Wednesday 12 December 2012


كیسینجر كا جهاز اورشاه فیصل كی دوركعتیں
كهاں گئی وه غیرت ایمانی اور كرداركی عظمت؟

محمد جسیم الدین ریسرچ اسكالر شعبه عربی دهلی یونیورسٹی،دهلی

عربوں کی اسرائیل کے ساتھ 1973 میں لڑی گئی مشہورِ زمانہ جنگ یوم کپور یا جنگِ اکتوبر میں امریکہ اگر پسِ پردہ اسرئیل کی امداد نہ کرتا تو مؤرخین لکھتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ فخر کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے بھی مقدور بھر حصہ لے کر تاریخ میں پنا نام امر کیا۔اس جنگ کے دوران شا ه فیصل مرحوم نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے تیل کی پیداوارکو بند کردیا تھا، ان کا یہ مشہور قول (ہمارے آباء و اجداد نے اپنی زندگیاں دودھ اور کھجور کھا کر گزار ی تھیں، آج اگر ہمیں بھی ایسا کرنا پڑ جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا) اپنی ایک علیٰحدہ ہی تاریخ رکھتا ہے۔شا ه فیصل مرحوم کا یہ فیصلہ امریکہ کیلئے ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا تھا جس کو تبدیل کرنے کی ہر امریکی تدبیر ناکام ہو رہی تھی۔ امریکی وزیرِ خارجہ کسنجر نے شا ه فیصل مرحوم سے 1973 میں اسی سلسے میں جدہ میں ایک ملاقات کی۔تیل کی پیداوار کو دوبارہ شروع کرنے میں قائل کرنے کی ناکامی کے بعد کسنجر نے گفتگو کو ایک جذباتی موڑ دینے کی کوشش کرتے ہوئے شا ه فیصل مرحوم سے کہا کہ اے معزز بادشاہ، میرا جہاز ایندھن نہ ہونے کے سبب آپ کے ہوائی اڈے پر ناکارہ کھڑا ہے، کیا آپ اس میں تیل بھرنے کاحکم نہیں دیں گے ؟
دیکھ لیجئےکہ میں آپ کو اسکی ہر قسم کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہوں۔ کسنجر خود لکھتا ہے کہ میری اس بات سے ملک فیصل مرحوم کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی مسکراہٹ تک نہ آئی، سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنا جذبات سے عاری چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہامیں ایک عمر رسیدہ اور ضعیف آدمی ہوں، میری ایک ہی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے مسجد اقصی میں نماز کی دو رکعتیں پڑھ لوں، میری اس خواہش کو پورا کرنے میں تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو؟

Wednesday 4 July 2012

عبدالعزیز ابن سعود



Ibn Saud of Saudi Arabia

Ibn Saud of Saudi Arabia
سعودی عرب کے صدر
ابن سعود دور مصر کے موقع پر شاہ فاروق کے ہمراہنجد کا سعودی خاندان انیسویں صدی کے آغاز میں جزیرہ نمائے عرب کے بہت بڑے حصے پر قابض ہو گیا تھا لیکن مصری حکمران محمد علی پاشا نے آل سعود کی ان حکومت کو 1818 میں ختم کردیا تھا۔
سعودی خاندان کے افراد اس کے بعد تقریبا 80 سال پریشان پھرتے رہے یہاں تک کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں اسی خاندان میں ایک اور زبردست شخصیت پیدا ہوئی جس کا نام عبدالعزیز ابن سعود تھا جو عام طور پر سلطان ابن سعود کے نام سے مشہور ہیں۔
سعودی حکومت کا قیام
ابن سعود انیسویں صدی کے آخر میں اپنے باپ کے ساتھ عرب کے ایک ساحلی شہر کویت میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ وہ بڑے با حوصلہ انسان تھے اور اس دھن میں رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آبا و اجداد کی کھوئی ہوئی حکومت دوبارہ حاصل کرلیں۔
آخر کار 1902 میں جبکہ ان کی عمر تیس سال تھی، انہوں نے صرف 25 ساتھیوں کی مدد سے نجد کے صدر مقام ریاض پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے باقی نجد بھی فتح کرلیا۔ 1913 میں ابن سعود نے خلیج فارس کے ساحلی صوبے الحسا پر جو عثمانی ترکوں کے زیر اثر تھا، قبضہ کرلیا۔
اس کے بعد یورپ میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی جس کے دوران ابن سعود نے برطانیہ سے دوستانہ تعلقات تو قائم رکھے لیکن ترکوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد شریف حسین نے خلیفہ بننے کا اعلان کردیا تو ابن سعود نے حجاز پر بھرپور حملہ کردیا اور چار ماہ کے اندر پورے حجاز پر قبضہ کرلیا اور 8 جنوری 1926 کو ابن سعود نے حجاز کا بادشاہ بننے کا اعلان کردیا۔
سب سے پہلے جس ملک نے ابن سعود کی بادشاہت کو تسلیم کیا وہ روس تھا۔ روس نے 11 فروری 1926 کو حجاز و نجد پر سعودی حکومت کو تسلیم کیا لیکن برطانیہ نے تاخیر سے کام لیا اور معاہدہ جدہ کے بعد تسلیم کیا۔ اس طرح سعودی مملکت اپنے زوال کے ایک سو سال بعد ایک بار پھر پوری قوت سے ابھر آئی اور عرب کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔
موتمر اسلامی
مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں پر قبضے کے بعد ابن سعود نے خلیفہ بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ حجاز کا انتظام سنبھالنے اور جدید دور کے مسائل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے 13 تا 19 مئی 1926 کے درمیان ساری دنیا کے مسلمان رہنمائوں پر مشتمل ایک موتمر اسلامی طلب کی جس میں تیرہ اسلامی ملکوں نے شرکت کی۔
موتمر میں اسلامی ہند کے ایک وفد نے بھی شرکت کی جس کی سب سے ممتاز شخصیت مولانا محمد علی جوہر تھے۔ اگرچہ یہ موتمر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکی لیکن اتحادِ اسلامی کی تحریک میں اس کو ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مسلمانوں کا پہلا بین الاقوامی اجتماع تھا جسے ایک سربراہ مملکت نے طلب کیا تھا۔
تنازع یمن
1930 میں ابن سعود نے عسیر اور نجران کے علاقوں کو بھی سعودی مملکت میں شامل کرلیا۔ یہ دونوں علاقے چونکہ یمن کی سرحد پر واقع تھے اور ان پر یمن کا بھی دعوی تھا اس لیے سعودی عرب کا یمن سے تصادم ہو گیا۔ سعودی عرب کی فوجوں نے جو یمن کی فوجوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور دینی جذبے سے سرشار تھیں، یمن کو بھی شکست دے دی اور 1934 میں یمن کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا لیکن اسی سال بعض ممتاز مسلمانوں کی کوششوں سے جن میں امیر شکیب ارسلان کا نام قابل ذکر ہے، طائف میں سعودی عرب اور یمن کے درمیان 20 مئی 1934 کو ایک معاہدہ ہو گیا اور سعودی فوجوں کو یمن سے واپس بلا لیا گیا۔
سعودی افواج نے اس سے پہلے اردن کو بھی اپنے دائر اقتدار میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انگریزوں کے دبائوکی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اگر ابن سعود اردن اور یمن کی مہمات میں کامیاب ہوجاتے تو پورا جزیرہ نمائے عرب ان کے تحت آجاتا لیکن اس وقت بھی ابن سعود کی حکومت رقبے کے لحاظ سے ایشیا میں سب سے بڑی عرب حکومت تھی اور یمن، عمان اور بعض ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر پورے جزیرہ نمائے عرب پر سعودی بالادستی قائم تھی۔
22 ستمبر 1932 کو نجد و حجاز کی اس نئی حکومت کو سعودی عرب کا نام دیا گیا۔
اصلاحات
ابن سعود اور ان کے نجدی ساتھی چونکہ محمد بن عبدالوہاب کے پیرو تھے، جو ایک عظیم مصلح تھے، اس لیے ابن سعود نے اسلامی تعلیمات پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کی۔ ابن سعود بادشاہت کو تو ختم نہ کرسکے لیکن وہ سارے کام علما کی ایک مجلس سے مشورے سے انجام دیتے تھے اور انہوں نے اس کی پوری کوشش کی کہ ملک میں اسلامی احکام پر عمل کیا جائے۔
انہوں نے سارے ملک میں شراب کی خرید و فروخت بند کردی جو ترکوں کے دور میں حجاز وغیرہ میں عام ہو گئی تھی۔ ابن سعود جب تک زندہ رہے دوسری معاشرتی برائیوں کو بھی پھیلنے کا موقع نہ دیا۔ دینی تعلیم کے فروغ کے لیے 1948 میں جامعہ ازہر کے طرز پر ایک فقہ کالج قائم کیا۔
ابن سعود میں تدبر اور انتظامی صلاحیت کی وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک بانی حکومت میں ہونی چاہئیں۔ انہوں نے اپنے پڑوسی ممالک سے جھگڑے طے کرنے میں جس دور اندیشی، اعتدال پسندی اور وسعت قلبی کا ثبوت دیا، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
ان کے بڑے کارناموں میں عرب کے خانہ بدوشوں کو بستیوں میں آباد کرنا اور انہیں زراعت پر مائل کرنا تھا جبکہ ان کی حکومت نے لوگوں کی اخلاقی تربیت کا بھی انتظام کیا۔ ابن سعود کا ایک اور کارنامہ ملک میں امن و امان کا قیام ہے حتی کہ مورخین نے یہ تک لکھا ہے کہ سرزمین عرب میں کامل امن و امان قائم کرنے میں تاریخ میں صرف دو آدمی کامیاب ہوئے۔
ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے ابن سعود چونکہ عرب کا بیشتر علاقہ ریگستان اور بنجر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اس لیے آمدنی کے ذرائع کم ہیں اس لیے سلطان ابن سعود ملک کو معاشی و تعلیمی لحاظ سے زیادہ ترقی نہ دے سکے لیکن ان کے آخری دور حکومت میں عرب میں مٹی کے تیل کے کنوئیں اس کثرت سے نکالے آئے کہ ملک کی کایا پلٹ گئی اور حکومت کو کروڑوں روپے سالانہ آمدنی ہونے لگی۔
تیل کی دریافت سے پہلے 1928 میں سعودی عرب کی کل آمدنی 70 لاکھ ڈالر تھی اور اس میں سے نصف رقم حاجیوں پر ٹیکس لگا کر وصول کی جاتی تھی لیکن ابن سعود کے عہد کے آخری دنوں میں صرف تیل سے ہونے والی آمدنی تین کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس فاضل آمدنی سے سلطان نے کئی مفید اور تعمیری کام کیے جن میں سب سے اہم کام ریل کی پٹری بچھانا تھا۔
یہ پٹری خلیج فارس کی بندرگاہ دمام سے دارالحکومت ریاض بچھائی گئی جو ساڑھے تین سو میل لمبی ہے اور 1951 میں مکمل ہوئی۔ ابن سعود کا 51 سالہ دور حکومت 1953 میں ان کے انتقال کے ساتھ ختم ہوا۔ وہ سعودی حکومت کے حقیقی بانی تھے اور انہوں نے ایک پسماندہ اور بے وسائل ملک کو جس طرح ترقی کے راستے پر ڈالا، اس کی وجہ سے ان کا شمار بلا شک و شبہ تاریخ اسلام کے ممتاز حکمرانوں میں ہوتا ہے۔
ابن سعود وہابی عقیدہ رکھتے تھے۔ انھوں نے حجاز پر قبضہ کرنے کے بعد جنت البقیع (مدینہ) میں صحابہ کرام اور اہل بیت کی قبروں کو مسمار کرادیا۔ سعودی عرب میں آجکل آل سعود ہی کی حکومت ہے۔

