Saturday 17 March 2012

اردوصحافت کا شاندارماضی ،قابل اطمینان حال،درخشاں مستقبل اک جائزہ


 اردوصحافت کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ منفی جذبوں کوبروئے کار لاکر قارئین کے جذبات کو برانگیختگی بخشنے کی بجائے مثبت رویوں کو صحافتی ترجیحات میں شامل کیاجائے اور خوابیدہ صلاحیتوں کوبیدار کیاجائے۔اس سےریڈرشپ بڑھے گی،جس سے روزگار کے مواقع بھی بیدا ہوں گے۔
محمد جسیم الدین
ریسرچ اسکالرشعبہ عربی دہلی یونیورسٹی،دہلی
آزادی کے بعد اگرچہ اردو صحافت ورسائل کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر اردو تعلیم کے محدود ہونے کی وجہ سے اس کاحلقہ بھی محدو د ہو تا نظر آرہاہے ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج اردو صحافت ناموافق حالات سے دوچارہے ۔ اس کے باوجود بھی اردو کے شیدائیوں نے صحافتی معیار کو نہ صرف قائم رکھا ہےبلکہ اس کی روایت کو بڑے اہتمام سے آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے اورایک حد تک ا س کوشش میں کامیاب بھی نظر آرہے ہیں ۔ اگر ان دنوں روزناموں پر نگاہ ڈالیں گے تو بے شمار اخبارات نظر آئیں گے ، مثلاًانقلاب ، راشٹریہ سہار ا، اردو ٹائمز ، سیاست ،منصف ، ہمارا سماج ، ہندوستان ایکسپریس، قومی تنظیم ، آگ ، قومی خبریں ، فاروقی تنظیم ، صحافت ، سیاسی افق ، سالا ر ، اودھ نامہ،وارث اودھ ۔ اسی طرح موقر رسائل و جرائد کابھی لامتناہی سلسلہ ہے ، مثلاً اردو دنیا ، افکار ملی ، عالمی سہارا ، بزم سہارا، بانگ حراء، تعمیر حیات ، نقوش اسلام ، تعمیر ملت ، معارف ، نیا درو ، زندگی نو،ندائے شاہی ، نوائے ہادی، تعمیرملت ، تمثیل نو،ھدی ٰ، ترجمان دارالعلوم،ترجمان دیوبند وغیرہ ۔ ان دنو ں اخبارات میں تعلیمی ، سماجی ، ثقافتی تحریریں بہت کم ہوتی ہیں ، سیاسی مضامین کا دور دورہ ہے ۔ حالانکہ سیاست کے علاوہ دیگر موضوعات کو بھی یکساں جگہ دینا قریب از فہم ہے ۔ 
یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ناموافق حالات میں بھی اردو صحافت نے عوام کو سہارا دیا اوراب بھی دے رہی ہے ، مگر ی بد قسمتی کی بات ہے کہ جس طرح آج سیاست سے شفافیت عنقا ءہے اسی طرح صحافت سے بھی شفافیت دور ہوتی جارہی ہے ۔ سیاست کا آج صحافت پر دبدبہ ہے اس لئے وہ بھی اس کے اثرات بد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ واقعی ان دنوں جو بھی کام سیاست کی نذر ہوجائے بننے کے بجائے بگڑ جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی صحافت میں دیگر موضوعات کو جگہ دینا زیادہ بہتر ہے ۔ 
صحافت پر سیاست کے غلبہ کی وجہ سے اس کا سب سے اہم عنصر بھی غائب ہوتا نظر آرہاہے ، صحافت اورصحافیوں کا خمیر دراصل ”جوانمردی ، او لوالعزمی ، بلند حوصلگی اوربے باکی “سے تیا رہونا چاہئے ، اس میں رتی برابر بھی بدعنوانی کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ، مگرافسوس کہ سیاست نے ان اوصاف پر دبیز پردے ڈال دئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ علی العموم صحافیوں سے بلندحوصلگی اوربے باکی کی صفت سلب ہوتی جارہی ہے ، وہ اس کی زد میں حق گوئی سے کترانے لگے ہیں ۔ان کے نیک جذبات اورروشن خیالات بسااوقات روزناموں کے مالکان کے سیاسی مفادکی بنیاد پر لفظوں کا جامہ نہیں پہن پاتے ہیں ،گویا آج سیاست بھی صحافت کے لئے ایک المیہ ہے ۔
ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں مسلمانوں کی مثبت شبیہ کی حوصلہ افزائی کرنے اور فروغ دینے میں اس نے کم ہی دلچسپی لی۔ لھٰذا فرقہ وارانہ فسادات، بابری مسجد، پرسنل لا، یہاں تک کہ خلیجی جنگ جیسے امور کو سنسنی خیز شہ سرخیوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس رجحان نے بسا اوقات اشتعال انگیزتحریروں کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کا کام کیااور اس کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ مالی منفعت اور شہرت کے حصول کے لئے حکومت سے وابستہ ہونے لگے ۔اس کے برعکس ہندی میڈیا نے ٹیکنالوجیکل دور کا سامنا کرنے کی خاطرخود کو تیار کرنے کے لئے1970 میں خود کو نئے سانچے میں ڈھالنا شروع کیااور صحافت کو ایک پیشہ وارانہ نہج عطا کیا۔ بیٹ سسٹم میں کامیابی حاصل کی گئی، رپورٹروں کی بحالی کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ ہندی اخباروں میں بہت سارے امور کو وسیع پیمانے پر جگہ دی جاتی ہے۔
دوسری طرف اردو میڈیا اپنے پرانے روایتی طریقہ کار پر ہی کاربند رہا۔ پیشہ واریت کی کمی تھی چنانچہ اردو صحافت وسائل کی کمی اور ناکافی رپورٹنگ کی صورتحال سے دوچار رہی۔ اور یہی سبب ہے کہ اردو میڈیا صحافت کی دنیا میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر رہا۔ لیکن اس وقت ٹیکنالوجی نے اردو صحافت میں جان ڈال دی ہے جس کی وجہ سے ایک امید قائم ہوئی ہے کہ اسے اپنی روایتی اور مذہبی ارتکاز والی شبیہ سے باہر نکلنا ہے اورخود کو سماج میں تبدیلی لانے والی گاڑی کی شکل دینا ہے۔ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں نئے خیالات کے بہاؤ سے اردو صحافت نئی راہ پر گامزن ہو اور اس میں جمود کی جو کیفیت طاری ہے وہ ختم ہو۔تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک اردو طبقہ جدید خیالات و نظریات کے ساتھ آگے نہیں آئے گا تب تک اردو میڈیا میں انقلابی تبدیلی ممکن نہیں۔اردو میڈیا اپنی اشاعت کے لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ لیکن معیار کے لحاظ سے یہ اپنا کوئی مقام نہیں بنا سکاہے ۔اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ نام نہاد اردو رائٹرس ہیں۔اردو رائٹر س عام طور پر وہ بات لکھتے ہیں جو بات قوم سننا چاہتی ہے۔ حالانکہ کسی رائٹر کا یہ کام نہیں کہ وہ عوامی احساسات و جذبات کا ترجمان بن جائے اور جس طرح عام لوگ سوچتے ہیں وہ انھیں کی طرح سوچنا شروع کر دے۔