Sunday 4 December 2011

اتر پردیش کا اسمبلی انتخاب:مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کا امتحان


محمد جسیم الدین قاسمی
اترپردیش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سیاسی راستہ ہی دہلی کی گدی تک پہنچاتا ہے ،اس کی سیاسی مرکزیت کو سبھی سیاسی پارٹیوں نے تسلیم کیا ہے اور یہ سچ ہے کی جوپارٹی یوپی میںراج کرتی ہے وہ مرکزی حکومت میں بھی اپنا اثر ورسوخ جمالیتی ہے ،اس حقیقت کو سامنے رکھ کر یوپی کے مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ ان کے ووٹ کا مستحق کونسی پارٹی ہے ؟کیا وہ پارٹی جس نے اپنے طویل دور اقتدار میں سبز باغ دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں دیا ،یا وہ پارٹی جس کے دامن بابری مسجدکی مسماری اور گجرات میں مسلم کش فسادات سے داغدارہیں،یا پھر ان کے پاس کوئی اور متبادل ہے ،چوںکہ یوپی میں مسلم ووٹ ہی کسی پارٹی کو اکثریت دلاسکتا ہے،اس تناظر میں کیا جا سکتا ہے کہ یوپی کا اسمبلی الیکشن مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کا بھی امتحان ہے،الیکشن کے اس دنگل میں بی ایس پی کی جانب عام لوگوں کی توجہ بڑھتی نظر آ رہی ہے اور سیاسی لال بھجکڑوں کا دعوی ہے کہ مایاوتی کی پوزیشن سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ لیکن اس پارٹی نے بھی مسلمانوں کو خوب بہلایا ہے۔
اتر پردیش اسمبلی کے الیکشن کا اگر اجمالی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ ریاست کی تقریباْ چالیس فیصد نشستوں پر مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو اپنے ووٹوں سے کامیابی سے ہمکنار کرا سکتے ہیں۔کہتے ہیں کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے اس میں نہ کوئی مستقل طور پر دشمن ہوتا ہے اور نہ ہی ہمیشہ کیلئے دوست! بلکہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ دوست دشمن اور دشمن کو دوست بنانا پڑتا ہے مذکورہ بالا اصطلاح خود غرض اور مفاد پرست عیار سیاستدانوں نے گڑھ لیا ہے اور آج تقریباً ۹۵ فیصد سیاستدان محض کرسی اور اقتدارکیلئے اپنے اصول تبدیل کرتے رہتے ہیں ایسے ہی مفاد پرست چانکیہ کے زمرے میںآج کل سماج وادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ یادو ہیں جنہوں نے کبھی بابری مسجد کو بچانے کیلئے گولیاںچلواکر چند لاشیں تو گروادیں مگر پورے ہندوؤں کو اسی موضوع پر متحد ہونے کا نادر موقع فراہم کردیا جس کی وجہ سے اترپردیش میں پہلی مرتبہ فرقہ پرست پارٹی اقتدارمیں آئی کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ بنائے گئے ۔ اسی کلیان سنگھ کی مبینہ رہنمائی و سربراہی اور نگرانی میں جنونی ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا ۔ اجودھیا میں موجود خیمے میں اڈوانی ‘ ساکشی مہاراج ‘اشوک سنگھل پروین توگڑیا‘ راج ناتھ سنگھ بابری مسجد کی انہدامی کارروائی کا تماشہ دیکھتے رہے اس کے بعد مرکزی سرکار نے کلیان سنگھ سرکار کو برخاست کردیا ۔ اس پارٹی نے مسلمانوں کے خلاف اندرونی طور پر جو کچھ کیا ہے وہ سب جانتے ہیں اترپردیش میں سوائے یادو، سنگھ اور ٹھاکر کے کسی خان پٹھان، شیخ، انصاری کو نوکریوں میں نہیں لیا۔ حتی کہ اس پارٹی میں جو مسلم لیڈران تھے ان کا قد بھی ہمیشہ چھوٹا رکھا گیاکسی کو دوسری صف میں بھی کھڑے ہونے نہیں دیا۔ 
کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اپنے بیٹے راہل گاندھی کو اترپردیش کی کمان سونپی ہے۔وہ ریاست کا وقفہ وقفہ سے دورہ کررہے ہیں تاکہ رائے دہندگان کو یہ باور کرا سکیںکہ واحد کانگریس ہی ترقی اور سیکولرزم کو یقینی بنا سکتی ہے اوریہ کہ ذات پات اور مذہب سے قطع نظر وہ عوام کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔راہل گاندھی باربار دلت گھرانوں کا دورہ کرکے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کانگریس کی پالیسی میں کوئی فرق وامتیاز نہیں ہے،لیکن باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ آشکارا ہوجائے گا کہ کانگریس کے ولی عہد راہل گاندھی بھی سیاسی مجبوریوں کے تحت ہی دلتوں کے گھر جانے کا ڈھونگ رچاتے ہیں ،حقیقت میں انھیں غریب وپسماندہافراد سے کوئی سروکار نہیں ہے ورنہ کیا مجبوری ہے کہ آ ج تک سچر کمیٹی کی 
شفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