Saturday 16 June 2012

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات


آج  سائنس و ٹیکنا لوجی نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اور زندگی کے ہر شعبےمیں بے شمار ایجادات کا جس طرح نفوذ ہو گیا ہے، اس بنا پر کچھ ایسی فضا بن گئی ہے کہ  یہ  محسوس ہوتا ہے کہ  آپ کو اگر زندگی گزارنی ہے اور کام کرنا ہے تو آپ کے چاروں جانب  یہ چیزیں لازمی موجود ہوں ۔ جدیدایجادات  میں سے بہت سی کے معاشرتی اور معاشی اثرات اتنے  قبیح ہیں کہ مسلم معاشرے تو کجاغیر مسلم معاشرے کے شریف النفس لوگ بھی پریشان ہیں۔ ان میں سے ایک  کیبل  اور موبائل فون ہے ، کیبل  کا حقیقی فاعدہ تو کچھ نہیں، لیکن موبائل  کے فواعد سے سب  واقف ہیں،  اس نے ہمارے  زندگی میں بہت سی جگہوں پر آسانیاں پیدا کیں ہیں۔ لیکن ان  کے رائج  غیر معتدل استعمال نے ہمارے معاشرے کو گندگی کے جس راستے  پر ڈال دیا ہے اس کا انجام ایٹم بم سے بھی تباہ کن ہے۔ اہل نظر دیکھ رہے ہیں کہ یہ  کیبل ٹی وی چینل اور موبائل  نے آہستہ آہستہ خیر وشر کے پیمانےکس طرح بدل ڈالے ہیں،  موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے ایک نئی زبان ، نئی تہذیب ، خبیث رویے ،گناہ گار طرزِ گفتگو، بے ہودہ اشارے، کنارے اور جملے ایجاد کیے گئے ہیں اور  زبان، وبیان کی نزاکت اور لطافت کو اور طرز گفتگو سے نفاست ، طہارت ، شرافت کو بالکل رخصت کر دیا  گیاہے اور  سہولت کے نام پر زبان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے ۔ ان  ایجادات نے ہر شخص کو بخوشی آمادہ کر دیا کہ وہ ہمہ وقت دنیا کے آفات وآلام سے پُرہنگاموں، شوں شور، شور وشغب، سازشوں، دنیا پرستی، لذت طلبی، موج مستی، زرپرستی، شہوت انگیزی سے اپنی زندگی کا رشتہ خلوت وجلوت میں مسلسل جوڑے رکھے،  موبائل کی گھنٹیوں اور موسیقی نے تو  خانہ کعبہ، مسجد نبوی، مساجد، خانقاہوں کی پر سکون فضا کو بھی نہیں چھوڑا ۔اب تو  اس کے لغو اثرات مذہبی لوگوں پر بھی اس قدر حاوی ہو گئے ہیں کہ وہ ان مقدس مقامات کی طرف باربار  آنے کے باوجود اپنے فون کی گھنٹی بندکرنا بھو ل جاتے ہیں، جب لوگ دنیا جہاں کے بکھیڑوں سے خود کو نکال کر  رب کے ساتھ ہم کلام ہوئے  ہوتے ہیں فون کی گھنٹی ان مقدس لمحات کو پرزہ پرزہ کر دیتی ہے اور اب تو لوگ فون آجائے تو  مسجد چھوڑ کر   باہر آ کر  گپیں لگانے لگ جاتے ہیں، پھر ہنستے مسکراتے مسجد میں دوبارہ داخل ہوتے نظر ہیں اور   ان کے چہرے پر   خانہ خدا میں گانے بجنے پر ندامت  کے آثار تک نہیں ہوتے  ۔ ۔

اہم بات یہ ہے کہ اس حادثے کا اثر صرف  عوام پر ہی نہیں ہوا  بلکہ  ان  خبیث شیطانوں نے   بڑے بڑے مذہبی لوگوں کو بھی  خاموشی سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔ پہلے دور میں شریف گھرانوں کی لڑکیاں گھروں سے کم باہر نکلتی تھیں اس لیے ان کا کسی شر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی نہیں ہوتا تھا آج ان  موبائل کی کال، ایس ایم ایس کے ذریعےاور فلموں ڈراموں کے ذریعے  غیر لوگ ان کے کمروں میں داخل ہوگئے ہیں،   موبائل  نے انکی  خلوت تک گناہ کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔یہ لوگ جب چاہیں ان سے ہر طرح کی باتیں کرسکتے اور انہیں ڈسٹرب کرسکتے ہیں،  اچھے اچھے شریف گھرانوں کے لڑکیاں، لڑکے خلوت جلوت میں  غیر محرموں سے فون پر باتیں اور  میسج کرتے  نظر آتے ہیں۔ وہ لمحات جو ان کے عبادت ، خدمت، آرام میں گزرتے تھے آج  ان  خرافات اور گناہوں کی نظر ہیں  ،  ماں باپ موبائل فون کی آفتوں سے ناواقف ہیں یا بہت سادہ لوح ہیں، اس کے نتیجے میں ایک عجیب نسل پروان چڑھ رہی ہے ،لڑکے لڑکیوں کو آوارگی، آبروباختگی سکھانے کے لیے راتوں کو سستے سے سستے پیکج فراہم کیے گئے  ہیں اور  سونے جاگنے کے اوقات کو زیر وزبر کر دیا گیا  ہے ،  کم عمر لڑکے اور لڑکیاں اسکول، کالج، یونیورسٹی میں ہمہ وقت موبائل فون پر گفتگو کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، اور انکے   یہ محض انجوائے کرنے کے سلسلے رفتہ رفتہ ناجائز جنسی تعلق میں تبدیل ہو کر  بہت جگہوں پر حرامی نسلوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، اس وجہ سے  نجی ہسپتالوں  میں ناجائز حمل کو گرانے کا وسیع کاروبار  بھی عروج پر ہے، جہاں کالجوں کی لڑکیاں اپنے کالج کے لباس میں اسقاط حمل کے لیے قطار لگاتی ہیں اور اپنے زیورات بُندے چوڑیاں دے کر اس گناہ کی قیمت ادا کرتی ہیں او رپھر گھر جاکر والدین سے تھانوں میں ان چیزوں کی  چوری کی رپورٹ لکھواتی ہیں، دوسری  طرف  اس نشے کی خاطر بچیاں ، بچے ماں باپ کے پیسے چراتے ہیں، امیر رشتہ داروں کے گھر میں چوریاں کرتے ہیں، دوستوں کا مال چوری کرتے ہیں اوراگر یہ راستے بند ہو جائیں تو اپنی عزت کا سودا کرنے پر بخوبی آمادہ ہو جاتے ہیں ۔۔

حقیقت میں  یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ پوری پلاننگ کے ساتھ تہذیبی  گندگی کے اس  طوفان کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا  ہے جو خاموشی کیساتھ  شیطانیت کو ہر طرف  غالب کرتا جارہا ہے۔شاید یہی وجہ ان  کے کم قیمت اور آسان حصول کی بھی ہے ،  چند سال پہلے کیبل ٹی وی چینل چند شہروں تک محدود تھے اور ‘شوقین’ لوگ ڈش انٹینا استعمال کرتے تھے ، اب اس کے جال کو دوردراز کے دیہاتوں تک پھیلا دیا گیا ہے اور انتہائی غریب آدمی  بھی روز ایک فلم دیکھ کر سوتا ہے۔ یہی حال موبائل کا بھی ہے  کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے شہر سے امریکا چند منٹ کا فون چھ سو روپے میں ہوتاتھا ،اب صرف دس روپے میں ہو رہا ہے، چند برس پہلے کراچی چند منٹ کی کال چالیس روپے میں ہوتی تھی، اب دو سو روپے میں آپ پانچ ہزار منٹ بات کرسکتے ہیں ۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں آٹھ کروڑ موبائل فون زیر استعمال ہیں۔ پاکستان  اس وقت موبائل فون  کی  دنیا کی  بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے ، قیمتی قومی زر مبادلہ کو صرف بولو، بولتے رہو، جوچاہے بولو، کہو اور خوب کہو ، دل کھول کر بولو جیسے احمقانہ فلسفے کے فروغ کی خاطر تباہ کیا جارہا ہے ، وہ لوگ جن کے گھروں میں پیٹ بھر کر کھانامیسر نہیں ہے وہ بھی مسابقت کی دوڑ میں شرکت کے لیے اشتہارات سے  متاثر ہو کر موبائل فون خرید رہے ہیں اوراپنے پاؤں اپنی چادر سے باہر نکال رہے ہیں ۔موبائل اور کیبل کمپنیوں نے نے صرف چند  ہزار افراد کو روز گار فراہم کیا ، لیکن اربوں روپے کا زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کیا اور پاکستان کی مذہبی، تہذیبی ،اخلاقی ،اسلامی اقدار کو چند سالوں میں اس طرح تہس نہس کر دیا کہ اب کھربوں روپے خرچ کرکے بھی ان اقدار روایات رویوں کی بحالی ممکن نہیں۔
سب سے  بڑا المیہ  اور نقصان یہ ہورہا ہے کہ  ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ابھی تک ان  کی تباہی کو سمجھ ہی نہیں رہا کہ ان دونوں چیزوں  نے فرد، معیشت، معاشرت، اخلاقیات، ایمانیات کو کس طرح خاموشی سے تباہ کردیا ہے اور تباہی کے دہانے پر لے کر جارہا ہے ، ، ہم اس بارے  سوچنے، اسکو محسوس کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کررہے۔ ہم  نے بخوشی موبائل  اور کیبل کمپنیوں کو اپنی متاع ، معیشت، اوقات، خلوت، جلوت، غیرت آبرو لوٹنے کی غیر مشروط اجازت دے رکھی ہے ۔