یہ کام تو نیتا کا ہے! نیتا یہ دیکھتا ہے کہ کسی معاملہ پر قوم کس طرح سوچ رہی ہے،وہ قوم کی سوچ کو معلوم کرنے کے بعد اسی سوچ کی ترجمانی شروع کر دیتا ہے ،جس کی وجہ سے اس کی سیاسی دکانداری چمکنے لگتی ہے۔وہ دیکھتے ہی دیکھتے عوامی لیڈر بن جاتا ہے۔کسی رائٹر کا کام کسی نیتا کے کام سے بالکل الگ ہوتا ہے۔کوئی نیتا قوم کے جذبات کو ایڈریس کرتا ہے اور رائٹر اس کے شعور کو ایڈریس کرتا ہے۔ رائٹر کا کام مصلح کا کام ہوتا ہے ۔ اسے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کسی معاملہ میں چوک کہاں ہوگئی وہ اس چوک کا تجزیہ کر کے بتا تا ہے کہ غلطی کہاں ہو گئی۔کوئی حقیقی رائٹر اپنا اور اپنی قوم کا گہرا محاسبہ کرتا ہے۔وہ قوم کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلا تا ہے ۔وہ قوم کو وہ راستہ دکھا تا ہے جس پر چل کر قوم اپنی تقدیر بدل سکتی ہے۔نیتا یہ کرتا ہے کہ وہ قوم کو الجھا دیتا ہے۔وہ کنفیوزن پیدا کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ قوم تو صحیح راہ پر ہے اس کے ساتھ سازش ہو رہی ہے۔وہ سازش کی تھیوری کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے کہ قوم نا امید ہوجاتی ہے اور یہ سوچنے لگتی ہے کہ اس کی بیماری کا علاج شاید اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔
رائٹر اپنی قوم کے اندر’ کرنے ‘کی نفسیات پیدا کرتا ہے اور نیتا ’ شکایت‘ کی نفسیات۔ رائٹر ’ ا مید ‘پیدا کرتا ہے اور نیتا ’ نا امیدی‘۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اردو اخبارات و رسائل میں لکھنے والے زیادہ تر لوگ نیتا ؤں کی بولی بولنے لگے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں عام طور پر وہی بات لکھتے ہیں جو کوئی نیتا تقریری انداز میں کہیں کہتا ہے ۔گویا کہ اردو کے رائٹرس نیتا کی تقریر کو اپنی تحریر میں بدل دیتے ہیں۔اس کا انھیں فائدہ بھی ملتا ہے۔ جس طرح کوئی نیتا اپنی جذباتی تقریر کے ذریعہ راتوں رات قوم کا ہیرو بن جا تا ہے، اسی طرح کوئی ’رائٹر نما نیتا‘ اپنی قوم کا ہیرو بن جا تاہے۔ وہ جلسے اور سیمیناروں میں بلا یا جا تا ہے ،نیتا ؤں کے ساتھ بیٹھا یا جا تا ہے اور پھر اس سے جوشیلی تقریریں سنی جاتی ہیں۔کسی قوم میں نیتا اور رائٹر کا جو فرق ہے وہ فرق ہمارے یہاں (اردو میڈیامیں)، باقی نہیں رہا۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔یہیں سے ہمارا پورا کھیل خراب ہوا ہے ۔ ترقی یافتہ قومیں یہ کرتی ہیں کہ جب ان کا کوئی نیتا تقریر کر کے بیٹھتا ہے توان کے رائٹر اس کا تجزیہ پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اردو کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے رائٹر س نیتا کی کہی ہوئی بات کو ہی دوہرانا شروع کر دیتے ہیں۔آپ کوئی بھی اردو اخبار و رسائل کو اٹھا کر دیکھیں وہاں آپ کو صرف پروبلم نظر آئے گا سلوشن نظر نہیں آئے گا۔ نیتا پروبلم پیدا کرتا ہے اور رائٹر سلوشن ۔لیکن جس قوم کے رائٹرس بھی نیتا کا کام شروع کر دیں اس قوم میں صرف پروبلم ہی نظر آئے گا وہاں آپ سلوشن کی توقع نہیں کر سکتے۔بلا شبہ مین اسٹریم میڈیا مسلمانوں کے ایشوز کواٹھا نے میں ناکام رہا ہے ۔مین اسٹریم میڈیا میں مسلمانوں کے مسائل ایمانداری کے ساتھ نہیں اٹھائے گئے،جس کی وجہ سے اردو اخباروں نے اپنے مسائل اٹھانے کی ذمہ داری خود اپنے کاندھے پر لے لی ، لیکن اس کام میں جس اعتدال کی ضرورت تھی ہم اس اعتدال پر قائم نہیں رہ سکے، نتیجہ کے طور پر اردو میڈیا مسائل کا پٹارہ بن گیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے لکھنے والے ایماندارانہ تجزیہ پیش کریں ۔ وہ اپنے اندر تحقیقی صلاحیت کو بڑھا ئیں۔ وہ اردو صحافت میں صرف اس لیے نہ کود پڑیں کہ ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا۔یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بہت سارے لوگ اردو میڈیا میں اس وقت آتے ہیں جب کہ وہ کسی کام کے لائق نہیں رہتے ،یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد!!!
اردوصحافت کوفروغ دینے کے نام پر منظرعام پرآنے والے بیشتراخبارات کی موجودہ صورتحال کیاہے؟درحقیقت انہیں کن مصائب ومشکلات کاسامناہے؟ بنیادی مسئلہ 
کیاہے؟قاری کامسئلہ کیاہے؟ان کے وسائل کس حد تک ہیں؟ زردصحافت سے اردوصحافت کاکیارشتہ ہے؟ خبروں کی فراہمی،پیشکش اور انداز و آہنگ کے لحاظ سے 
اردوروزناموں کی صورتحال کیا ہے؟کمرشیل اشتہارات کس حد تک ملتے ہیں؟سرکولیشن کامعاملہ کیساہے؟ ہم عصرصحافت سے مقابلے اورموازنے کے بعد اردوصحافت کی کیا شکل سامنے آتی ہے؟جدیدتکنیکی وسائل کو بروئے کارلانے میں اردوصحافت کس حدتک کامیاب ہے؟’حقیقت پسندی‘ کارجحان کس حد تک ’فرقہ پرستی‘کو فروغ دینے کا محرک بن رہاہے؟اردو صحافت نے’خودساختہ‘قفس میں خودکوکس حد تک قید کررکھا ہے ؟صحافتی اقداروآداب اور تقاضوں کی پاسداری کس حد تک کی جارہی ہے؟اردوصحافت کے اسلوب وآہنگ پر اردو زبان کی زوال پذیری کااحساس کس حدتک غالب ہے؟احتجاج واشتعال سے یہ وادی کیوں بھری پڑی ہے؟اخلاقیات کو نباہنے کاخیال بھی ہے آیا نہیں؟یہ وہ سوالات ہیں،جنہیں نظر انداز کرتے ہوئے عصری اردوصحافت کاایماندارانہ طریقے سے جائزہ لیاجانا ممکن ہی نہیں! اردو صحافت کے موجودہ منظرنامہ سے جو تصویر ابھرتی ہے اس کا قدر مشترک پہلو یہ بھی ہے کہ اردو صحافت میں سرمایہ کاری کا عام طور پررجحان کافور ہے اور چند استثنائی صورتوں کے علاوہ اردو اخبارات کی اشاعت میں ایسے لوگ ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جن کیلئے اس وادئ خزاں رسیدہ میں قدم رنجہ ہونا ذاتی آمدنی کے حصول کابہترین وسیلہ ہے  ورنہ صحافت کے بنیادی تقا ضوں کو پورا کرنے سے انہیں دورکابھی واسطہ نہیں!۔ بلا شبہ قابل لحاظ تعداد میں اردواخبارات و رسائل کاورودمسعود متواترجاری ہے اور برقی ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بھی اردوصحافت کسی نہ کسی شکل میں جگہ بناتی نظرآرہی ہے ،تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہ حیثیت مجموعی اردو صحافت کی صورت حال تشویش ناک حد تک خراب ہے ۔کہنے کواس وقت ہندوستان میں اردوصحافت خوب پھل پھول رہی ہے اور وطن عزیز کے25 کروڑ مسلمانوں کی ’’ایک مستحکم آواز ‘‘بھی تصورکی جاتی ہے مگرگہرائی میں جاکر دیکھنے سے اس تاثر کی نفی ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ خیال بھی شدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ تقسیم وطن کے بعد اگر کم از کم ہندوستانی مسلمانوں نے ہی اردوصحافت سے اپنے تعلقات کوبرقرار رکھاہوتا توآج اسے جس کس مپرسی کاسامنا ہے،ایسی صورت حال ہرگزہرگزپیش نہ آتی۔ 
