Friday 24 February 2012

دس برسوں میں کویت کی کامیابیاں : ہمہ جہت تعمیر وترقی میںامیرکویت الشیخ جابر احمدالجابرالصباح کا کردار


محمد جسیم الدین قاسمی
ریسرچ اسکالر شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی،دہلی
ہندوستان اورکویت کے مابین مضبوط تجارتی رشتے رہے ہیں۔ جہاں کویت سے تیل اور پٹرولیم مصنوعات اور کئی دیگر چیزیں ہندوستان بر آمد کرتا رہا ہے وہیں ہندوستان نے بھی چاول، گوشت، چائے ، کافی، سیمنٹ، انجینئرنگ کے سامان ، کپڑے اور دیگر چیزیں کویت کو فراہم کر تا رہا ہے ۔
کویت کا قومی دن 25 فروری کو ہوتا ہے۔ فروری کے پورے ماہ کے دوران کویتی عوام اپنی آزادی کے 51 سال اور صدام حسین کی عراقی فوج سے امریکی اتحادی فوجوں کی قیادت میں نجات کے۲۱سال پورے ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ یہ موقعہ، جسے کویت نے گولڈن جوبلی قرار دیا ہے، ایسا ہے کہ ہم ان کامیابیوں پر نظر دوڑائیں جو کویت نے گزشتہ دس سال کے دوران ایک قوم کی حیثیت سے حاصل کیں ہیں۔ 
 ابھی کویت اپنے۲۱؍سالہ یوم آزادی اور نصف صدسالہ قومی دن کاپروقار جشن منانے کی تیاری میں ہے ، اس سنہری موقع پر سابق امیر کویت الشیخ جابر الاحمدالجابر الصباح رحمہ اللہ کی خدمات اور ان کی زندگی کے روشن پہلوؤں کو نہ بیان کیا جاے تو بڑی ناانصافی ہوگی جس عظیم قائد نے تاراج کویت کو ازسرنو آبادکیا ، ایسی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں کہ دلوں کے بادشاہ بن گئے اور اپنے دینی، رفاہی، سماجی اور دعوتی کارناموں کی بنیادپر آج بھی زندہ ہیں
سابق امیر شیخ جابر الاحمد الجابرالصباح کے کارنامے بے شمار ہیں مختصر طور پر ان کاجائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتاہے کہ انہوں نے بڑی حکمت ودانائی کے ساتھ اور انتہائی پرخطرماحول میں رہنے کے باوجود ملک وقوم کے لئے زریں خدمات انجام دیں ،جن میںسے مشت ازخروارے کے طور پربعض اہم خدمات کو ذکر کیا جارہا ہے:
 1۔ کویت کو ایک ترقی یافتہ مثالی اسٹیٹ بنا یا اور پٹرول سے حاصل ہونے والی دولت کوملک کی تعمیر اور اپنی قوم کی راحت کے لیے استعمال کیا۔
 2۔ کویتی شہریوں کے لیے مکان ‘ تعلیم ‘ علاج سب کچھ مفت فراہم کرنے کا انتظام کیا۔
 3۔پٹرول سے حاصل ہونے والی زائد آمدنی کو عیش وعشرت پر خرچ کرنے کے بجائے آنے والی نسلوں کے لیے فنڈ قائم کرکے محفوظ کردیا۔
 4۔ کویت میں مکمل آزادی کاماحول برقرار رکھا ‘ لوگوں کو بولنے اور لکھنے اور اپنی رائے کے اظہار کی آزادی دی ۔
5۔ عرب دنیا کی ترقی کے لیے کویتی فنڈ برائے عرب ترقیات قائم کیا اور تمام ملکوں کو قرضے فراہم کیے اور ان کی اعانت کی اور اربوں ڈالراس سلسلہ میں خرچ کیے ۔
 6۔ دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی اور اندرون ملک سوسے زائد ملکوں کے کارکنوں کے لیے روزگارکے مواقع فراہم کیے۔
 7 ۔ دینی جماعتوں کو اپنی دعوتی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے پوری آزادی دی۔
8 ۔ غریبوں کی اعانت کے لیے نہ صرف وزارت اوقاف اور بیت الزکاة جیسے سرکاری ونیم سرکاری اداروں کوآزادی دی بلکہ عوامی تنظیموں کو بھی اہل خیر سے مال اکٹھا کرکے دنیا کے مختلف خطوں میں ضرورت مندوں کی اعانت کرنے اور مساجد ومدارس اور اسلامی مراکز قائم کرنے کی پوری چھوٹ دی۔
9 ۔ علمی وثقافتی میدان میں 45جلدوں پرمشتمل فقہی انسائیکلوپیڈیا تیار کرائی ‘ قاموس القرآن کی تدوین کرائی اور عالم اسلام کی موجودہ سیاسی وتعلیمی واقتصادی صورت حال پر تین ضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب تیار کرائی ۔ ان کے علاوہ عربی زبان وادب اور فکروفلسفہ کی سیکڑوں کتابیں تیار کرائیں۔
 10۔ قرآن کریم کی ذاتی خرچ پر لاکھوں کی تعداد میں طباعت اور تقسیم اور قرآن کریم کے حفظ میں مقابلہ پر ایک لاکھ دینا ر کے انعام کا مختص کیا جانا بھی ا لشیخ جابر الاحمد الصباح کے کارناموں میں سے ہے ۔ جس کے نتیجہ میں سیکڑوں کویتی نوجوانوں اور لڑکیوں نے قرآن کریم حفظ کرلیے ۔ اس کے علاوہ اسلامی موضوعات پر دسیوں سمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد بھی ان کے عہد امارت کے امتیازی پہلووں میں سے ہے 
 11۔ نفاذ شریعت کے لیے مستقل ایک مشاورتی ادارے کا قیام اور اس کے ذریعہ مروجہ قوانین کا جائزہ لیکر ایسے قوانین کوختم کرنےکی کوشش جواسلامی تعلیمات کے منافی ہوں یہ بھی شیخ جابر الاحمد الصباح کے کارناموں کا ایک اہم حصہ ہے۔
 12۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود اپنے ذاتی خرچ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں پروجیکٹ نافذ کرائے ۔ مسجدیںاور مراکز قائم کرائے لیکن اس تاکید کے ساتھ ان کانام ظاہر نہ ہونے پائے ۔
 13۔ آج بھی دنیا کے مختلف ملکوں کے ہزاروں بچے کویت اور اہل کویت کے خرچ پر تعلیم حاصل کررہے ہیں اورہزاروں یتیموں کی کفالت کا فریضہ کویت کی رفاہی تنظیمیں انجام دے رہی ہیں ۔
 14۔ مرحوم امیر شیخ جابر الاحمد الصباح کی یہ ادا توہرکسی نے دیکھی ہے کہ دنیا کے کسی خطہ میں زلزلہ آئے،سیلاب آئے ، اور قحط سالی سے لوگ مررہے ہوں‘ کویتی فوجی جہاز اشیائے خوردنی اور دیگر امدادی سامان لیکر وہاں سب سے پیش پیش نظر آتے اور خاص امیری ہدایت کے مطابق جایا کرتے تھے۔ یقینا یہ وہ کارنامے ہیں جو شیخ جابر الاحمد الجابر الصباح کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ موت سے کس کومفر ہے یہ مرحلہ تو ہر شخص کو پیش آنے والا ہے اور کویت کے حکمرانوں نے تو سیف پیلس پر حکمت وموعظت پر مبنی یہ جملہ بھی کندہ کرارکھا ہے کہ’’ لودامت لاحد ما اتصلت الیک‘‘ یہ بادشاہت کسی کے لیے دائمی ہوتی تو تمہارا نمبر ہی نہیں آتا“ ۔
صبحِ آزادی:
شیخ احمد جابر الصباح کے بعد شیخ عبداللہ السالم الصباح کویت کے امیر بن گئے ۔ یہ کویت کے گیارہویں امیر تھے ۔ انہیں کی کاوشوں اور کوششوں سے کویت نے آزادی کا پرچم لہرایا ۔کسی بھی ملک کی آزادی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے داخلی اور خارجی امور کو نمٹانے میں خود کفیل رہے اور ان میں کسی غیر کی دخل اندازی نہ ہو ۔اسی کو پیش نظر رکھتے ہوے امیر موصوف نے 1959 ءمیں ملک کے داخلی امور اور معاملات سے غلامی کی پرچھائی کو ختم کرنے کے سلسلے میںبہت سے اہم فیصلے صادر فرمائے ۔ یہ آزادی کی جانب بڑھتا ہوا پہلا قدم تھا ۔اسی سال دسمبر میں ملک کے عدالتی نظام کو مضبوط و مستحکم کرنے کے سلسلے میں بھی ایک مکتوب فرمان جاری کیا گیا جس کی وجہ سے اہلِ کویت اندرونِ ملک حالات سے نمٹنے اور درپیش مسائل کوخو د حل کرنے کے قابل بن گئے۔اس وقت تک کویت کا عدالتی نظام بھی دستِ غیر میں تھا۔ شیخ عبداللہ السالم الصباح حکومت برطانیہ پر دباؤ بناتے رہے کہ وہ /23 جنوری 1899 ءکے معاہدہ کو معطل کردے ۔ ان کی یہ کوشش رنگ لائی اور برطانیہ اس معاہدہ کو معطل کرنے پر مجبور ہوگیا ۔ آخر کار /19 جون 1961 ءکو’کویت -برطانیہ‘ معاہدہ منسوخ کردیا گیا اور کویت میں آزادی کی صبح نمودار ہوی ۔حصولِ آزادی کے بعد 11نومبر 1962 ءمیںوضع شدہ نئے دستور کا اجراءہوا۔ شیخ عبداللہ السالم الصباح کو آزاد کویت کے پہلے امیر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔1965 ءمیں شیخ انتقال فرما گئےاور شیخ صباح السالم الصباح نے ان کی جگہ لی۔
یوم ِ آزادی:
1961 ءکی آزادی کی یاد میں ہر سال 25 فروری کو کویت اپنا یوم آزادی مناتا ہے ۔جشنِ آزادی پورے جوش و خروش سے منایاجاتا ہے اور پورے کویت میں ہر سو اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ اس سال یعنی 2012 ءکو یہ اپنی آزادی کی ۵۱ویں سال گرہ (Golden Jubilee) منارہا ہے ۔ لبریشن ڈے : 2 / اگست 1990 ءکو اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کے حکم سے عراقی فوج نے کویت پر حملہ کردیا ۔ پورے دو دنوں کی فوجی کارروائی کے بعد 4 / اگست 1990 ءکو عراقی فوج کویت پرمکمل طور پر قابض ہوگئی ۔ظلم وزیادتی اور جبر و تشددکا یہ دور پورے سات مہینوں تک کویت اور اہل کویت پرچھایا رہا ۔ بالآخر 26 / فروری 1991 ءمیںکویت دستِ ظالم سے آزاد ہوگیا۔اسی کی یاد میں ہر سال 25 / فروری ’الیوم الوطنی‘ ( National Day)کے دوسرے روز26 / فروری کو یوم التحریر (Liberation Day) منایا جاتا ہے ۔
جغرافیائی حالت:
کویت کا شمار دنیا کے نہایت چھوٹے ممالک میں ہوتا ہے ۔یہ خلیج عرب کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔اس کی سطحِ زمین مغرب سے مشرق کی جانب نشیبمیں ہےاور مغرب کی جانب زمین کی اونچائی سطح سمندر سے 300 میٹر سے زیادہ نہیں ہے ۔کویت کے بڑے حصے کو ریتیلی صحرائے عرب نے گھیر رکھا ہے ۔ جس کی وجہ سے سطح زمین نرم اور ریتلی ہے ۔ جگہ جگہ کم اونچائی والے ریت کے ٹیلے بھی نظر آتے ہیں ۔ اس جزیرة نما ملک کے آس پاس تقریبا نو جزیرے پائے جاتے ہیں ۔جن کے نام اس طرح ہیں : جزیرہ بوبیان ( یہ کویت کا سب سے بڑا اور خلیج عرب کا دوسرا بڑا جزیرہ ہے )، جزیرہ فیلکا ( یہ کویت کا واحدجزیرہ ہے جسے بسایا گیا ہے )، جزیرہ وربہ ، جزیرہ کبر ، جزیرہ عوھہ ، جزیرہ ام المرادم ، جزیرہ مسکان، جزیرہ قاروہ ، جزیرہ ام النمل۔
طرزِ حکومت:
کویت میں حکومت کی نوعیت آئینی شہنشاہیت کی ہے ۔ 1962 ءکے آئین کے مطابق کویت میں موروثی حکومت ہوگی،جو شیخ مبارک السالم الصباح کی نسل میں وراثتًا چلے گی ۔ اس آئین کی رو سے شیخ کی ذریت کا ایک فرد امیر ہوگا اورحکومتی معاملات میں ان کا تعاون ولی عہد کرے گا ۔جس کو خود امیر نامزد کریں گے اور کویت پارلمنٹ ”مجلس الامّة“ کے ارکان کثرتِ آراءسے اس کاانتخاب کریں گے ۔ اگر کثرتِ آراءاس کے لیے موافقت نہ کرے تو امیر ،شیخ مبارک کی نسل میں سے تین افراد کا نام پیش کریں گے اور ”مجلس الامة “ کو ان میں سے کسی ایک کو ولی عہد چن لینا ہوگا ۔ امیر کویت میں ’امیر ‘ریاست کے سربراہ ہوتے ہیں۔ 1962 ءکے آئین کی رو سے’ امیر ‘ کویت کا سپریم اتھارٹی ہیں ۔ امورِ اقتدار میں وزیراعظم ان کا تعاون کرتے ہیں ۔وزیراعظم کا تقرر اور انکی برطرفی کاحق رکھنے کے ساتھ پارلیمان کی تنسیخ اور آئین کے بعض حصوں میں ترمیم کرنے یا انہیں معطّل کرنے کا بھی انہیںپورا حق حاصل ہوتا ہے ۔ 26 / جنوری 2006 ءسے عزت مآب شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح (تاریخ پیدائش :17 جنوری 1929 ء) کویت کے امیر ہیں ۔یہ آزاد کویت کے پندرہویںامیرہیں۔اور شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح ولی عہد ہیں ۔
معیشت:
کویت دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک ہے ۔ کویت کی حکومت کو ایک مضبوط معیشت حاصل ہے ۔زیرزمین سے بر آمد کیا جانے والا تیل ہی اس کی مضبوط معیشت کی بنیاد ہے۔ 1934 ءسے 1937 ءزیرِ زمین تیل کی ناکام تلاش کے بعد فروری ، 1938 ءکو پہلی بار کویت کی ریتیلی اراضی ’برقان ‘ میں دریافت کیا گیا ۔یہ دنیا کادوسر ا بڑا قطعہ ہے جہاں زیرِ زمین تیل کا وافر مقدار موجود ہے ۔2009 تک کویت کے تیل کی پیداوار ی صلاحیت یومیہ 2.494 ملین بیرل تھی۔اس کا دعوی ہے کہ عالمی سطح پر اس کے پاس 7.6% یعنی 101.5 بلین بیرل تیل کے ذخائر ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کا پانچواں ملک ہے جس کے پاس تیل کے ذخائر کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے ۔ پٹرول کے علاوہ گیس اور بعض دیگر مصنوعات پر بھی کویت کی معیشت انحصار کرتی ہے ۔ جھینگے Shrimp) ( در آمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کویت ہی ہے ۔کویت نے کئی ایک بیرونِ ملک کمپنیوں میں بھی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کی ہے ۔ جیسے مرسڈیس بنز کمپنی ، Q8آئل کمپنی اور برٹش پٹرولیم میں اس کی حصہ داری ہے ۔ تیل کی دریافت سے پہلے کویتی دوسرے خلیجی ملک والوں کی طرح فنِ غواصی میں مہارت رکھتے تھے ۔ اس کے ذریعہ سمندر کے پیٹ سے موتیاں چن لاتے جواس وقت ان کی معیشت کی بنیاد تھی ۔موتیوں کے بیوپاری ’طواشین‘ کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ کشتی کی صنعت کے لیے بھی کویت بہت مشہور تھا ۔ بلکہ کویتی کشتیوں کی اس وقت بڑی مانگ رہتی تھی ۔اس کے لیے تختے اکثر ہندوستان سے برآمد کیے جاتے تھے ۔ جو زیادہ تر ناریل یا ساگوان کے درختوں سے بنائے جاتے تھے ۔
موجودہ عہد میں ہند کویت تعلقات:
ہند۔ کویت تعلقات کو نئی گرم جوشی عطاکرنے اور مختلف میدانوں میں ربط و تعاون کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے دونوں ممالک ہمیشہ پر عزم رہے ہیں ۱۴جون ۲۰۰۸کو جب امیر کویت شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح ہندوستان آئے تھے تو وزیر اعظم ڈاکتر منموہن سنگھ نے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہند۔ کویت کے روایتی رشتوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے پر زور دیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر منموہن سنگھ اور امیر کویت نے اس عز م کا اظہار کیا تھا کہ اس خطے میں دونوں ممالک امن وترقی اور تحفظ کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر کام کریںگے چنانچہ موجودہ امیر کویت ہندوستان سے بہتر رشتہ استوار رکھتے ہوئے ترقی کے راہ پر گامزن ہیں۔ 
ہندوستان اورکویت کے مابین مضبوط تجارتی رشتے رہے ہیں۔ جہاں کویت سے تیل اور پٹرولیم مصنوعات اور کئی دیگر چیزیں ہندوستان بر آمد کرتا رہا ہے وہیں ہندوستان نے بھی چاول، گوشت، چائے ، کافی، سیمنٹ، انجینئرنگ کے سامان ، کپڑے اور دیگر چیزیں کویت کو فراہم کر تا رہا ہے ۔