میری اس ساری بحث کا مقصد  ہرگزیہ نہیں کہ میں جدید ٹیکنالوجی کے خلاف ہوں اور اسکو چھوڑنے کا کہہ رہا ہوں ،  میں تو اس کے رائج استعمال کی حدود پر بات کررہا ہوں، ضرورت بلکہ اشد ضرورت اس کی ہے کہ ہم  اس معاملے کو سنجیدگی سے  لیں اور اپنی نسل کو بچانے کے لیے کچھ سنجیدہ ایکشن لیں ۔ یہ بات بظاہر مشکل لگتی ہے لیکن  ان چیزوں  کے نتائج ایسے تباہ کن ہیں کہ  اگر ہمیں اس  آگ  سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانا ہے تو ہمیں لازمی کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑے گی۔ کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔
1.    بیس سال سے کم عمر لڑکے ، لڑکیوں  کو موبائل کی مکمل سہولت نہ دی جائے بلکہ اشد ضرورت (مثلا کہیں  سفر پر جائیں  وغیرہ ) کے وقت  مہیا کیا جائے۔ بڑے  بچے ،بچیوں کی مصروفیت ، سوسائٹی  کو چیک کیا جائے اور ان چیزوں کے استعمال میں انہیں حدود کا پابند بنایا جائے  ،مثلا رات   کو سونے کے متعین ٹائم کے بعد ان کے فون بند ہونے چاہیے  وغیرہ وغیرہ۔
2.    گھر میں عورتوں کی ضرورت کے لیے شیئرڈ موبائل رکھا جائے جسے ضرورت کے ٹائم سب استعمال کریں، اس سے وہ غیر معلوم کالوں کی چھیڑ خانی سے بھی بچی رہیں گیں اور ان کا ٹائم بھی فاعدہ مند کاموں میں لگے گا۔
3.    گھر  میں  اگر ٹی وی رکھنا ضروری ہے تو اس کو ایسے کمرے میں رکھا جائے  جہاں سب کا آنا جانا لگا رہتا ہو۔ انٹرنیٹ کے استعمال کے غلط استعمال کو بھی اسی طریقے سے روکا جاسکتا ہے۔
4.    اگر آپ بھائی ہیں تو اپنی بہنوں پر،، اگر بہن ہیں تو  چھوٹے بھائیوں پر، اگر ماں یا باپ ہیں تو اولاد پر نظررکھیں ، اپنا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے انکی  تربیت کریں اور اپنی اگلی نسلوں کو ذہنی اور فکری سطح پر اس قدر مضبوط سوچ دیں کہ وہ اپنے ارد گرد موجوداعتقاد، فکر او رعمل کے فتنوں اور حربوں کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ خود کو ان سے بچاتے ہوئے اپنے ارد گرد موجود لوگوں میں بھی اس حقیقی اور مضبوط فکر کو منتقل کر سکیں۔ جو چیزیں شریعتِ مطہّرہ نے حرام قرار دی ہیں، ان کی حرمت کودل و جان سے حرام سمجھیں، ان سے نہ صرف اجتناب برتیں بلکہ ان کے اثرات و رذائل سے نئی نسل کو بھی آگاہ کریں۔

امام شاطبی نے الموافقات میں لکھا ہے کہ شریعت کو دین، عقل، نفس، مال اور نسل کی حفاظت مطلوب ہے۔ ہمارا موبائل فون  اور ٹی وی ان سب کا دشمن ہے، اس کے کچھ فوری فائدے اپنی جگہ ہیں ، مزے کی بات یہ ہے کہ فوائد  اگر نہ بتائیں جائیں  تو انہیں خریدے  کون ؟ ، مزید فائدے تو شراب اورسود میں بھی ہیں، اس کا ذکر قرآن نے واضح الفاظ میں کیا ہے او رکہا ہے کہ اس کے نقصانات اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں، ؟ شر میں بھی بہت سے فائدے ہوتے ہیں لیکن اسلام میں کسی چیز کو قبول یارد کرنے کا اصول فائدہ نہیں، مقاصد شریعہ کا حصول ہے۔ جو شے اس مقصد سے مطابقت رکھے وہ ٹھیک ہے۔
 کیا کیبل ، ڈش اور  موبائل فون مقاصد شریعت کے لیے ساز گار ماحول فراہم کر رہا ہے؟
 کیا اس کے استعمال سے ہمارے دین، عقل ، نفس ، مال اور نسل کی حفاظت ممکن ہے؟
 اگر مقاصد شریعت کی حفاظت اس فون اور کیبل  کے استعمال سے ممکن نہیں ہے تو  ہم  کیوں محض چند غیر ضروری فواعد کے لیے اپنی نسلوں کی تباہی کی قربانی دینے پر تلے بیٹھے ہیں  ؟
 ہمیں اپنی اولاد  بھائیوں اور بہنوں پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے  انہی کی بہتری کے لیے انہیں  چیک کرنا  اور پابند بنانا ہوگا ورنہ ٹیکنا لوجی اور ترقی کے اس سیلاب میں وہ  یونہی بہتے چلے گے اور ہم نے اس کے آگے مضبوط فکر اور یقین کا بند نہ باندھا  تو ہم انکی تباہی کے بڑے ذمہ دار ہونگے اور پھر  ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

Thursday 14 June 2012

سنّت مقدسہ کا مقام اہل ایمان کی نظر میں



correct path
correct path
میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جاتاہوں،اگراُن پرثابت قدم رہوگے توگمراہی کبھی تمہارے قریب بھٹکنے نہ پائے گی۔ایک کتاب اللہ اوردوسری میری سنت۔ (الحاکم)
اللہ تعالیٰ آیت کریمہ میں فرماتاہے :
الیَومَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ أتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الإسْلاَمَ دِیْناً o
(سورۂ مائدہ:۵؍۳)
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیااور تم پراپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطورِ) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسندکرلیا۔

اسلام آخری الہامی دین ہے،اورمحمد عربی ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔اللہ کے رسول اورختم المرسلین ہیں۔(احزاب: ۴۰) شفقت،جنت اوررضاے الٰہی کے حصول کی خاطر اہل ایمان کوقرآن کی روشنی میں اخلاقی اقدار سیکھ کرانھیں برتناچاہیے تاکہ ممنوع ومباح اورحلال وحرام کے درمیان تمیزکرنے کاان میں شعوربیدارہو۔ المختصر خوشنودیِ الٰہی کا باعث بننے والی جملہ تفصیلات پرانھیں نورِ قرآن کے ذریعہ عبور حاصل کرلیناچاہیے ۔اہل ایمان کے لیے مالک کون ومکاں کے فضل فراواں کی ایک اورسوغات‘ سنت نبوی ہے۔

بلاشبہہ نبی کریم ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی ذات ستودہ صفات ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے سراپا اخلاق وکرداربناکرعالم انسانیت کے لیے مبعوث فرمایاہے ۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُوْلِ اللّٰہِ أسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَ الْیَومَ الآخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا (سورۂ احزاب:۳۳؍۲۱)
بلاشبہہ تمہارے لیے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ(حیات)ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ(سے ملنے)کی اور یوم آخرت کی امیدرکھتاہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتاہے۔
رسولِ کریم۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ ایمان وعمل ،تقویٰ وطہارت اور علم واخلاق بہراعتبار جملہ اہل ایمان کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔آپ صبروتحمل ،تعلق باللہ ،حوصلہ ،اخلاص ، تقرب الٰہی ،عدل وانصاف،شفقت ومروت، محبت ومودت ، دوراندیشی جیسی اعلیٰ صفات سے مزین تھے،جس کے چرچے زبان زدِ خاص وعام ہیں۔ جملہ اہل ایمان ان خصائص وامتیازات کو اپنی زندگی میں رچانے بسانے کی کوشش کرتے ہیں۔رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کے کرداروعمل کو اپنانا قرآن کے ضابطہ اخلاق کو اپنانے کے مرادف ہے۔ان وجوہات کی بناپر حضور اقدس۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کے تمام اقوال ، فیصلے ،سفارشات،نصیحتیں اورحیات طیبہ بالفاظِ دیگرسنت نبوی ان تمام حضرات کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے جوقرآن سمجھنے اوراس کے سانچے میں ڈھلی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتباعِ رسول اور آپ کے نقش قدم پرجادہ پیمائی کی اہمیت کومتعددآیتوں میں بیان فرمایاہے، ان میں سے ملاحظہ فرمائیں :
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَا أرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظاًO (سورۂ نساء:۴؍۸۰)
جس نے رسول کاحکم مانابیشک اس نے اللہ(ہی) کاحکم مانا، اور جس نے روگردانی کی توہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ایک اہم نشانی اطاعت نبوی ہے۔وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیاہے ۔اگرکوئی شخص مشیت الٰہی سے جادۂ حق پر گامزن ہوناچاہے تواس کوپیغمبرکی اطاعت کرکے ان کے بتائے ہوئے طریقے پرجادہ پیماہوناضروری ہے۔پروردگارِ عالم درج ذیل آیت میں اس حقیقت کویوں بیان فرماتاہے :
کَذَالِکَ أرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولاً مِّنْکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ o (سورۂ بقرہ:۲؍۱۵۱)
اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمھیں میں سے (اپنا)رسول بھیجاجو تم پرہماری آیتیں تلاوت فرماتاہے اور تمھیں (نفساًوقلباً)پاک صاف کرتاہے اور تمھیں کتاب کی تعلیم دیتاہے اور حکمت ودانائی سکھاتاہے اور تمھیں وہ (اسرارِمعرفت وحقیقت)سکھاتاہے جو تم نہ جانتے تھے۔

علماے کرام اس بات پرمتفق ہیں کہ اس آیت میں لفظ’’حکمت‘‘ سے مراد سنت نبوی ہے۔
اہل ایمان کوحکم ہوتاہے کہ وہ اختلافی مسائل میں قرآن اور سنت نبوی کواپناحکم بنائیں :
فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤمِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِي أنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا o (سورۂ نساء:۴؍ ۶۵)
پس(اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم!یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہراختلاف میں آپ کو حاکم نہ بنالیں پھر اس فیصلہ سے جوآپ صادر فرمادیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو)بخوشی پوری فرماں برداری کے ساتھ قبول نہ کرلیں۔

