Monday 31 October 2011

سعودی عرب کی ہمہ جہت ترقی میںآل سعودکی ناقابل فراموش خدمات

سعودی عرب ان اسلامی ممالک کے لیے مثالی مملکت ہے،جو اسلام کی حقانیت کو جاننا چاہتے ہیں، سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے، جس کا دستور قرآن وسنت ہے اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور مسلمانان عالم کے لیے ملی تشخص کا جذبہ ہے۔ خادم حرمین شریفین نے امت مسلمہ کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا سنہرا  باب ہے۔ اسلام اور امت مسلمہ کے لیے سعودی حکومت کی مخلصانہ و ہمدردانہ خدمات کو امت مسلمہ خصوصاً ہندستانی قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ہندستانی عوام سعودی عرب اور خادم حرمین شریفین سے بے پناہ محبت رکھتےہیں اور سعودی عرب کی ترقی وخوشحالی کو اپنی ترقی وخوشحالی سمجھتےہیں۔
اسلامی ورثے اور دور جدید کی مثالی مملکت سعودی عرب کا قومی دن ۲۳ستمبر ایسا درخشندہ باب ہے جسے عربوں اور مسلم امہ کی تاریخ میں سنہر ے حروف سے رقم کیا جاتا ہے۔ عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کی۱۹۳۲ء میں شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے بنیاد رکھی، ان کی جانب سے۸۷ ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے اس خطے میں جو کہ براعظم ایشیاء یورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہے ایک جدید مثالی مملکت قائم کی گئی، جس کی تعمیر قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کر کے ملک کو استحکام ،خوشحالی،تحفظ، امن و امان کا گہوارہ بنا کر پائیدار مسلم معاشرہ کے طور پر اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کرایا گیا۔
آج یہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کا قلعہ ہے جس کی مقدس سر زمین پر قبلہ اور حرمین شریفین موجود ہیں، سعودی حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت ملک میں قانون الہی کی عملداری اور امن و سکون کا دور دورہ ہے اور اس کے باشندے اپنی مقبول قیادت سے محبت اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے عوام کو اسلامی طرز حیات، جدید علوم وفنون کی  خدمات اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کئے ہیں۔ 
خادم حرمین شریفین عبداﷲ بن عبدالعزیز تعلیم ،عمرانیات، پیداوار ،جدید ٹکنالوجی، صحت عامہ کے شعبوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، ملک بھر میں یونیورسٹیاں ،اسکول ،ثقافتی وتحقیقی ادارے موجود ہیں، جن میں سائنسی ترقی کے حوالے سے ہونے والا کام سعودی عرب کے تابناک مستقبل کا پیغام دیتا ہے۔ خادم حرمین شریفین نے حجاج و زائرین کرام کی سہولت اور پر سکون ماحول میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لئے جو انتظامات کئے وہ زبان زد خاص و عام ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرحوم شاہ عبدالعزیز کا بنیادی فلسفہ اسلام کی خدمت اور حرمین شریفین کی دیکھ بھال تھا۔
ایک اندازے کے مطابق خادم حرمین شریفین کے دور حکو مت میں مکمل ہونے والا حرم شریف کا توسیعی منصوبہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مسجد حرام اور ملحقہ حصوں کی تعمیر پر اربوں  ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی اور یہ تاریخ کا سب سے بڑا توسیعی منصوبہ تھا جس کے مکمل ہونے پر حرم شریف میں ڈیڑھ ملین سے زائد نمازیوں کی گنجائش پیدا ہو گئی۔ جبکہ حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریف میں ایک ملین نمازیوں کی گنجائش موجود ہے اور یہ بھی ایک ریکارڈ تعداد ہے۔