صحافت آج ایک ایسے انسان پسندپیشہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو ہمہ پہلوعلوم وفنون کااحاطہ کرتے ہوئے قارئین کونہایت جامعیت کے ساتھ صرف اطلاعات ہی فراہم نہیں کراتی بلکہ معاشرے کے ہررکن سے وابستگی رکھتے ہوئے اس کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کاباعث بھی بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ 21ویں صدی کے تبدیل شدہ منظر نامہ میں صحافت کی اہمیت مزیددو چند ہوگئی ہے ۔یہ مسلمہ حیثیت اس پیشے کو صرف اس وجہ سے حاصل ہے کیونکہ صحافت کا بذاد خود کوئی مذہب نہیں ہے ۔یہ معززومحترم پیشہ خودکو کسی حصار کی مکین نہیں گردانتا۔جس طرح زبان کاکوئی مذہب نہیں ہوتا، علم وفن کا کوئی دین ودھرم نہیں ہوتا،ٹھیک اسی طرح بذات خود صحافت بھی مذہبی ولسانی حدودوقیودکی کبھی پابند نہیں رہی ۔یہی وجہ ہے کہ انسان سے براہ راست انسانیت کی بنیاد پر سروکار رکھنا اس مقدس پیشے کاجزواعظم قرارپایا۔ صحافت کایہ آزادانہ کرداربالعموم جس طرح بحال نہیں رہ سکاہے،اسی طرح بدقسمتی سے’’اردوصحافت‘‘پربھی اس کا مکمل طورپر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ ’’اردوصحافت‘‘اس تقاضے کو بوجوہ  تمام نبھانے سے قاصر رہی ہے۔ 
اردوصحافت کے ائمہ نے صحافت کا جو دستورالعمل اور ضابطہ تیارکیاتھا(اور جسے انہوں نے عملی صحافت میں برتتے ہوئے تاریخ میں اردوصحافت کانام روشن کیا)اس میں بھی ایسے ہی محسوسات کااظہار کیاگیاتھاجس کاذکر سطور بالامیں کیاگیا ہے۔لیکن آج اردوصحافت میں عملاًان اصولوں کونہیں برتاجارہاہے۔مولانامحمدعلی جوہرنے کہاتھا کہ وہ اپنے اخبارکوقاری کا’رفیق سفر‘بنانا چاہتے ہیں،آج کی اردوصحافت کے مزاج،انداز،اطواراور ترجیحات کو پیش نظررکھ کر یہ رائے قائم کرنامشکل ہے کہ اردوکے اخبارات قارئین کے’’رفیق سفر‘‘ہیں۔ اصولوں کی پاسداری کے لحاظ سے اردوصحافت اپنے شاندار ماضی کی امین کہلانے کی مستحق ہے؟یہ دعویٰ ہرگزنہیں کیاجاسکتا کیونکہ تغیرزماں کے درمیان ’’اردوصحافت‘‘ہنوز یہ طے نہیں کرسکی ہے کہ اس کاکردارکیاہے؟مشن کے طور پر ’’اردوصحافت‘‘کام کررہی ہے؟یا کاروباری خطوط پر’اردوصحافت‘ کی گاڑی آگے بڑھ رہی ہے؟ عصری اردوصحافت کوپیش نظر رکھ کریہ فیصلہ کرنامشکل ہے۔کیونکہ اردوصحافت کاموجودہ منہاج نہ تومشن سے ہی عبارت ہے اور نہ ہی اس میں’کاروباری ‘ یا’تجارتی‘خصلتیں ہی موجودہیں۔ہرچند کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ اردوصحافت کوہم عصرصحافت کے مدمقابل کھڑاکیاجاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے بالعموم ایسا نہیں ہوسکاہے۔عصری اردوصحافت کی یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ منفی جذبوں کوبروئے کار لاتے ہوئے قارئین کے جذبات کو برانگیختگی بخشنے کی بجائے مثبت رویوں کو صحافتی ترجیحات میں شامل کیاجائے اور خوابیدہ صلاحیتوں کوجگایاجائے۔ہم عصراردوصحافت کے رگ و ریشے میں تواناخون دوڑانے کیلئے ایک تحریکی ذہنیت کی ضرورت درپیش ہے ۔ صرف پرخلوص جذبوں کے تحت صورتحال میں کوئی انقلابی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔اس کیلئے بہترین وسائل کوبروئے کارلاناہوگا،سرمایہ کاری کامستحکم طریقہ اختیارکرناپڑے گا۔ بہترین صحافتی ٹیم تیارکرناہوگی۔فرسودہ نظریات اوردقیانوسی ذہنیت کوترک کرناپڑے گا۔عصری صحافت کی ترقی کے اسرار ورموزسے شناوری حاصل کرنی پڑے گی اورپھراس کی روشنی میں اردوخواں آبادی کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے ترجیحات کاتعین کرناہوگا،تب کہیں جاکر اردوصحافت کی آبرو کی بحالی ممکن ہوسکے گی۔گرچہ یہ ایک مشکل ترین کام ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ اردوقارئین کاایک بڑاطبقہ آج اپنی صحافتی ضروریات کی تکمیل کیلئے صرف اس وجہ سے دیگرزبان کے اخبارات خریدنے پر مجبور ہے کیونکہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہلیت سے زیادہ تر اردو اخبارات متصف نہیں۔ماحصل کے طورپریہ نتیجہ اخذہوتا ہے کہ امکانات کی موجودگی کے درمیان اردوصحافت ایسے مسیحاؤں کی منتظر ہے جس کاشرمندۂ احسان ہوکریہ صنف ادب اپنی حرمت،عزت، وقاراوراعتبار کودوبارہ بحال کرسکے۔ 



Wednesday 14 March 2012

اللغة العربية مهملة.. والحاجة لنشرها وتعليمها أكبر من سعة المؤسسات التعليمية القائمة مساعٍ لتطوير المعهد العربي للغة العربية للناطقين بها وبغيرها


القحطاني لـ «الشرق الأوسط»: اللغة العربية مهملة.. والحاجة لنشرها وتعليمها أكبر من سعة المؤسسات التعليمية القائمة
مساعٍ لتطوير المعهد العربي للغة العربية للناطقين بها وبغيرها
جمعان القحطاني مدير عام المعهد العربي للغة العربية
فتح الرحمن يوسف 
على الرغم من الجهد الذي يبذله المعهد العربي للغة العربية والجهات ذات الصلة في الرياض، في سبيل نشر اللغة العربية وتعليمها لغير الناطقين والناطقين بها داخل السعودية وخارجها، فإن جمعان القحطاني، مدير عام المعهد، يجزم بأن الحاجة لتعليم ونشر اللغة العربية أكبر من سعة المعاهد والكليات التي تنشط في هذا المجال.