اس آیت مبارکہ میں پورے طورپرواضح فرمادیاگیاہے کہ رسول مکرم۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ کی سنتوں پرعمل پیراہونا اہل ایمان کے فرائض میں داخل ہے،کیوں کہ سنت ‘مفاہیم قرآنی کی تشریح وتوضیح ہے۔لہٰذاکسی مسلمان مردوعورت کو سنت نبوی مستردکرنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا۔قرآن کے اندریہ تعلیم وہدایت موجودہے :
وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لاَ مُؤمِنَۃٍ إذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُولُہُ أمْرًا أنْ یَّکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أمْرِہِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِینًا o (سورۂ احزاب:۳۳؍۳۶)
اور نہ کسی مومن مردکو(یہ)حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یاحکم)فرمادیں تو ان کے لیے اپنے(اس)کام میں(کرنے یانہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کی نافرمانی کرتاہے تو وہ یقیناًکھلی گمراہی میں بھٹک گیا۔
مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتہُوا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ إنَّ اللّٰہَ شَدِیدُ العِقَابِo (سورۂ حشر:۵۹؍۷)
اور جو کچھ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) تمھیں عطافرمائیں سو اسے لے لیا کرو اور جس سے تمھیں منع فرمائیں سو ( اس سے) رُک جایاکرو،اور اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔
إنَّمَا کَانَ قَولَ الْمُؤمِنِیْنَ إذَا دُعُوا إلَی اللّٰہِ وَ رَسُولِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ أنْ یَّقُولُوا سَمِعْنَا وَ أطَعْنَا وَ أولٰءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ o (سورۂ نور:۲۴؍۵۱)
ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا،اور ہم(سراپا)اطاعت پیراہوگئے،اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی اطاعت اور آپ کی ہدایات پر عمل اس بات کی علامت ہے کہ بندہ تہِ دل سے معمولاتِ دین پرمصروفِ عمل ہے۔اگر ایک شخص اپنارشتہ عقیدت‘ رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی سنتوں کے ساتھ مربوط کرکے آپ کی جاری کردہ ہدایات کے بارے میں اپنے دل کے کسی گوشہ میں کسی قسم کاکوئی شبہہ محسوس نہ کرے تو یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ وہ درحقیقت احکام الٰہی پرکاربندہے۔بالفاظِ دیگر :
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ o إنْ ہُوَ إلاَّ وَحْيٌ یُّوحٰی o (سورۂ نجم: ۵۳؍۳تا۴)
اور وہ (اپنی )خواہش سے کلام نہیں کرتے، ان کا ارشاد سراسروحی ہوتاہے جو انھیں کی جاتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح فرمادیاکہ رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ کاکہاوحی الٰہی ہوتاہے،اور آپ کے ہرلفظ کی قدرتی طورپرحفاظت ہوتی ہے۔بلاشبہہ ایک حدیث پاک میں نبی کریم ۔علیہ السلام ۔نے اپنے نقش قدم پرچلنے والوں کے مقام ومرتبہ کومتعین فرمایاہے ،خاص طورپرہماری پیش آمدہ نسلوں کواس مسئلہ پربہت ہی حساس ہوناچاہیے۔
میرے دنیاسے پردہ فرماجانے کے بعد تم بہت سے اختلافات اور ناچاکیاں دیکھوگے(ایسے نازک موقع پر) تم میری اور خلفاے راشدین کی سنت پرثابت قدمی سے گامزن ہوجاؤ،اورانھیں مضبوطی کے ساتھ دانتوں سے چمٹائے رکھو،نیز نئی چیزیں ایجاد کرنے سے بچوکیوں کہ ہرنئی چیزبدعت ہوتی ہے اوربدعت گمراہی ہے۔ (سنن ابوداؤد ، حدیث :۳۹۹۱ بروایت عرباض بن ساریہ)
بہترین کلام‘کلامِ الٰہی ہے،اوربہترین ہدایت‘ہدایت محمدی۔ (سنن ابن ماجہ،مقدمہ:۷حدیث:۴۴)

مزید برآں یہ بات بھی حاشیہ ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ سنت نبوی اورمنہاجِ رسول ہی وہ سرمایہ ہے جس سے اہل ایمان حیات جاودانی سے شادکام ہوسکیں گے ۔ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اسْتَجِیْبُوا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُولِ إذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَ اعْلَمُوا أنَّ اللّٰہَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہٖ وَ أنَّہُ إلَیْہِ تُحْشَرُونَ o (سورۂ انفال:۸؍ ۲۴)
اے ایمان والو!جب(بھی) رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)تمھیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمھیں (جاودانی) زندگی عطاکرتاہوتواللہ اوررسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کو فرماں برداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے(فوراً) حاضر ہوجایاکرو،اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان(شانِ قربت خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتاہے اور یہ کہ تم سب(بالآخر)اسی کی طرف جمع کیے جاؤگے۔
اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ جادۂ رسول پرقائم ودائم رہیں،اور دائرۂ سنت میں رہ کر اس یقین کے ساتھ زندگی گزاریں کہ سنت ہی حیات جاوداں کاوسیلہ ہے۔اگرکوئی بہشت الٰہی اوررحمت خداوندی کاآرزومندہے تواسے اپنے قصرحیات کی بنیادسنت نبوی پراستوار کرنی چاہیے۔قرآن اور اسوۂ رسول کو اپناخضراہ بنالینے والاہی درحقیقت راہِ راست پرہے ۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کاذکرخیرفرمایاہے جواپنی عمارت کی ٹھوس بنیادیں اسی نہج پررکھتے ہیں :

أَ فَمَنْ أسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلٰی تَقْوَی مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ أمْ مَّنْ أسَّسَ بُنْیَانُہُ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہٖ فِي نَارِ جَہَنَّمَ وَ اللّٰہُ لاَ یَہْدِي الْقَومَ الظَّالِمِیْنَ o (سورۂ توبہ: ۹؍۱۰۹)
بھلا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاداللہ سے ڈرنے اور (اس کی )رضاوخوشنودی پررکھی، بہترہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایسے گڑھے کے کنارے پر رکھی جوگرنے والاہے۔سو وہ (عمارت) اس معیار کے ساتھ ہی آتش دوزخ میں گرپڑی،اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔

تقوئ الٰہی کی اساس پراپنے عمل کی عمارت تعمیرکرنے والا اور رضاے خداوندی کے حصول میں سرگرداں شخص ہی رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ کاسچافرماں برداراور ایمان وعمل میں آپ کاحقیقی پیروکارکہے جانے کے لائق ہے ۔ رسول اکرم ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی راہ چلنا اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب انسان قرآن سے اپنارابطہ مستحکم کرکے پورے طور پر سنت مقدسہ پرقائم ودائم ہوجائے۔