خادم حرمین شریفین شاہ عبدالعزیز نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اپنے بزرگوں کی روایات کو جاری رکھنے کا عزم کرتے ہوئے سب سے پہلے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا دورہ کر کے حرمین شریفین کی مزید توسیع اور جاری منصوبوں کوفوری مکمل کرنے اور کروڑ وں ریال کے فنڈ ز کا اعلان کیا اور یہ عہد کیا کہ مرحوم شاہ فہد بن عبدالعزیز کے تمام تعمیراتی منصوبے نہ صرف مکمل کئے جائیں گے ،بلکہ زیر غور دیگر منصوبوں کی تعمیر جلد شروع کی جائے گی۔
سعود یہ میں اسلامی تعلیمات کے احیاء اور قرآن مجید کے ابدی پیغام کو عام کرنے کے لئے خادم حرمین شریفین نے شاہ فہد کمپلیکس مدینہ منورہ میں ایک بڑا اشاعتی ادارہ قائم کر رکھا ہے جس کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ سترہ سالوں میں اب تک ایک سوچودہ ملین قرآن مجید کے نسخے شائع کر کے دنیا بھر میں مفت تقسیم کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کے مختلف اجزاء تراجم آڈیو،ویڈیو کی شکل میں قرآن کریم وسیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لاکھوں کتب چھپوائی گئی ہیں اور دنیا کی تمام قابل ذکر زبانوں میں جن کی تعداد تیس سے زیادہ ہے، قرآن مجید کے تراجم کر دیے گئے ہیں ۔
یہ منصوبہ مرحوم شاہ فہد کا سب سے بڑا کا رنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں ترقی و خوشحالی کے علاوہ سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفادات کو مقدم جانا اور انہیں اپنے اہداف میں شامل رکھا جو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ مالی امداد کی شکل میں فراہم کر رہے ہیں وہ مسلمان افغانستان میں ہوں فلسطین میںہوں، بوسنیا میں یا دنیا کے کسی بھی گوشے میں ۔
بوسنیا کے لئے خادم حرمین نے ریاض کے گورنر کی سر براہی میں ایک خصوصی مہم کی بنیاد رکھی جس کے تحت  
گزشتہ برسوں میں مغربی میڈیا کی طرف سے چند ملعون اور شر پسند عناصر نے جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں توہین کی تو سب سے پہلے سعودی عرب کا ردعمل سامنے آیا اورخادم حرمین شریفین نے دو ٹوک واضح موقف اختیار کرتے ہوئے ڈنمارک سے نہ صرف سعودی سفیر کو واپس بلا لیا، بلکہ ڈنمارک کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کردیا ،اسی طرح مسجد بنوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسجد الحرام میں بھی اس شر انگیزی کی مذمت کی گئی اورائمہ حضرات نے پوری دنیا پر واضح کیا کہ مسلمان قوم حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتی اور ایسے لوگوں کا محاسبہ کریں گے اور ایسے ملعون افراد کو سر پرستی دینے والی حکومتوں کا بھی مواخذہ ہوگا۔ 
سعودی عرب کی وزرات حج نے دنیا بھر سے آنے والے زائرین کے لئے انتظامات کو بہتر بنانے اور مسلمانوں کو زیادہ سہولتیں دینے کے لئے گزشتہ سال نئی عمرہ پالیسی متعارف کرائی ہے جس کا مقصد زائرین کو ہرگز پریشان کرنا نہیں ،تاہم ایک نئے نظام کو نافذ کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا ضرور ہے، لیکن سعودی حکومت کی عمرہ پالیسی زائرین اور سعودی حکومت دونوں کے یکساں مفاد میں ہے۔ اس طرح سعودی وزارت حج نے حج کی پرائیویٹ سکیم بھی متعارف کرائی جو دنیا بھر میں مقبول ہے جس کے نتیجے میں زائرین کی مشکلات میں واضح کمی ہوئی ہے۔
اسی طرح خدمت خلق کے لئے بھی آل سعود نے نیم سرکاری وغیر سرکاری تنظیم قائم کی جن میں رابطہ عالم اسلامی مسلمانوں کی بین الاقوامی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنا، اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنا اور گمراہ کن عقائد و نظریات کی نفی کرنا ہے۔
آل سعود نے ہمیشہ اپنی و جاہت علم و اسلام دوستی اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد، ملک میں نفاذ قرآن و سنت اور ایک مستحکم اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔ سعود بن محمد سے لے کر شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز تک اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے کا احترام جان ومال کا تخفظ  و آبرو امن و امان کی شاندار مثال سعودی عرب میں دیکھی جاتی هے۔