وقال القحطاني لـ«الشرق الأوسط» في حوار معه في الرياض، إن اللغة العربية لم تلق الاهتمام الكافي حتى الآن، مؤكدا في نفس الوقت توجه المعهد العربي لأن يطور إلى جامعة عربية لخدمة هذا الهدف داخل وخارج السعودية. وفي الحوار التالي المزيد من التفاصيل..
* حدثنا عن المعهد العربي كفكرة وكهدف؟
- المعهد العربي فكرة ريادية تبنتها مؤسسة سليمان الراجحي الخيرية، وهدفها خدمة الإسلام والمسلمين والعرب وغير العرب ممن يرغبون إما باكتساب هذه اللغة وإما بتجويد أدائهم وترويض كتاباتهم ومحادثاتهم، خاصة أن ميدان اللغة العربية غير مخدوم الخدمة التي تليق به.
ويستهدف المعهد الناطقين بغير اللغة العربية والناطقين بها ويحاول أن يقدم خدمات متنوعة بعضها يتعلق ببناء المناهج والمواد التعليمية المتنوعة منها التعليم عن بعد واستخدام الوسائط المتعددة واستخدام تقنيات التعليم واستخدام البرمجيات المنوعة، بالإضافة إلى الدراسات والبحوث حول القضايا المتعلقة بتعليم اللغة العربية.
* كيف استطاع المعهد أن يرسم خريطة طريق لانطلاقته بشكل علمي وتطبيقي في نفس الوقت؟
- أول ما بدأ المعهد به، قام بدراسات ميدانية لتحليل الاحتياجات اللغوية لدى المقيمين في السعودية، من غير الناطقين باللغة العربية، وماهية المواقف الاتصالية التي يتعرضون لها، والاحتياجات اللغوية لكل موقف من هذه المواقف.
وبالنسبة العرب، قسم المعهد البحث على فئتين كبيرتين، وهما فئة المتعلمين من المرحلة الابتدائية وحتى المرحلة الجامعية، حيث إن هؤلاء طلاب لهم احتياجاتهم اللغوية التي لا تسدها المدارس أو المناهج أو المناشط اللغوية التي تمارس في هذه المراحل، إذ إننا وجدنا في هذا الجانب أن اللغة العربية مخدومة خدمة ضعيفة جدا لدى هذه الفئات.
وجدنا طلابا يعانون من صعوبات لغوية بالغة وتعثر في القراءة وتعثر في الكتابة، مع أن وزارة التربية والتعليم خصصت لهؤلاء فرق عمل، علما بأنهم متخصصون في صعوبات التعلم، ولكنهم متخصصون في صعوبات التعلم جملة وليس في صعوبات التعلم اللغوي بصفة خاصة.
ووجدنا أن معظم الصعوبات تكون في تعلم الرياضيات والعلوم وفي التعلم في طرق التعلم، وبعضها يتعلق بالقراءة والكتابة وبعضها يتعلق بالقراءة والكتابة، ومع أن معلمي اللغة العربية يقدمون خدمة جيدة ولكن ليس لديهم الأدوات المصنوعة صناعة علمية جيدة ليستخدموها مع هؤلاء الطلاب وإنما هي نتاج اجتهادات شخصية، حيث إن كل معلم يقدم خدماته بحسب خبرته، وبحسب الحالة الفردية للطالب.
ولذلك اكتشفنا حاجة ماسة عند هؤلاء لخدماتنا من إعداد مواد وبرمجيات وحقائب تدريبية وحقائب للمعلمين أنفسهم لمساعدة هؤلاء الطلبة، حيث وجدنا أشياء تتعلق بالمعلمين وأخرى تتعلق بالمشرفين النشاط الطلابي وثالثا يتعلق بالمشرفين على الموهوبين وهذا في قطاع التعليم.
أما في قطاع الجمهور العام، فوجدنا الاحتياجات تتعلق بمستخدمي اللغة العربية في المواقف التواصلية مثل الخطباء والإعلاميين والمراسلين والمدربين والمعلمين غير المتخصصين في اللغة العربية.
* ما الآلية التي اعتمدتموها كمرجعيات ومعايير لتعليم اللغة أو التدريب على الأداء اللغوي؟
- استعنا بدراسات أجريناها على احتياجات العرب واحتياجات غير العرب، انتقلنا بها إلى المرحلة الثانية، وهي تطوير مرجعيات ومعايير لتعليم اللغة أو التدريب على الأداء اللغوي، وكان أمامنا أكثر من معيار عالمي معتمد ومعروف ومن أشهرها المعيار الأوروبي لتعليم اللغات واسمه الإطار الأوروبي المشترك لتعليم اللغات، ثم الإطار الأميركي وهو إطار معد في مراكز بحث متخصصة في علوم اللغة التطبيقية وتعليم اللغات.
وهناك أيضا معيار كندي قد لا يرقى لمستوى المعيار الأوروبي ولكن به توجهات وأفكار جديدة ورائعة في تعليم اللغات ومن هذه المعايير العالمية بجانب الجهود العربية التي قدمت، وخاصة تلك التي قدمها معهد التربية العربي لدول الخليج والجهود التي قدمتها وزارة التربية والتعليم السعودية في وضع كفايات لكل مرحلة وأداة من أدوات اللغة العربية في التحدث والقراءة والكتابة.
* هل اعتمدتم على المعايير المستوردة كليا أم كان للمعهد معايير خاصة به؟
- طبعا، صغنا من هذه المعايير العالمية، معايير المعهد العربي لتعليم اللغة العربية ثم انطلقنا بعد ذلك لبناء المواد التعليمية، الموجهة للعرب وتلك الموجهة لغير العرب، وكنا قد قدمنا في قسم غير العرب برامج عامة منها اللغة العربية للكبار واللغة العربية للصغار، والتي تهدف لتعليمهم اللغة للحياة العامة.
وقدمنا مجموعة من البرامج المتخصصة، والتي تكون فيها المواقف التواصلية لمحيط العمل أو محيط المهنة ومنها اللغة العربية للدبلوماسيين واللغة العربية للعاملين في القطاع الصحي واللغة العربية للعاملين في القطاع الخاص، سواء التجاري والبنوك، واللغة لحديثي العهد بالإسلام، باعتبارها المفتاح للاستزادة من المعلومات الدينية ولقراءة القرآن الكريم وفهم الخطب وفهم الفتاوى وفهم العقل.
وهناك برامج متنوعة منها برنامج المحادثة الشفهية ودورات قصيرة وأخرى مطولة بحسب هدف المتعلمين.
وبالنسبة للعرب أيضا صممنا مجموعة من البرامج الموجهة للموهوبين لغويا، وكذلك لأصحاب التعثر الكتابي والقرائي وصعوبات التعلم اللغوي لعامة الطلاب الذين يرغبون في تطوير أدائهم اللغوي أو حتى في دعم مناهج اللغة التي يتلقونها في المدارس، كما قدمنا مجموعة من البرامج التأهيلية للتأهيل اللغوي كخطباء أو كإعلاميين أو كصحافيين أو كمتحدثين رسمين بأسماء جهات رسمية.