قربانی کاحکم



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قربانی کے دن ابن آدم کے اعمال میں سے کوئی عمل اللہ کے یہاں قربانی کے خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے، قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، بے شک خون اللہ کے یہاں زمین پر گرنے سے پہلے قبول ہوجاتا ہے لہذا خوش دلی کے ساتھ قربانی دو۔
حوالہ
مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مَنْ عَمِلٍ یَوْمَ النَّحْرِأَحَبَّ اِلٰی اللہ مِنْ اهْرَاقِ الدَّمِ، اِنَّہا لَتَأتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَاوأَشْعَارِھَا، وَأَظْلاَفِھَا، وَاِنَّ الدَّمْ لَیَقَعُ بِمَکَان قَبْلَ أَنْ یَّقَعَ بِالْأَرْضِ، فَطِیْبُوْابِھَانَفْسًا (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْأُضْحِيَّةِ)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس وسعت ہو اور قربانی نہ دے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ ہو۔
حوالہ
مَنْ کَانَ لَہٗ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرُبَنَّ مُصَلاَّنَا (ابن ماجه بَاب الْأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا )
اضحیہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے عیدالاضحیٰ کے دن ذبح کیا جاتا ہے۔
حوالہ
(المصباح المنير)
اضحیہ کے شرعی معنی ہیں:مخصوص جانور کا مخصوص وقت میں عبادت کی نیت سے ذبح کرنا۔
حوالہ
(التعريفات)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قربانی واجب ہے اور اسی پر فتوی ہے،اور صاحبين رحمہما اللہ کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے ۔
حوالہ
(بدائع الصنائع كتاب التضحية )
قربانی ان لوگوں پر واجب ہے جن میں مندرجہ ذیل شرطیں پائی جائیں۔
مسلمان ہو: کافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔
حوالہ
مِنْهَا الْإِسْلَامُ فَلَا تَجِبُ عَلَى الْكَافِرِ لِأَنَّهَا قُرْبَةٌ وَالْكَافِرُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الْقُرَبِ (بدائع الصنائع فَصْل فِي شَرَائِطِ وُجُوبِ فِي الْأُضْحِيَّةَ: ۲۵۰/۱۰)عن أَنَس أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ هَذَا الْكِتَابَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْبَحْرَيْنِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمسلمينَ (بخاري بَاب زَكَاةِ الْغَنَمِ)۔
آزاد ہو: غلام پر قربانی واجب نہیں ۔
حوالہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ :لَيْسَ فِي مَالِ الْعَبْدِ زَكَاةٌ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي مَالِ الْعَبْدِ ، مَنْ قَالَ لَيْسَ فِيهِ زَكَاةٌ)
مقیم ہو:مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔
حوالہ
عن إبراهيم قال رخص للحاج والمسافر في أن لا يضحي
(مصنف عبد الرزاق باب الضحايا )
مالدار ہو: فقیر پر قربانی واجب نہیں ہے۔
حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا
(ابن ماجه بَاب الْأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا )
قربانی کے واجب ہونے کے لئے نصاب پر مکمل سال کا گذرنا شرط نہیں ہے؛ بلکہ قربانی اس وقت واجب ہوتی ہے جبکہ مسلمان عیدالاضحی کے دن اپنی ضروریات اصلیہ کے علاوہ مقدار نصاب کا مالک ہو۔
حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا
(مسند احمد مسند أبي هريرة رضي الله عنه)
قربانی کاوقت
قربانی کاوقت دسویں ذوالحجہ کے دن طلوع فجر کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بارھویں ذوالحجہ کے دن غروب سے پہلے پہلے تک باقی رہتا ہے ، لیکن شہر اور بڑے دیہات والوں کو عید کی نماز سے پہلے ذبح کرنا جائزنہیں ہے۔
حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا
(بخاري بَاب سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ )
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى
(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى )
عن جُنْدَبَ بْن سُفْيَانَ الْبَجَلِيَّ قَالَ شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا أُخْرَى وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ
(بخاري بَاب مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَعَادَ )
عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً مِنْ الْمَعْزِ فَقَالَ ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَالمسلمین
(مسلم، بَاب وَقْتِهَا)
چھوٹے گاؤں والوں کے لئے جہاں عید کی نماز واجب نہیں ہوتی،طلوع فجر کے بعد قربانی کا ذبح کرنا جائز ہے۔
حوالہ
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى
(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى)
قربانی کے دنوں میں سے پہلے دن قربانی کا ذبح کرناافضل ہے، پھر دوسرے دن، پھر تیسرے دن۔
حوالہ
عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُمْ قَالُوا:أَيَّامُ النَّحْرِ ثَلَاثَةٌ، أَفْضَلُهَا أَوَّلُهَا
(نصب الراية كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ )
قربانی کے جانور کو بذات خود ذبح کرنا مستحب ہے جبکہ وہ اچھی طرح ذبح کرسکتا ہو، ہاں! اگر وہ اچھی طرح ذبح نہ کرسکتا ہوتو بہتر یہ ہے کہ کسی سے مدد لے اس کو چاہئے کہ ذبح کے وقت موجود رہے ۔
حوالہ
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ (بخاري بَاب فِي أُضْحِيَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ ۵۱۲۸)ٌ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :« يَا فَاطِمَةُ قَوْمِى فَاشْهَدِى أُضْحِيَتَكِ فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ وَقُولِى إِنَّ صَلاَتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ المسلمین». قِيلَ :يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا لَكَ وَلأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً فَأَهْلُ ذَلِكَ أَنْتُمْ أَمْ لِلْمسلمينَ عَامَّةً قَالَ :بَلْ لِلْمسلمينَ عَامَّةً
(السنن الكبري للبيهقي باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ ذَبْحِ صَاحِبِ النَّسِيكَةِ نَسِيكَتَهُ بِيَدِهِ وَجَوَازُ الاِسْتِنَابَةِ فِيهِ۔۔ الخ )
قربانی کے جانور کا دن میں ذبح کرنا مستحب ہے، لیکن اگر اسے رات میں ذبح کرے تو کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
حوالہ
عن ابن عباس :أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى أن يضحى ليلا
(المعجم الكبير أحاديث عبد الله بن العباس بن عبد المطلب بن هاشم )
اگر کسی وجہ سے عید کی نماز چھوٹ جائے تو زوال کے بعد قربانی کے جانور کا ذبح کرنا جائز ہے۔
حوالہ
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى
(موطا مالك بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى)
اگر شہر میں کئی جگہ عید کی نماز کی جماعتیں ہوتی ہو ں تو شہر میں پڑھی جانے والی پہلی نماز کے بعد ذبح کرنا جائز ہے۔
حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً مِنْ الْمَعْزِ فَقَالَ ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَالمسلمین
(مسلم، بَاب وَقْتِهَا )
قربانی میں کونسا جانور ذبح کرنا جائز اور کونسا نہیں؟
جانوروں میں سے صرف
اونٹ
گائے
بھینس
اور بکری کی قربانی صحیح ہے۔
حوالہ
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ
(مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ )
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ
(مسلم، بَاب الِاشْتِرَاكِ فِي الْهَدْيِ وَإِجْزَاءِ الْبَقَرَةِ وَالْبَدَنَةِ كُلٍّ مِنْهُمَا عَنْ سَبْعَةٍ )
قربانی میں وحشی جانور کا ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔
حوالہ
عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ
(بخاري بَاب أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ )
بکری ایک شخص کی طرف سے کافی ہوگی، اونٹ، گائے اور بھینس سات لوگوں کی طرف سے اس وقت کافی ہوں گے جبکہ ان میں سے ہر ایک کا ساتواں حصہ ہو اگر ان میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگیا تو قربانی تمام لوگوں کی طرف سے صحیح نہ ہوگی۔
حوالہ
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ
(مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ (مسلم، بَاب الِاشْتِرَاكِ فِي الْهَدْيِ وَإِجْزَاءِ الْبَقَرَةِ وَالْبَدَنَةِ كُلٍّ مِنْهُمَا عَنْ سَبْعَةٍ)
گائے، اونٹ اوربھینس کی قربانی سات لوگوں کی طرف سے صحیح ہے جبکہ ان میں سےہر ایک قربانی کا ثواب چاہتا ہو، ہاں اگر ان میں کوئی گوشت کا طالب ہو تو قربانی تمام لوگوں کی طرف سے صحیح نہ ہوگی۔
حوالہ
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج37)
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ
(بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ)
عن حسن قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :من ضحى طيبة بها نفسه محتسبا لأضحيته كانت له حجابا من النار (المعجم الكبير حسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه يكنى أبا محمد)
اس بکری کی قربانی جائز ہے جس کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو اور دوسرے سال میں وہ داخل ہوگئی ہو، دنبہ میں سے ایک سال سے کم کے بچے کو اگر اس پر سال کا اکثر حصہ گزرچکا ہو، اور اس کا موٹاپا اتنا ہو کہ وہ ایک سال کا دکھائی دیتا ہو تو اس کی قربانی دینا جائز ہے۔
حوالہ
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ فَبَقِيَ عَتُودٌ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِهِ أَنْتَ
(بخاري بَاب وَكَالَةُ الشَّرِيكِ الشَّرِيكَ فِي الْقِسْمَةِ وَغَيْرِهَا الخ)
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ(مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ )
گائے اور بھینس میں سے اسی کی قربانی جائز ہے جس کے دوسال مکمل ہوچکے ہوں اور وہ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو، اونٹ میں سے اسی کی قربانی جائز ہے جس کے پانچ سال مکمل ہوچکے ہوں اور چھٹے سال میں داخل ہوچکا ہو۔
حوالہ
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ
(مسلم، بَاب سِنِّ الْأُضْحِيَّةِ)
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ فِي الضَّحَايَا وَالْبُدْنِ الثَّنِيُّ فَمَا فَوْقَهُ
(موطا مالك بَاب الْعَمَلِ فِي الْهَدْيِ حِينَ يُسَاقُ)
عَنْ كُلَيْبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ فَعَزَّتْ الْغَنَمُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِنَّ الْجَذَعَ يُوَفِّي مِمَّا يُوَفِّي مِنْهُ الثَّنِيُّ
(ابوداود بَاب مَا يَجُوزُ مِنْ السِّنِّ فِي الضَّحَايَا )
قربانی میں ذبح کئے جانے والے جانور کا موٹااور تمام عیوب سے صحیح سالم ہونا افضل ہے، لیکن اگر ایسے جانور کی قربانی دی جائے جس کے پیدائشی طور پر سینگ نہ ہو تو قربانی جائز ہے، اسی طرح اگر ایسے جانور کو ذبح کرے جس کے سینگ کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہوتو قربانی جائز ہے، ہاں اگر سینگ کی ٹوٹن کھوپڑی تک پہنچ جائے تو صحیح نہیں ہے۔
حوالہ
عن أَبي الْأَشَدِّ السُّلَمِيّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كُنْتُ سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَأَمَرَنَا نَجْمَعُ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنَّا دِرْهَمًا فَاشْتَرَيْنَا أُضْحِيَّةً بِسَبْعِ الدَّرَاهِمِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ أَغْلَيْنَا بِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَفْضَلَ الضَّحَايَا أَغْلَاهَا وَأَسْمَنُهَا
(مسند احمد حديث جد أبي الأشد السلمي رضي الله عنه )
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ قُلْتُ فَإِنْ وَلَدَتْ قَالَ اذْبَحْ وَلَدَهَا مَعَهَا قُلْتُ فَالْعَرْجَاءُ قَالَ إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسِكَ قُلْتُ فَمَكْسُورَةُ الْقَرْنِ قَالَ لَا بَأْسَ أُمِرْنَا أَوْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ وَالْأُذُنَيْنِ
(ترمذي بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ)
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ قَالَ قَتَادَةُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ الْعَضْبُ مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ (ترمذي بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ )
اسی طرح اگر خصی کیا ہو جانور ذبح کیا تو جائز ہے ، بلکہ وہ زیادہ بہتر ہے، اس لئے کہ اس کا گوشت زیادہ اچھا اور لذیذ ہوتا ہے۔
حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
(ابن ماجه بَاب أَضَاحِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
وَرُوِّينَا فِى كِتَابِ الضَّحَايَا تَضْحِيَةَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم بِكَبْشَيْنِ مَوْجُوئَيْنِ وَذَلِكَ لِمَا فِيهِ مِنْ تَطْيِيبِ اللَّحْمِ
(السنن الكبري للبيهقي باب كَرَاهِيَةِ خِصَاءِ الْبَهَائِمِ )
اسی طرح اگر خارشی جانور ذبح کرے اگر وہ موٹا ہو تو جائز ہے۔ہاں! اگر وہ خارشی جانور دبلا ہو تو پھر جائز نہیں۔
حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي
(ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ)
کانے جانور کی قربانی بھی جائزنہیں ہے۔
حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي
(ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ )
ایسے لنگڑے جانورکی قربانی بھی جائز نہیں ہے جو مَذبَحْ (ذبح کی جانےوالی جگہ)تک نہ چل سکتا ہو، ہاں اگر لنگڑا اس قدر ہو کہ تین پیروں سے چلتا ہو اور چوتھے پیر کو چلنے کے لئے سہارے کے طور پر زمین پر رکھتا ہو تو جائز ہے۔
حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ قُلْتُ فَإِنْ وَلَدَتْ قَالَ اذْبَحْ وَلَدَهَا مَعَهَا قُلْتُ فَالْعَرْجَاءُ قَالَ إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسِكَ قُلْتُ فَمَكْسُورَةُ الْقَرْنِ قَالَ لَا بَأْسَ أُمِرْنَا أَوْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ وَالْأُذُنَيْنِ
(ترمذي بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ )
اسی طرح اتنے دبلے جانورکا ذبح کرنا جائز نہیں ہے جس کا دبلا پن اس قدر زیادہ ہو کہ اس کی ہڈی میں گودا باقی نہ رہ گیا ہو۔
حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي
(ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ )
ایسے جانور کا ذبح کرنا جس کا اکثر کان یا اکثر دم چلی گئی ہو جائز نہیں ہے، ہاں اگر اس کے کان کے دوتہائی باقی ہوں اور ایک تہائی چلا گیا ہو تو صحیح ہے۔
حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ قَالَ قَتَادَةُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ الْعَضْبُ مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ (ترمذي بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ)
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :« لاَ بَأْسَ بِالأُضْحِيَّةِ الْمَقْطُوعَةِ الذَّنَبِ
(السنن الكبري للبيهقي باب الرَّجُلِ يَشْتَرِى ضَحِيَّةً وَهِىَ تَامَّةٌ ثُمَّ عَرَضَ لَهَا نَقْصٌ وَبَلَغَتِ الْمَنْسَكَ )
اسی طرح ایسے جانور کا ذبح کرنا جس کے دانت ٹوٹ گئے ہوں جائز نہیں ہے، ہاں اگر زیادہ دانت باقی ہوں تو صحیح ہے۔
حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي
(ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ)
اسی طرح ایسے جانور کا ذبح کرنا جس کے پیدائشی طورپر کان نہ ہو جائز نہیں۔
حوالہ
عن يَزِيد ذي مِصْرَ قَالَ :أَتَيْتُ عُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِىَّ فَقُلْتُ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِنِّى خَرَجْتُ أَلْتَمِسُ الضَّحَايَا فَلَمْ أَجِدْ شَيْئًا يُعْجِبُنِى غَيْرَ ثَرْمَاءَ فَكَرِهْتُهَا فَمَا تَقُولُ؟ قَالَ :أَفَلاَ جِئْتَنِى بِهَا. قُلْتُ :سُبْحَانَ اللَّهِ تَجُوزُ عَنْكَ وَلاَ تَجُوزُ عَنِّى. قَالَ :نَعَمْ إِنَّكَ تَشُكُّ وَلاَ أَشُكُّ إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْمُصْفَرَةِ وَالْمُسْتَأْصَلَةِ وَالْبَخْقَاءِ وَالْمُشَيِّعَةِ وَالْكَسْرَاءِ فَالْمُصْفَرَةُ الَّتِى تُسْتَأْصَلُ أُذُنُهَا حَتَّى يَبْدُوَ سِمَاخُهَا
(السنن الكبري للبيهقي باب مَا وَرَدَ النَّهْىُّ عَنِ التَّضْحِيَةِ بِهِ)
ایسے جانور کی قربانی جس کے تھن کے سرے کٹے ہوئے ہوں صحیح نہیں ہے۔
حوالہ
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي (ترمذي بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الْأَضَاحِيِّ ۱۴۱۷) عن ابن عباس قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :« لا يجوز في البدن العوراء ، ولا العجفاء ، ولا الجرباء ، ولا المصطلمة أطباؤها
(المعجم الاوسط للطبراني من اسمه دليل)
قربانی کے گوشت اور کھال کامصرف
قربانی دینے والے کو قربانی کا گوشت کھاناجائز ہے۔
حوالہ
ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ
(مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ )
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا ضَحَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ مِنْ أُضْحِيَّتِهِ
(مسند احمد مسند أبي هريرة رضي الله عنه)
قربانی کا گوشت غریبوں اور مالداروں کو بھی کھلانا جائز ہے، بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں، تہائی کو صدقہ کرے ، تہائی اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے رکھ لے اور تہائی رشتہ داروں اور دوستوں کودے؛ اگر پورا گوشت اپنے اہل وعیال کے لئے رکھ لے تو جائزہے۔
حوالہ
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔
(الحج:۳۶)
عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ قَالَ بَعْدُ كُلُوا وَتَزَوَّدُوا وَادَّخِرُوا
(مسلم، بَاب بَيَانِ مَا كَانَ مِنْ النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ بَعْدَ ثَلَاثٍ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ وَبَيَانِ نَسْخِهِ وَإِبَاحَتِهِ إِلَى مَتَى شَاءَ )
ابن عباس مرفوعاً في الأضحية قال :ويطعم أهل بيته الثلث ، ويطعم فقراء جيرانه الثلث ، ويتصدق على السؤال بالثلث قال الحافظ ، وأبو موسى :هذا حديث حسن ، ولقوله تعالى :فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر (منار السبيل لابن ضويان، إبراهيم بن محمد بن سالم
(المتوفى :1353هـ،باب الاضحية ۱۸۹/۱)
اگر قربانی نذر کی ہو تو قربانی دینے والے کا اس میں سے کھانا بالکل جائز نہیں ہے ، بلکہ تمام قربانی کو صدقہ کردے۔
حوالہ
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ۔
(التوبۃ:۶۰)
عَنِ الْحَكَمِ، قَالَ:قَالَ عَلِيٌّ:لاَيُؤْكَلُ مِنَ النَّذْرِ، وَلاَمِنْ جَزَاءِ الصَّيْدِ، وَلاَمِمَّا جُعِلَ لِلْمَسَاكِينِ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، فِي هَدْيِ الْكَفَّارَةِ، وَجَزَاءِ الصَّيْدِ)
قربانی دینے والے کو قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں استعمال کرنا جائز ہے ، اسی طرح قربانی دینے والے کا قربانی کے کھال کو مالدار کو دینا بھی جائز ہے، لیکن اگر قربانی کی کھال کو بیچ دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی قیمت کو صدقہ کردے۔
حوالہ
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِيَّتِهِ فَلاَ أُضْحِيَّةَ لَهُ۔
(السنن الكبری للبيهقي،
باب لاَ يَبِيعُ مِنْ أُضْحِيَّتِهِ شَيْئًا وَلاَ يُعْطِى أَجْرَ الْجَازِرِ مِنْهَا
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا قَالَ نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا۔
(مسلم، بَاب فِي الصَّدَقَةِ بِلُحُومِ الْهَدْيِ وَجُلُودِهَا وَجِلَالِهَا)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَلَمْ يَبْلُغْ أَبُو الزُّبَيْرِ هَذِهِ الْقِصَّةَ كُلَّهَا أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ أَتَى أَهْلَهُ فَوَجَدَ قَصْعَةَ ثَرِيدٍ مِنْ قَدِيدِ الْأَضْحَى فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَهُ فَأَتَى قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي حَجٍّ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ أَمَرْتُكُمْ أَنْ لَا تَأْكُلُوا الْأَضَاحِيَّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ لِتَسَعَكُمْ وَإِنِّي أُحِلُّهُ لَكُمْ فَكُلُوا مِنْهُ مَا شِئْتُمْ قَالَ وَلَا تَبِيعُوا لُحُومَ الْهَدْيِ وَالْأَضَاحِيِّ فَكُلُوا وَتَصَدَّقُوا وَاسْتَمْتِعُوا بِجُلُودِهَا وَإِنْ أُطْعِمْتُمْ مِنْ لُحُومِهَا شَيْئًا فَكُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ۔
(مسند احمد، حديث قتادة بن النعمان رضي الله تعالى عنه)
قصاب کی اجرت نہ قربانی کے گوشت سے اور نہ اس کھال کی قیمت سے دی جاسکتی ہے۔
حوالہ
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا قَالَ نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا۔
(مسلم، بَاب فِي الصَّدَقَةِ بِلُحُومِ الْهَدْيِ وَجُلُودِهَا وَجِلَالِهَا)