Thursday 23 February 2012

العنایۃ باللغة العربية في الهند بين الامس والیوم



محمد جسیم الدین
الباحث فی قسم اللغة العربية
بجامعۃ دلھی،دلھی

الهند واحدة من البقاع المتسعة التي وصلها الإسلام، سواء عبر الفتوحات الأولى، أو العلاقات التجارية العديدة، أو صراعات دول الجوار، فقد فتحها محمد بن القاسم في ولاية الحجاج بن يوسف الثقفي على العراق عام 92 هـ‍‍ 712 ميلادية، وسيطر على قطاع كبير من الهند، وما لبثت الحملات الإسلامية أن توالت فدخلت غجرات، وملتان، وكشمير تحت النفوذ الإسلامي في زمن الخليفة العباسي أبي جعفر المنصور.
لكن هذه الفتوحات توقفت بمجيء الخليفة المهدي، إذ أن النزاع اشتد بين القبائل العربية التي هاجرت إلى هذه البقاع في المائة الأولى من الإسلام، واقتصر انتشار الإسلام على العلاقات التجارية التي نشطت مع الهند، والتي تعود جذورها إلى مئات السنين السابقة على الفتح، وربما كان هذا التغلغل المعرفي بالإسلام وأهله أهم العوامل التي ساعدت فيما بعد محمود الغزنوي على هزيمة شتى الإمارات الهندوسية، وفرض سيطرته على شبه القارة الهندية بعد سبع عشرة غزوة تمت في عهده.
ومنذ ذلك التاريخ استقرت الثقافة الإسلامية بشكل رسمي في الأرجاء الهندية، وراح الهنود بعد تعلم اللغة، والفقه، والحديث يشاركون فيما عرف بالعلوم الإسلامية،وليس ثمة شك أن اللغة العربية موضع احترام وتقدير لدى مسلمي الهند، كما أنهم تأثروا تأثرًا بالغًا بأنماط الحياة العربية، فهم يشكلون وحدة حضارية لها شخصية مستقلة تستمد مكوناتها من التراث العربي الأصيل ومن الحضارة الهندية العتيقة، ولهم نشاط ملموس في جميع مجالات الحياة الهندية، كما لهم إسهامات جمة في إثراء التراث العربي الإسلامي. وبدأ استخدام اللغة العربية في الهند منذ الأيام الأولى للفتح الإسلامي للسند وذلك في عام 89هـ/708م، وكان أول نقش عثر عليه في الهند هو نقش المسجد الجامع في بنبهور بالسند والمؤرخ سنة 107هـ/727م، وهو أقدم النماذج التي استخدم فيها الخط العربي للكتابة على الأحجار في العصور الإسلامية.
وتعد الهند اليوم من المراكز الرئيسة للثقافة الإسلامية في العالم، إذ تضم مئات المعاهد والمدارس، التي تقوم بتعليم اللغة العربية وآدابها والعلوم الإسلامية وتراثها، هذا إلى جانب الجامعات الحكومية والمؤسسات الرسمية العديدة التي تعني بالبحوث الإسلامية في شتى جوانبها.
 يرجع تاريخ اللغة العربية إلى أكثر من خمسة عشر قرنًا، إذ بدأت خطواتها إلى العالمية منذ كانت رابضة في شبه الجزيرة العربية في العصر الجاهلي إلى أن ظهر الإسلام، فانطلق بها الدعاة والفاتحون إلى شتى بلاد العالم، وظلت منذ ذلك الوقت اللغة الأولى بين لغات المسلمين، فهي ليست لغة رسمية وأدبية للعرب فحسب، وإنما هي لغة دينية وثقافية للمسلمين في مشارق الأرض ومغاربها.
وأما رغبة المسلمين من غير العرب في تعلم العربية، فإنما كان باعثه قراءة القرآن الكريم قراءة جيدة، وفهم معانيه بصورة صائبة، حيث إنها قد نشرت في كل مكان رحلت إليه أنوار الإسلام وأشعة القرآن الكريم، الذي هو بدوره حافظ اللغة العربية ولولاه لتوارت لغة العرب نفسها في قبور الأجداد. وكان للحديث الشريف أيضًا دور كبير في نشر اللغة العربية، حيث دونت أقوال وأفعال الرسول ـ صلى الله عليه وسلم ـ وهو أفصح الفصحاء، وهي اللغة العربية التي حملت العلوم والفنون كلها الدينية والتطبيقية وفيها جل كتب التراث الإسلامي، وفيها معظم المعارف والعلوم، وبالعربية قيل أعذب الشعر وأجمله، وبها كتبت أبلغ الرسائل وأرق المكاتبات وفيها سجل أدب رفيع المستوى، وكانت لغة الحضارة العالمية لقرون عديدة فهي خازنة ثقافة العرب وحكمة الهند وحضارة الفرس وفلسفة اليونان.

ونظرًا لهذه الأهمية اعتنى المسلمون في جميع أقطار العالم باللغة العربية عناية فائقة، وبذلوا جهودًا مضنية في تعلمها وتدريسها، وهكذا بدأت اللغة العربية تكتسب صبغة عالمية منذ القرون الأولى. بيد أن علاقة العرب بالهنود قديمة قدم التاريخ، ولها جذور حضارية عريقة ترجع إلى ما قبل الإسلام.
ويرجع فضل انتشار الإسلام في شبه القارة الهندية إلى دعاة العرب الذين تشبعوا بروح الإسلام السمحة، فأناروا الطريق لنشر الدعوة الإسلامية في ربوعها عقب ظهورها في الجزيرة العربية مباشرة، وبذلوا الجهود في سبيل نشر دين الله الحنيف بطريق الموعظة والإرشاد والقدوة الحسنة، كذا أشرقت الهند بنور الإسلام، وهبت عليها نفحاته منذ فتحها القائد الشاب محمد بن القاسم عندما وجهه عمه الحجاج بن يوسف الثقفي إلى غزوها سنة 92هـ/712 م، وقد نجحت هذه الغزوة أيما نجاح، حيث آل جزء كبير من الهند إلى الحكومة الإسلامية.ولما كانت اللغة العربية لغة القرآن ولسان الدعوة الإسلامية، وكذلك لسان المنتصر في ذلك الزمان، كان من الطبيعي أن تنتشر مع انتشار الإسلام وتعاليمه الراقية في المناطق المفتوحة.
وكما انتشر الإسلام انتشرت اللغة العربية على نطاق واسع بين سكان هذه البلاد، حيث تروي كتب التاريخ أن الهنود الذين أسلموا في أقاليم السند كانوا يتحدثون إلى العرب في لغتهم وكانوا يرتدون زيهم. ولا شك أن العصر العربي في السند كان بمثابة الفجر الأول الذي يؤذن بصبح مشرق.
وانتشار اللغة في الهند باتساع دائرة الحضارة الإسلامية وتطورها وتضاعف الرغبة في طلب العلم، فتسابق طلبة العلم من المسلمين إلى تعلم العربية، وبدأت تنتشر هذه اللغة في أوساط المسلمين لغة دينية وثقافية، ثم اتسع نطاقها بمرور الزمن إلى أن بدأت الحركة العلمية على أسس متينة. بيد أنه قد منع اللغة العربية من أن تكون لغة الحكومة والبلاط الحكومي في الهند، ومن أن تكون لغة التخاطب أو التفاهم.
إن الملوك الذين حكموا الهند لم يهتموا بنشر الإسلام ولغته، وإنما كان جل همهم في توطيد الملك وإنفاق الأموال في الترف والبذخ ومتعة الحياة الدنيا الفانية. أما الذي نراه اليوم من اسم الإسلام في الهند، فإنما يرجع فضله إلى العلماء والمشايخ الذين هجروا أوطانهم في البلاد الإسلامية ودخلوا الهند دعاة مرشدين، وخالطوا أهلها وعاشروهم وعلموهم مبادئ الإسلام وآدابه، فتأثر سكان البلاد بأخلاقهم وسجاياهم العالية واختاروا الإسلام دينًا لهم عن طيب نفس وانشراح صدر.
حتی أن الهنود كانوا أقرب التابعين للعرب، سواء في الفنون أو العلوم، وأن ما أنجزوه، رغم أهميته، ليس إضافات فكرية يمكنها أن تغير من مسار هذه العلوم أو تقودها للأمام، لكنها إعادة إنتاج بشكل أو آخر، ولا يعني المحور الذي ارتكز عليه الكاتب في عمله، وهو سرد تاريخي تفصيلي للمنجز الهندي في شتى العلوم والآثار المكتوبة باللغة العربية فقط، وهو ما يجعلنا نتشكك في قيمة مثل هذه الكتب في خارج سياق التأريخ والتصنيف.