* متى مارس المعهد تطبيق هذه المعايير عمليا؟
- بدأنا نمارس العمل منذ مطلع 1432ه بهذه الاتجاهات، وأعتقد أننا قطعنا شوطا كبيرا في تجهيز المواد التعليمية، كما شكلنا فريقا كبيرا من الخبراء المتخصصين في كل من هذه الجزئيات المختلفة، إذ لدينا خبراء يتعاملون مع الموهوبين، وآخرون يتعاملون مع صعوبات التعلم اللغوي، وآخرون يتعاملون مع تعليم اللغة العربية لغير الناطقين بها، وهكذا في كل فرع وجزء من قطاعات أعمالنا، حيث لدينا قسم كامل للبحث والترجمة وقسم للدراسات الميدانية.
وأجزم بأن المعهد حقق جزءا كبيرا من هذه الأهداف ولكن مع ذلك أقول إن الحاجة أكبر مما لدينا الخبراء. وأعتقد أننا على مدى أربع أو خمس سنوات مقبلة نكون قد قطعنا شوطا كبيرا ونسير بخطى واثقة.
* ما تقييمك لما تقدمه الجهات ذات العلاقة بالتعليم العام والعالي في السعودية في هذا الصدد؟
- أعتقد أن المملكة هي من أكثر الدول المهتمة بنشر اللغة العربية وتعليمها ولها في ذلك بصمات كبيرة ومتواصلة في شتى أنحاء العالم، وما فتح الأكاديمية السعودية لنشر وتعليم اللغة العربية في الخارج وفتحها في الفترة المسائية لأبناء البلد وأبناء الجاليات العربية هناك، إلا واحدة من الوسائل الكثيرة التي تدعم بها المملكة الدول والشعوب في هذا الجانب.
ويوجد في المملكة أكثر من جهة ومركز متخصصة لنشر وتعليم اللغة العربية، منها معهد اللغة العربية بجامعة الملك سعود ومعهد اللغة العربية بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية، وفي جامعة أم القرى وجامعة المدينة المنورة والجامعة الإسلامية، «كرسي صحيفة الجزيرة للغة العربية» في جامعة الأميرة نورة، بالإضافة لمركز الملك عبد الله لتطوير اللغة العربية، وهو مركز أنشئ حديثا في جامعة الملك سعود، ومركز الأمير سلمان للغويات التطبيقية في جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية، بالإضافة إلى كراسٍ كثيرة داخل السعودية وخارجها، حيث هناك كرسي لتعليم اللغة العربية في روسيا والصين وغيرها من البلدان بهدف تطوير اللغة العربية وتعليمها.
* هل للمعهد عمل مشترك ملموس مع أي من هذه الجهات؟
- هناك عمل مشترك بين وزارة التعليم والمعهد العربي للغة العربية، وهو إجراء مسابقة للغة العربية لمدارس الجاليات المقيمة في السعودية ويشترك فيها هذا العام، منطقة الرياض، ومنطقة جدة والمنطقة الشرقية والمنطقة الغربية، وهذا أول عمل مشترك بيننا لخدمة اللغة العربية ونشرها وتطويرها ودعم تعليمها في المدارس الأجنبية في السعودية.
وخصص لهذا العمل ميزانية تفوق 800 ألف ريال، يتكفل بها المعهد، وسيكون العمل تحت رعاية وزير التربية والتعليم، ونأمل أن تكون هذه البذرة فتحا لنشاطات أخرى تشترك فيها الوزارة مع المعهد لخدمة اللغة العربية.
* برأيك ما أهم المشاريع التي تسعون لتحقيقها من خلال هذا المعهد؟
- لا شك، هناك الكثير من الأهداف والمشاريع التي نعمل على تحقيقها، ولكنني أرى أن هناك فكرة رائدة نسعى جاهدين لتحقيقها وهي مسألة تحويل المعهد العربي إلى جامعة عالمية تنطلق من السعودية وتقوم بتحقيق كل الأهداف السامية التي نسعى لتحقيقها تحت مظلة هذه الجامعة، والتي منها منح الدرجات الجامعية وهي البكالوريوس والدبلومات العليا العلمية العليا مثل الماجستير والدكتوراه والأستاذية، وأتوقع أنه سيكون هناك دعم كبير من قبل القائمين على أمره هذا المعهد، فضلا عن الدعم المنتظر من وزارة التعليم العالي والوزارات والجهات ذات العلاقة والمهتمة بلغتنا الجميلة

Sunday 11 March 2012

علمائے ہند کے عربوں سے ازدواجی رشتے



 

اس موضوع پر لکھنے کے لیے ہمارے سامنے پہلا سوال تویہ ہے کہ ہند عرب تعلقات میں آخر ازدواجی رشتہ کا عنوان ہی کیوں اختیار کیاجائے؟ اور کرنا ہے تو پھر علما ہند تک کیوں محدود رہیں؟ عوام میں تو اس کی مثالیں بہت زیادہ مل جائیں گی۔
          اس سلسلہ میں میرا خیال یہ ہے کہ تجارتی، سیاحتی، صحافتی تعلقات کے مقابلہ ازدواجی رشتہ اگر صحیح مل جائے تو وہ انتہائی پائیدار اور مستحکم ہوتاہے کہ پھر نسلوں تک اس کے پھل پھول اپنی افادیت دیتے رہتے ہیں۔ اسی رشتہ سے ذہنوں میں وسعت آتی ہے، ثقافتی تعلقات بڑھتے ہیں، فاصلاتی دوریاں کم ہوتی ہیں اور بہت سے بندھن خود بہ خود مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔
          اور پھر علماء کے رشتہ کو میں نے اس لیے اختیار کیا کہ علماء عوام سے جڑے ہوتے ہیں، عوام کے درمیان ہی ان کے تبلیغی، تدریسی، تعلیمی اور معاشی روابط قائم ہوتے ہیں، عوام کی نفسیات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور حسبِ ضرورت جب رشتہ قائم کرتے ہیں تو اس کے تقدس اور واجبات کو سامنے رکھتے ہیں۔ عوام کی طرح نہیں جہاں رشتہ قائم کرتے وقت اس کے تقدس کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا جیساکہ ۶/مارچ۲۰۱۰ء کی شب میں ”ای ٹی وی“ پر خبروں میں حیدرآباد کا ایک منظر دکھایا گیا ہے، جس میں کئی برقعہ پوش عورتیں اور بچے سعودی سفارت خانہ کے کلچرل اتاشی شیخ ابراہیم بطشان کو گھیرے ہوئے میمورنڈم پیش کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ۸-۱۰ سال قبل دبئی کے کئی عرب یہاں سے شادی کرکے سال دوسال رہے اور ایک دو بچے اپنی نشانی چھوڑ کر چلے گئے، اب ہم دانہ دانہ کو محتاج ہیں، بچے اپنے باپ کا پتہ پوچھ رہے ہیں، یہ ہے خمارِ گندم کا عوامی رشتہ اور علماء کے رشتوں میں آپ کو صرف ازدواجی رشتے ہی نہیں؛ بلکہ انیسویں اور بیسویں صدی کے ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور معاشی جھلکیاں بھی نظر آئیں گی، علمائے ہند کی جنگ آزادی میں شمولیت بھی، پھر یہ بھی اندازہ ہوگا کہ جن خاندانوں نے ذاتی یا سماجی مجبوریوں کی بنا پر عرب ہجرت کرجانے کا فیصلہ کیا، وہ خود ان کے لیے اور ہندوستان کے لیے مفید ثابت ہوا؛ جب کہ ان میں حبِ وطن اور خاندانی روایات کو باقی رکھنے کا جذبہ آج بھی موجزن ہے۔ نہ وہ اپنے جدی وطن کو بھولے ہیں، نہ تہذیب وروایات کو، اگرچہ ظاہری چولا بدل گیا ہے، طوب اور عِقال زیب تن ہے؛ مگر دل ہے پھر بھی ہندوستانی۔
          اب اس موضوع پر ہمارے سامنے سب سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدین کا نام آتا ہے، جو اپنے زمانہ کے جید عالم اور صوفی تھے، انھوں نے ۱۸۵۷ء میں برطانوی اقتدار کے جبر وتشد سے مجبور ہوکر مکہ معظمہ کے دامنِ امن میں پناہ لینے کے لیے ہجرت فرمائی تھی، وہاں جب ترکی حاکم وقت سلطان عبدالحمید کو مولانا کی ہجرت کا علم ہوا تو اس نے آپ کو قسطنطنیہ بلابھیجا، آپ وہاں تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد پھر حجاز واپس آگئے۔ یہاں رفتہ رفتہ آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور اسی دوران مدینہ منورہ کے مفتی اکبر الشیخ محمد طاہر کی بھانجی سے آپ کا عقد ہوگیا، جن کے بطن سے ۱۸۸۸ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ولادت ہوئی۔ اسے مولانا کی اولین خوش قسمتی کہیے کہ آپ کو دس سال کی عمر تک مکہ معظمہ کی مبارک سرزمین پر قیام کا موقع نصیب ہوا۔