عید الاضحیٰ اور فلسفہ قربانی

قربانی جہاں ابراہیمی یادگار ہے وہاں سنتِ حبیب  پروردگار  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مدینے میں  دس سال قربانی کرتے رہے ایک اور روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے قربانی ذبح فرما کر ارشاد فرمایا جس نے یہ عمل کیا ہماری سنت کو پا لیا کہا جاتا ہے کہ قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان کی اور یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور ہر معاشرے نے اپنے اپنے مذہبی عقائد اور نظریات کے مطابق اسے اپنائے رکھا تاریخ انسان نے سب سے پہلی قربانی انسانِ اوّل حضرت ابو البشر سیدنا آدم  کے دونوں بیٹوں نے پیش کی تھی سورة المائدہ آیت نمبر ٢٧ ترجمہ ”اور انہیں ادم کے دونوں بیٹوں کی خبر ٹھیک ٹھیک پڑھ سنائیے ! جب دونوں نے قر بانی دی تو ایک سے قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی (اس دوسرے نے ) کہا قسم ہے میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا (پہلے نے ) کہا(تو بلاوجہ ناراض ہوتا ہے) اللہ صرف پرہیز گاروں سے قبول فرماتا ہے (بہر حال !  میںیہاں اس واقع کی تفصیل میں جانا نہیں جاتا ) واضح رہے کہ اسلام کا تصور قربانی سب سے عمدہ پاکیزہ اعلیٰ اور افضل ہے اس کے نزدیک قربانی کا مقصد عیش و طرب اور خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل اور محض جانور کا خون بہانا نہیں بلکہ اسلام نے اپنے متعلقین و منسلکین کو قر بانی کی صورت میں رضائے خداوخوشنودیِ مصطفی علیہ التحیة والثناء کے حصول کا بہترین طریقہ اور نفیس ترین طریقہ سیکھا دیا اور اسلام اور بانیٔ اسلام پیارے آقا حضرت محمد  مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر اپنا تن من دھن نثار کرنے کا بھی عمدہ ذیعہ بتا دیا جس کے واسطے سے مسلمانوں کے دلوں میں خدا کی عظمت اور حبیب خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے حلوص اور ایثا ر کا جذبہ موجزن ہوتا ہے مخلوق پر وری بندہ نوازی غم گساری  اور ہمدردی کا ولولہ پیدا ہوتا ہے قربانی کا مقصد خدا کو منانا سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا طریقہ ٔ ابراہیمی کو بجا لانا اور شیطانی قوتوں کو خا ئب و خاسر  بنانا  ہے، قربانی کے متعلق حکم خداوندی  ہے کہ  ترجمہ : ”ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ ان جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کریں جو انہیں عنایت ہوئے ہیں” ایک اور جگہ قرا ن ِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ ترجمہ:”اللہ تعالیٰ کو ان(جانوروں) کے گوشت  اور خون نہیں پہنچتے البتہ تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے اس آیتِ مبارکہ میں تقویٰ کا ذکر کرکے ارشاد فرمادیا کہ قربانی کے بارے میں تمہارا خلوص اور تقویٰ دیکھا جائے دل میں خلوص اور عمل میں تقویٰ کا رنگ جتنا زیادہ ہوگا بارگاہِ ربوبیت میں قربانی کا شرف اتنا ہی زیادہ نصیب ہوگا لہذا خلوص اور تقویٰ کے متعلق ہر ممکن کوشش کرو ترمذی میں ہے کہ عاقل وہ ہے جو خدا کے لئے تقویٰ کرے اور اپنے نفس کا حساب لیتا رہے اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے بڑائی تقویٰ میں دولت توکل میں اور عظمت تواضع میں  ہے اور حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ دنائیوں میں اعلیٰ درجے کی دانائی تقویٰ ہے اور کمزوریوں میں سب سے بڑی بد اخلا قی اور بدا عمالی ہے ۔ اسلام میںحرمت والے چار مہینے بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک ماہِ مبارکہ ذی الحجہ کا بھی  ہے اور ذیالحجہ اسلامی سال کے مہینوں میں بارہویں مہینے کا نام ہے بے شک اس ماہِ مبارکہ میں عبادت و ذکر و ازکار کا رب کائنات اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے اجر و ثواب کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس با برکت مہینے میں اللہ رب العزت اپنے  نیک بندوں کو خصوصی انعامات سے نوازتا ہے بالخصوص اس ماہِ مبارکہ کا شروع کا عشرہ ( پہلے دس دنوں ) کی فضیلت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ رب کائنات نے ان ایام کو قرآن مجید فرقانِ حمید میں ”ایام معلومات” کہہ کر مخاطب کیا ہے ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ  اور اللہ کا نام لیں ، جانے ہوئے دنوں میں ” حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ”اور دس راتوں کی قسم اس سے ذی الحجہ کی راتیں مراد ہیں ” حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد مبارکہ ہے ” اس شخص کے لئے ہلاکت ہے  ، جو ان دس دنوں کی بھلائی سے محروم رہا اور نویں ذی الحجہ کے روزے کا خیال رکھو کہ اس میں اس قدر بھلائیا ں ہیں جن کا شمار نہیں ” ایک اور روایت ہے کہ حضور پرنور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ” جس وقت عشرہِ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تم میں کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے یعنی کہ بال نہ کتروائے اور نہ ناخن کٹوائے ! اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور اس کا قربانی کا ارادہ ہو تو نہ  بال منڈوایا اور نہ ناخن ترشوائے ” پیارے محمدمصطفی ۖ نے  حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کرارشاد فرمایا ”قربانی کے جانور کے پا س کھڑی ہو اس لئے کہ قربانی کے جانور کی گردن سے جب خون کا پہلا قطرہ گرگا تو اس کا عوض تمہارے گناہ معاف کردئیے جائیں گے ” آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ایک اور ارشاد گرامی ہے ”جس شخص نے قربانی کرنے کی وسعت پائی پھر بھی قربانی نہیں کی بس وہ ہماری عید گا ہ میں نہ آئے ” حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ”قربانی کے دن خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں سمیت  آئے گا اور بے شک اس کا خون زمین سے گرنے سے پہلے  ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت حاصل کرلیتا ہے بس دل کی خوشی کے ساتھ قربانی کیا کرو ”صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عرض کیا ”یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یہ قربانی کیا شے ہے ”۔تو پیارے محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے با پ حضرت ابراہیم  علیہ السلام کی سنت ہے ” اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا ” یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تو اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا ” تاجدار مدینہ سکونِ قلب و سینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ”ہر بال کے عوض ایک نیکی” صحابہ نے پھر عرض کیا ” یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر مینڈھا ہو ؟ ” پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ارشاد فرمایا ”تب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی ” اسی طرح پیارے محمدمصطفی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے ارشاد فرمایا ”جس شخص نے دل کی خوشی کے ساتھ اور طلبِ ثواب کے لئے قربانی کی وہ قربانی اسکے لئے دوزخ کی آگ سے آڑ ہوگی”۔ یوں یہ مہینہ نہایت ہی عظمت اور مرتبے والا ہے اس کا چاند(ہلال) نظر آتے ہی ہر قلب میں اس عظیم و الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس کی مثال تاریخ انسانی آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے بے شک یہ ماہِ مبارکہ اصل میں اس جلیل و قدر پیغمبر کی یادگار ہے  جن کی زندگی قربانی کی عدیم المثا ل تصور تھی یہ جدالانبیا خلیل اللہ حضرت ابراہیم  علی  نبیناعلیہ الصلوة السلام  ہیں آپ یہ اندازہ کریں کے وہ کون سا امتحان ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ (ابراہیم علیہ السلام ) سے نہیں لیا مگر آپ کی ذاتِ والا صفات پر کسی میدان میں بھی پائے ثبات کو لغزش نہیں آئی یہ بھی حقیقیت ہے کہ  دو چیزیں دنیامیں انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں ایک اپنی جان اور دوسر ی اپنی اولاد مگر کروڑ روں ، اربوں اور کھربوں سلام ہوں حضرت ابراہیم  علیہ السلام  پر کہ آپ نے اس وقت بھی ثابت قدمی اور تقویٰ کا وہ عظیم الشان  مظاہر ہ کیا کہ جب نمرود کی جلائی ہوئی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور حضرت خلیل اللہ علیہ السلام  کو گو پئے میں ڈال کر ہلا یا جا رہا ہے۔ منجنیق کے زریعے پھینکنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں کفر خوش ہے کہ آج کے بعد ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے والا کوئی نہیں ہوگا مخالف ہمیشہ کے لئے ختم ہوا جاتا ہے تو ادھر حضر ت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ”اے اللہ کے بندے پیارے خلیل   علیہ السلام ! کوئی حکم کوئی حاجت ؟ اس کے جواب میں حضر ت خلیل اللہ فرماتے ہیں اما الیک فلا ترجمہ ”تیرے ساتھ کوئی حاجت نہیں ” اور پھر جبرائیل علیہ السلام  نے عرض کی اچھا تو اللہ کی بارگاہ میں عرض کیجئے  کے مجھے آگ میں ڈالا جا رہا ہے ”۔ آپ خلیل اللہ  علیہ السلام نے فرمایا ” جانتا ہے وہ میرا رب ِ جلیل آگ میں پڑتا ہے اس کا خلیل اسے کیوں کہوں ؟ کیا وہ سمیع و بصیر نہیں ہے؟ یہاں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ عقل نے اس موقعے پر حضر ت ابراہیم  سے مخاطب ہوکر کہا  ہوگا کہ  ابراہیم جان بڑی عزیز شے ہے جو ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں ملتی اس کی حفاظت کرو       عقل بولی کہ بڑی شے جان ہے  عشق بولا کے یار پر قربان ہے حضر ت علامہ اقبال  اس واقعے اورتقویٰ سے متعلق فرماتے ہیں  بے خطر کود پڑ ا ا تش نمرو دمیں عشقعقل ہے محو تماشا نے لب ِبام ابھی  حضر ابراہیم علیہ السلام  نے عقل کی دلیل کو یکسر رد کرتے ہوئے عشق الہی میں آگ میں چھلانگ لگا دی تب اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم کو دیا ترجمہ اے آگ ! میرے ابراہیم   علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوجا واور سلامتی والی ہوجا ” رب تعالیٰ کی جان کی ازمائش اور امتحان کے بعد ربِ کائنات کی جانب سے دوسرا بڑا اور سب سے کٹھن امتحان ہونے والا تھا اور وہ اولاد سے متعلق  تھا اور یوں بھی جان کے بعد اولاد کا مقام آتا ہے انتہائی اختصار کے ساتھ رب کائنات اللہ  تعالیٰ کی جانب سے  حضرت ابراہیم   پر دوسرا امتحان شروع ہوا اور اس میں بھی وہ ثابت قدمی سے پورے اترے اور ایسے اترے کہ رتی دنیا تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا بے آب و گیاہ پہاڑوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے اور جہاں تک انسانی نظر کام کرتی ہے وہاں تک سبزہ کا نام و نشان تک نہیں یہ اللہ کے پیارے خلیل اللہ اپنے لختِ جگر حضرت اسمعیل  کو جو ابھی والدہ کی گود میں ہیں ان کی والدہ حضرت ہاجرہ سمیت  اس وادی میں چھوڑ جا رہے ہیں حضرت ہاجرہ نے عرض کیا حضور یہ کس جرم کی سزا ہے آپ خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کے کسی بھی سوال کا کوئی بھی جواب نہیں دیا پھر کچھ دیر بعدحضرت ہاجرہ خود بولیں کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے تو پھر اس پر خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہاں ہاجرہ یہ اللہ کا ہی حکم ہے اتنا سننے کے بعد حضر ت ہاجرہ نے فرمایا تو پھر ہمیں کوئی غم نہیں اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا ” کچھ دور جا کر حضرت خلیل اللہ نے دونوں  ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے اور عرض کی ”انے میر ے رب میں نے اپنی اولا د ایک وادی میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب  ! اسلئے کے وہ نماز قائم رکھیں تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور پھل کھانے کو دے تاکہ وہ احسان فرمائیں ” حضرت خلیل اللہ نے یہ تین دعائیں کی روایت میں آ تا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اپنی اہلیہ حضرت بی بی ہاجرہ اور شیر خوار بیٹے حضرت اسمعیل  کو جب اس بے آب  و گیاہ مقام پر اللہ تعالی ٰ کے سپرد چھوڑے جا رہے تھے تو وہ اس وقت چلتے چلتے پانی کا ایک مکشیزہ  ان کے نزدیک رکھ گئے تھے اور یہ  مختصر  سا کھا نا پانی آخر کب تک چلتا بالا خر ختم ہی ہوگیا تو حضرت بی بی ہاجرہ کو  شدید تشویش ہوئی کہ ان کی گود میں معصوم پھول سا ننھا منا سا بچہ تھا وہ بچے کو پیارے سے دیکھتیں تو جی بھر آتا دوردور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا ۔ ان سے بچے کی پیاس دیکھی نہ گئی وہ شیر خوار بچے کو زمین پر لیٹا کر اس کے لئے پانی کی تلاش میں بے قرار ہو گئیں قریب ایک پہاڑی پر گئیں تاکہ انہیں کہیں سے پانی مل جائے مگر بے سود پانی کہیں نظر نہیں آ یا اور پھر واپس بچے کے پاس آئیں تو بچے کا پیاس  سے برا حال تھا پھر دوسری پہاڑی پر چڑھیں مگر وہاں بھی مقصد حاصل نہ ہو ا یہ دونوں پہاڑیاں جنہیں صفا اور مروہ کہا جاتا ہے وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان دورتی رہیں یوں وہ(ہاجرہ) ان کے درمیان سات مرتبہ دوڑیں ۔ لیکن پانی کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیااس دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے خلیل کی اہل خانہ کی بے تابی دیکھ کر جوش میں آگئی اور جب آخری مرتبہ حضرت بی بی ہاجرہ  بچے کے پاس آئیں تو عجیب منظر دیکھا کہ شیر خوار حضرت اسمعیل علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑنے کے مقام سے وہاں پر پانی کا ایک صاف چشمہ جاری ہے حضرت بی بی ہاجرہ  کی اس پانی کے اچانک ظاہر ہونے سے خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ فوراً اللہ تعالی ٰ کا شکر بجا لائیں اور پھر خیال آیا کہ  اب اس بڑھتے ہوئے پانی کو  روکنا چاہئے چنانچہ بی بی ہاجرہ نے اس کے ارد گرد رکاوٹ بنائی پانی کو روکتے ہوئے حضرت بی بی  ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے زم زم (یعنی ٹہرجا ) کہہ کر بے تحاشہ بہتے  ہوئے پانی کے چشمے کو روک دیا۔ زم زم رک جانے کو کہتے مگر آ ج ہم زم زم اس پانی کو کہتے ہیں جسے دنیا کے کڑوڑ وں لوگ بطور تبرک پیتے اور لے جاتے ہیں اگر چہ اسے آج بہتے ہوئے چارہزار سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے یہ چشمہ پہلے روز کی طرح  آج بھی جاری و ساری ہے اور اب تو اس پانی کو نکالنے کے لئے ٹیوب ویل جیسے جدید مشینری اور آلا ت بھی نصب کئے گئے ہیں۔اس پانی کو پینے والوں کا اتنا ہجوم رہتا ہے کہ باری نہیں آتی مگر اس متبرک چشمے سے مبارک پانی کبھی ختم نہیں ہوا تاقیامت جاری و ساری رہے گا پیارے حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فرماتے ہیں کہ اگر حضرت ہاجرہ اس پانی کو زم زم نہ کہتی تو یہ پانی ساری کائنا ت کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئیکافی ہوتا یہی صفا و مروہ ہے جہاں حاجیوں کے لئے ضروری ہیکہ وہی طریقہ اختیار کریں جو حضرت ہاجرہ نے  کیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کی سنت کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا پھر اللہ تعالی ٰ نے ان پہاڑوں کو شعائر اللہ قرار دیا اور پھر اس بے آب و گیاہ کے درمیان  زندگی کے اثار نمودار ہوئے اور آج یہ وادی حضرت ابراہیم  کی دعاؤں کی بدولت حسین و خوبصورت وادی میں تبدیل ہوگئی ہے آپ اندازہ کریں کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال گزر چکے ہیں مگر یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ  کی دعاؤں کا ہی اثر ہے کہ جو فروٹ دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملتا وہ مکّہ شریف میں موجود ہے قلب میں کھچے چلے آتے ہیں ۔ اسی طرح جب حضرت ابراہیم  بلوغت کے قریب پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم  علیہ السلام  سے آ پ کی قربانی طلب فرمائی تین دن مسلسل خواب آتے رہے تیسری صبح آپ نے حضر ت ہاجرہ سے کہا کہ میں اور بیٹا اسماعیل  ایک دعوت میں جا رہے ہیں ۔ لہٰذا آپ اسے تیار کردیں حضرت ہاجرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضرت اسمعیل   علیہ السلام  کو بہت اچھا لباس پہنایا اور تیار کردیا آپ نے چھری اور رسی لی جنگل کی طرف چل دئیے کعبہ شریف سے کچھ ہی دور پہنچے تو شیطان نے آپ کو اس قربانی سے روکنا چاہا سب سے پہلے  بی بی ہاجرہ کے پاس گیا اور کہا کہ اے ہاجرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو علم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام  اسمعیل علیہ السلام  کو کہاں لے گئے ہیں ؟ حضرت بی بی ہاجرہ نے کہا کہ ایک دعوت پر گئے ہیں ۔ تب شیطان بولا نہیں ابراہیم علیہ اسلام اسمعیل علیہ السلام  کو ذبح کرنے لے گئے ہیں حضرت بی بی ہاجر ہ نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کیا ایک باپ بھی اپنے بیٹے کو ذبح کر سکتا ہے شیطان نے کہا کہ ابراہیم کا خیال ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میری راہ میں اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کردو اس پر حضرت خلیل اللہ کی اہلیہ اور حضرت اسمعیل  کی والدہ حضرت بی بی ہاجرہ نے ابلیس کو جواب دیا کہ میرے پروردگار کا یہی حکم ہے تو میں کون ہوں جو اس قربانی کی راہ میں رکاوٹ بنوں ۔ اللہ تعالی ٰ کے حکم پر تو ایک سو اسمعیل ہوں تو ایک ایک کرکے قربان کرتی چلی جاؤں اور اس جواب کے بعد شیطان مایوس ہوگیا تو پھر اس نے حضرت اسمعیل علیہ اسلام  کو ورغلانا چاہاانکے قریب جا کر کہنے لگا تجھے تیرے والد ذبح کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں ۔حضرت اسمعیل  نے فرمایا کیوں شیطان نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہہں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے کہ اس پر حضرت اسمعیل  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول فرمائے تو میں یہی کہوں گا کہ اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہوسکتی ہے شیطان نے ہر ممکن کوشش کی کہ حضرت اسمعیل علیہ اسلام کسی طرح سے اس قربانی سے رک جائیں مگر اللہ کے خلیل علیہ اسلام کے عزم کے آگے  بے بس ہوگیا اور ایک پہاڑ کے قریب لے جا کر  حضرت ابراہیم    علیہ اسلام  نے حضرت اسمعیل  سے کہا ”اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہو ں بتا تیری کیا مرضی ہے سعادت مند بیٹے نے جواب دیا اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے بلا خوف ِخطرپورا فرمائیے مجھے آپ انشاء اللہ صبر کرنے والا پائیں گے اور پھر ابلیس نے کوشش شروع کی کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو کہنے لگا کہ آپ  کیا غضب کررہے ہیں اے خواب کو حقیقت سمجھ لیا ہے اور بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہو گئے اے ملعون مجھ پر تیرا داؤ نہیں چل سکتا ۔ میرا خواب شیطانی نہیں رحمانی ہے نبی کا خواب  وحی ِ الہی ہوتا ہے میں اللہ کے حکم سے ہر گز منہ نہیں موڑوں گا شیطان نے ہر طرف سے مایوس ہو کر سر پیٹ لیا ہائے اب کیا ہوگا جب باپ  اوربیٹا دونوں رضائے الہی سے راضی ہوگئے تو باپ نے بیٹے کو زمین پر جبین کے بل لٹا دیا ۔ قرآن کریم ارشاد کرتا ہے ۔ ترجمہ ”دونوں تیار ہوگئے تو باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا ”چھری چلانے سے پہلے بیٹے نے باپ کو کہا ابا جان میری تین   باتیں قبول فرمائیں پہلی یہ کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باند ھ دیں تاکہ تٹپنے سے کوئی خون کا چھینٹا آپ کے لباس پر نہ پڑے دوسری یہ کہ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھ میری محبت کی وجہ سے رک جائے اور تیسری بات یہ کہ میرا خون آلود کرتا میری والدہ کے پاس پہنچا دیجئے وہ اسے دیکھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیا کرے گی باپ نے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی تسلیم و رضا کا یہ منظر آج تک چشم ِ فلک نے نہیں دیکھا ہوگا تیز چھری حضرت اسمعیل علیہ اسلام  کے گلے پر پہنچ کر کند ہوگئی ۔ دو مرتبہ ایسا ہی ہوا حضرت ابراہیم علیہ اسلام  نے  اسے  ایک پتھر پر دے مارا پتھر کو چھری نے دو ٹکڑے کر دئیے ابراہیم علیہ اسلام نے چھری سے کہا تو نے پتھر جیسی سخت چیز کودو ٹکڑ کردئیے لیکن اسمعیل کا گلا ریشم سے بھی نرم تھا  چھری نے کہا ترجمہ ” خلیل اللہ کہتا ہے کاٹ مگر جلیل کہتا ہے خبرداد  جواسمعیل کا بال  بھی بیگا کیا ۔جب خلیل اللہ خود جلیل اللہ کا حکم مان کر لٹائے بیٹھا ہے تو میں کیسے انکار کر سکتی ہوں ابراہیم علیہ اسلام  نے فرمایا کہ میں قربان کرنے کے لئے اور میرا بیٹا قربان ہونے کے لئے تیار ہے تو توکیوں توکاوٹ بنتی ہے ابراہیم  علیہ اسلام  نے پھر چھری اٹھائی چھری حضرت اسمعیل علیہ اسلام  کی گردن پر پہنچنے سے پہلے پہلے حضرے جبرائیل علیہ اسلام  ایک مینڈھا لے آئے اس کو نیچے رکھ دیا اور حضرت اسمعیل علیہ اسلام  کو اٹھا لیا مینڈھا ذبح ہوگیا تو آواز آئی ترجمہ ”اور ہم نے پکارا اے ابراہیم  ! تو نے خواب سچا کر دکھایا ہم نیکوں کو یوں ہی جزا دیتے ہیں ۔ْ بیشک یہ صاف آزمائش ہے ہم نے اس کا فدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیا اور اسے بعد والوں میں باقی رکھا ”ابراہیم علیہ اسلام کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اور اسے قیامت تک باقی رکھا اب ہر سال اس یاد کو تازہ کیا جاتا ہے ۔ مندرجہ بالا حقائق سے قربانی کی حقیقت خوب نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ قربانی سے مقصود رضائے خداوندی کا حص ول ہے قربانی کے ان مقاصد اور مطالب کے پیش نظر کوئی مسلمان بھی قربانی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا اور آج اغیار کل مسلمانوں  کے دلوں سے اسی جزبے قربانی کو نکلنا اور ختم کرنا چاہتا ہے کہ ان کے دلوں سے جذبے قربانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کے دلوںسے جذبہ قربا نی ختم کرنے کے لئے آزاد و روشن خیالی  کا ایک ایسا پودا اگا دیا ہے کہ مسلمان آہستہ آہستہ حکم خداوندی اور سنت ِ نب وی سے دور ہوتے جا رہے ہیں  جو کہ لمحہ فکریہ ہے ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم حکم خداوندی کہ احکامات کی پیروی نہ کرکے زندہ رہ سکیں گے

