اردوصحافت کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ منفی جذبوں کوبروئے کار لاکر قارئین کے جذبات کو برانگیختگی بخشنے کی بجائے مثبت رویوں کو صحافتی ترجیحات میں شامل کیاجائے اور خوابیدہ صلاحیتوں کوبیدار کیاجائے۔اس سےریڈرشپ بڑھے گی،جس سے روزگار کے مواقع بھی بیدا ہوں گے۔
محمد جسیم الدین
ریسرچ اسکالرشعبہ عربی دہلی یونیورسٹی،دہلی
آزادی کے بعد اگرچہ اردو صحافت ورسائل کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر اردو تعلیم کے محدود ہونے کی وجہ سے اس کاحلقہ بھی محدو د ہو تا نظر آرہاہے ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج اردو صحافت ناموافق حالات سے دوچارہے ۔ اس کے باوجود بھی اردو کے شیدائیوں نے صحافتی معیار کو نہ صرف قائم رکھا ہےبلکہ اس کی روایت کو بڑے اہتمام سے آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے اورایک حد تک ا س کوشش میں کامیاب بھی نظر آرہے ہیں ۔ اگر ان دنوں روزناموں پر نگاہ ڈالیں گے تو بے شمار اخبارات نظر آئیں گے ، مثلاًانقلاب ، راشٹریہ سہار ا، اردو ٹائمز ، سیاست ،منصف ، ہمارا سماج ، ہندوستان ایکسپریس، قومی تنظیم ، آگ ، قومی خبریں ، فاروقی تنظیم ، صحافت ، سیاسی افق ، سالا ر ، اودھ نامہ،وارث اودھ ۔ اسی طرح موقر رسائل و جرائد کابھی لامتناہی سلسلہ ہے ، مثلاً اردو دنیا ، افکار ملی ، عالمی سہارا ، بزم سہارا، بانگ حراء، تعمیر حیات ، نقوش اسلام ، تعمیر ملت ، معارف ، نیا درو ، زندگی نو،ندائے شاہی ، نوائے ہادی، تعمیرملت ، تمثیل نو،ھدی ٰ، ترجمان دارالعلوم،ترجمان دیوبند وغیرہ ۔ ان دنو ں اخبارات میں تعلیمی ، سماجی ، ثقافتی تحریریں بہت کم ہوتی ہیں ، سیاسی مضامین کا دور دورہ ہے ۔ حالانکہ سیاست کے علاوہ دیگر موضوعات کو بھی یکساں جگہ دینا قریب از فہم ہے ۔
یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ناموافق حالات میں بھی اردو صحافت نے عوام کو سہارا دیا اوراب بھی دے رہی ہے ، مگر ی بد قسمتی کی بات ہے کہ جس طرح آج سیاست سے شفافیت عنقا ءہے اسی طرح صحافت سے بھی شفافیت دور ہوتی جارہی ہے ۔ سیاست کا آج صحافت پر دبدبہ ہے اس لئے وہ بھی اس کے اثرات بد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ واقعی ان دنوں جو بھی کام سیاست کی نذر ہوجائے بننے کے بجائے بگڑ جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی صحافت میں دیگر موضوعات کو جگہ دینا زیادہ بہتر ہے ۔
صحافت پر سیاست کے غلبہ کی وجہ سے اس کا سب سے اہم عنصر بھی غائب ہوتا نظر آرہاہے ، صحافت اورصحافیوں کا خمیر دراصل ”جوانمردی ، او لوالعزمی ، بلند حوصلگی اوربے باکی “سے تیا رہونا چاہئے ، اس میں رتی برابر بھی بدعنوانی کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ، مگرافسوس کہ سیاست نے ان اوصاف پر دبیز پردے ڈال دئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ علی العموم صحافیوں سے بلندحوصلگی اوربے باکی کی صفت سلب ہوتی جارہی ہے ، وہ اس کی زد میں حق گوئی سے کترانے لگے ہیں ۔ان کے نیک جذبات اورروشن خیالات بسااوقات روزناموں کے مالکان کے سیاسی مفادکی بنیاد پر لفظوں کا جامہ نہیں پہن پاتے ہیں ،گویا آج سیاست بھی صحافت کے لئے ایک المیہ ہے ۔
ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں مسلمانوں کی مثبت شبیہ کی حوصلہ افزائی کرنے اور فروغ دینے میں اس نے کم ہی دلچسپی لی۔ لھٰذا فرقہ وارانہ فسادات، بابری مسجد، پرسنل لا، یہاں تک کہ خلیجی جنگ جیسے امور کو سنسنی خیز شہ سرخیوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس رجحان نے بسا اوقات اشتعال انگیزتحریروں کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کا کام کیااور اس کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ مالی منفعت اور شہرت کے حصول کے لئے حکومت سے وابستہ ہونے لگے ۔اس کے برعکس ہندی میڈیا نے ٹیکنالوجیکل دور کا سامنا کرنے کی خاطرخود کو تیار کرنے کے لئے1970 میں خود کو نئے سانچے میں ڈھالنا شروع کیااور صحافت کو ایک پیشہ وارانہ نہج عطا کیا۔ بیٹ سسٹم میں کامیابی حاصل کی گئی، رپورٹروں کی بحالی کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ ہندی اخباروں میں بہت سارے امور کو وسیع پیمانے پر جگہ دی جاتی ہے۔
دوسری طرف اردو میڈیا اپنے پرانے روایتی طریقہ کار پر ہی کاربند رہا۔ پیشہ واریت کی کمی تھی چنانچہ اردو صحافت وسائل کی کمی اور ناکافی رپورٹنگ کی صورتحال سے دوچار رہی۔ اور یہی سبب ہے کہ اردو میڈیا صحافت کی دنیا میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر رہا۔ لیکن اس وقت ٹیکنالوجی نے اردو صحافت میں جان ڈال دی ہے جس کی وجہ سے ایک امید قائم ہوئی ہے کہ اسے اپنی روایتی اور مذہبی ارتکاز والی شبیہ سے باہر نکلنا ہے اورخود کو سماج میں تبدیلی لانے والی گاڑی کی شکل دینا ہے۔ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں نئے خیالات کے بہاؤ سے اردو صحافت نئی راہ پر گامزن ہو اور اس میں جمود کی جو کیفیت طاری ہے وہ ختم ہو۔تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک اردو طبقہ جدید خیالات و نظریات کے ساتھ آگے نہیں آئے گا تب تک اردو میڈیا میں انقلابی تبدیلی ممکن نہیں۔اردو میڈیا اپنی اشاعت کے لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ لیکن معیار کے لحاظ سے یہ اپنا کوئی مقام نہیں بنا سکاہے ۔اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ نام نہاد اردو رائٹرس ہیں۔اردو رائٹر س عام طور پر وہ بات لکھتے ہیں جو بات قوم سننا چاہتی ہے۔ حالانکہ کسی رائٹر کا یہ کام نہیں کہ وہ عوامی احساسات و جذبات کا ترجمان بن جائے اور جس طرح عام لوگ سوچتے ہیں وہ انھیں کی طرح سوچنا شروع کر دے۔یہ کام تو نیتا کا ہے! نیتا یہ دیکھتا ہے کہ کسی معاملہ پر قوم کس طرح سوچ رہی ہے،وہ قوم کی سوچ کو معلوم کرنے کے بعد اسی سوچ کی ترجمانی شروع کر دیتا ہے ،جس کی وجہ سے اس کی سیاسی دکانداری چمکنے لگتی ہے۔وہ دیکھتے ہی دیکھتے عوامی لیڈر بن جاتا ہے۔کسی رائٹر کا کام کسی نیتا کے کام سے بالکل الگ ہوتا ہے۔کوئی نیتا قوم کے جذبات کو ایڈریس کرتا ہے اور رائٹر اس کے شعور کو ایڈریس کرتا ہے۔ رائٹر کا کام مصلح کا کام ہوتا ہے ۔ اسے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کسی معاملہ میں چوک کہاں ہوگئی وہ اس چوک کا تجزیہ کر کے بتا تا ہے کہ غلطی کہاں ہو گئی۔کوئی حقیقی رائٹر اپنا اور اپنی قوم کا گہرا محاسبہ کرتا ہے۔وہ قوم کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلا تا ہے ۔