ہندوستانی مسلمان اورحق تعلیم:بدبختانہ ٹکراؤ


آج کل مسلم علما کا ایک گروپ آرٹی ای یعنی حق تعلیم ایکٹ کے خلاف آسمان سروں پر اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ، کیا آپ کو معلوم ہے اس کے پیچھے اصل کھیل کیا ہے؟
مسلم پرسنل لا بورڈکی مجلس عاملہ نے حق تعلیم ایکٹ(آرٹی ای)سے مدرسوں کو مستثنی قرار دینے کی مانگ کی اورپھر اس قانون میں ترمیم کے لئے تحریک چھیڑنے کا اعلان کیاتو اتنی حیرت نہیں ہوئی کہ ملک کے مسلمانوںکے مختلف مسالک ومکاتب فکرکے دینی رہنماؤں کی یہ انجمن جس کاواحدایجنڈاشریعت کا تحفظ ہے حق تعلیم ایکٹ میں شریعت کے لئے خطرہ دیکھتی ہے اوراس ایکٹ کے نفاذکے تقریباایک سال بعدقائدین ملت میںیہ بیداری آئی ہے،حیرت تواس پر ہے کہ ہندوستان کے آئین وقانون پرگہری نظراوراقلیتوں کے مسائل کاگہراادراک رکھنے والے مسلم دانشوروں پر خاموشی طاری ہے۔جوقانون ملک کے ہرشہری کومعیاری تعلیم کی گارنٹی دیتا ہے اور جس کوعام طور پرغریبوں،کمزوروںاوراقلیتوں کے لئے وردان ماناجارہاہے اسے یہ علمامذہبی آزادی کے بنیادی حق کے منافی اور تعلیم کوقومیانے کی سازش قراردے رہے ہیں
اب ایک سال ہونے کوآئے،دہلی کی اردو اکادمی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملک کے معروف ماہر تعلیم و سرکردہ دانشور سید حامد کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا تھا۔ جلسے کی صدارت جسٹس راجندر سچر کررہے تھے۔ اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ بیان کیا تھا۔جسٹس سچر جو ایک ماہر قانون و انصاف کے علاوہ سرکردہ سماجی خدمت گاربھی ہیں بلکہ یہ ان کی شخصیت کا غالب عنصر ہے،وہ سماج کے دبے کچلے اور پسماندہ طبقات کے لیے اپنے دل میں بے پناہ درد رکھتے ہیں اس لیے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے سلسلے میں سید حامد کی کوششوں کے قدر داں ہیں۔مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعظم ہند کے ذریعے جسٹس راجندر سچر کی صدارت میں مقرر کی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں سید حامد بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے بڑی محنت اور ایمانداری سے ملک کے مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا مطالعہ کیا،اس کے لیے سرکاری وغیر سرکاری ایجنسیوں سے ٹھوس اعداد وشمار حاصل کیے، ملک کے مختلف علاقوں کے دورے کیے، ماہرین اور دانشوروں سے تبادلہ خیالات کیا اور سماجی وسیاسی نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ اسی سلسلے میں یہ تحقیقاتی کمیٹی حیدرآباد گئی تھی۔ جسٹس سچر کا بیان ہے کہ اس دن شہر کے مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد سے ان کی ملاقات تھی۔ یہ بڑے ہوش مند، تعلیم یافتہ اور آج کی دنیا پر گہری نگاہ رکھنے والے مسلمان تھے۔ انہوں نے کمیٹی کے سامنے اپنی باتیں بڑی خوش اسلوبی سے رکھیں لیکن ایک موقع پر سید حامد صاحب ان پر چیخنے لگے، وہ انتہائی غصے میں تھے، جتنا جی میں آیا ان کوبرا بھلا کہا۔ہم سب حیران تھے لیکن ان کے اس غصے کا سبب ناقابل فہم نہیں تھا۔ وہ ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے سچے ہمدرد ہیں۔ہوا یہ تھا کہ اس وفد میں شامل بعض افراد نے سچر کمیٹی سے کہا کہ چونکہ عام طورپر مسلم طلبہ میٹرک کے امتحانات میں ریاضی میں ناکام ہوجاتے ہیں اوران کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھنے سے رک جاتا ہے اس لیے سچر کمیٹی حکومت سے یہ سفارش کرے کہ مسلم طلبا کو اس سلسلے میں مستثنیٰ قرار دے دیا جائے، ان کے لیے ریاضی (حساب) میں پاس ہونا لازمی نہ ہو۔ یہ سننا تھا کہ سید حامد اپنے غصہ پر قابو نہ رکھ سکے۔چیخ اٹھے ’کیاآپ لوگ اس قوم کو جاہل بنادینا چاہتے ہیں؟‘ پھر دیر تک ان پر لعنت ملامت کرتے رہے اور ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں ۔
تقریباایک سال سے دہلی اورملک کے مسلم سیاسی وسماجی حلقوں میں وقفہ وقفہ سے لازمی تعلیم کے قانون پر ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے، جمعیة علماءہند، ملی کونسل، مجلس مشاورت، اوریہاں تک کہ اب مسلم پرسنل لا بورڈ،مسلمانوں کی کون سی قابل ذکر تنظیم ہے جو حق تعلیم ایکٹ یا اس کی بعض دفعات سے مسلمانوں کومستثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ نہیں کررہی ہے۔ بعض تنظیمیں تو حکومت کو دھمکی دے رہی ہیں کہ اس نے اگر مسلمانوں کے دینی مدارس کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا تو وہ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چھیڑیں گے۔لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتریں گے، گرفتاریاں دیں گے،جیل بھریں گے کیونکہ یہ میٹھا زہر ہے،پچھلے دروازے سے تعلیم کو قومیانے کی سازش ہے، اس قانون کی زد میں ہمارے دینی مدارس آتے ہیں جو ہمارے لیے کسی بھی قیمت پر قابل برداشت نہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک گروپ نے تو باضابطہ بیداری مہم چھیڑ رکھی ہےجس کی قیادت بہار کی ایک نامی گرامی خانقاہ کے سجادہ نشیں کر رہے ہیں ۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کے نمائندہ وفد نے سچر کمیٹی سے مسلم طلبہ کے لیے جس استثنیٰ کا مطالبہ کیا تھا، گہرائی میں اتر کر دیکھیں توحق تعلیم ایکٹ کے سلسلے میں مسلم علماءو ملی قائدین کے مطالبات اس سے ذرا بھی مختلف نہیں ہیں لیکن حیرت ہے کہ آج کسی سید حامد کو ان پر غصہ نہیں آرہا ہے (اور اگر آرہا ہو تو ہمارے علم میں نہیں ہے) کسی نے ان کو ڈانٹ نہیں پلائی، کسی کی ہمت نہیں کہ لب کشائی کرے کیونکہ آج ان کے سامنے حیدر آباد کے ہوش مند اورتعلیم یافتہ مسلمان نہیں بلکہ شمالی ہند کے قائدین ملت اور علمائے کرام ہیں۔ ہر سمجھ دارآدمی خوفزدہ ہے کہ کہیں اس پر حکومت کی حمایت اور ملت سے غداری کا الزام نہ آجائے۔
 پہلا سوال تویہی ہے کہ جب یہ قانون پارلیمنٹ کی میز پر تھا اور اس پر بحث ہورہی تھی،اس وقت ہمارے یہ قائدین کہا ں سورہے تھے؟اور جب اس قانون کے نفاذ مہینوں گزرگئے، ان میں اچانک بیداری اور بے چینی کیوں پھیل گئی؟ اوراب ایک سال بعد مسلم پرسنل لا بورڈ نے حق تعلیم ایکٹ کے خلاف نئی توانائی کے ساتھ جنگ کیوں چھیڑ دی؟ کیا واقعی اس قانون کے نفاذ سے اسلام خطرے میں ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون سے مسلمانوں اور بالخصوص مدرسوں کو مستثنیٰ قرار دیا جانا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو اس کی کیا صور ت ہوگی؟ کیا حکومت کو یہ اختیار ہے کہ ملک کے بعض شہریوں کو آئین میں دیے گئے حقوق دے اور بعض کو اس سے کسی وجہ سے محروم رکھے؟ اور اگر ایسا کیا گیا تو کیا یہ ملک کے آئین کی روح اور انصاف کے تقاضے کے منافی نہیں ہوگا؟ اگر ہاں تو پھر اس آئینی و قانونی بحران کا حل کیا ہے؟ کیا حق تعلیم ایکٹ کو جبری تعلیم یا تعلیم کو قومیانے کی سازش قرار دے کرٹکراؤ کا ماحول پیدا کرنا سراسر غلط ، گمراہ کن اور بد بختانہ نہیں ہے؟ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ ذاتی سیاسی مفاد پرستی کی کوکھ سے جنم لینے والا یہ ٹکراؤنہ ملک وقوم کے حق میں بہتر ہوگا اور نہ مسلمانوں کے حق میں مفید۔ دیکھنے والی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی ہیں کہ اس ٹکراؤ کو بڑھانے میں ایک طرف وہ عناصر پیش پیش ہیں جو اسی قسم کے ٹکراؤ کی آنچ پر اپنی سیاست کی دکانیں سجاتے اور ملی مفادات کا سودا کرتے آئے ہیں۔ دوسری طرف ان کی پیٹھ پر وہ تعلیمی مافیا سرگرم ہیں جو اپنے اسکولوں میں بچوں کے والدین اور سرپرستوں سے موٹی رقمیں وصول کرتے ہیں لیکن ان کو معیاری تعلیم اورواجبی سہولیات نہیں دیتے، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ناراضگی کا خوف دکھاکرچھوٹ حاصل کرلیں اور ملت کے مستقبل سے بہ دستور کھلواڑ کرتے رہیں۔انہیں اپنے وقتی مفادات کے آگے کچھ سجھائی نہیں دے رہے ہیں،وہ صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کا اپناکاروباربند ہوجائے گاورنہ معیاری انتظامات کرنے ہوںگے۔ کیادن آئے ہیں کہ اس مہم میں بعض وہ لوگ سرمایہ لگا رہے ہیں جو کل تک مسلمانوں کی پسماندگی کے لیے اصل ذمہ دارمدرسوں کو قرار دیتے تھکتے نہ تھے، لیکن اب ان کو مدرسے حق تعلیم ایکٹ کی زد میں نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کا اپنا انگلش میڈیم اسکول خطرے میں ہے۔ جس کے بچنے کی ایک ہی صورت نظر آرہی ہے کہ مدرسے اور مسلمان کے نام پر چھوٹ مل جائے۔
ہندوستان کا آئین ملک کے ہر شہری کویکساں اور معیاری تعلیم کا حق دیتا ہے، ساٹھ سال بعد حکومت نے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور حقوق تعلیم ایکٹ لاکر اس راہ میں پہلا قدم اٹھایا۔یہ قانون ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم اپنی پسند کے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کریں اوراس کے جملہ مصارف حکومت برداشت کرے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اس قانون کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کرتے اور منفی طرز فکر ترک کرکے حق تعلیم ایکٹ ہمیں جو حقوق دیتا ہے، اس سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی تدابیر کرتے لیکن ہورہا ہے یہ کہ ہم اندیشوں اور امکانات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، حکومت کی نیت پر شک کررہے ہیں، ان شرائط کو منفی طور پر لے رہے ہیں جوتعلیمی اداروں پر ملک کے ہر شہری کو یکساں اور معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرنے کی غرض سے عائد کی گئی ہیں۔ جب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کے جملے مصارف برداشت کرے اور آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرانے سے قاصر رہنے کی صورت میں اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں تو اس قانون میں جو کم از کم معیار طے کیا گیا ہے وہ ہمارا حق ہے یا حکومت کی جانب سے تھوپی گئی شرطیں؟
دراصل ہم لوگ آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے بہتراور معیاری تعلیم کے حصول کی تدابیر اور اپنے ادارو ں کو حکومت سے تعلیمی اداروں کی حیثیت سے تسلیم کرانے کی جدوجہد کرنا یقینا مشکل کام ہے۔ شاید اسی لیے قائدین ملت شرائط میں نرمی بلکہ استثنیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس میں آسانی یہ بھی ہے کہ لگے ہاتھوں سیاست کی روٹی بھی گرم ہورہی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے حق سے خود ہی دست بردار ہونے کی ضد کریں، خود کو مستثنیٰ منہ کرانے کا مطالبہ کریں اور اپنے اداروں کو تسلیم کرانے کی جدوجہد نہ کریں۔ کسی طفل مکتب کو بھی یہ بتانے کی حاجت نہیں ہے کہ حق تعلیم ایکٹ سے کسی فرد ،جماعت یاادارہ کومستثنی قرار دینے کا مطلب ا س کو ان حقوق سے محروم یادست بردارکرناہے جو یہ ایکٹ اسے دیتا ہے۔ پچھلے سا ل جولائی میں اس سلسلے کے ایک جلسے میں مرکزی وزیرفروغ انسانی وسائل نے مدرسوں کو اس ایکٹ سے مستثنیٰ کرانے کا وعدہ بھی کرلیا تھا۔ پھرانہوں نے ایک گائڈلائن جاری کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘حق تعلیم ایکٹ میں مدرسہ کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مذہبی تعلیم کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ پھر بھی اگر کسی کو شک ہے تو اس کے لیے گائڈ لائن جاری کردیاگیاہے۔’’ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس قانون سے مذہبی تعلیم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن جو تعلیمی ادارے ضروری شرائط پورے نہیں کرتے، وہ اس قانون کی زد میں ضرورآئیں گے چاہے وہ اسکول یا پاٹھ شالا ہوں یا مدرسے۔ اس ایکٹ کی رو سے غیر منظور شدہ اداروں میں بچوں کو روکنا غیر قانونی اور قابل مواخذہ جرم ہوگا۔ گائڈلائن وغیرہ وقتی اور جھوٹی تسلی ہے ۔ وزیر موصوف یہ کہہ کر جھوٹی تسلی دے رہے ہیں کہ مدرسے اس قانون کے دائرے میں نہیں آتے۔ کیونکہ اگر مدرسوں کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے تویہ مدرسوں میں زیرتعلیم بچوں کے بنیادی حق کے ساتھ سمجھوتہ اور خلاف آئین ہوگا۔ اور عدالتیں کسی وقت بھی ان کی گردن پکڑ سکتی ہیں۔ آخر ان بچوں کو وہ کس جرم میں تعلیم کے حق سے محروم کرسکتے ہیں جو تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی لینا چاہتے ہیں؟ حکومت پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کو طفل تسلی دینے یا گمراہ کرنے کے بجائے ہمارے دینی مدرسوں کو تعلیمی اداروں کی حیثیت سے تسلیم کرے اور مدرسے بھی تعلیم کے کم از کم معیار کی پابندی کریں اورخود کوتسلیم کرائیں۔ حکومت سے تسلیم شدہ ایسے مدرسے اس ملک میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور شاید کپل سبل ان ہی مدرسوں کے تعلق سے باربارکہہ رہے ہیں کہ مدرسے اس قانون کی زد میں نہیں آتے۔ مسلمانوں کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ ماضی میں بھی یہ ملت اس قسم کی طفل تسلیوں کا شکار ہوچکی ہے۔
حق تعلیم ایکٹ ملک کے ہر بچے (6تا 14سال عمر) کو یہ ضمانت دیتا ہے کہ اس کو معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرائی جائے۔(خواہ وہ مدرسہ میں پڑھتے ہوں یا پاٹھ شالہ میں یا کہیں اور) اس قانون کا اصل مقصدو منشا یہی ہے اور اسی کو یقینی بنانے کے لیے اس ایکٹ میں قانونی انتظامات کیے گئے ہیں۔ کسی بھی قانون کی الگ الگ دفعات کو اس کی منشا اور سیاق وسباق سے ہٹاکر اندیشہ ہائے دور دراز کا بازار گرم کیا جاسکتا ہے اور اس قانون کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ جو لوگ اس قانون کوآئین کی دفعہ 29اور30سے متصادم 
بتارہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ دفعہ29و30 ہرشہری کو دیے گئے بنیادی حقوق کی تشریح ہے اور ملک میں رائج و نافذالعمل جملہ قوانین اس کے تابع ہیں، کوئی قانون اس سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ حق تعلیم ایکٹ بھی اس کے تابع ہے۔ اس ایکٹ میں جہاں یہ بندوبست ہے کہ بچے کی تعلیم کی راہ میں آنے والے والدین اور سرپرستوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ان کو قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے وہیں یہ ضمانت بھی موجود ہے کہ بچوں کو اس کی اور اس کے والدین/سرپرست کی پسند کے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ہوگا لیکن وہ ادارے طے شدہ معیار کے پابند ہوںگے۔ یہ نہ ہو کہ تعلیم کے نام پر کاٹھ کی ہانڈی چڑھا رکھی ہو۔ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں آج تعلیم کا جو عمومی معیار ہے وہ اظہرمن ا لشمس ہے۔ بچوں کو پرائمری اور اپر پرائمری (تحتانی ووسطانی) درجات میں ان کی مادری زبان میں سائنس، ریاضی اور سماجیات کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کے علاوہ بچہ کوئی اور زبان پڑھنا چاہے یا ملک کی قومی زبان اس کی مادری زبان کے علاوہ ہو تو اس زبان کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔اگر آپ قوم کے بچوں کو اتنی تعلیم بھی دینا نہیں چاہتے(خواہ وہ مدرسے کے بچے ہی کیوں نہ ہوں) یا اس کو بھی بوجھ تصور کرتے ہیں تو کیا آج کی دنیا میں یہ خود کشی نہیں ہے؟ جب ہر بچے کی تعلیم کے مصارف اٹھانے کی حکومت پابند ہے اور وہ بھی بچے کے پسند کے تعلیمی ادارے میں تو کیا کسی بچے کو اس حق سے محروم رکھنا یا مستثیٰ منہ قرار دینا اس کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا؟ اگر آپ اپنے تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے بجائے معیار میں چھوٹ اور استثنیٰ کے طلب گار ہیں تو اس کا مطلب کیا سمجھا جائے؟ ہمارے بچے ریاضی میں ناکام ہوجاتے ہیں اس لیے ریاضی کو استثنیٰ قرار دے دیا جائے، یہ سوچ آخر کس حقیقت کا ثبوت ہے؟ آخر آپ قوم کو جاہل رکھنے پر کیوں بہ ضد ہیں؟ ہم یہاں صرف اتنا عرض کریں گے کہ دیوبند کے جس دارالعلوم پر آج ہندوستانی علمااور مسلمانوں کے ایک طبقہ کو بڑا ناز ہے، اس کے بانیوں نے اس کا نام مدرسہ عربی فارسی وریاضی رکھا تھا۔ لیکن آج سب سے زیادہ اسی طبقہ کے لوگ سائنس اورریاضی سے خوفزدہ نظرآتے ہیں۔خدارا! قوم کو اس خوف کی نفسیات اور پست ہمتی کے دلدل سے نکالئے کیونکہ دنیا میں وہی قوم زندہ رہتی ہے جو وقت کے چیلنج کو قبول کرتی ہے۔ ہم اس وقت سربلند و سرخ رو تھے جب ہم میں دنیا بھر کی زبانیں اور علوم وفنون سیکھنے کا جذبہ اور ہر چیلنج کوقبول کرنے کی ہمت تھی۔ جب سے یہ جذبہ اور یہ حوصلہ ہمارے اندر سے رخصت ہوا ذلیل وخوار ہوگئے۔