جدید تحقیق نے مغرب پر بھی کھجور کی اہمیت واضح کردی



کھجور(dates) کا شمار دنیا بھر میں مذہبی و ثقافتی لحاظ سے اہم اور بنیادی شے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ رمضان (Ramadan) میں اس کی اہمیت تمام مسلم ممالک میں نمایاں طور پر اُجاگر
Dates
Dates
ہو کر سامنے آتی ہے۔ مسلم گھرانوں میں افطار کے وقت کوئی ایسا دسترخوان(dastarkhwan) دیکھنے میں نہیں آتا جہاں کھجور موجود نہ ہو۔

کھجور کو “خوشی کا پھل” کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے اسے بطور میٹھا استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔
کھجوروں کی بے شمار اقسام ہیں عجوہ(ajwa) اور برنی(barni) کھجور بےحد مشہور ہیں۔ برنی کھجور ایک طرف سے موٹی ہوتی ہے اور اس کی گٹھلی بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ جدید تحقیق نے مغرب پر بھی کھجور کی اہمیت(importance of dates) کو واضح کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہاں بھی اسے ذوق و شوق سے مختلف پکوانوں میں شامل کیا جارہا ہے۔
رمضان المبارک میں اس کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے اور افطار سے قبل اسے ہر چیز سے قبل کھایا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسے اجزاء(ingredients) موجود ہیں جو روزے کے دوران پیدا ہونے والی جسمانی قوتوں کی کمی کو پورا کرکے معدے(stomach) کی تیزابی رطوبتوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ کھجور میں ایسے تمام عناصر موجود ہیں جن کی ضرورت بالخصوص رمضان المبارک میں ہمارے جسم کو ہوتی ہے، مثلاً نشاستہ، چکنائی(fat) ، کیلشیم(calcium) ، لحمیات، فولاد اور فاسفورس(phosphorus) ۔
کھجور پوٹاشیم(potassium) کے لیے امیر ذریعہ سمجھی جاتی ہے، یہ لوہے(iron) ، وٹامن بی 12(vitamins B 12) اور ریشے کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے۔ ماہرین کے مطابق کھجور کی آدھی پیالی یا درمیانے سائز 12 کھجوروں میں 275 حرارے شامل ہوتے ہیں۔ 12 کھجوریں جسم کو 6 گرام ریشہ فراہم کرتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کھجور میں وٹامن سی(vitamins C) نہیں ہوتا۔
اس اہم پھل میں بے شمار خوبیوں کے ساتھ کچھ خامیاں بھی ہیں۔ کھجور کے اعلٰی چینی مواد اور نمی کے ساتھ دانتوں کے امراض کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے معالجین کھجور کھانے کے بعد دانتوں کی صفائی کا مشورہ دیتے ہیں، علاوہ ازیں کھجور کے کثرت سے استعمال کرنے والوں میں درد شقیقہ کی شکایت نوٹ کی گئی ہے۔
· کھجور کو معیاری میٹھے کے طور پر بھی کھایا جاتا ہے جو ہضم(digestion) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
· کھجور آدھے گھنٹے کے اندر ایک تھکے ہوئے انسانی جسم کو اضافی توانائی فراہم کردیتی ہیں۔
· امریکی کینسر سوسائٹی(American Cancer Society) کے مطابق کھجور کا مسلسل استعمال رات کے اندھے پن کے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
· کھجور میں 10 فیصد فولاد ہوتا ہے جو دیگر سبزیوں اور پھلوں کی نسبت بہت زیادہ ہے اس لیے کھجور کو خون(blood) پیدا کرنے کا خزانہ کہا جاتا ہے، علاوہ ازیں کمزور جسامت کے حامل افراد کے لیے بھی کھجور بے حد مفید تصور کی جاتی ہے۔
· کھجور قبض کُشا ہے۔ کھجور کے چند دانوں کو پوری رات کے لیے پانی میں بھگو(soak) کر صبح نہار منہ کھالیں، اس سے نظام ہضم(digestion system) درست ہوتا ہے۔
· کھجور سے آنتوں کی خرابی کی شکایت رفع ہوتی ہے، اس کے مسلسل استعال سے آنتوں میں دوستانہ جراثیم کا اضافہ ہوتا ہے۔
· ہفتے میں دوبار چند دانے کھجور کو رات میں بھگو(soak) کر صبح کچل کر استعمال کرنے سے دل کی کمزوری سے نجات حاصل ہوتی ہے۔
· اُبلے ہوئے دودھ(boiled milk) میں کھجوریں ڈال کر پکائیں اور اسے روزانہ استعمال کریں۔ یہ بچوں اور بڑوں دونوں کو یکساں توانائی فراہم کرتی ہے۔
· کھجور غذائی ریشے کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں جو نظام ہضم(digestion system) کے لیے فائدہ مند ہے۔
· کھجور میں چربی اور کولیسٹرول(fat and cholesterol) نہیں ہوتے۔
· کھجور میں شامل فولاد جسم کے سرخ خلیات کی پیداوار میں مدد دیتا ہے
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates
Dates