          اس کے بعد مولانا خیرالدین کے عقیدت مندوں نے اس قدر اصرار کیا کہ آپ ۱۸۹۸ء میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہندوستان تشریف لے آئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔(۱)
          دوسرا نام ہمارے سامنے مولانا عبدالحق مدنی کا آتا ہے، جن کا آبائی وطن دیوبند ضلع سہارنپور تھا، مگر آپ کے والد ڈاکٹر رفاقت علی مرحوم دیوبند سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے اور اسی ارض مقدس کو اپنا وطن بنالیا تھا۔
          وہاں آپ اپنی صلاحیت کی وجہ سے کافی مقبول ہوئے اورسلطنتِ عثمانیہ کی طرف سے مدینہ منورہ میں فوجی سرجن کے منصب پر فائز کیے گئے اور آخر تک اسی عہدہ پر مامور رہے۔ آپ نے وہیں کلکتہ کے ایک مہاجر خاندان کی لڑکی سے عقد کیا، جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چند صاحبزادیاں اور ایک بیٹا عطا فرمایا جس کا نام عبدالحق رکھا گیا۔
          اس زمانہ میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی بھی اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور مسجد نبوی میں درس دیا کرتے تھے۔
          ڈاکٹر رفاقت علی مرحوم کے اس خاندان سے اچھے مراسم تھے؛ اس لیے ڈاکٹر صاحب نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ ان کے بیٹے عبدالحق کو بھی اپنے تلامذہ میں قبول فرمالیں۔ اس طرح آپ نے از اوّل تا آخر شیخ الاسلام سے تعلیم حاصل کی اور جید عالموں میں شمار کیے گئے۔
          اس سے آگے کے حالات بیان کرتے ہوئے آپ کے صاحبزادے مولانا محمد اسماعیل عثمانی لکھتے ہیں کہ جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو آپ کی اہلیہ کا مدینہ منورہ میں وصال ہوچکا تھا اور دوسری آپ کے ساتھ آئی تھیں، ان کی وفات کراچی میں قیام کے دوران ہوئی اوریہ دونوں عرب تھیں۔ اس کے بعد آپ نے مجرد زندگی گزارنے کا ارادہ فرمایا؛ مگر جب دیوبند تشریف لائے تواپنے استاذ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے اصرار پر آپ عقد ثالث کے لیے تیار ہوگئے۔
          اب مولانا قاری محمد طیب صاحب مرحوم کی والدہ نے اپنا حق بزرگی ادا کرتے ہوئے حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن کے برادر خورد مولانا حامد حسن صاحب کی صاحبزادی سے آپ کا رشتہ مناسب سمجھا، جسے آپ نے قبول فرمالیا اور ۱۳۴۶ھ میں یہ تقریب عمل میں آئی۔
          اس کے بعد ۱۳۵۱ھ میں آپ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے مہتمم بنائے گئے اور تاحیات اس منصب پر فائز رہتے ہوئے مدرسہ کی شاندار خدمات انجام دیں۔
          ۱۹۴۴ء میں جب خاکسار کا مدرسہ شاہی کے درجہ حفظ میں داخلہ ہوا تو آپ ہی منصب اہتمام پر رونق افروز تھے اور بعد نماز فجر شاہی مسجد میں ترجمہٴ کلام پاک بیان فرماتے تھے۔(۲)
          اس کے بعد حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے خاندانی حالات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں جو اس موضوع سے متعلق اہم ہے۔
          آپ کے والد سید حبیب اللہ ۱۸۵۷ء میں جب پانچ سال کے ہوئے تو اس خاندان کی فارغ البالی کا دور کئی اسباب کی بنا پر گردش میں آگیا تھا۔ ان اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا سید فرید الوحیدی صاحبنے لکھا ہے کہ ایک تو مولانا حبیب اللہ صاحب کے والد ۱۸۵۷ء میں وفات پاگئے۔
          دوسرے اسی زمانہ میں مولانا حسین احمد صاحب کے حقیقی نانا سیداکبر علی صاحب کا اچانک دریائی حادثہ میں انتقال ہوگیا، یہ خاندان کی بارعب شخصیات تھیں، جن کی وجہ سے خاندان کا وقار اور دبدبہ بنا ہوا تھا۔
          جب یہ شخصیات دنیا سے اٹھ گئیں تو گرد وپیش کے راجہ ورؤسا کو موقع مل گیا، جو عرصہ سے منتظر تھے، انھوں نے اپنے آدمیوں سے یلغار کراکے حویلی کا سارامال ودولت لوٹ لیا؛ بلکہ دروازے، کھڑکیاں بھی نکلواکر لے گئے، گھر کے لوگوں کو راتوں رات دوسرے قصبہ میں جاکر پناہ لینی پڑی۔
          اسی لیے مولانا حبیب اللہ صاحب کی پرورش اور تعلیم بڑی تنگی، ترشی میں ہوئی، پھر مرحوم سید اکبرعلی صاحب کی صاحبزادی نورالنساء سے آپ کا عقد ہوا اور ان سے پانچ صاحبزادے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ ابتدا میں ان بچوں کی اسکولی تعلیم ہونے لگی؛ مگر چونکہ مولانا حبیب اللہ صاحب خالص دینی اور صوفیانہ ذہن کے آدمی تھے؛اس لیے تین بیٹوں کو آپ نے حضرت شیخ الہند کی سرپرستی میں دیوبند بھیج دیا، وہاں بچوں کے قیام وطعام کے اخراجات تو مدرسہٴ دیوبند برداشت کرتا تھا؛ مگر والد صاحب ہرلڑکے کے جیب خرچ کے لیے ایک روپیہ ماہانہ بھیجا کرتے تھے۔
          اسی دوران ایک حادثہ یہ پیش آیا کہ سید حبیب اللہ صاحب کے پیرومرشد حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادی کا ایک سو پانچ سال کی عمر میں ۱۸۹۵ء میں وصال ہوگیا اوراس سانحہ سے ان کے دل کی دنیا اجڑگئی، ہر وقت پریشان رہنے لگے اور چاہتے تھے کہ کہیں نکل جائیں۔
          ادھر دیوبند میں جب بیٹوں کو والد کی پریشانی کا علم ہوا تو بڑے صاحبزادے نے خط لکھا کہ یہاں اب باغ وغیرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے، اس کی فکر نہ کریں، اب ہندوستان رہنے کی جگہ نہیں رہی، اب تو مدینہ چل بسیں۔
          یہ آخری جملہ اس بات کی عکاسی کررہاہے کہ ایک تو بیٹا والد کے دینی مزاج سے واقف تھا دوسرے حضرت شیخ الہند کے پاس رہنے کی وجہ سے وہ جہادِ آزادی سے بھی بے خبر نہ تھے اور ہندوستان میں برطانوی نظام یا بدنظمی نے جو عوام میں بے کلی اور بے چینی پیدا کردی تھی، وہ بھی سب کے لیے پریشان کن تھی۔
          اس کے ساتھ مولانا حبیب اللہ صاحب بھی انگریزی سامراج سے بددل تھے؛ کیونکہ ذریعہٴ معاش کے لیے جب انھوں نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا تو اسکول میں تنخواہ؛ اس لیے کم ملتی تھی کہ یہ صرف اردو فارسی حساب تو اچھی طرح جانتے تھے، انگریزی سے ناواقف تھے، بعض لوگوں کے مشورہ پر انھوں نے انگریزی پڑھنی شروع کی؛ مگر پھر انگریزوں سے نفرت کی وجہ سے چھوڑ دی اور کم تنخواہ پر کام کرتے رہے۔
          بہرحال ان تمام وجوہات کی بنا پر انھوں نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا پختہ عزم کرلیا؛ مگر پھر ایک الجھن پیش آئی کہ تین بہوؤں کے والدین آڑے آگئے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو سمندرپار نہیں جانے دیں گے، اس پر مولانا حبیب اللہ صاحب نے کہہ دیا کہ میں تو ہجرت کا پختہ ارادہ کرچکا ہوں، تم اگر اپنی بیٹیوں کو نہیں بھیجنا چاہتے تو طلاق لے لو۔ اس پر سب خاموش ہوگئے، بھلا کون اپنی بیٹی کا گھر برباد کرتا!