ہندوستانی مسلمان اورحق تعلیم:بدبختانہ ٹکراؤ




آج کل مسلم علما کا ایک گروپ آرٹی ای یعنی حق تعلیم ایکٹ کے خلاف آسمان سروں پر اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ، کیا آپ کو معلوم ہے اس کے پیچھے اصل کھیل کیا ہے؟
مسلم پرسنل لا بورڈکی مجلس عاملہ نے حق تعلیم ایکٹ(آرٹی ای)سے مدرسوں کو مستثنی قرار دینے کی مانگ کی اورپھر اس قانون میں ترمیم کے لئے تحریک چھیڑنے کا اعلان کیاتو اتنی حیرت نہیں ہوئی کہ ملک کے مسلمانوںکے مختلف مسالک ومکاتب فکرکے دینی رہنماؤں کی یہ انجمن جس کاواحدایجنڈاشریعت کا تحفظ ہے حق تعلیم ایکٹ میں شریعت کے لئے خطرہ دیکھتی ہے اوراس ایکٹ کے نفاذکے تقریباایک سال بعدقائدین ملت میںیہ بیداری آئی ہے،حیرت تواس پر ہے کہ ہندوستان کے آئین وقانون پرگہری نظراوراقلیتوں کے مسائل کاگہراادراک رکھنے والے مسلم دانشوروں پر خاموشی طاری ہے۔جوقانون ملک کے ہرشہری کومعیاری تعلیم کی گارنٹی دیتا ہے اور جس کوعام طور پرغریبوں،کمزوروںاوراقلیتوں کے لئے وردان ماناجارہاہے اسے یہ علمامذہبی آزادی کے بنیادی حق کے منافی اور تعلیم کوقومیانے کی سازش قراردے رہے ہیں
اب ایک سال ہونے کوآئے،دہلی کی اردو اکادمی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملک کے معروف ماہر تعلیم و سرکردہ دانشور سید حامد کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا تھا۔ جلسے کی صدارت جسٹس راجندر سچر کررہے تھے۔ اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ بیان کیا تھا۔جسٹس سچر جو ایک ماہر قانون و انصاف کے علاوہ سرکردہ سماجی خدمت گاربھی ہیں بلکہ یہ ان کی شخصیت کا غالب عنصر ہے،وہ سماج کے دبے کچلے اور پسماندہ طبقات کے لیے اپنے دل میں بے پناہ درد رکھتے ہیں اس لیے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے سلسلے میں سید حامد کی کوششوں کے قدر داں ہیں۔مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعظم ہند کے ذریعے جسٹس راجندر سچر کی صدارت میں مقرر کی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں سید حامد بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے بڑی محنت اور ایمانداری سے ملک کے مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا مطالعہ کیا،اس کے لیے سرکاری وغیر سرکاری ایجنسیوں سے ٹھوس اعداد وشمار حاصل کیے، ملک کے مختلف علاقوں کے دورے کیے، ماہرین اور دانشوروں سے تبادلہ خیالات کیا اور سماجی وسیاسی نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ اسی سلسلے میں یہ تحقیقاتی کمیٹی حیدرآباد گئی تھی۔ جسٹس سچر کا بیان ہے کہ اس دن شہر کے مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد سے ان کی ملاقات تھی۔ یہ بڑے ہوش مند، تعلیم یافتہ اور آج کی دنیا پر گہری نگاہ رکھنے والے مسلمان تھے۔ انہوں نے کمیٹی کے سامنے اپنی باتیں بڑی خوش اسلوبی سے رکھیں لیکن ایک موقع پر سید حامد صاحب ان پر چیخنے لگے، وہ انتہائی غصے میں تھے، جتنا جی میں آیا ان کوبرا بھلا کہا۔ہم سب حیران تھے لیکن ان کے اس غصے کا سبب ناقابل فہم نہیں تھا۔ وہ ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے سچے ہمدرد ہیں۔ہوا یہ تھا کہ اس وفد میں شامل بعض افراد نے سچر کمیٹی سے کہا کہ چونکہ عام طورپر مسلم طلبہ میٹرک کے امتحانات میں ریاضی میں ناکام ہوجاتے ہیں اوران کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھنے سے رک جاتا ہے اس لیے سچر کمیٹی حکومت سے یہ سفارش کرے کہ مسلم طلبا کو اس سلسلے میں مستثنیٰ قرار دے دیا جائے، ان کے لیے ریاضی (حساب) میں پاس ہونا لازمی نہ ہو۔ یہ سننا تھا کہ سید حامد اپنے غصہ پر قابو نہ رکھ سکے۔چیخ اٹھے ’کیاآپ لوگ اس قوم کو جاہل بنادینا چاہتے ہیں؟‘ پھر دیر تک ان پر لعنت ملامت کرتے رہے اور ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں ۔
تقریباایک سال سے دہلی اورملک کے مسلم سیاسی وسماجی حلقوں میں وقفہ وقفہ سے لازمی تعلیم کے قانون پر ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے، جمعیة علماءہند، ملی کونسل، مجلس مشاورت، اوریہاں تک کہ اب مسلم پرسنل لا بورڈ،مسلمانوں کی کون سی قابل ذکر تنظیم ہے جو حق تعلیم ایکٹ یا اس کی بعض دفعات سے مسلمانوں کومستثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ نہیں کررہی ہے۔ بعض تنظیمیں تو حکومت کو دھمکی دے رہی ہیں کہ اس نے اگر مسلمانوں کے دینی مدارس کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا تو وہ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چھیڑیں گے۔لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتریں گے، گرفتاریاں دیں گے،جیل بھریں گے کیونکہ یہ میٹھا زہر ہے،پچھلے دروازے سے تعلیم کو قومیانے کی سازش ہے، اس قانون کی زد میں ہمارے دینی مدارس آتے ہیں جو ہمارے لیے کسی بھی قیمت پر قابل برداشت نہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک گروپ نے تو باضابطہ بیداری مہم چھیڑ رکھی ہےجس کی قیادت بہار کی ایک نامی گرامی خانقاہ کے سجادہ نشیں کر رہے ہیں ۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کے نمائندہ وفد نے سچر کمیٹی سے مسلم طلبہ کے لیے جس استثنیٰ کا مطالبہ کیا تھا، گہرائی میں اتر کر دیکھیں توحق تعلیم ایکٹ کے سلسلے میں مسلم علماءو ملی قائدین کے مطالبات اس سے ذرا بھی مختلف نہیں ہیں لیکن حیرت ہے کہ آج کسی سید حامد کو ان پر غصہ نہیں آرہا ہے (اور اگر آرہا ہو تو ہمارے علم میں نہیں ہے) کسی نے ان کو ڈانٹ نہیں پلائی، کسی کی ہمت نہیں کہ لب کشائی کرے کیونکہ آج ان کے سامنے حیدر آباد کے ہوش مند اورتعلیم یافتہ مسلمان نہیں بلکہ شمالی ہند کے قائدین ملت اور علمائے کرام ہیں۔ ہر سمجھ دارآدمی خوفزدہ ہے کہ کہیں اس پر حکومت کی حمایت اور ملت سے غداری کا الزام نہ آجائے۔
 پہلا سوال تویہی ہے کہ جب یہ قانون پارلیمنٹ کی میز پر تھا اور اس پر بحث ہورہی تھی،اس وقت ہمارے یہ قائدین کہا ں سورہے تھے؟اور جب اس قانون کے نفاذ مہینوں گزرگئے، ان میں اچانک بیداری اور بے چینی کیوں پھیل گئی؟ اوراب ایک سال بعد مسلم پرسنل لا بورڈ نے حق تعلیم ایکٹ کے خلاف نئی توانائی کے ساتھ جنگ کیوں چھیڑ دی؟ کیا واقعی اس قانون کے نفاذ سے اسلام خطرے میں ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون سے مسلمانوں اور بالخصوص مدرسوں کو مستثنیٰ قرار دیا جانا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو اس کی کیا صور ت ہوگی؟ کیا حکومت کو یہ اختیار ہے کہ ملک کے بعض شہریوں کو آئین میں دیے گئے حقوق دے اور بعض کو اس سے کسی وجہ سے محروم رکھے؟ اور اگر ایسا کیا گیا تو کیا یہ ملک کے آئین کی روح اور انصاف کے تقاضے کے منافی نہیں ہوگا؟ اگر ہاں تو پھر اس آئینی و قانونی بحران کا حل کیا ہے؟ کیا حق تعلیم ایکٹ کو جبری تعلیم یا تعلیم کو قومیانے کی سازش قرار دے کرٹکراؤ کا ماحول پیدا کرنا سراسر غلط ، گمراہ کن اور بد بختانہ نہیں ہے؟ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ ذاتی سیاسی مفاد پرستی کی کوکھ سے جنم لینے والا یہ ٹکراؤنہ ملک وقوم کے حق میں بہتر ہوگا اور نہ مسلمانوں کے حق میں مفید۔ دیکھنے والی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی ہیں کہ اس ٹکراؤ کو بڑھانے میں ایک طرف وہ عناصر پیش پیش ہیں جو اسی قسم کے ٹکراؤ کی آنچ پر اپنی سیاست کی دکانیں سجاتے اور ملی مفادات کا سودا کرتے آئے ہیں۔ دوسری طرف ان کی پیٹھ پر وہ تعلیمی مافیا سرگرم ہیں جو اپنے اسکولوں میں بچوں کے والدین اور سرپرستوں سے موٹی رقمیں وصول کرتے ہیں لیکن ان کو معیاری تعلیم اورواجبی سہولیات نہیں دیتے، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ناراضگی کا خوف دکھاکرچھوٹ حاصل کرلیں اور ملت کے مستقبل سے بہ دستور کھلواڑ کرتے رہیں۔انہیں اپنے وقتی مفادات کے آگے کچھ سجھائی نہیں دے رہے ہیں،وہ صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کا اپناکاروباربند ہوجائے گاورنہ معیاری انتظامات کرنے ہوںگے۔ کیادن آئے ہیں کہ اس مہم میں بعض وہ لوگ سرمایہ لگا رہے ہیں جو کل تک مسلمانوں کی پسماندگی کے لیے اصل ذمہ دارمدرسوں کو قرار دیتے تھکتے نہ تھے، لیکن اب ان کو مدرسے حق تعلیم ایکٹ کی زد میں نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کا اپنا انگلش میڈیم اسکول خطرے میں ہے۔ جس کے بچنے کی ایک ہی صورت نظر آرہی ہے کہ مدرسے اور مسلمان کے نام پر چھوٹ مل جائے۔
ہندوستان کا آئین ملک کے ہر شہری کویکساں اور معیاری تعلیم کا حق دیتا ہے، ساٹھ سال بعد حکومت نے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور حقوق تعلیم ایکٹ لاکر اس راہ میں پہلا قدم اٹھایا۔یہ قانون ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم اپنی پسند کے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کریں اوراس کے جملہ مصارف حکومت برداشت کرے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اس قانون کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کرتے اور منفی طرز فکر ترک کرکے حق تعلیم ایکٹ ہمیں جو حقوق دیتا ہے، اس سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی تدابیر کرتے لیکن ہورہا ہے یہ کہ ہم اندیشوں اور امکانات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، حکومت کی نیت پر شک کررہے ہیں، ان شرائط کو منفی طور پر لے رہے ہیں جوتعلیمی اداروں پر ملک کے ہر شہری کو یکساں اور معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرنے کی غرض سے عائد کی گئی ہیں۔ جب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کے جملے مصارف برداشت کرے اور آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرانے سے قاصر رہنے کی صورت میں اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں تو اس قانون میں جو کم از کم معیار طے کیا گیا ہے وہ ہمارا حق ہے یا حکومت کی جانب سے تھوپی گئی شرطیں؟
دراصل ہم لوگ آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے بہتراور معیاری تعلیم کے حصول کی تدابیر اور اپنے ادارو ں کو حکومت سے تعلیمی اداروں کی حیثیت سے تسلیم کرانے کی جدوجہد کرنا یقینا مشکل کام ہے۔ شاید اسی لیے قائدین ملت شرائط میں نرمی بلکہ استثنیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس میں آسانی یہ بھی ہے کہ لگے ہاتھوں سیاست کی روٹی بھی گرم ہورہی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے حق سے خود ہی دست بردار ہونے کی ضد کریں، خود کو مستثنیٰ منہ کرانے کا مطالبہ کریں اور اپنے اداروں کو تسلیم کرانے کی جدوجہد نہ کریں۔ کسی طفل مکتب کو بھی یہ بتانے کی حاجت نہیں ہے کہ حق تعلیم ایکٹ سے کسی فرد ،جماعت یاادارہ کومستثنی قرار دینے کا مطلب ا س کو ان حقوق سے محروم یادست بردارکرناہے جو یہ ایکٹ اسے دیتا ہے۔ پچھلے سا ل جولائی میں اس سلسلے کے ایک جلسے میں مرکزی وزیرفروغ انسانی وسائل نے مدرسوں کو اس ایکٹ سے مستثنیٰ کرانے کا وعدہ بھی کرلیا تھا۔ پھرانہوں نے ایک گائڈلائن جاری کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘حق تعلیم ایکٹ میں مدرسہ کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مذہبی تعلیم کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ پھر بھی اگر کسی کو شک ہے تو اس کے لیے گائڈ لائن جاری کردیاگیاہے۔’’ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس قانون سے مذہبی تعلیم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن جو تعلیمی ادارے ضروری شرائط پورے نہیں کرتے، وہ اس قانون کی زد میں ضرورآئیں گے چاہے وہ اسکول یا پاٹھ شالا ہوں یا مدرسے۔ اس ایکٹ کی رو سے غیر منظور شدہ اداروں میں بچوں کو روکنا غیر قانونی اور قابل مواخذہ جرم ہوگا۔ گائڈلائن وغیرہ وقتی اور جھوٹی تسلی ہے ۔ وزیر موصوف یہ کہہ کر جھوٹی تسلی دے رہے ہیں کہ مدرسے اس قانون کے دائرے میں نہیں آتے۔ کیونکہ اگر مدرسوں کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے تویہ مدرسوں میں زیرتعلیم بچوں کے بنیادی حق کے ساتھ سمجھوتہ اور خلاف آئین ہوگا۔ اور عدالتیں کسی وقت بھی ان کی گردن پکڑ سکتی ہیں۔ آخر ان بچوں کو وہ کس جرم میں تعلیم کے حق سے محروم کرسکتے ہیں جو تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی لینا چاہتے ہیں؟ حکومت پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کو طفل تسلی دینے یا گمراہ کرنے کے بجائے ہمارے دینی مدرسوں کو تعلیمی اداروں کی حیثیت سے تسلیم کرے اور مدرسے بھی تعلیم کے کم از کم معیار کی پابندی کریں اورخود کوتسلیم کرائیں۔ حکومت سے تسلیم شدہ ایسے مدرسے اس ملک میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور شاید کپل سبل ان ہی مدرسوں کے تعلق سے باربارکہہ رہے ہیں کہ مدرسے اس قانون کی زد میں نہیں آتے۔ مسلمانوں کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ ماضی میں بھی یہ ملت اس قسم کی طفل تسلیوں کا شکار ہوچکی ہے۔
حق تعلیم ایکٹ ملک کے ہر بچے (6تا 14سال عمر) کو یہ ضمانت دیتا ہے کہ اس کو معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرائی جائے۔(خواہ وہ مدرسہ میں پڑھتے ہوں یا پاٹھ شالہ میں یا کہیں اور) اس قانون کا اصل مقصدو منشا یہی ہے اور اسی کو یقینی بنانے کے لیے اس ایکٹ میں قانونی انتظامات کیے گئے ہیں۔ کسی بھی قانون کی الگ الگ دفعات کو اس کی منشا اور سیاق وسباق سے ہٹاکر اندیشہ ہائے دور دراز کا بازار گرم کیا جاسکتا ہے اور اس قانون کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ جو لوگ اس قانون کوآئین کی دفعہ 29اور30سے متصادم 
بتارہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ دفعہ29و30 ہرشہری کو دیے گئے بنیادی حقوق کی تشریح ہے اور ملک میں رائج و نافذالعمل جملہ قوانین اس کے تابع ہیں، کوئی قانون اس سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ حق تعلیم ایکٹ بھی اس کے تابع ہے۔ اس ایکٹ میں جہاں یہ بندوبست ہے کہ بچے کی تعلیم کی راہ میں آنے والے والدین اور سرپرستوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ان کو قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے وہیں یہ ضمانت بھی موجود ہے کہ بچوں کو اس کی اور اس کے والدین/سرپرست کی پسند کے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ہوگا لیکن وہ ادارے طے شدہ معیار کے پابند ہوںگے۔ یہ نہ ہو کہ تعلیم کے نام پر کاٹھ کی ہانڈی چڑھا رکھی ہو۔ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں آج تعلیم کا جو عمومی معیار ہے وہ اظہرمن ا لشمس ہے۔ بچوں کو پرائمری اور اپر پرائمری (تحتانی ووسطانی) درجات میں ان کی مادری زبان میں سائنس، ریاضی اور سماجیات کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کے علاوہ بچہ کوئی اور زبان پڑھنا چاہے یا ملک کی قومی زبان اس کی مادری زبان کے علاوہ ہو تو اس زبان کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔اگر آپ قوم کے بچوں کو اتنی تعلیم بھی دینا نہیں چاہتے(خواہ وہ مدرسے کے بچے ہی کیوں نہ ہوں) یا اس کو بھی بوجھ تصور کرتے ہیں تو کیا آج کی دنیا میں یہ خود کشی نہیں ہے؟ جب ہر بچے کی تعلیم کے مصارف اٹھانے کی حکومت پابند ہے اور وہ بھی بچے کے پسند کے تعلیمی ادارے میں تو کیا کسی بچے کو اس حق سے محروم رکھنا یا مستثیٰ منہ قرار دینا اس کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا؟ اگر آپ اپنے تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے بجائے معیار میں چھوٹ اور استثنیٰ کے طلب گار ہیں تو اس کا مطلب کیا سمجھا جائے؟ ہمارے بچے ریاضی میں ناکام ہوجاتے ہیں اس لیے ریاضی کو استثنیٰ قرار دے دیا جائے، یہ سوچ آخر کس حقیقت کا ثبوت ہے؟ آخر آپ قوم کو جاہل رکھنے پر کیوں بہ ضد ہیں؟ ہم یہاں صرف اتنا عرض کریں گے کہ دیوبند کے جس دارالعلوم پر آج ہندوستانی علمااور مسلمانوں کے ایک طبقہ کو بڑا ناز ہے، اس کے بانیوں نے اس کا نام مدرسہ عربی فارسی وریاضی رکھا تھا۔ لیکن آج سب سے زیادہ اسی طبقہ کے لوگ سائنس اورریاضی سے خوفزدہ نظرآتے ہیں۔خدارا! قوم کو اس خوف کی نفسیات اور پست ہمتی کے دلدل سے نکالئے کیونکہ دنیا میں وہی قوم زندہ رہتی ہے جو وقت کے چیلنج کو قبول کرتی ہے۔ ہم اس وقت سربلند و سرخ رو تھے جب ہم میں دنیا بھر کی زبانیں اور علوم وفنون سیکھنے کا جذبہ اور ہر چیلنج کوقبول کرنے کی ہمت تھی۔ جب سے یہ جذبہ اور یہ حوصلہ ہمارے اندر سے رخصت ہوا ذلیل وخوار ہوگئے۔