محمد جسیم الدین قاسمی
ریسرچ اسكالر 
شعبهٔ عربی،دهلی یونیورسٹی
jasimqasmi@gmail.com


Sunday 30 October 2011

حج بیت اللہ کے مسائل و احکام


حج کی فرضیت:
حج اِسلام کا ایک بنیادی رکن ہے، اور ہر اس مرد و عورت پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہے، فرمانِ الٰہی ہےوَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إلَیْہِ سَبِیْلًایعنی ”حج بیت اللہ کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اس کی طرف جانے کی طاقت رکھتے ہوں“ اور جب حج کرنے کی قدرت موجود ہو تو اسے فوراً کرلینا چاہئے کیونکہ رسولِ اکرم کا فرمان ہے:
”جس کا حج کرنے کا ارادہ ہو وہ جلدی حج کرلے، کیونکہ ہوسکتا ہو وہ بیمار پڑ جائے یا اس کی کوئی چیزگم ہوجائے یا کوئی ضرورت پیش آجائے“ (احمد و ابن ماجہ(
اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کچھ لوگوں کو بھیج کر معلوم کروں کہ کس کے پاس مال موجود ہے اور وہ حج پر نہیں گیا تو اس پر جزیہ لگا دیا جائے۔
حج کی فضیلت:
حج کی فضیلت میں وارد چند احادیث ِرسول کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :
۔”حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے“ (متفق علیہ) اور حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ کی گئی ہو اور اس کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد حاجی نیکی کے کام زیادہ کرنے لگ جائے اور دوبارہ گناہوں کی طرف نہ لوٹے۔
۔رسولِ نے حضرت عمرو بن العاص سے فرمایا: ”حج پچھلے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے“ (مسلم
۔”حج اور عمرہ ہمیشہ کرتے رہا کرو کیونکہ یہ دونوں غربت اور گناہوں کو اس طرح ختم کردیتے ہیں جس طرح دھونی لوہے کے زنگ کو ختم کردیتی ہے۔“ (طبرانی ، دارقطنی)
۔ ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا یہ سب اللہ کے مہمان ہوتے ہیں، اللہ نے انہیں بلایا تو یہ چلے آئے اور اب یہ جو کچھ اللہ سے مانگیں گے، وہ انہیں عطا کرے گا“ (ابن ماجہ، ابن حبان)
:سفر حج سے پہلے چند آداب:
۔عازمِ حج کو چاہئیکہ وہ حج و عمرہ کے ذریعے صرف اللہ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی نیت کرے۔
۔وہ حج کے اِخراجات رزقِ حلال سے کرے کیونکہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
” اللہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف پاک چیز کو قبول کرتا ہے“۔
۔تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لے اور اگر اس پر لوگوں کا کوئی حق (قرضہ وغیرہ) ہے تو اسے ادا کر دے، اور اپنے گھر والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی تلقین کرے، اور اگر کچھ حقوق وہ اَدا نہیں کر پایا تو انہیں ان کے متعلق آگاہ کردے۔
۔قرآن و سنت کی روشنی میں حج و عمرہ کے اَحکامات کو سیکھ لے، اور سنی سنائی باتوں پر اعتماد نہ کرے۔
۔عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے محرم یا خاوند کے ساتھ ہی سفر حج کرے اور اکیلی روانہ نہ ہو۔
:دورانِ سفر اور دورانِ ادائیگی ٴحج چند ضروری آداب:
۔اِحرام کی نیت کرنے کے بعد زبان کی خصوصی طور پر حفاظت کریں اور فضول گفتگو سے پرہیز کریں، اپنے ساتھیوں کو ایذا نہ دیں اور ان سے برادرانہ سلوک رکھیں، اور اپنے تمام فارغ اوقات اللہ کی اِطاعت میں گزاریں، کیونکہ رسولِ اکرم  کا فرمان ہے کہ ”جس نے حج کیااور اس دوران بے ہودگی اور اللہ کی نافرمانی سے بچا رہا، وہ اس طرح واپس لوٹا جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا“
۔حجاج کے رَش میں خصوصاً حالت ِطواف و سعی میں اور کنکریاں مارتے ہوئے کوشش کریں کہ کسی کو آپ سے کوئی تکلیف نہ پہنچے، اور اگر آپ کو کسی سے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے درگزر کر دیں اور جھگڑا نہ کریں۔