وہ قوم کو وہ راستہ دکھا تا ہے جس پر چل کر قوم اپنی تقدیر بدل سکتی ہے۔نیتا یہ کرتا ہے کہ وہ قوم کو الجھا دیتا ہے۔وہ کنفیوزن پیدا کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ قوم تو صحیح راہ پر ہے اس کے ساتھ سازش ہو رہی ہے۔وہ سازش کی تھیوری کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے کہ قوم نا امید ہوجاتی ہے اور یہ سوچنے لگتی ہے کہ اس کی بیماری کا علاج شاید اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔
رائٹر اپنی قوم کے اندر’ کرنے ‘کی نفسیات پیدا کرتا ہے اور نیتا ’ شکایت‘ کی نفسیات۔ رائٹر ’ ا مید ‘پیدا کرتا ہے اور نیتا ’ نا امیدی‘۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اردو اخبارات و رسائل میں لکھنے والے زیادہ تر لوگ نیتا ؤں کی بولی بولنے لگے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں عام طور پر وہی بات لکھتے ہیں جو کوئی نیتا تقریری انداز میں کہیں کہتا ہے ۔گویا کہ اردو کے رائٹرس نیتا کی تقریر کو اپنی تحریر میں بدل دیتے ہیں۔اس کا انھیں فائدہ بھی ملتا ہے۔ جس طرح کوئی نیتا اپنی جذباتی تقریر کے ذریعہ راتوں رات قوم کا ہیرو بن جا تا ہے، اسی طرح کوئی ’رائٹر نما نیتا‘ اپنی قوم کا ہیرو بن جا تاہے۔ وہ جلسے اور سیمیناروں میں بلا یا جا تا ہے ،نیتا ؤں کے ساتھ بیٹھا یا جا تا ہے اور پھر اس سے جوشیلی تقریریں سنی جاتی ہیں۔کسی قوم میں نیتا اور رائٹر کا جو فرق ہے وہ فرق ہمارے یہاں (اردو میڈیامیں)، باقی نہیں رہا۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔یہیں سے ہمارا پورا کھیل خراب ہوا ہے ۔ ترقی یافتہ قومیں یہ کرتی ہیں کہ جب ان کا کوئی نیتا تقریر کر کے بیٹھتا ہے توان کے رائٹر اس کا تجزیہ پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اردو کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے رائٹر س نیتا کی کہی ہوئی بات کو ہی دوہرانا شروع کر دیتے ہیں۔آپ کوئی بھی اردو اخبار و رسائل کو اٹھا کر دیکھیں وہاں آپ کو صرف پروبلم نظر آئے گا سلوشن نظر نہیں آئے گا۔ نیتا پروبلم پیدا کرتا ہے اور رائٹر سلوشن ۔لیکن جس قوم کے رائٹرس بھی نیتا کا کام شروع کر دیں اس قوم میں صرف پروبلم ہی نظر آئے گا وہاں آپ سلوشن کی توقع نہیں کر سکتے۔بلا شبہ مین اسٹریم میڈیا مسلمانوں کے ایشوز کواٹھا نے میں ناکام رہا ہے ۔مین اسٹریم میڈیا میں مسلمانوں کے مسائل ایمانداری کے ساتھ نہیں اٹھائے گئے،جس کی وجہ سے اردو اخباروں نے اپنے مسائل اٹھانے کی ذمہ داری خود اپنے کاندھے پر لے لی ، لیکن اس کام میں جس اعتدال کی ضرورت تھی ہم اس اعتدال پر قائم نہیں رہ سکے، نتیجہ کے طور پر اردو میڈیا مسائل کا پٹارہ بن گیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے لکھنے والے ایماندارانہ تجزیہ پیش کریں ۔ وہ اپنے اندر تحقیقی صلاحیت کو بڑھا ئیں۔ وہ اردو صحافت میں صرف اس لیے نہ کود پڑیں کہ ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا۔یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بہت سارے لوگ اردو میڈیا میں اس وقت آتے ہیں جب کہ وہ کسی کام کے لائق نہیں رہتے ،یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد!!!