Tuesday 14 February 2012

اقبال اور مغربی تہذیب


 جسیم الدین قاسمی
ریسرچ اسکالر ،شعبہ عربی دہلی یوینورسٹی،دہلی
مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ چا ر سو سالوں کے دوران یورپ میں اُبھری اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اُس وقت سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا ۔ یونانی اور لاطینی علوم کے ماہر وہاں سے نکل بھاگے اور مغربی یورپ میں پھیل گئے یورپ جو اس سے قبل جہالت کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا ان علماءکے اثر سے اور ہسپانیہ پر عیسائیوں کے قبضہ کے بعد مسلمانوں کے علوم کے باعث ایک نئی قوت سے جاگ اُٹھا ۔ یہی زمانہ ہے جب یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا۔ نئی نئی ایجادات ہوئیں اُن کے باعث نہ صرف یورپ کی پسماندگی اور جہالت کا علاج ہوگیا، بلکہ یورپی اقوام نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئیں ان کی حریصانہ نظریں ایشیاءاور افریقہ کے ممالک پر تھیں۔ انگلستان ، فرانس ، پرُ تگال اور ہالینڈ سے پیش قدمی کی اور نت نئے ممالک کو پہلے معاشی اور پھر سےاسی گرفت میں لیناشروع کر دیااس طرح تھوڑے عرصہ میں ان اقوام نے ایشیاءاور افریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا اس رواج کی ابتداءیونانی علوم کی لائی ہوئی آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے ہوئی۔ جس نے سائنسی ایجادات کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ سائنسی ایجادات اور مشینوں کی ترقی نے اس تہذیب کو اتنی طاقت بخش دی تھی کہ محکوم ممالک کا اس نے حتیٰ المقدور گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ وہاں کے عوام کی نظروں کو اپنی چکاچوند سے خیرہ کر دیا اور وہ صدیوں تک اس کے حلقہ اثر سے باہر نہ آسکے ۔ مسلمان ممالک خاص طور پر اس کا ہدف بنے ۔ ترکی ، ایران، مصر ، حجاز ، فلسطین ، مراکش ، تیونس، لیبیا، سوڈان ، عراق ، شام غرض تمام ممالک کو یورپ نے اپنا غلام بنا لیا اور ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مغربی تہذیب و تمدن کی خامیوں پر نکتہ چینی کی ہے اور مسلم معاشرے کو ان کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔ بعض نقادوں کے خیال میں اقبال نے مغربی تہذیب پر اعتراضات کرکے انصاف سے کام نہیں لیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اس بارے میں لکھتے ہیں۔
” اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ملتی ہےاور یہ مخالفت اس کے رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اکثر نظموں میں بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔“
یہ کہنا کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا کلام اقبال سے سطحی واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے تہذیب ِ مغرب کے صرف انہی پہلو ئوں پر تنقید کی ہے جنہیں وہ مسلم معاشرے کے لئے مضر سمجھتے تھے۔ ورنہ جہاں تک اچھے پہلوئوں کا تعلق ہے اقبال اس سے کبھی منکر نہیں ہوئے۔
اپنےایک لیکچر میں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی اہمیت جتانے کے بعد کھل کر کہا ہے۔ ” میری ان باتوں سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ میں مغربی تہذیب کا مخالف ہوں ۔ اسلامی تاریخ کے ہر مبصر کو لامحالہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارے عقلی و ادراکی گہوارے کو جھلانے کی خدمت مغرب نے ہی انجام دی ہے۔“
اسی طرح ایک اور جگہ وہ صاف صاف کہتے ہیں،
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا ہے ارشاد کہ ہر شب کو سحر کر
مغربی تہذیب سے اقبال کے اختلاف کے وجوہات:
اقبال نے مغربی تہذیب کی جو مخالفت کی ہے اس کی وجہ سیاسی ہے اقبال کے زمانے میں ہندوستان میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو مغربی معاشرے کی ہر بات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ قدامت پرستوں کا طبقہ تھا جسے اپنی تہذیب پر فخر تھا چاہے وہ اچھی ہو یا بری ، دوسرا طبقہ اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہوئے مغرب کی تقلید کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتا تھا۔ خصوصاً جو لوگ یورپ سے ہو کر آئے تھے ان کی آنکھیں وہاں کی چکاچوند سے چندھیا جاتی تھیں۔ ہاں ان میں اقبال جیسے لوگ بھی تھے جو مغرب جاکر وہاں سے مرعوب ہو کر نہیں آئے تھے،بلکہ اُس کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں واضح نقطہ نظر کے حامل ہو کر وطن واپس لوٹے تھے، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مغرب سے مرعوب حضرات جب وطن واپس آئے تو انہیں مغرب کا ہر گوشہ فردوس کی مانند نظر آتا ہے۔ اقبال کو صرف یہ دکھ نہیں تھا کہ ہندوستان انگریزوں کی غلامی قبول کر چکا ہے ،بلکہ اُسے اس بات کا رنج تھا کہ تمام عالم اسلام یورپی اقوام کی ہوس گیری کا شکار ہوگیا ہے۔ اس بات نے اقبال کے دل میں مغربی تہذیب کے خلاف نفرت کے جذبات بھر دئیے ورنہ اقبال نے اُس کے روشن پہلوئوں کی جابجا تعریف کی ہے۔
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی خامیاں:
مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ تین سو سال سے یورپ میں پیدا ہوئی اور جن کی بنیاد عقلیت ، مادیت اور سائنسی ترقی پر ہے اقبال نے یورپی تہذیب کی خامیوں کو کھل کر آشکارہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظر میں اس تہذیب کی بڑی بڑی خامیاں حسبِ ذیل ہیں۔
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بناءسرمایہ داری ہے
یہ پیر کلیسا کے کرامات ہیں آج
بجلی کے چراغوں سے منور کئے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پر مرادل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
مادیت:
اقبال کے نزدیک اس تہذیب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مادی ترقی اور کسبِ زر کو زندگی کی معراج سمجھتی ہے انسانی اخلاق اور روحانی اقدار کی ان کی نظر میں کوئی قیمت نہیں، چنانچہ انسانی زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکی۔
یورپ میں بہت ، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
اقبال فرماتے ہیں کہ میں مشرق و مغرب کے مےخانوں سے خوب واقف ہوں مشرق میں ساقی نہیں اور مغرب کی صبا بے مزہ ہے ۔ جب تک ساقی کی حوصلہ مندیاں اور ذوق صبا ایک جگہ جمع نہ ہو جائیں ۔ اس وقت تک مےخانہ حیات آباد و بارونق نہیں ہو سکتا ۔ مشرق اور مغرب کی موجودہ ذہنیت کا نقشہ وہ ان الفاظ میں کھینچتا ہے۔
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مےخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صبا
اقبال کے خیال میں تہذیب حاضر نے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے ،لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اُٹھ سکا ۔ اس لئے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے۔
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اس مادہ پرستی نے یورپ کو اخلاقی انحطاط سے دوچار کیا ہے۔ اسے خبر نہیں کہ حقیقی راحت مادی اسباب میں نہیں روحانی بلندی میں ہے۔
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش ِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام
سائنسی ترقی نے مغرب کی مادی حیثیت سے غیر معمولی طاقت بخش دی ہے اور اُسے ظاہری شان و شوکت سے مالا مال کیا، لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا یہ علوم و فنون انسان کو حقیقی راحت اور آسودگی پہنچانے کے بجائے اُس کی موت کا پروانہ بن گئے۔ انہی آثار کو دیکھ کر اقبال نے پیش گوئی کی کہ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اقبال کو مغربی تہذیب سے یہی شکایت ہے کہ وہ ظاہری اور خارجی فلاح و بہبود پر نظر رکھتی ہے اور روح کی پاکیزگی اور بلندی کا کوئی دھیان نہیں کرتی، حالانکہ یہی انسانی افکار و اعمال کا سرچشمہ ہے یورپ نے عناصر ِ فطرت کوتو تسخیر کر لیا، لیکن روحانی نشوو نما اور صفائی قلب کی طرف توجہ نہ دے سکا۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
مغرب میں اخلاقی اور روحانی اقدار سے روگردانی کا سبب یہ بنا کہ سائنس کے انکشافات قدم قدم پر ان کے جامد دینی عقائد سے ٹکراتے تھے ۔ علم کی روشنی نے ان جامد عقائد کو متزلزل کیا تو و ہ مذہب اور مذہب کی پیش کردہ روحانی اقدار سے ہی منکر ہوگئے مادی اسباب کی فراوانی نے تعیش اور خود غرضی کو فروغ دیا۔ عورت کو بے محابا آزادی مل گئی اور معاشرہ میں فساد برپا ہوگیا۔ روحانی اور اخلاقی اقدار کی غیرموجودگی میں مےخواری ، عریانی ، سود خوری ، اور اخلاقی پستی نے جنم لیا اور ان امراض نے یورپی تہذیب کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا۔ اقبال کو اسی لئے ایوان ِ فرنگ سست بنیاد نظر آیا تھا اور وہ اسے ایک سیل بے پناہ کی زد میں سمجھتے تھے۔
پیر مےخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوانِ فرنگ
سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے
خبر ملی ہے خدایان ِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیلِ بے پناہ میں ہے
خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال مادی ترقی کے سرے سے مخالف ہیں ،شیخ محمد اکرام ”موج کوثر“ میں لکھتے ہیں، ”اقبال پنڈت جواہر لال نہرو کے جواب میں کہتا ہے ”اسلا م کی روح مادے کے قریب سے نہیں ڈرتی ، قرآن کا ارشاد ہے کہ تمہارا دنیا میں جو حصہ ہے اس کو نہ بھولو۔“