۔باجماعت نماز پڑھنے کی پابندی کریں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی سستی نہ برتیں۔
۔خواتین غیر مردوں کے سامنے بے پردہ نہ ہوں۔
:حج تمتع کے مختصر اَحکام:
عمرہ  :اِحرام، تلبیہ، طواف، سعی، بالوں کو منڈوانا /کٹوانا
حج  :  ۸/ ذوالحج: احرامِ حج، تلبیہ، منیٰ میں ۹/ ذوالحج کی صبح تک قیام
۹/ ذوالحج : وقوفِ عرفات، دس کی رات مزدلفہ میں قیام
۱۰/ ذوالحج: بڑے جمرہ کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا، طوافِ افاضہ و سعی
۱۱/ ذوالحج :کی رات منیٰ میں قیام
۱۱ و ۱۲ / ذوالحج (جس نے جلدی کی) اور ۱۳ / ذوالحج (جس نے تاخیر کی) تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا، منیٰ میں قیام، مکہ مکرمہ سے روانگی سے پہلے طوافِ وداع
:حج کے تفصیلی احکام:
۸/ ذوالحج… یوم الترویہ
مکہ مکرمہ میں جہاں آپ رہائش پذیر ہیں، وہیں سے حج کا احرام باندھ لیں۔ احرامِ حج کا طریقہ بھی وہی ہے جو احرامِ عمرہ کا ہے۔ سو صفائی اور غسل کرکے اور بدن پر خوشبو لگا کر اِحرام کا لباس پہن لیں، پھرلَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ حَجًّا کہتے ہوئے حج کی نیت کر لیں اور تلبیہ شروع کردیں اور ۱۰/ ذوالحج کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑتے رہیں۔ احرام باندھ کر ظہر سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہوجائیں جہاں ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور ۹/ ذوالحج کی فجر کی نمازیں پڑھنا اور رات کو وہیں ٹھہرنا ہوگا۔
۹/ ذوالحج …یومِ عرفہ
۔طلوعِ شمس کے بعد تکبیر اور تلبیہ کہتے ہوئے عرفات کی طرف روانہ ہوجائیں اور اس بات کا یقین کرلیں کہ آپ حدودِ عرفہ کے اندر ہیں۔ زوالِ شمس کے بعد اگر ہوسکے تو امام کاخطبہ حج سنیں اور اس کے ساتھ ظہر و عصر کی نمازیں جمع و قصر کرکے پڑھیں، اگر ایسا نہ ہوسکے تو اپنے خیمے میں ہی دونوں نمازیں جمع و قصر کرتے ہوئے باجماعت ادا کرلیں۔
۔ پھر غروبِ شمس تک ذکر، دعا، تلبیہ اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی و انکساری ظاہر کریں، اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور ہاتھ اُٹھا کر دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی کی دعا کریں، اس دن اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور فرشتوں کے سامنے اہل عرفات پر فخر کرتا ہے۔
۔و قوفِ عرفہ کا وقت زوالِ شمس سے لے کر دسویں کی رات کو طلوعِ فجر تک رہتا ہے، اس دوران حاجی ایک گھڑی کے لئے بھی عرفات میں چلا جائے تو حج کا یہ رکن پورا ہوجاتا ہے۔
۔ غروبِ شمس کے بعد عرفات سے انتہائی سکون کے ساتھ مزدلفہ کو روانہ ہوجائیں، جہاں سے سب سے پہلے مغرب و عشاء کی نمازیں جمع و قصر کرکے باجماعت پڑھیں، پھر اپنی ضرورتیں پوری کرکے سو جائیں۔
۔عورتوں اور ان کے ساتھ جانے والے مردوں اور بچوں کے لئے اور اسی طرح کمزوروں کے لئے جائز ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کو چلے جائیں۔
۱۰/ذوالحج …یوم عید
۔فجر کی نماز مزدلفہ میں اَدا کریں، پھر صبح کی روشنی پھیلنے تک قبلہ رُخ ہو کر ذکر، دعا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں۔
۔ بڑے ’جمرہ‘ کو کنکریاں مارنے کے لئے مزدلفہ سے ہی موٹے چنے کے برابر کنکریاں اٹھا لیں… اَیامِ تشریق میں کنکریاں مارنے کے لئے مزدلفہ سے کنکریاں اُٹھانا ضروری نہیں۔
۔پھر طلوعِ شمس سے پہلے منیٰ کو روانہ ہوجائیں، رستے میں وادی ٴ محسر کو عبور کرتے ہوئے تیز تیز چلیں۔
۔منیٰ میں پہنچ کر سب سے پہلے بڑے جمرة کو جو کہ مکہ کی طرف ہے، سات کنکریاں ایک ایک کرکے ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ ’اللہ اکبر‘ کہیں ، کنکریاں مارنے کے بعد تلبیہ پڑھنا بند کردیں۔ کمزور یابیمار مرد، بچے اور اسی طرح خواتین کنکریاں مارنے کے لئے کسی دوسرے کو نائب بناسکتے ہیں۔