اردوصحافت کوفروغ دینے کے نام پر منظرعام پرآنے والے بیشتراخبارات کی موجودہ صورتحال کیاہے؟درحقیقت انہیں کن مصائب ومشکلات کاسامناہے؟ بنیادی مسئلہ
کیاہے؟قاری کامسئلہ کیاہے؟ان کے وسائل کس حد تک ہیں؟ زردصحافت سے اردوصحافت کاکیارشتہ ہے؟ خبروں کی فراہمی،پیشکش اور انداز و آہنگ کے لحاظ سے
اردوروزناموں کی صورتحال کیا ہے؟کمرشیل اشتہارات کس حد تک ملتے ہیں؟سرکولیشن کامعاملہ کیساہے؟ ہم عصرصحافت سے مقابلے اورموازنے کے بعد اردوصحافت کی کیا شکل سامنے آتی ہے؟جدیدتکنیکی وسائل کو بروئے کارلانے میں اردوصحافت کس حدتک کامیاب ہے؟’حقیقت پسندی‘ کارجحان کس حد تک ’فرقہ پرستی‘کو فروغ دینے کا محرک بن رہاہے؟اردو صحافت نے’خودساختہ‘قفس میں خودکوکس حد تک قید کررکھا ہے ؟صحافتی اقداروآداب اور تقاضوں کی پاسداری کس حد تک کی جارہی ہے؟اردوصحافت کے اسلوب وآہنگ پر اردو زبان کی زوال پذیری کااحساس کس حدتک غالب ہے؟احتجاج واشتعال سے یہ وادی کیوں بھری پڑی ہے؟اخلاقیات کو نباہنے کاخیال بھی ہے آیا نہیں؟یہ وہ سوالات ہیں،جنہیں نظر انداز کرتے ہوئے عصری اردوصحافت کاایماندارانہ طریقے سے جائزہ لیاجانا ممکن ہی نہیں! اردو صحافت کے موجودہ منظرنامہ سے جو تصویر ابھرتی ہے اس کا قدر مشترک پہلو یہ بھی ہے کہ اردو صحافت میں سرمایہ کاری کا عام طور پررجحان کافور ہے اور چند استثنائی صورتوں کے علاوہ اردو اخبارات کی اشاعت میں ایسے لوگ ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جن کیلئے اس وادئ خزاں رسیدہ میں قدم رنجہ ہونا ذاتی آمدنی کے حصول کابہترین وسیلہ ہے ورنہ صحافت کے بنیادی تقا ضوں کو پورا کرنے سے انہیں دورکابھی واسطہ نہیں!۔ بلا شبہ قابل لحاظ تعداد میں اردواخبارات و رسائل کاورودمسعود متواترجاری ہے اور برقی ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بھی اردوصحافت کسی نہ کسی شکل میں جگہ بناتی نظرآرہی ہے ،تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہ حیثیت مجموعی اردو صحافت کی صورت حال تشویش ناک حد تک خراب ہے ۔کہنے کواس وقت ہندوستان میں اردوصحافت خوب پھل پھول رہی ہے اور وطن عزیز کے25 کروڑ مسلمانوں کی ’’ایک مستحکم آواز ‘‘بھی تصورکی جاتی ہے مگرگہرائی میں جاکر دیکھنے سے اس تاثر کی نفی ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ خیال بھی شدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ تقسیم وطن کے بعد اگر کم از کم ہندوستانی مسلمانوں نے ہی اردوصحافت سے اپنے تعلقات کوبرقرار رکھاہوتا توآج اسے جس کس مپرسی کاسامنا ہے،ایسی صورت حال ہرگزہرگزپیش نہ آتی۔
صحافت آج ایک ایسے انسان پسندپیشہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو ہمہ پہلوعلوم وفنون کااحاطہ کرتے ہوئے قارئین کونہایت جامعیت کے ساتھ صرف اطلاعات ہی فراہم نہیں کراتی بلکہ معاشرے کے ہررکن سے وابستگی رکھتے ہوئے اس کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کاباعث بھی بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ 21ویں صدی کے تبدیل شدہ منظر نامہ میں صحافت کی اہمیت مزیددو چند ہوگئی ہے ۔یہ مسلمہ حیثیت اس پیشے کو صرف اس وجہ سے حاصل ہے کیونکہ صحافت کا بذاد خود کوئی مذہب نہیں ہے ۔یہ معززومحترم پیشہ خودکو کسی حصار کی مکین نہیں گردانتا۔جس طرح زبان کاکوئی مذہب نہیں ہوتا، علم وفن کا کوئی دین ودھرم نہیں ہوتا،ٹھیک اسی طرح بذات خود صحافت بھی مذہبی ولسانی حدودوقیودکی کبھی پابند نہیں رہی ۔یہی وجہ ہے کہ انسان سے براہ راست انسانیت کی بنیاد پر سروکار رکھنا اس مقدس پیشے کاجزواعظم قرارپایا۔ صحافت کایہ آزادانہ کرداربالعموم جس طرح بحال نہیں رہ سکاہے،اسی طرح بدقسمتی سے’’اردوصحافت‘‘پربھی اس کا مکمل طورپر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ ’’اردوصحافت‘‘اس تقاضے کو بوجوہ تمام نبھانے سے قاصر رہی ہے۔