عقلیت پرستی:
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کی بنیاد عقلیت پرستی پر ہے یہ عجیب بات ہے کہ جدید ترین تمدن انسانی افعال و افکار کو عقل کے علاہ کسی اور کسوٹی پر پرکھنے کے لئے تیار نہیں، اقبال کے نزدیک عقل حقیقت تک پہنچنے کا کوئی موزوں پیمانہ نہیں اس ناموزوں پیمانے سے حاصل شدہ نتائج ہمارے لئے حتمی درجہ نہیں رکھتے ،اگرچہ مغرب کے سارے فلسفی عقل پرستی کا شکار ہیں، لیکن اقبال اس کے مخالف ہیں۔
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
نئی تہذیب کی بد قسمتی ہے کہ اس نے عقل کو بے لگام چھوڑ دیا ہے کہ وہ قافلہ انسانی کو جس طرف چاہے لے جائے عقل یقینا زندگی کا بیش بہا جوہر ہے، لیکن اس جوہر کی باگیں عشق کے ہاتھ میں ہونی چاہیں عقل و عشق کی معاونت سے اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
سائنس کی ہلاکت آفرینی:
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کے فرزندوں نے مظاہر فطرت کو تسخیر کرکے اپنے فائدے کو پیش نظر رکھا، لیکن بحیثیت مجموعی انسانیت کے لئے ہلاکت آفرینی کے اسباب پیدا کئے ۔ مغربی ممالک بے پناہ قوت حاصل کرنے کے بعد کمزور ممالک کو اپنی ہوس کا شکار بنانے پر تل گئے مغرب والوں نے کارخانے بنائے جو سرمایہ داروں کے ہاتھ آگئے اور مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی سے محرو م ہوگئے۔نئی تہذیب کے پرور دہ تاجرانِ فرنگ کے اسی رویے کے خلاف اقبال یہ کہہ کر احتجاج کیا۔
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
مشرق کے خداوند سفیرانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلذات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے مرگ مفاجات
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اقبال سائنسی ترقی کے خلاف نہیں وہ خود تسخیر کائنات کے مبلغ ہیں انہیں شکایت ہے کہ مغرب نے فطرت کو تو اپنے بس میں کر لیا ہے، لیکن اس سے صحیح معنوں میں کام نہیں لیا۔ اور وہ کام ہے انسانیت کی خدمت۔
مغربی تہذیب کی خوبیاں:
بعض نقادوں کے نزدیک اقبال کا نقطہ نظر مغربی تہذیب کی نسبت یکسر مختلف ہے، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا یہ کہنا درست نہیں کہ ” کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔“ یہ رائے اقبال کے حق میں منصفانہ نہیں ہے ،اقبال نے تو مغربی تہذیب کی خامیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔مثلاً:
اہل مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے وہ بے حد معترف تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان بھی اس میدان میں ان کی تقلید کریں ان کے نزدیک سائنس پر اہل فرنگ کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ ایک لحاظ سے یہ مسلمانوں کی گم شدہ متا ع ہے۔ جسے حاصل کرنا ان کا فرض ہے تسخیر کائنات کے لئے کی جانے والی سائنسی ایجادات کو وہ بہت تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،چنانچہ اقبال سائنس کوفرنگی زاد نہیں مسلمان زاد بتاتے ہیں۔
حکمت اشیاءفرنگی زاد نیست
اصل اور جز لذتِ ایجاد نیست
نیک اگر بینی مسلماں زادہ است
ایں گلے از دست ما افتادہ است
اقبال نے مغرب کی عقل پرستی اور مادہ پرستی کی غلامی پر سخت تنقید کی ہے،کیونکہ زندگی کو صرف عقل اور مادہ تک محدود کر لیاجائے تو انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ وہ اس افادی نقطہ نظر کے مخالف ہیں جو ہر قیمت پر صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور دوسروں کے نقصان کی پرواہ نہیں کرتا، مگر اس بات کے وہ قائل ہیں کہ عملی زندگی کے لئے مادی ترقی کی بھی ضرورت ہے اور عقل بھی بڑا قیمتی جوہر ہے وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ عقل اور مادہ کی ترقی اور کار گزاریوں پر روحانی اور اخلاقی پابندیاں عائد ہوں ورنہ مادی ترقیوں اور عقل کے کارناموں کے وہ معترف ہیں اور ان کی تحسین کرتے ہیں۔
یورپی علم و ہنر نے اہل فرنگ کی تمدنی زندگی کو جو ظاہری صفائی اور سلیقہ مدنی عطا کی اسے بھی اقبال قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انہیں افرنگ کا ہر وہ قریہ فردوس کی مانند نظر آتا ہے۔ اور ان کا جی چاہتا ہے کہ ہمارے شہر بھی اسی طرح جنت منظر بن جائیں۔
اقبال اہل یورپ کی سود خوری ، میخواری ، عریانی ، بے حیائی اور مادر پدر آزادی کے تو سخت مخالف ہیں ،لیکن وہاں کی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ اہل یورپ کی محنت کی عادت ، ایفائے عہد، پابندی وقت ، کاروباری دیانت اور اسی قسم کی اخلاقی خوبیوں کے باعث انہیں یورپ کے کفار اپنے ہاں کے مسلمانوں کی نسبت اسلام کے زیادہ پابند نظر آتے ہیں یورپ نے زندگی کی جو نعمتیں حاصل کی ہیں ان کے نزدیک وہ انہی اسلامی اُصولوں پر کاربند رہنے کا نتیجہ ہیں اور یہی اسلامی خوبیاں ہیں جو یورپ میں پائی جاتی ہیں مگر ہم مسلمان ان سے محروم ہیں۔
اندھی تقلید کی مذمت :
اقبال نے مغربی تہذیب اور علوم کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھاوہ مغربی معاشرہ کی خامیو ں اور خوبیوں سے اچھی طرح آگاہ تھے، چنانچہ انہوں نے مغربی تہذیب کی خامیوں پر نکتہ چینی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مشرقی رہنمائوں کی بھی مذمت کی ہے جو مغرب کی اندھی تقلید کو شعار بنا کر ترقی یافتہ قوموں کے زمرہ میں شامل ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے، انہوں نے مغرب کی حقیقی خوبیوں کو چھوڑ کر صرف ظاہری باتوں کو اپنا لیا اور ضروری اور غیر ضروری میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی۔
اس قسم کی تجدید اور ترقی کی کوششیں مصر ، ترکی، ایران اور افغانستان میں ہوئیں، مصطفی کمال پاشا نے ترکی میں خلافت کو ختم کر دیا۔ فقہی امور میں قران کو بالائے طاق رکھ دیا ۔ علماءکو تہ تیغ کرا دیا۔ عربی رسم الخط ترک کر کے لاطینی رسم الخط اختیا ر کر لیا اور بذعم خود اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنا دیا۔ امیر امان اللہ خان نے افغانستان اور رضاشاہ نے ایران کو بھی اسی طرح جدید طرز کا ملک بنا نا چاہا۔ ان سب رہنمائوں نے ظاہری اُمور کو کافی سمجھا اور یہ کوشش نہ کی کہ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کی اچھائیوں کی اساس پر ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھے۔ اقبال نے اسی رویہ کی مذمت کی ہے۔
نہ مصطفےٰ نہ رضا شاہ میں ہے اس کی نمود
کہ روح شرق بد ن کی تلاش میں ہے ابھی
اقبال کو اس بات کو بہت رنج ہے کہ مشرقی ممالک اپنی نا سمجھی کے باعث تہذیب ِ مغرب کی اندھی تقلید کے پھندے میں پھنستے چلے جا رہے ہیں اس غفلت پر وہ اس طرح نوحہ کرتے ہیں۔
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
اقبال کو اپنے ہم وطنوں سے بھی یہی شکوہ ہے وہ مغرب کی تقلید کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں ،حالانکہ ترقی کے لئے لباس کی خاص وضع قطع اور اپنی زبان چھوڑ کر بدیسی زبان اختیار کر لینا اور عورتوں کو بے پردہ کر دینا اور شراب و چنگ کا سہارا لینا ضروری نہیں، بلکہ یہ تو وہ راستہ تھا جو ہمیں تہذیبی اور فکری اعتبار سے مفلس بنا رہا تھا اوراسی ذریعہ سے مغربی اقوام سےاسی غلامی کے ساتھ ساتھ ہم پر اپنی ذہنی غلامی بھی مسلط کر رہے تھے۔
قوت مغرب نہ از چنگ و رباب
نے زرقص دخترانِ بے حجاب
اقبال کی پسندیدہ تہذیب:
اقبال کو مغربی تہذیب میں اگر کچھ خامیاں نظر آتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ملتِ اسلامیہ اور اسکی مروجہ تہذیب سے خوش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں اپنی قوم میں بہت سی خامیاں نظرآتی ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ اس قوم کے آگے کوئی مقصد یا نصب العین نہیں، ان کے دل گرمی ، تڑپ اور حرارت سے محروم ہیں۔دین کا نام لینے والے تو بہت ہیں لیکن دین کے اصولوں پر چلنے والے بہت کم ہیں۔ اسے نہ راستے کا پتہ ہے اور نہ منزل کا چنانچہ حال یہ ہے کہ،
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج ، دیکھ چکا صدف صدف
اگرچہ اقبال مشرق و مغرب دونوں کی موجودہ حالت سے مایوس ہیں، لیکن اُسے ایک امید ہے کہ مسلمان قوم کے پاس دین اسلام کی شکل میں ایک ایسا لائحہ عمل ہے جس کی مدد سے وہ زندگی کی دوڑ میں مغربی اقوام سے آگے بھی بڑھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی کر سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ جدید مغربی علوم و فنون سے بھی واقف ہوں اور اپنے ورثے سے بھی بیگانہ نہ ہوں۔
مجموعی جائزہ:
مختصر یہ کہ یہی وہ تہذیب ِاسلامی ہے جس کے اقبال آرزو مند ہیں ۔ اس تہذیب کے عناصر میں اخوت ، مساوات، جمہوریت ، آزادی ، انصاف پسندی ، علم دوستی ، احترام انسانی، شائستگی ، روحانی بلندی اور اخلاقی پاکیزگی شامل ہیں اور ان کی بنیاد پر یقینا ایک صحت منداور متوازن معاشرہ کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ صالح عناصر ظاہر ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب میں موجود نہیں اس لئے اقبال اس کی مخالفت زیادہ اور تعریف کم کرتے ہیں۔
وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار سخن ساز ہے! نمناک نہیں ہے
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت خود فروشی ، ناشکیبائی ، ہوسناکی