۔ پھر قربانی کا جانور ذبح کریں جو کہ بے عیب ہو اور مطلوبہ عمر کے مطابق ہو۔ قربانی کا گوشت اپنے لئے بھی لے آئیں اور فقراء میں بھی تقسیم کریں۔ اگر آپ بامر مجبوری قربانی نہیں کرسکتے تو آپ کو دس روزے رکھنا ہوں گے، تین ایامِ حج میں اور سات وطن لوٹ کر۔
۔ پھر سر کے بال منڈوا دیں یا پورے سر کے بال چھوٹے کروا دیں۔ خواتین اپنی ہر مینڈھی سے ایک پور کے برابر بال کٹوائیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ حلال ہوجائیں گے، جو کام بسبب ِاحرام ممنوع تھے وہ سب حلال ہوجائیں گے سوائے بیوی کے قرب کے جو طوافِ افاضہ کے بعد جائز ہوگا۔ اب آپ صفائی اور غسل وغیرہ کرکے اپنا عام لباس پہن لیں اور طوافِ افاضہ کیلئے خانہٴ کعبہ چلے جائیں۔
۔ طوافِ افاضہ حج کا رکن ہے، اگر کسی وجہ سے آپ دس ذوالحجہ کو طوافِ افاضہ نہیں کرسکے تو اسے بعد میں بھی کرسکتے ہیں۔ اور اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو وہ طہارت کے بعد طواف کریں گی۔ اگر وہ ایامِ تشریق کی کنکریاں مارنے کے بعد پاک ہوتی ہیں تو طوافِ افاضہ کرتے ہوئے طوافِ وداع کی نیت بھی کرلیں تو ایسا کرنا درست ہوگا اور اگر وہ قافلے کی روانگی تک پاک نہیں ہوتیں اور قافلہ والے بھی ان کا انتظار نہیں کرسکتے تو وہ غسل کرکے لنگوٹ کس لیں اور طواف کرلیں۔
۔طواف کے بعد مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعات ادا کریں، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کریں اور منیٰ کو واپس چلے جائیں جہاں گیارہ کی رات گزارانا واجب ہے۔
۔ دس ذوالحج کے چار کام (کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، حلق یا تقصیر، طواف و سعی) جس ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں، انہیں اسی ترتیب کے ساتھ کرنا مسنون ہے، تاہم ان میں تقدیم و تاخیر بھی جائز ہے۔
:ایامِ تشریق:
۔ ۱۱ اور ۱۲ ذوالحج کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے، اور اگرچاہیں تو ۱۳ تک بھی منیٰ میں رہ سکتے ہیں۔ ان ایام میں تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا ہوتا ہے، 
ا س کا وقت زوالِ شمس سے لے کر آدھی رات تک ہوتا ہے۔
۔ سب سے پہلے چھوٹے جمرہ کو سات کنکریاں ایک ایک کرکے ماریں، ہر کنکری کے ساتھ ” اللہ اکبر“ کہیں، پھر اسی طرح درمیانے جمرہ کو کنکریاں ماریں، اگر آپ کو کسی دوسرے کی طرف سے بھی کنکریاں مارنی ہوں تو پہلے اپنی کنکریاں مار کر پھر اس کی کنکریاں ماریں، چھوٹے اور درمیانے جمرہ کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلہ رُخ ہو کر دعا کرنا مسنون ہے۔
۔ پھر بڑے جمرہ کوبھی اسی طرح کنکریاں ماریں، اس کے بعد دعا کرنا مسنون نہیں۔
۔کنکریاں مارتے ہوئے اگر قبلہ بائیں طرف اور منیٰ دائیں طرف ہو تو زیادہ بہتر ہے، لازم نہیں۔
۔تینوں جمرات کوکنکریاں کے لئے کنکریاں منیٰ سے کسی بھی جگہ سے اٹھا سکتے ہیں۔
۔جمرات کا نشانہ لے کر کنکریاں ماریں، صرف گول دائرے میں کنکریاں پھینک دینا کافی نہیں ہے۔
۔جمرات کو شیطان تصور کرکے انہیں گالیاں دینا یا جوتے رسید کرنا جہالت ہے۔
۔ایامِ تشریق کے فارغ اوقات اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزاریں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں، اور باجماعت نمازوں کی پابندی کریں۔
۔ اگر آپ ۱۲ ذوالحج کو ہی منیٰ سے روانہ ہونا چاہتے ہیں تو غروبِ شمس سے پہلے پہلے کنکریاں مار کر منیٰ کی حدود سے نکل جائیں ورنہ ۱۳ کی رات بھی وہیں گزارنا ہوگی اور پھر تیرہ کو کنکریاں مار کر ہی آپ منیٰ سے نکل سکیں گے۔
طوافِ وداع:مکہ مکرمہ سے روانگی سے پہلے طوافِ وداع کرنا واجب ہے، اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو ان پر طوافِ وداع واجب نہیں۔ ۱۲ یا ۱۳ ذوالحج کو کنکریاں مارنے سے پہلے طوافِ وداع کرنا درست نہیں ہے۔
:حج میں ہونے والی عام غلطیاں:
حج ایک عبادت ہے اور ہر عبادت کی قبولیت دو شرطوں کے ساتھ ہوتی ہے: اخلاصِ نیت اور رسول اللہ  کے طریقے سے موافقت۔ اس تمنا کے پیش نظر کہ حجاج کرام کو حج مبرور نصیب ہو اور وہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنے وطنوں کو واپس لوٹیں، ذیل میں حجاج کی عام غلطیاں درج کی جارہی ہیں تاکہ حتیٰ الوسع ان سے پرہیز کیا جائے۔
بغیر اِحرام باندھے میقات کو عبور کرجانا، اِحرام باندھتے ہی دایاں کندھا ننگا کر لینا، خاص ڈھب سے بنے ہوئے جوتے کی پابندی کرنا (حالانکہ ٹخنوں کوننگا رکھتے ہوئے ہر قسم کا جوتا پہنا جاسکتا ہے)، احرام باندھ کر بجائے کثرتِ ذکر و استغفار اور تلبیہ کے لہو لعب میں مشغول رہنا، باجماعت نماز ادا کرنے میں سستی کرنا، خواتین کا بغیر محرم یا خاوند کے سفر کرنا، غیر مردوں کے سامنے عورتوں کا پردہ نہ کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے مزاحمت کرنا، اورمسلمانوں کو ایذا دینا، دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے حجر اسود کی طرف اشارہ کرنا، حطیم کے درمیان سے گذرتے ہوئے طواف کرنا، رکن یمانی کوبوسہ دینا یا استلام نہ کرسکنے کی صورت میں اس کی طرف اشارہ کرنا، ہر چکر کے لئے کوئی دعا خاص کرنا، کعبہ کی دیواروں پر بنیت ِتبرک ہاتھ پھیرنا، طوافِ قدوم کے بعد بھی دایاں کندھا ننگا رکھنا، دورانِ طواف دعائیں پڑھتے ہوئے آواز بلند کرنا، صفا اور مروہ پر قبلہ رخ ہو کردونوں ہاتھوں سے اشارہ کرنا، اقامت ِنماز ہوجانے کے بعد بھی سعی جاری رکھنا، سعی کے سات چکروں کی بجائے چودہ چکر لگانا، سر کے کچھ حصہ سے بال کٹوا کر حلال ہوجانا، حدودِ عرفہ سے باہر وقوف کرنا، یہ عقیدہ رکھنا کہ جبل رحمہ پر چڑھے بغیر وقوفِ عرفہ مکمل نہں ہوگا، غروبِ شمس سے پہلے عرفات سے روانہ ہوجانا، مزدلفہ میں پہنچ کر سب سے پہلے مغرب و عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کی بجائے کنکریاں چننے میں لگ جانا، مزدلفہ کی رات نوافل پڑھنا، کنکریاں دھونا، سات کنکریاں بجائے ایک ایک کرکے مارنے کے ایک ہی بار دے مارنا، کنکریاں مارنے کے مشروع وقت کا لحاظ نہ کرنا، پہلے چھوٹے، پھر درمیانے اور پھر بڑے جمرہ کو کنکریاں مارنے کی بجائے ترتیب اُلٹ کر دینا، چھوٹے اور درمیانے جمروں کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا نہ کرنا، قربانی کے لئے جانور کی عمر کا لحاظ نہ کرنا، عیب دار جانور قربان کرنا، ایامِ تشریق کی راتیں منیٰ میں نہ گزارنا، ۱۲ یا ۱۳ ذوالحج کو کنکریاں مارنے سے پہلے طوافِ وداع کر لینا۔ طوافِ وداع کے بعد مسجد حرام سے اُلٹے پاؤں باہر آنا۔ نبی کریم  کی قبر کی زیارت کی نیت کرکے مدینہ طیبہ کا سفر کرنا، حجاج کے ذریعے رسول اللہ  کو سلام بھیجنا، ہر نماز کے بعد روضہٴ رسول اللہ کی طرف چلے جانا یا اس کی طرف رُخ کرکے انتہائی ادب سے کھڑے ہوجانا، دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانا، مدینہ طیبہ میں چالیس نمازوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنا۔

Saturday 29 October 2011

یوم القدس اسلامی اتحادو یکجہتی کا دن


ہر سال پوری دنیا میں بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع کو یوم القدس منایا جاتاہے،اس دن کا مقصد قدس شریف کی صیہونی حکومت کے ہاتھوں میں اسیری کی طرف پوری دنیا کو متوجہ کرناہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے اس عزم کو ظاہر کرنا ہے کہ وہ مسجد الاقصی کی آزادی کے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک تاریخی خطاب میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف عالم کو قیام کرنے کی دعوت دی تھی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سب پہلا کام جو آپ نے کیا وہ تہران میں اسرائیل کے سفارتخانے کو بند کرکے اس کی جگہ فلسطین کا سفارتخانہ کھول کر جمعۃ الوداع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یوم القدس سے منسوب فرمایا دیا ،چنانچہ آپ کے اس تاریخی فرمان کے بعد دارالحکومت تہران سمیت پورے ملک میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف اتنے وسیع اور عظیم الشان مظاہرے ہوئے کہ دنیا حیران رہ گئی اور اس کے بعد سے آج تک ملت اسلامیہ جمعۃ الوداع کو ہرسال یوم القدس کے طور پر مناتی ہے ۔