اردوصحافت کے ائمہ نے صحافت کا جو دستورالعمل اور ضابطہ تیارکیاتھا(اور جسے انہوں نے عملی صحافت میں برتتے ہوئے تاریخ میں اردوصحافت کانام روشن کیا)اس میں بھی ایسے ہی محسوسات کااظہار کیاگیاتھاجس کاذکر سطور بالامیں کیاگیا ہے۔لیکن آج اردوصحافت میں عملاًان اصولوں کونہیں برتاجارہاہے۔مولانامحمدعلی جوہرنے کہاتھا کہ وہ اپنے اخبارکوقاری کا’رفیق سفر‘بنانا چاہتے ہیں،آج کی اردوصحافت کے مزاج،انداز،اطواراور ترجیحات کو پیش نظررکھ کر یہ رائے قائم کرنامشکل ہے کہ اردوکے اخبارات قارئین کے’’رفیق سفر‘‘ہیں۔ اصولوں کی پاسداری کے لحاظ سے اردوصحافت اپنے شاندار ماضی کی امین کہلانے کی مستحق ہے؟یہ دعویٰ ہرگزنہیں کیاجاسکتا کیونکہ تغیرزماں کے درمیان ’’اردوصحافت‘‘ہنوز یہ طے نہیں کرسکی ہے کہ اس کاکردارکیاہے؟مشن کے طور پر ’’اردوصحافت‘‘کام کررہی ہے؟یا کاروباری خطوط پر’اردوصحافت‘ کی گاڑی آگے بڑھ رہی ہے؟ عصری اردوصحافت کوپیش نظر رکھ کریہ فیصلہ کرنامشکل ہے۔کیونکہ اردوصحافت کاموجودہ منہاج نہ تومشن سے ہی عبارت ہے اور نہ ہی اس میں’کاروباری ‘ یا’تجارتی‘خصلتیں ہی موجودہیں۔ہرچند کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ اردوصحافت کوہم عصرصحافت کے مدمقابل کھڑاکیاجاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے بالعموم ایسا نہیں ہوسکاہے۔عصری اردوصحافت کی یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ منفی جذبوں کوبروئے کار لاتے ہوئے قارئین کے جذبات کو برانگیختگی بخشنے کی بجائے مثبت رویوں کو صحافتی ترجیحات میں شامل کیاجائے اور خوابیدہ صلاحیتوں کوجگایاجائے۔ہم عصراردوصحافت کے رگ و ریشے میں تواناخون دوڑانے کیلئے ایک تحریکی ذہنیت کی ضرورت درپیش ہے ۔ صرف پرخلوص جذبوں کے تحت صورتحال میں کوئی انقلابی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔اس کیلئے بہترین وسائل کوبروئے کارلاناہوگا،سرمایہ کاری کامستحکم طریقہ اختیارکرناپڑے گا۔ بہترین صحافتی ٹیم تیارکرناہوگی۔فرسودہ نظریات اوردقیانوسی ذہنیت کوترک کرناپڑے گا۔عصری صحافت کی ترقی کے اسرار ورموزسے شناوری حاصل کرنی پڑے گی اورپھراس کی روشنی میں اردوخواں آبادی کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے ترجیحات کاتعین کرناہوگا،تب کہیں جاکر اردوصحافت کی آبرو کی بحالی ممکن ہوسکے گی۔گرچہ یہ ایک مشکل ترین کام ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ اردوقارئین کاایک بڑاطبقہ آج اپنی صحافتی ضروریات کی تکمیل کیلئے صرف اس وجہ سے دیگرزبان کے اخبارات خریدنے پر مجبور ہے کیونکہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہلیت سے زیادہ تر اردو اخبارات متصف نہیں۔ماحصل کے طورپریہ نتیجہ اخذہوتا ہے کہ امکانات کی موجودگی کے درمیان اردوصحافت ایسے مسیحاؤں کی منتظر ہے جس کاشرمندۂ احسان ہوکریہ صنف ادب اپنی حرمت،عزت، وقاراوراعتبار کودوبارہ بحال کرسکے۔