اقبال اور مغربی تہذیب


محمد جسیم الدین 
ریسرچ اسکالر ،شعبہ عربی دہلی یوینورسٹی،دہلی
مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ چا ر سو سالوں کے دوران یورپ میں اُبھری اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اُس وقت سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا ۔ یونانی اور لاطینی علوم کے ماہر وہاں سے نکل بھاگے اور مغربی یورپ میں پھیل گئے یورپ جو اس سے قبل جہالت کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا ان علماءکے اثر سے اور ہسپانیہ پر عیسائیوں کے قبضہ کے بعد مسلمانوں کے علوم کے باعث ایک نئی قوت سے جاگ اُٹھا ۔ یہی زمانہ ہے جب یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا۔ نئی نئی ایجادات ہوئیں اُن کے باعث نہ صرف یورپ کی پسماندگی اور جہالت کا علاج ہوگیا، بلکہ یورپی اقوام نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئیں ان کی حریصانہ نظریں ایشیاءاور افریقہ کے ممالک پر تھیں۔ انگلستان ، فرانس ، پرُ تگال اور ہالینڈ سے پیش قدمی کی اور نت نئے ممالک کو پہلے معاشی اور پھر سےاسی گرفت میں لیناشروع کر دیااس طرح تھوڑے عرصہ میں ان اقوام نے ایشیاءاور افریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا اس رواج کی ابتداءیونانی علوم کی لائی ہوئی آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے ہوئی۔ جس نے سائنسی ایجادات کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ سائنسی ایجادات اور مشینوں کی ترقی نے اس تہذیب کو اتنی طاقت بخش دی تھی کہ محکوم ممالک کا اس نے حتیٰ المقدور گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ وہاں کے عوام کی نظروں کو اپنی چکاچوند سے خیرہ کر دیا اور وہ صدیوں تک اس کے حلقہ اثر سے باہر نہ آسکے ۔ مسلمان ممالک خاص طور پر اس کا ہدف بنے ۔ ترکی ، ایران، مصر ، حجاز ، فلسطین ، مراکش ، تیونس، لیبیا، سوڈان ، عراق ، شام غرض تمام ممالک کو یورپ نے اپنا غلام بنا لیا اور ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مغربی تہذیب و تمدن کی خامیوں پر نکتہ چینی کی ہے اور مسلم معاشرے کو ان کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔ بعض نقادوں کے خیال میں اقبال نے مغربی تہذیب پر اعتراضات کرکے انصاف سے کام نہیں لیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اس بارے میں لکھتے ہیں۔
” اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ملتی ہےاور یہ مخالفت اس کے رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اکثر نظموں میں بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔“
یہ کہنا کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا کلام اقبال سے سطحی واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے تہذیب ِ مغرب کے صرف انہی پہلو ئوں پر تنقید کی ہے جنہیں وہ مسلم معاشرے کے لئے مضر سمجھتے تھے۔ ورنہ جہاں تک اچھے پہلوئوں کا تعلق ہے اقبال اس سے کبھی منکر نہیں ہوئے۔
اپنےایک لیکچر میں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی اہمیت جتانے کے بعد کھل کر کہا ہے۔ ” میری ان باتوں سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ میں مغربی تہذیب کا مخالف ہوں ۔ اسلامی تاریخ کے ہر مبصر کو لامحالہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارے عقلی و ادراکی گہوارے کو جھلانے کی خدمت مغرب نے ہی انجام دی ہے۔“
اسی طرح ایک اور جگہ وہ صاف صاف کہتے ہیں،
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا ہے ارشاد کہ ہر شب کو سحر کر
مغربی تہذیب سے اقبال کے اختلاف کے وجوہات:
اقبال نے مغربی تہذیب کی جو مخالفت کی ہے اس کی وجہ سیاسی ہے اقبال کے زمانے میں ہندوستان میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو مغربی معاشرے کی ہر بات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ قدامت پرستوں کا طبقہ تھا جسے اپنی تہذیب پر فخر تھا چاہے وہ اچھی ہو یا بری ، دوسرا طبقہ اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہوئے مغرب کی تقلید کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتا تھا۔ خصوصاً جو لوگ یورپ سے ہو کر آئے تھے ان کی آنکھیں وہاں کی چکاچوند سے چندھیا جاتی تھیں۔ ہاں ان میں اقبال جیسے لوگ بھی تھے جو مغرب جاکر وہاں سے مرعوب ہو کر نہیں آئے تھے،بلکہ اُس کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں واضح نقطہ نظر کے حامل ہو کر وطن واپس لوٹے تھے، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مغرب سے مرعوب حضرات جب وطن واپس آئے تو انہیں مغرب کا ہر گوشہ فردوس کی مانند نظر آتا ہے۔ اقبال کو صرف یہ دکھ نہیں تھا کہ ہندوستان انگریزوں کی غلامی قبول کر چکا ہے ،بلکہ اُسے اس بات کا رنج تھا کہ تمام عالم اسلام یورپی اقوام کی ہوس گیری کا شکار ہوگیا ہے۔ اس بات نے اقبال کے دل میں مغربی تہذیب کے خلاف نفرت کے جذبات بھر دئیے ورنہ اقبال نے اُس کے روشن پہلوئوں کی جابجا تعریف کی ہے۔
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی خامیاں:
مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ تین سو سال سے یورپ میں پیدا ہوئی اور جن کی بنیاد عقلیت ، مادیت اور سائنسی ترقی پر ہے اقبال نے یورپی تہذیب کی خامیوں کو کھل کر آشکارہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظر میں اس تہذیب کی بڑی بڑی خامیاں حسبِ ذیل ہیں۔
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بناءسرمایہ داری ہے
یہ پیر کلیسا کے کرامات ہیں آج
بجلی کے چراغوں سے منور کئے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پر مرادل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
مادیت:
اقبال کے نزدیک اس تہذیب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مادی ترقی اور کسبِ زر کو زندگی کی معراج سمجھتی ہے انسانی اخلاق اور روحانی اقدار کی ان کی نظر میں کوئی قیمت نہیں، چنانچہ انسانی زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکی۔
یورپ میں بہت ، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
اقبال فرماتے ہیں کہ میں مشرق و مغرب کے مےخانوں سے خوب واقف ہوں مشرق میں ساقی نہیں اور مغرب کی صبا بے مزہ ہے ۔ جب تک ساقی کی حوصلہ مندیاں اور ذوق صبا ایک جگہ جمع نہ ہو جائیں ۔ اس وقت تک مےخانہ حیات آباد و بارونق نہیں ہو سکتا ۔ مشرق اور مغرب کی موجودہ ذہنیت کا نقشہ وہ ان الفاظ میں کھینچتا ہے۔
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مےخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صبا
اقبال کے خیال میں تہذیب حاضر نے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے ،لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اُٹھ سکا ۔ اس لئے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے۔
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اس مادہ پرستی نے یورپ کو اخلاقی انحطاط سے دوچار کیا ہے۔ اسے خبر نہیں کہ حقیقی راحت مادی اسباب میں نہیں روحانی بلندی میں ہے۔
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش ِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام
سائنسی ترقی نے مغرب کی مادی حیثیت سے غیر معمولی طاقت بخش دی ہے اور اُسے ظاہری شان و شوکت سے مالا مال کیا، لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا یہ علوم و فنون انسان کو حقیقی راحت اور آسودگی پہنچانے کے بجائے اُس کی موت کا پروانہ بن گئے۔ انہی آثار کو دیکھ کر اقبال نے پیش گوئی کی کہ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اقبال کو مغربی تہذیب سے یہی شکایت ہے کہ وہ ظاہری اور خارجی فلاح و بہبود پر نظر رکھتی ہے اور روح کی پاکیزگی اور بلندی کا کوئی دھیان نہیں کرتی، حالانکہ یہی انسانی افکار و اعمال کا سرچشمہ ہے یورپ نے عناصر ِ فطرت کوتو تسخیر کر لیا، لیکن روحانی نشوو نما اور صفائی قلب کی طرف توجہ نہ دے سکا۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
مغرب میں اخلاقی اور روحانی اقدار سے روگردانی کا سبب یہ بنا کہ سائنس کے انکشافات قدم قدم پر ان کے جامد دینی عقائد سے ٹکراتے تھے ۔ علم کی روشنی نے ان جامد عقائد کو متزلزل کیا تو و ہ مذہب اور مذہب کی پیش کردہ روحانی اقدار سے ہی منکر ہوگئے مادی اسباب کی فراوانی نے تعیش اور خود غرضی کو فروغ دیا۔ عورت کو بے محابا آزادی مل گئی اور معاشرہ میں فساد برپا ہوگیا۔ روحانی اور اخلاقی اقدار کی غیرموجودگی میں مےخواری ، عریانی ، سود خوری ، اور اخلاقی پستی نے جنم لیا اور ان امراض نے یورپی تہذیب کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا۔ اقبال کو اسی لئے ایوان ِ فرنگ سست بنیاد نظر آیا تھا اور وہ اسے ایک سیل بے پناہ کی زد میں سمجھتے تھے۔
پیر مےخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوانِ فرنگ
سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے
خبر ملی ہے خدایان ِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیلِ بے پناہ میں ہے
خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال مادی ترقی کے سرے سے مخالف ہیں ،شیخ محمد اکرام ”موج کوثر“ میں لکھتے ہیں، ”اقبال پنڈت جواہر لال نہرو کے جواب میں کہتا ہے ”اسلا م کی روح مادے کے قریب سے نہیں ڈرتی ، قرآن کا ارشاد ہے کہ تمہارا دنیا میں جو حصہ ہے اس کو نہ بھولو۔“
عقلیت پرستی:
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کی بنیاد عقلیت پرستی پر ہے یہ عجیب بات ہے کہ جدید ترین تمدن انسانی افعال و افکار کو عقل کے علاہ کسی اور کسوٹی پر پرکھنے کے لئے تیار نہیں، اقبال کے نزدیک عقل حقیقت تک پہنچنے کا کوئی موزوں پیمانہ نہیں اس ناموزوں پیمانے سے حاصل شدہ نتائج ہمارے لئے حتمی درجہ نہیں رکھتے ،اگرچہ مغرب کے سارے فلسفی عقل پرستی کا شکار ہیں، لیکن اقبال اس کے مخالف ہیں۔
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
نئی تہذیب کی بد قسمتی ہے کہ اس نے عقل کو بے لگام چھوڑ دیا ہے کہ وہ قافلہ انسانی کو جس طرف چاہے لے جائے عقل یقینا زندگی کا بیش بہا جوہر ہے، لیکن اس جوہر کی باگیں عشق کے ہاتھ میں ہونی چاہیں عقل و عشق کی معاونت سے اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
سائنس کی ہلاکت آفرینی:
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کے فرزندوں نے مظاہر فطرت کو تسخیر کرکے اپنے فائدے کو پیش نظر رکھا، لیکن بحیثیت مجموعی انسانیت کے لئے ہلاکت آفرینی کے اسباب پیدا کئے ۔ مغربی ممالک بے پناہ قوت حاصل کرنے کے بعد کمزور ممالک کو اپنی ہوس کا شکار بنانے پر تل گئے مغرب والوں نے کارخانے بنائے جو سرمایہ داروں کے ہاتھ آگئے اور مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی سے محرو م ہوگئے۔نئی تہذیب کے پرور دہ تاجرانِ فرنگ کے اسی رویے کے خلاف اقبال یہ کہہ کر احتجاج کیا۔
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
مشرق کے خداوند سفیرانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلذات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے مرگ مفاجات
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اقبال سائنسی ترقی کے خلاف نہیں وہ خود تسخیر کائنات کے مبلغ ہیں انہیں شکایت ہے کہ مغرب نے فطرت کو تو اپنے بس میں کر لیا ہے، لیکن اس سے صحیح معنوں میں کام نہیں لیا۔ اور وہ کام ہے انسانیت کی خدمت۔
مغربی تہذیب کی خوبیاں:
بعض نقادوں کے نزدیک اقبال کا نقطہ نظر مغربی تہذیب کی نسبت یکسر مختلف ہے، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا یہ کہنا درست نہیں کہ ” کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔“ یہ رائے اقبال کے حق میں منصفانہ نہیں ہے ،اقبال نے تو مغربی تہذیب کی خامیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔مثلاً:
اہل مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے وہ بے حد معترف تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان بھی اس میدان میں ان کی تقلید کریں ان کے نزدیک سائنس پر اہل فرنگ کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ ایک لحاظ سے یہ مسلمانوں کی گم شدہ متا ع ہے۔ جسے حاصل کرنا ان کا فرض ہے تسخیر کائنات کے لئے کی جانے والی سائنسی ایجادات کو وہ بہت تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،چنانچہ اقبال سائنس کوفرنگی زاد نہیں مسلمان زاد بتاتے ہیں۔
حکمت اشیاءفرنگی زاد نیست
اصل اور جز لذتِ ایجاد نیست
نیک اگر بینی مسلماں زادہ است
ایں گلے از دست ما افتادہ است
اقبال نے مغرب کی عقل پرستی اور مادہ پرستی کی غلامی پر سخت تنقید کی ہے،کیونکہ زندگی کو صرف عقل اور مادہ تک محدود کر لیاجائے تو انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ وہ اس افادی نقطہ نظر کے مخالف ہیں جو ہر قیمت پر صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور دوسروں کے نقصان کی پرواہ نہیں کرتا، مگر اس بات کے وہ قائل ہیں کہ عملی زندگی کے لئے مادی ترقی کی بھی ضرورت ہے اور عقل بھی بڑا قیمتی جوہر ہے وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ عقل اور مادہ کی ترقی اور کار گزاریوں پر روحانی اور اخلاقی پابندیاں عائد ہوں ورنہ مادی ترقیوں اور عقل کے کارناموں کے وہ معترف ہیں اور ان کی تحسین کرتے ہیں۔
یورپی علم و ہنر نے اہل فرنگ کی تمدنی زندگی کو جو ظاہری صفائی اور سلیقہ مدنی عطا کی اسے بھی اقبال قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انہیں افرنگ کا ہر وہ قریہ فردوس کی مانند نظر آتا ہے۔ اور ان کا جی چاہتا ہے کہ ہمارے شہر بھی اسی طرح جنت منظر بن جائیں۔
اقبال اہل یورپ کی سود خوری ، میخواری ، عریانی ، بے حیائی اور مادر پدر آزادی کے تو سخت مخالف ہیں ،لیکن وہاں کی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ اہل یورپ کی محنت کی عادت ، ایفائے عہد، پابندی وقت ، کاروباری دیانت اور اسی قسم کی اخلاقی خوبیوں کے باعث انہیں یورپ کے کفار اپنے ہاں کے مسلمانوں کی نسبت اسلام کے زیادہ پابند نظر آتے ہیں یورپ نے زندگی کی جو نعمتیں حاصل کی ہیں ان کے نزدیک وہ انہی اسلامی اُصولوں پر کاربند رہنے کا نتیجہ ہیں اور یہی اسلامی خوبیاں ہیں جو یورپ میں پائی جاتی ہیں مگر ہم مسلمان ان سے محروم ہیں۔
اندھی تقلید کی مذمت :
اقبال نے مغربی تہذیب اور علوم کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھاوہ مغربی معاشرہ کی خامیو ں اور خوبیوں سے اچھی طرح آگاہ تھے، چنانچہ انہوں نے مغربی تہذیب کی خامیوں پر نکتہ چینی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مشرقی رہنمائوں کی بھی مذمت کی ہے جو مغرب کی اندھی تقلید کو شعار بنا کر ترقی یافتہ قوموں کے زمرہ میں شامل ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے، انہوں نے مغرب کی حقیقی خوبیوں کو چھوڑ کر صرف ظاہری باتوں کو اپنا لیا اور ضروری اور غیر ضروری میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی۔
اس قسم کی تجدید اور ترقی کی کوششیں مصر ، ترکی، ایران اور افغانستان میں ہوئیں، مصطفی کمال پاشا نے ترکی میں خلافت کو ختم کر دیا۔ فقہی امور میں قران کو بالائے طاق رکھ دیا ۔ علماءکو تہ تیغ کرا دیا۔ عربی رسم الخط ترک کر کے لاطینی رسم الخط اختیا ر کر لیا اور بذعم خود اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنا دیا۔ امیر امان اللہ خان نے افغانستان اور رضاشاہ نے ایران کو بھی اسی طرح جدید طرز کا ملک بنا نا چاہا۔ ان سب رہنمائوں نے ظاہری اُمور کو کافی سمجھا اور یہ کوشش نہ کی کہ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کی اچھائیوں کی اساس پر ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھے۔ اقبال نے اسی رویہ کی مذمت کی ہے۔
نہ مصطفےٰ نہ رضا شاہ میں ہے اس کی نمود
کہ روح شرق بد ن کی تلاش میں ہے ابھی
اقبال کو اس بات کو بہت رنج ہے کہ مشرقی ممالک اپنی نا سمجھی کے باعث تہذیب ِ مغرب کی اندھی تقلید کے پھندے میں پھنستے چلے جا رہے ہیں اس غفلت پر وہ اس طرح نوحہ کرتے ہیں۔
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
اقبال کو اپنے ہم وطنوں سے بھی یہی شکوہ ہے وہ مغرب کی تقلید کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں ،حالانکہ ترقی کے لئے لباس کی خاص وضع قطع اور اپنی زبان چھوڑ کر بدیسی زبان اختیار کر لینا اور عورتوں کو بے پردہ کر دینا اور شراب و چنگ کا سہارا لینا ضروری نہیں، بلکہ یہ تو وہ راستہ تھا جو ہمیں تہذیبی اور فکری اعتبار سے مفلس بنا رہا تھا اوراسی ذریعہ سے مغربی اقوام سےاسی غلامی کے ساتھ ساتھ ہم پر اپنی ذہنی غلامی بھی مسلط کر رہے تھے۔
قوت مغرب نہ از چنگ و رباب
نے زرقص دخترانِ بے حجاب
اقبال کی پسندیدہ تہذیب:
اقبال کو مغربی تہذیب میں اگر کچھ خامیاں نظر آتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ملتِ اسلامیہ اور اسکی مروجہ تہذیب سے خوش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں اپنی قوم میں بہت سی خامیاں نظرآتی ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ اس قوم کے آگے کوئی مقصد یا نصب العین نہیں، ان کے دل گرمی ، تڑپ اور حرارت سے محروم ہیں۔دین کا نام لینے والے تو بہت ہیں لیکن دین کے اصولوں پر چلنے والے بہت کم ہیں۔ اسے نہ راستے کا پتہ ہے اور نہ منزل کا چنانچہ حال یہ ہے کہ،
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج ، دیکھ چکا صدف صدف
اگرچہ اقبال مشرق و مغرب دونوں کی موجودہ حالت سے مایوس ہیں، لیکن اُسے ایک امید ہے کہ مسلمان قوم کے پاس دین اسلام کی شکل میں ایک ایسا لائحہ عمل ہے جس کی مدد سے وہ زندگی کی دوڑ میں مغربی اقوام سے آگے بھی بڑھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی کر سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ جدید مغربی علوم و فنون سے بھی واقف ہوں اور اپنے ورثے سے بھی بیگانہ نہ ہوں۔
مجموعی جائزہ:
مختصر یہ کہ یہی وہ تہذیب ِاسلامی ہے جس کے اقبال آرزو مند ہیں ۔ اس تہذیب کے عناصر میں اخوت ، مساوات، جمہوریت ، آزادی ، انصاف پسندی ، علم دوستی ، احترام انسانی، شائستگی ، روحانی بلندی اور اخلاقی پاکیزگی شامل ہیں اور ان کی بنیاد پر یقینا ایک صحت منداور متوازن معاشرہ کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ صالح عناصر ظاہر ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب میں موجود نہیں اس لئے اقبال اس کی مخالفت زیادہ اور تعریف کم کرتے ہیں۔
وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار سخن ساز ہے! نمناک نہیں ہے
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت خود فروشی ، ناشکیبائی ، ہوسناکی