    شروع میں امام خمینی کے فرمان پر پاکستان، لبنان ،فلسطین اور دیگر ملکوں میں عوامی سطح پر یہ دن منایا گیا،اب الحمداللہ یوم القدس کے موقع پر دنیا کے کونے کونے میں غاصب اسرائیل حکومت کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں ۔ حتی کہ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمان بھی جلوس اور ریلیوں میں شرکت کرکے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف اپنی نفرت وبیزاری کا اظہار کرتے ہیں ،در اصل امام خمینی کی دور اندیش نگاہیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ سرکاری سطح پر یوم فلسطین کو صرف سرکاری حکام کے بیانات تک محدود کردیا گیا ہے اور حالات جو رخ اختیار کر رہے تھے اس کے تحت یہ دکھائی دے رہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے نام سے کوئی مسئلہ ہی باقی نہ رہے اور لوگوں کے اذہان سے اس کو مکمل طور سے محو کردیا جائے ،چنانچہ آپ نے انہی مسائل کے پیش نظر ایک ایسے دن کا انتخاب کیا جسے مسلمانوں میں ایک خاص تقدس اور اہمیت حاصل ہے اور جسے کبھی بھلایا نہ جا سکے،یوم القدس کے لئے جمعۃ الوداع کا انتخاب کرکے آپ نے قدس شریف کو مسلمانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا ،چنانچہ اس وقت پاکستان افغانستان بنگلہ دیش ، لبنان ، شام ، فلسطین ، کویت ، قطر ، بحرین ، یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں یوم القدس کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور ہر سال کی طرح اس سال یوم القدس انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا جائے گا ۔یوم القدس اسلامی دنیا کے منافق چہروں اور قدس و فلسطین کے وفادار مسلمانوں کی شناخت و پہچان کا دن ہے جو مسلمان ہیں قدس کی آزادی کے لئے عالم اسلام کے دوش بدوش مظاہروں میں شریک ہو کر فلسطینی جانبازوں کی حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔قدس، قبلہ اول اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا دوسرا حرم ہے یہ فلسطین کے ان دسیوں لاکھ مسلمانوں کی اصل سرزمین ہے جنہیں عالمی استکبار نے غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں آج سے ٹھیک ۶ ۳؍ سال قبل۱۹۴۸ میں اپنے وطن سے جلاوطن کرکے قدس کی غاصب ، صہیونیوں کے تصرف میں دے دیا تھا ،اس سامراجی سازش کے خلاف فلسطینی مسلمانوں نے شروع سے ہی مخالفت کی اور ان مظلوموں کی قربانی اور صبر و استقامت کے سلسلے میں پوری دنیا کے حریت نواز ، بیدار دل انسانوں نے حمایت کی اور اسی وقت سے فلسطین کا مسئلہ ایک سیاسی، فوجی جد وجہد کے عنوان سے عالم اسلام کے سب سے اہم اور تقدیرساز مسئلے کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے ۔اسلامی ایران کی ملت و حکومت نے بھی ، اسلامی انقلاب کی پرشکوہ کامیابی کے بعد سے غاصب صہیونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے مسئلے کو اپنا اولین نصب العین قراردے رکھا ہے اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو روز قدس قراردے کر اس دن کو ستمگران تاریخ کے خلاف حریت و آزادی کے بلند وبانگ نعروں میں تبدیل کردیا ہے ۔ اسلامی انقلاب کے فورا بعد حضرت امام خمینی  نے صہیونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے لئے اس دن کو روز قدس اعلان کرتے ہوئے اپنے تاریخی پیغام میں فرمایا تھا :