          اس کے بعد بارہ افراد پر مشتمل یہ قافلہ ۱۸۹۹ء میں مدینہ منورہ پہونچ گیا، اگرچہ راستہ کی پریشانیاں ناقابل بیان ہیں؛ مگر مقصد پورا ہوگیا۔
          وہاں جاکر رہائش اور ذریعہٴ معاش کے لیے دشواریاں پیش آئیں، جن کا ہمت ، حوصلہ اور تدبیر سے مقابلہ کیا اور مسائل حل ہوئے۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں؛ مگر صاحبزادوں کی مشغولیات کا مختصر تذکرہ ضروری ہے، جس سے موضوع کی وضاحت ہوگی۔
          مولانا حبیب اللہ صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے مولانا صدیق احمد مرحوم (پ:۱۸۷۱ء) آپ کی تین شادیاں ہندوستانی خواتین سے ہوئیں، ان کی وفات کے بعد چوتھا عقد مولانا عبدالحق مدنی مرحوم کے والد ڈاکٹر رفاقت علی کی صاحبزادی سے ہوا، جن کو حجازی قومیت مل چکی تھی، ان کی وفات ۱۹۱۱ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
          دوسرے صاحبزادے مولانا سیداحمد (پ:۱۸۷۶ء) ان کی پہلی شادی ٹانڈہ ضلع فیض آباد میں ہوئی، ان کی وفات کے بعد دوسرا عقد مدینہ منورہ میں ڈاکٹر رفاقت علی کی دوسری صاحبزادی سے ہوا، ان کی وفات کے بعد تیسرا عقد بھی مدینہ منورہ کی کسی خاتون سے ہوا، مولانا کی وفات ۱۹۴۰ء میں ہوئی اور آپ کی صاحبزادی عائشہ مرحومہ کا مولانا اسعدمدنی مرحوم سے پہلا عقد ہوا تھا، جن کا بیٹا احمد بقید حیات بینک الجزیرہ میں منیجر کے عہدہ پر فائز ہے اور اس کی شادی مکہ معظمہ میں ایک مہاجر خاندان کی لڑکی سے ہوئی ہے۔
          تیسرے صاحبزادے سید جمیل احمد (پ:۱۸۸۴ء وفات ۱۹۰۴ء) ۲۰/سال کی عمر میں وفات ہوئی، شادی اور اولاد کے حالات موجود نہیں ہیں۔
          چوتھے بیٹے مولانا سیدحسین احمد مدنی (پ:۱۸۷۹ء) والد صاحب کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لے گئے، عرصہ تک مسجد نبوی میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہا، ہندوستان آتے جاتے رہے؛ مگر کبھی عرب میں مستقل سکونت کا ارادہ نہیں کیا۔ آپ کی یکے بعد دیگرے چار شادیاں ہندوستانی خواتین سے ہوئیں اور چوتھی اہلیہ تادم تحریر بقید حیات ہیں۔
          پانچویں صاحبزادے مولانا سیدمحمود احمد (پ۱۸۹۱ء-۱۹۷۳ء) ۸/سال کی عمر میں والد صاحب کے ساتھ مدینہ منورہ آئے تھے، ابتدا میں قرآن کریم اردو حساب عربی کی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد پھر مدینہ طیبہ کے سرکاری اسکول اور کالج میں عربی، ترکی ریاضی اور دوسرے مروجہ علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ شریف حسین ترکی کی حکومت میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوئے اور سعودی حکومت آئی تو جدہ کے رجسٹرار مقررکیے گئے۔ اس کے بعد ملازمت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعدمدینہ منورہ میں تجارت شروع کی، بڑی صلاحیت اور فہم وفراست کے آدمی تھے، جدوجہد کرتے رہے، سعودی حکومت میں جن صنعتوں کا وجود نہیں تھا، وہ ان کے ہاتھوں وجود میں آئیں۔ فرنیچر کا بڑا کارخانہ لگایا، برف کی فیکٹری قائم کی، جس سے پورے ضلع کو برف کی سپلائی کی جاتی تھی۔ باغات لگوائے، کوٹھیاں بنوائیں، سوئمنگ پول بنوایا، ان کے باغات میں دوسرے ممالک کے امراء اور رؤساء آکر لطف اندوز ہوتے تھے، اس طرح سعودی حکومت کی نگاہ میں انھیں بڑا مرتبہ حاصل ہوا۔ انھوں نے اپنی خدمات سے ثابت کردیا کہ ہم ہندوستانی ہیں جو جس زمین پر رہے، آسمان بن کے رہے۔
          آپ کی پہلی شادی بریلی کے ایک مہاجر خاندان کی لڑکی سے ہوئی، دوسری ایک مراکشی لڑکی سے ہوئی۔ آپ کی اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ تینوں صاحبزادیوں کی شادیاں ہندوستانی نژاد مہاجر خاندانوں کے قابل لڑکوں سے ہوئی ہیں۔
          آپ کے پوتے سیدمحمد حبیب نے جرمنی سے جیالوجی میں ایم ایس سی کیا اور عرصہ تک پٹرولیم منسٹری میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ الحمدللہ مولانا سیدمحمود صاحب بیاسی برس تک نہایت کامیاب زندگی گزار کر ۱۹۷۳ء میں مالک حقیقی سے جاملے۔
          مولانا حبیب اللہ صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا صدیق احمد صاحب نے کئی شادیاں کیں اور اولادیں بھی ہوئیں؛ مگر حیات نہ رہیں اور مولانا کی وفات کے وقت ان کا صرف ایک بیٹا وحیداحمد (پ:۱۸۹۴ء) موجود تھا، جس کو وہ چار سال کی عمر کا ہندوستان سے لائے تھے، والد کی وفات کے بعد دادا نے اور پھر مولانا حسین احمد مدنی نے اس بچہ کی تعلیم وتربیت کے فرائض انجام دیے، ابتدائی تعلیم عرب میں ہوئی، پھر دیوبند لاکر عالم تک کی تعلیم مکمل کرائی گئی۔