Thursday 9 February 2012

یوم محبت

محمد جسیم الدین قاسمی ،ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسیٹی،دہلی
جیسے جیسے فروری کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے ، ہر جگہ یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) منانے کی تیاریاں زور وشور سے شروع ہوجاتی ہیں ، ہوٹلس ، بیئر بار اور نائٹ کلب کا تو کیا کہنا ! آج کل تو پورا کا پورا بازار اور منڈی کی منڈی اسی یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کے سرخ رنگ اور دل کی علامت والے تحفے تحائف سے مزین ہوجاتی ہے ، سونے پر سہاگہ یہ کہ موجودہ ذرائع ابلاغ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا رہی سہی کسر کو پورا کرتے ہوئے اس میں چار چاند لگادیتا ہے اور پھر 14 فروری کو بڑے دھوم دھام کے ساتھ محبت کے نام پر داد عیش دی جاتی ہے ، جام وسرور کا بازار گرم ہوتا ہے ، شراب وشباب کی محفلیں جم جاتی ہیں اور آزادی کے نام پر آزادی کی تمام حدیں پار کی جاتی ہیں ، آج کل یہ صرف ہوٹل کے بند کمروں ، نائٹ کلبوں ہی میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ تماشا گلی گلی کے نکڑ اور چوراہوں پر پیش کیا جارہاہے ۔
پہلے پہل محبت کا یہ بدنام دن صرف امریکہ اور یوروپ کی اخلاق واقدار سے عاری تنگ وتاریک محفلوں اور جھومتے گاتے نائٹ کلب کی بزم میں ہی روایتی انداز سے منایا جاتا تھا ،مگر آج تو ہر جگہ مغرب اور اس کی بدبخت تہذیب کی اندھی تقلید کا دور ہے ، اہل مشرق جہاں ان کی نقالی اور رسم ورواج کو اپنانے ہی میں اپنا طرہ امتیاز جان رہے ہیں اور اخلاق واقدار کے تارپود بکھیرنے والے رسم و رواج ، عید وتہوار اور خصوصی دنوں کو دین وشریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بلاچوں چرا ماننے ، منانے اور جشن کرنے کو اپنے مہذب اور مثقف ہونے کی علامت سمجھ رہے ہیں تو وہیں یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) بھی اسی میں شامل ہوگیا ہے۔
یوم محبت کی حقیقت اور تاریخ
ہر سال 14 فروری کو منایا جانے والا یہ دن در اصل موجودہ عیسائیوں کی ایک عید ہے جس میں وہ اپنے مشرکانہ عقائد کے اعتبار سے خدائی محبت کی محفلیں جماتے ہیں ، اس کا آغاز تقریباً 1700 سال قبل رومانیوں کے دور میں ہوا جب کہ اس وقت رومانیوں میں بت پرستی عام تھی اور رومانیوں نے پوپ والنٹائن (ویلینٹائن) کو بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنےکے جرم میں سزائے موت دی تھی، لیکن جب خود رومانیوں نے عیسائیت کو قبول کیا تو انہوں نے پوپ والنٹائن (ویلینٹائن) کی سزائے موت کے دن کو’یوم شہید محبت‘ کہہ کر اپنی عید بنالی ، اسی تاریخ کے ساتھ 14 فروری کو’ یوم محبت‘ (ویلنٹائن ڈے) کی کچھ اور مناسبتیں بھی بیان کی جاتی ہیں:
1۔      عیسائیوں کے نزدیک 14 فروری کا دن رومانی دیوی’ یونو‘ (جو کہ یونانی دیوی دیوتاؤوں کی ملکہ اور عورتوں و شادی بیاہ کی دیوی ہے) کا مقدس دن مانا جاتا ہے جب کہ 15 فروری کا دن ان کے ایک دیوتا’ لیسیوس‘ کا مقدس دن ہے ( ان کے عقیدے کے مطابق لیسیوس ایک بھیڑیا تھی جس نے دوننھے منھے بچوں کو دودھ پلایا تھا جو  آگے چل کر روم شہر کے بانی ہوئے) ۔
2۔     ایک مناسبت یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جب رومانی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں صعوبت ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا ، بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی لیکن والنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ شادی رچالی ، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے والنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی ، بنا بر ایں لیسیوس کے پجاریوں اور کنیسہ نے اس مقدس دن کو والنٹائن کی یاد میں عید کادن بنادیا۔
 یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) دین وشریعت کی نظر میں
ہر دین ومذہب کے کچھ ایسے رسم ورواج ، عید وتہوار اور تہذیب وثقافت ہوتی ہے جس سے وہ دین اور اس کے ماننے والے پہچانے جاتے ہیں۔
 یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کی حقیقت اور تاریخ سے جب یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہ عیسائیوں کا ایک مقدس اور عید کادن ہے تو اس بات پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ آج کا مسلمان بھی اس دن کو غیروں کی طرح دین وشریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بڑی خوشدلی کے ساتھ منارہا ہے ، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں دین وشریعت کیا کہتی ہے:
 مسلمانوں کی دوعید : عیدالفطر ، عیدالاضحیٰ
اللہ تعالی نے امت اسلامیہ کے لئے اپنے محبوب کی لائی ہوئی شریعت میں دودن عید کے طور پر خوشیاں منانے کے لئے عطا کئے ہیں ، عید کا لفظ ایسی مناسبات پر دلالت کرتا ہے جو ایک متعین دن اور متعین وقت میں آتی جاتی رہتی ہے ، یہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایک تحفہ اور خوشیوں کا دن ہوتا ہے جس میں بندے پر یہ ضروری ہے کہ وہ خود بھی خوش اور ہشاش بشاش ہو ، اپنی خوشی کا اظہار بھی کرے اور اپنے خدا کو بھی راضی اور خوش کرے ، اسی لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خدا کے بتائے ہوئے جملہ احکام و امور کا خیال رکھے اور اپنی خوشیوں میں کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کا خدا ناخوش ہو جائے ، اسی لئے عید میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ اس کی خوشیاں عبادت کے طور پر خدائی احکامات کے مطابق انجام دی جائیں ، اسی وجہ سے اپنی خوشیوں کے دن اور عیدوں میں کفار کی مشابہت اور موافقت سے منع کیا گیا ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں صاف صاف لکھا ہے کہ عید اللہ کی جانب سے نازل کردہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول’ ان لکل امۃ عیدا وان ھذا عیدنا ‘ کے مطابق یہ عیدیں امت کی خصوصیت ہیں۔
جب اللہ تعالی نے امت کو دو بہترین عید سے نوازا ہے تو پھر غیروں اور کفار کی عید کو منانا یا اس میں شرکت کرنا بالکل حرام ہے جیسا کہ علماے امت اور فقہاء کرام نے اس کی وضاحت کی ہے۔
 3.     اس دن جو تحفے تحائف دئے جاتے ہیں ، اس دن کو منائے بغیر ان کو فروخت کرنا کیسا ہے ؟
 کتاب وسنت کے صریح دلائل اور انکی روشنی میں علماء امت کے اجماع سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کے حق میں صرف دو عیدیں مقرر کی ہیں ، ایک عیدالفطر ، دوسری عید الاضحیٰ ، ان دونوں عید کے علاوہ دوسری جو بھی عید ہے ، چاہے وہ کسی شخصیت کے تعلق سے ہو ، کسی جماعت یا فرقہ کے تعلق سے ، یا کسی واقعہ کے تعلق سے یا پھر اور کسی معنی میں سب کی سب بدعت ہیں اور دین و شریعت میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے ، اس وجہ سے کسی مسلمان کو ان دونوں عیدین کے علاوہ کوئی اور عید ماننا ، خوشیاں منانا اور نہ ہی اس کا اقرار کرنا  جائز ہے ، بلکہ اس سلسلہ میں مدد ومعاونت بھی تعاون علی الاثم والعدوان سمجھی جائیگی جوکہ ازروئے قرآن حرام ہے اور جب کہ کوئی عید کفار اور یہود ونصاری کی عید ہو تو پھر یہ گناہ پر گناہ ہوگا ، اس میں ان کی مشابھت اور انی کی موالات ودوستی بھی صادق آئیگی جس سے ہر اہل ایمان کو منع کیا گیا ہے ۔
یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) بھی انہی میں سے ہے جس کو موجودہ دور کے عیسائی اپنی عید کے طور پر مناتے ہیں ، پس کسی مسلمان کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اس کا اقرار کرے ، اس کو منائے یا اسکی مبارک باد دے ، بلکہ اس سے اجتناب بہت ضروری ہے ، اسی طرح اس سلسلے میں کسی بھی طرح کا تعاون بھی حرام ہے جیسے کھانے پینے ، خرید وفروخت ، تحفے تحائف بنانا یا پیش کرنا ، کارڈ بھیجنا ، پیغام بھیجنا یا اس کا اعلان و پوسٹر بنانا وغیرہ ، یہ سبھی امور حرام ہیں ۔
لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے رکھے اور یہود ونصاریٰ کی ان گمراہیوں سے خود 
کو دور رکھے اور اللہ تعالی سے ھدایت اور اسلام کی سربلندی مانگتا رہے ۔


یوم محبت


جیسے جیسے فروری کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے ، ہر جگہ یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) منانے کی تیاریاں زور وشور سے شروع ہوجاتی ہیں ، ہوٹلس ، بیئر بار اور نائٹ کلب کا تو کیا کہنا ! آج کل تو پورا کا پورا بازار اور منڈی کی منڈی اسی یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کے سرخ رنگ اور دل کی علامت والے تحفے تحائف سے مزین ہوجاتی ہے ، سونے پر سہاگہ یہ کہ موجودہ ذرائع ابلاغ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا رہی سہی کسر کو پورا کرتے ہوئے اس میں چار چاند لگادیتا ہے اور پھر 14 فروری کو بڑے دھوم دھام کے ساتھ محبت کے نام پر داد عیش دی جاتی ہے ، جام وسرور کا بازار گرم ہوتا ہے ، شراب وشباب کی محفلیں جم جاتی ہیں اور آزادی کے نام پر آزادی کی تمام حدیں پار کی جاتی ہیں ، آج کل یہ صرف ہوٹل کے بند کمروں ، نائٹ کلبوں ہی میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ تماشا گلی گلی کے نکڑ اور چوراہوں پر پیش کیا جارہاہے ۔
پہلے پہل محبت کا یہ بدنام دن صرف امریکہ اور یوروپ کی اخلاق واقدار سے عاری تنگ وتاریک محفلوں اور جھومتے گاتے نائٹ کلب کی بزم میں ہی روایتی انداز سے منایا جاتا تھا ،مگر آج تو ہر جگہ مغرب اور اس کی بدبخت تہذیب کی اندھی تقلید کا دور ہے ، اہل مشرق جہاں ان کی نقالی اور رسم ورواج کو اپنانے ہی میں اپنا طرہ امتیاز جان رہے ہیں اور اخلاق واقدار کے تارپود بکھیرنے والے رسم و رواج ، عید وتہوار اور خصوصی دنوں کو دین وشریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بلاچوں چرا ماننے ، منانے اور جشن کرنے کو اپنے مہذب اور مثقف ہونے کی علامت سمجھ رہے ہیں تو وہیں یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) بھی اسی میں شامل ہوگیا ہے۔
یوم محبت کی حقیقت اور تاریخ
ہر سال 14 فروری کو منایا جانے والا یہ دن در اصل موجودہ عیسائیوں کی ایک عید ہے جس میں وہ اپنے مشرکانہ عقائد کے اعتبار سے خدائی محبت کی محفلیں جماتے ہیں ، اس کا آغاز تقریباً 1700 سال قبل رومانیوں کے دور میں ہوا جب کہ اس وقت رومانیوں میں بت پرستی عام تھی اور رومانیوں نے پوپ والنٹائن (ویلینٹائن) کو بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنےکے جرم میں سزائے موت دی تھی، لیکن جب خود رومانیوں نے عیسائیت کو قبول کیا تو انہوں نے پوپ والنٹائن (ویلینٹائن) کی سزائے موت کے دن کو’یوم شہید محبت‘ کہہ کر اپنی عید بنالی ، اسی تاریخ کے ساتھ 14 فروری کو’ یوم محبت‘ (ویلنٹائن ڈے) کی کچھ اور مناسبتیں بھی بیان کی جاتی ہیں:
1۔      عیسائیوں کے نزدیک 14 فروری کا دن رومانی دیوی’ یونو‘ (جو کہ یونانی دیوی دیوتاؤوں کی ملکہ اور عورتوں و شادی بیاہ کی دیوی ہے) کا مقدس دن مانا جاتا ہے جب کہ 15 فروری کا دن ان کے ایک دیوتا’ لیسیوس‘ کا مقدس دن ہے ( ان کے عقیدے کے مطابق لیسیوس ایک بھیڑیا تھی جس نے دوننھے منھے بچوں کو دودھ پلایا تھا جو  آگے چل کر روم شہر کے بانی ہوئے) ۔
2۔     ایک مناسبت یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جب رومانی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں صعوبت ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا ، بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی لیکن والنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ شادی رچالی ، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے والنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی ، بنا بر ایں لیسیوس کے پجاریوں اور کنیسہ نے اس مقدس دن کو والنٹائن کی یاد میں عید کادن بنادیا۔
 یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) دین وشریعت کی نظر میں
ہر دین ومذہب کے کچھ ایسے رسم ورواج ، عید وتہوار اور تہذیب وثقافت ہوتی ہے جس سے وہ دین اور اس کے ماننے والے پہچانے جاتے ہیں۔
 یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کی حقیقت اور تاریخ سے جب یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہ عیسائیوں کا ایک مقدس اور عید کادن ہے تو اس بات پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ آج کا مسلمان بھی اس دن کو غیروں کی طرح دین وشریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بڑی خوشدلی کے ساتھ منارہا ہے ، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں دین وشریعت کیا کہتی ہے:
 مسلمانوں کی دوعید : عیدالفطر ، عیدالاضحیٰ
اللہ تعالی نے امت اسلامیہ کے لئے اپنے محبوب کی لائی ہوئی شریعت میں دودن عید کے طور پر خوشیاں منانے کے لئے عطا کئے ہیں ، عید کا لفظ ایسی مناسبات پر دلالت کرتا ہے جو ایک متعین دن اور متعین وقت میں آتی جاتی رہتی ہے ، یہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایک تحفہ اور خوشیوں کا دن ہوتا ہے جس میں بندے پر یہ ضروری ہے کہ وہ خود بھی خوش اور ہشاش بشاش ہو ، اپنی خوشی کا اظہار بھی کرے اور اپنے خدا کو بھی راضی اور خوش کرے ، اسی لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خدا کے بتائے ہوئے جملہ احکام و امور کا خیال رکھے اور اپنی خوشیوں میں کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کا خدا ناخوش ہو جائے ، اسی لئے عید میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ اس کی خوشیاں عبادت کے طور پر خدائی احکامات کے مطابق انجام دی جائیں ، اسی وجہ سے اپنی خوشیوں کے دن اور عیدوں میں کفار کی مشابہت اور موافقت سے منع کیا گیا ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں صاف صاف لکھا ہے کہ عید اللہ کی جانب سے نازل کردہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول’ ان لکل امۃ عیدا وان ھذا عیدنا ‘ کے مطابق یہ عیدیں امت کی خصوصیت ہیں۔
جب اللہ تعالی نے امت کو دو بہترین عید سے نوازا ہے تو پھر غیروں اور کفار کی عید کو منانا یا اس میں شرکت کرنا بالکل حرام ہے جیسا کہ علماے امت اور فقہاء کرام نے اس کی وضاحت کی ہے۔
 3.     اس دن جو تحفے تحائف دئے جاتے ہیں ، اس دن کو منائے بغیر ان کو فروخت کرنا کیسا ہے ؟
 کتاب وسنت کے صریح دلائل اور انکی روشنی میں علماء امت کے اجماع سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کے حق میں صرف دو عیدیں مقرر کی ہیں ، ایک عیدالفطر ، دوسری عید الاضحیٰ ، ان دونوں عید کے علاوہ دوسری جو بھی عید ہے ، چاہے وہ کسی شخصیت کے تعلق سے ہو ، کسی جماعت یا فرقہ کے تعلق سے ، یا کسی واقعہ کے تعلق سے یا پھر اور کسی معنی میں سب کی سب بدعت ہیں اور دین و شریعت میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے ، اس وجہ سے کسی مسلمان کو ان دونوں عیدین کے علاوہ کوئی اور عید ماننا ، خوشیاں منانا اور نہ ہی اس کا اقرار کرنا  جائز ہے ، بلکہ اس سلسلہ میں مدد ومعاونت بھی تعاون علی الاثم والعدوان سمجھی جائیگی جوکہ ازروئے قرآن حرام ہے اور جب کہ کوئی عید کفار اور یہود ونصاری کی عید ہو تو پھر یہ گناہ پر گناہ ہوگا ، اس میں ان کی مشابھت اور انی کی موالات ودوستی بھی صادق آئیگی جس سے ہر اہل ایمان کو منع کیا گیا ہے ۔
یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) بھی انہی میں سے ہے جس کو موجودہ دور کے عیسائی اپنی عید کے طور پر مناتے ہیں ، پس کسی مسلمان کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اس کا اقرار کرے ، اس کو منائے یا اسکی مبارک باد دے ، بلکہ اس سے اجتناب بہت ضروری ہے ، اسی طرح اس سلسلے میں کسی بھی طرح کا تعاون بھی حرام ہے جیسے کھانے پینے ، خرید وفروخت ، تحفے تحائف بنانا یا پیش کرنا ، کارڈ بھیجنا ، پیغام بھیجنا یا اس کا اعلان و پوسٹر بنانا وغیرہ ، یہ سبھی امور حرام ہیں ۔
لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے رکھے اور یہود ونصاریٰ کی ان گمراہیوں سے خود کو دور رکھے اور اللہ تعالی سے ھدایت اور اسلام کی سربلندی مانگتا رہے ۔