Sunday 1 January 2012

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

کیامسلمان اتر پردیش کی سیاسی تقدیر بدل پائیں گے ؟

محمد جسیم الدین قاسمی
اتر پردیش کے اسمبلی الیکشن کا جو منظر نامہ ہے اس سے بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ اس با ر کسی ایک پارٹی کو ایسی وا ضح اکثریت حاصل ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،یہ سبھی پارٹیاں جانتی ہیں کہ یوپی میں وہی پارٹی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرسکتی ہے ،جس کا سپورٹ یوپی کے ۲۰ فیصد مسلمان کریں گے۔اسی ۲۰فیصد ووٹ کو اپنے حق میں مختص کرانے کے لیےکیا کانگریس ،کیا سماجوادی،کیا بہوجن سماج پارٹی نے ہر ایک مسلمانوں کے در پر یا پھر ان کے ووٹ کے سوداگروں کے پاس جبیں سائی شروع کردی ہے۔کیا اس بار پھر مسلمان دھوکہ کھائیں گے اور اپنا ووٹ یونہی بے کار کریں گے یا ہوش کا ناخن لے کر ان پارٹیوں کو سبق سکھائیں گے ،جنھوں نے انھیں زندگی کے ہر محاذ پر دھوکہ دیا ہے۔انھیں تعلیم ،ترقی اور روشنی سے دور رکھا ہے۔آج بھی یوپی کے مسلمان بےروزگای کی مار جھیل رہے ہیں ،ان کے گاؤوں میں بجلی نہیں ہے،ہرپارٹی الیکشن سے پہلے مسلمانوں کو رجھانے کے لیے قسم قسم کے وعدے کرتے ہوئے نہیں تھکتی ،لیکن الیکشن میں میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہی ان سے آنکھیں پھیر لیتی ہیں ۔ہندوستان کے جمہوریہ بننے کے بعد ۱۹۵۱میں پہلی بار اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے، تو کانگریس نے۳۸۸سیٹیں جیت کر حکومت بنائی تھی۔ اس وقت سماجوادی پارٹی کو۲۰سیٹیں اور جن سنگھ (موجودہ بی جے پی) کے حصے میں محض دو سیٹیں آئی تھیں۔ وقت گزرتا گیا اور۲۰۰۷ تک آتے آتے سیاسی جماعتوں کے مبینہ اعداد و شمار پوری طرح پلٹ گئے۔۲۰۰۷ کے اسمبلی انتخابات میں اول نمبر کی قومی پارٹی کانگریس محض۲۲ سیٹوں پر سمٹ کر چوتھے درجے کی جماعت بن گئی اور ایک نئی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، جس نے ۱۹۸۹ کے اسمبلی انتخابات میں غیر تسلیم شدہ رجسٹرڈ پارٹی کی حیثیت سے حصہ لیا تھا، وہ۲۰۶ سیٹیں جیٹ کر اول نمبر کی پارٹی بن کر پوری اکثریت کے ساتھ اتر پردیش کے تخت و تاج پر قابض ہو گئی۔ ۱۹۵۱ء سے۲۰۰۷ء تک اتر پردیش کے عوام نے کانگریس کے علاوہ جنتا پارٹی، سماجوادی پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو ریاست کی باگ ڈور سونپی، مگر کسی پارٹی اور حکومت نے ان کی فلاح و بہود کے لیے نہیں سوچا۔ ان کی بدحالی، بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے لیڈران نے وعدے تو خوب کیے، لیکن عملی طور پر سب کے سب نکمّے ہی ثابت ہوئے۔جو مسلمان ایک ہزار برس تک ہندستان پر حکومت کرتا رہا،جس نے جدید بھارت کی تعمیرکی،آج اسی مسلمان کی حالت اس کے اپنے دیش میں دلتوں سے بھی بدتر کیوں ہیں ،اس کے بچے دردرکی ٹھوکریںکھانے پر مجبور کیوں ہیں،ان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پولیس کیوں گرفتار کرکے ان کی زندگی سے کھلواڑ کررہی ہے ،مسلمانوں کی اس حالت کے لیے ذمہ دار کون ہے؟کیا مسلمان اپنی سنہری تاریخ کو ذہن نشیں رکھتے ہوئے ان مفاد پرست سوداگروںکو سبق سکھانے کی ہمت کریں گے ،جنھون نے ان کی ترقی کے نام پر ان کے خون کو اپنی غذا بنالی،آج سچائی سے منھ چرانے کا کسی کے پاس کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے،سچائی اظہر من الشمس ہے۔مسلمانوں کو اس ملک کے جمہوری نظام نے یہ حسین موقع دیا ہے کہ وی اس بار ان پارٹیوں کو پہلے معافی مانگنے کے لیے مجبور کریں ،جنھوں نے ان کے ووٹوں کے سہارے اقتدار میں جگہ بنائی اور انھی کے سر پر جوتے برسائی۔آج اگر مسلمان اپنے ووٹ کی طاقت سے پوری طرح واقف ہوجائے تو بعیدنہیں کہ ان کی سیاسی وسماجی تقدیر بدل جائے۔
jasimqasmi@gmail.com