          ۱۳۱۳ھ میں جب حضرت شیخ الاسلام حج کے لیے تشریف لے گئے تو مولانا وحیداحمد بھی ہمراہ تھے، وہاں جب حضرت شیخ الہند کی گرفتاری عمل میں آئی اور مالٹا بھیجے گئے تو ان کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام اور مولانا وحید احمد بھی مالٹا میں مقید رہے۔ اس زمانہ میں اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ مولانا وحید احمد نے مالٹا جیل میں مختلف ملکوں کے قیدیوں سے راہ ورسم پیدا کرلی اور کئی زبانیں سیکھ لیں؛ چنانچہ ۱۹۲۰ء میں رہائی کے بعد جب دیوبند آئے تو معلوم ہوا کہ تقریباً دس زبانیں عربی، ترکی، فرانسیسی، انگریزی، جرمن، پشتو، بنگالی، فارسی وغیرہ بخوبی بول اور لکھ سکتے تھے، ہندوستان میں مختلف تدریسی ملازمتوں سے وابستہ رہے اور ہر جگہ ماہر لسانیات ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، مگر عمر نے وفا نہ کی اور ۱۹۳۷ء میں اہلیہ اور ۵ بچوں کو تنہا چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوئے۔(۳)
          آپ کے تین صاحبزادوں میں مولانا ڈاکٹررشیدالوحیدی اور مولانا ڈاکٹر سعیدالوحیدی نے تو ہندوستان ہی میں سکونت اختیارکی؛ مگر بڑے صاحبزادے مولانا سیدفرید الوحیدی مرحوم (۱۹۲۶-۲۰۰۴ء) نے اہل وعیال کے ساتھ جدہ سعودی عرب میں سکونت اختیار کرلی۔ ذریعہ معاش کے لیے تجارتی مشغلہ اپنایا۔
          مولانا فریدالوحیدی صاحب بہترین عربی انگریزی اور اردو جانتے تھے، حسب ضرورت تینوں کا استعمال کرتے؛ مگر ہندوستانی تہذیب وتمدن کے ہمیشہ دلدادہ رہے، خاندانی روایات کو دل سے چاہتے تھے، لباس میں طوب پہننے لگے، ضرورتاً، عقال باندھنا شروع کیا۔ بچوں کے لیے آپ نے رسولِ عربی اور خلافتِ راشدہ اوّل دوم تالیف فرمائی۔ آخری عمر میں آپ کی اہم تصنیف شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی۸۵۲ صفحات پر مشتمل اہم دستاویزی کتاب ہے۔
          عربی اخبار کے مقابلہ اردو اخبار پسند کرتے تھے، عربی اخبار کے بارے میں کہتے اس میں خبریں بہت کم، شاہی خاندانوں کے شب وروز اور مشغولیات کا حال زیادہ ہوتا ہے۔
          اس خاندان کا تجارتی حلقہ بڑھا، ایشیائی ممالک کے علاوہ یورپ اورامریکہ تک تجارتی تعلق پیدا ہوا، خیالات اور خارجی معلومات میں وسعت پیدا ہوئی، آپ کی اولاد میں چار صاحبزادوں کی شادیاں ہندوستانی لڑکیوں سے ہوئیں اور بیٹی کی شادی بھی وطنی عزیز سے ہوئی اور نواسے محمد کی شادی عتیبیہ لڑکی سے ہوئی۔ نواسی منیٰ کی شادی شریفِ مکہ کے خاندان میں احمد شاہین سے ہوئی۔ الحمدللہ آج بھی ان سب کے تعلقات ہندوستانی عزیزوں سے قائم ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک پوتا عمرالوحیدی دہلی میں زیرتعلیم ہے۔(۴)
          مندرجہ بالا حالات مذکورہ حوالہ جات اور مشاہدہ کی مدد سے میں نے قلم بند کرلیے تھے، اس کے بعد مورخہ ۲۲/مارچ ۲۰۱۰ء کومکیہ بکس اوکھلا نئی دہلی میں مولانا شہاب الدین مالک الہدیٰ پبلیکیشرز ، دہلی سے ملاقات ہوئی، ان کے سامنے اس مضمون کا تذکرہ آیا، انھوں نے فرمایا کہ میرے ایک ہم وطن پرانے دوست مولانا عبدالمعید ولد عبدالمجید بلگرامی کا تذکرہ بھی اس میں کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ انھوں نے ابھی ۲۰۰۹ء میں ایک مراکشی لڑکی سے عقد کیا ہے اور وہ آج کل ممبئی میں مقیم ہیں۔
          میں نے اسی وقت شہاب الدین صاحب کی مدد سے خود ان کے فون پر رابطہ کیا، انھوں نے نہایت خوش دلی سے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے، بتایا کہ الحمدللہ میری پہلی اہلیہ لکھنوٴ کی ہیں، ان کے کئی بچے ہیں، اب میں نے اکتوبر ۲۰۰۹ء میں مراکش کے شہر قنفرہ کی رہنے والی عافیہ بنت ہطارالمخزمیہ سے عقد کیا ہے، جو بحمداللہ میرے ساتھ مقیم ہیں۔
          اس کے علاوہ بمبئی کے ایک مشہور تاجر کتب شیخ شرف الدین الکتبی گزرے ہیں، جن کا خاندان کسی زمانہ میں قطر سے ہندوستان آیا تھا، ان کی دکان پورے برصغیر میں علماء اور طلبہ کے لیے مرجع تھی؛ کیونکہ یہ تنہا ایسے تاجر تھے، جو مصر وشام سے کتابیں منگایا کرتے تھے، ان کے انتقال کے بعد صاحبزادوں نے یہ تجارت بڑے پیمانہ پر جاری رکھی اور پریس بھی لگایا۔
          اسی دوران شرف الدین صاحب کے ایک صاحبزادے خلیل شرف الدین صاحب جدہ تشریف لے گئے اور وہاں ان کی ایک ہمشیرہ کی شادی جدہ کے رئیس اعظم اور عالم دین شیخ محمد آفندی نصیف کے صاحبزادے شیخ عمر نصیف سے ہوئی، جو سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے ممبر تھے، اس تعلق کی بنا پر ان کے خاندان کے بہت سے افراد جدہ میں جاکر بس گئے اور آج بھی اس خاندان کے ہندوستان سے روابط ہیں۔(۵)
***
مراجع:
(۱)      الجمعیة دہلی کا مولانا ابوالکلام آزاد نمبر دسمبر ۱۹۵۸ء۔
(۲)      ماہنامہ ندائے شاہی کا تاریخ شاہی نمبر۔ دسمبر ۱۹۹۲ء جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد۔
(۳)     مولانا سیدمحمد میاں اسیران مالٹا۔ ناشر الجمعیة بک ڈپوگلی قاسم جان، دہلی ۱۹۷۶ء۔
(۴)     مولانا سیدفریدالوحیدی۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی۔ ناشر قومی کتاب گھر ۱/۶۱، ذاکر نگر نئی دہلی-۲۵ طبع اوّل ۱۹۹۲ء
(۵)      خلیل شرف الدین، مذہب کی حقیقت، مکتبہ جامعہ، جامعہ نگر نئی دہلی۲۵، طبع دوم ۲۰۰۱ء