آئی ہیں ، میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم ،اسلام کی تاریخ ،اسلام کے علوم و فنون،اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں،بہ حیثیتِ مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتاہوںاور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے ،لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتاہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا،اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی ،بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے ،میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں،میں ہندوستان کی ایک ناقابلِ تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں ،میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ،میں اس کی تکوین کا ایک ناگزیر عامل فیکٹر ہوں ،میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا ۔ہم تو اپنے ساتھ کچھ ذخیرے لائے تھے ،اور یہ سر زمین بھی ذخیروں سے مالا مال تھی ،ہم نے اپنی دولت اس کے حوالے کردی اور اس نے اپنے خزانوں کے دروازے ہم پر کھول دئیے ،ہم نے اسے اسلام کے ذخیرے کی وہ سب سے زیادہ قیمتی چیز دے دی جس کی اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی،ہم نے اسے جمہوریت اور انسانی مساوات کا پیام پہنچادیا‘۔  مولانا ابو الکلام آزاد مسلمانوں کے مضبوط دینی اعتقاد ،ان کے ٹھوس مسلکی مزاج اور ان کے دلوں میں موجزن ،پائے دار جذبہ جہاد کو انگریز کے خلاف خاتمے کا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے تھے،کیوں کہ وہ ہر وقت یہ کہتے تھے کہ مجھے اے ہم نشین رہنے دے شغلِ سینہ کاوی میں کہ میں داغِ محبت کو نمایا ں کر کے چھوڑوں گا جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا آخر میں آئیے ہم مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ کے اس پیراگراف میں نظر دوڑاتے ہیں جس میں وہ مولانا آزادکی شان میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیںکہ :’مولانا آزاد مسلمانوں کے الگ وطن کے ہرگز مخالف نہ تھے،جیسا کہ ان کے سیاسی مخالفین نے مشہور کر رکھا ہے ،اصل بات یہ تھی وہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد اور ریاست کے تصور کے حامی تھے ، اور ایسی ہی ریاست ان کا منتہائے مقصود تھی،جن دنوں ہندوستان منقسم ہو رہاتھا،انھوںنے سرحدوں پر پہرہ دیا تاکہ مسلمان قافلوں کا کوئی نقصان نہ ہواور پاکستان بننے کے بعد وہ اس کی وسعت اور سلامتی کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہے ،کاش مولانا آزاد پر اسلامی ریاست کی مخالفت کا الزام لگانے والوں کو یہ حقیقت بھی معلوم ہو جائے کہ آزاد راتوں کو اْٹھ اْٹھ کر شراب نہیں پیتے تھے بلکہ وہ تنہائیوں میں مسلمانوں کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے رہتے تھے،اور ان کی ہر دعائے نیم شبی میں پاکستان کے مسلمان شامل رہے ،یہاں تک انھیں خدا نے اپنے پاس بلا لیا۔