’’ـــمیں نے سالہائے دراز سے ، مسلسل غاصب اسرائیل کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ و خبردار کیا ہے اور اب چونکہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے خلاف ان کے وحشیانہ حملوں میں شدت آگئی ہے خاص طور پر جنوبی لبنان میں وہ فلسطینی مجاہدین کونیست و نابود کردینے کے لئے ان کے گھروں اور کاشانوں پر پے درپے بمباری کررہے ہیں، میں پورے عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ ان غاصبوں اور ان کے پشت پناہوں کے ہاتھ قطع کردینے کے لئے آپس میں متحد ہوجائیں اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو جو قدر کے ایام ہیں فلسطینیوں کے مقدرات طے کرنے کے لئے ، روز قدس کے عنوان سے منتخب کرتا ہوں، تا کہ بین الاقوامی سطح پر تمام مسلمان عوام فلسطینی مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت و پشت پناہی کا اعلان کریں ۔میں پورے عالم کفر پر مسلمانوں کی کامیابی کے لئے خداوند متعال کی بارگاہ میں دعاگو ہوں ۔ اس اعلان کے بعد سے ہی روز قدس ، قدس کی آزادی کے عالمی دن کی صورت اختیار کرچکا ہے اور صرف قدس سے مخصوص نہیں رہ گیا ہے، بلکہ عصر حاضر میں مستکبرین کے خلاف مستضعفین کی مقابلہ آرائی اور امریکہ اور اسرائیل کی تباہی و نابودی کا دن بن چکا ہے ‘‘۔
روز قدس دنیا کی مظلوم و محروم تمام قوموں اور ملتوں کی تقدیروں کے تعین کا دن ہے کہ وہ اٹھیں اور عالمی استکبار کے خلاف اپنے انسانی وجود کوثابت کریں اور جس طرح ایران کے عوام نے انقلاب برپا کرکے وقت کے سب سے قوی و مقتدر شہنشاہ اور اس کے سامراجی پشت پناہوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا، اسی طرح دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں کے عوام بھی اپنے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے انقلاب برپا کریں اور صہیونی ناسور کو دنیائے اسلام کے قوی و مقتدر پیکر سے کاٹ کر کوڑے دان میں پھینک دیں ۔روز قدس جرات و ہمت اور جواں مردی و دلیری کے اظہار کا دن ہے مسلمان ملتیں ہمت و جرات سے کام لیں اور مظلوم و محروم قدس کو سامراجی پنجوں سے نجات  دلانے کی جدو جہد کریں ۔ روز قدس ان خیانتکاروں کو بھی خبردار کرنے کا دن ہے جو امریکہ کے آلۂ کار کی حیثیت سے غاصب قاتلوں اور خونخوار بھیڑیوں کے ساتھ ساز باز میں مبتلا ہیں اور ایک قوم کے حقوق کا خود ان کے قاتلوں سے سودا کررہے ہیں ۔روز قدس صرف روز فلسطین نہیں ہے پورے عالم اسلام کا دن ہے ، اسلام کا دن ہے قرآن کا دن ہے اور اسلامی حکومت اور اسلامی انقلاب کا دن ہے ۔اسلامی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا دن ہے.
اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک ہوجائیں مذہب اور اعتقادات کے اختلافات کو الگ رکھ کر حریم اسلام کے دفاع و تحفظ کے لئے اسلام و قرآن اور کعبہ ؤ قدس کے تحفظ کے لئے ، جو پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک اور ایک ہوجائیں اور کفار و منافقین کو مقامات مقدسہ کی پامالی کی اجازت نہ دیں تو کیا مجال ہے کہ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قبلۂ اول پر چند لاکھ صہیونیوں کا تصرف ، قتل عام اور غارتگری کا سلسلہ باقی رہ سکے ۔
دشمن مذہب و مسلک اور قومی و لسانی تفرقے ایجاد کرکے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کررہا ہے اب بھی وقت ہے کہ مسلمان ملتیں ہوش میں آئیں اور اسلامی بیداری و آگاہی سے کام لے کر ، فلسطینی مجاہدین کے ساتھ اپنی حمایت و پشت پناہی کا اعلان کریں ۔فلسطین کے محروم و مظلوم نہتے عوام ، صہیونیوں کے پنجۂ ظلم میں گرفتار لاکھوں مرد وعورت ، وطن سے بے وطن لاکھوں فلسطینی رفیوجی ،غیرت و حمیت سے سرشار لاکھوں جوان و نوجوان ہاتھوں میں غلیل اور سنگریزے لئے فریاد کررہے ہیں ،چیخ رہے ہیں ،آواز استغاثہ بلند کررہے ہیں کہ روئے زمین پر عدل و انصاف کی برقراری کا انتظار کرنے والو ، فلسطینی مظلوموں کی مدد کرو قدس کی بازیابی کے لئے ایک ہوجاؤ ۔ہم فلسطینی ہیں فلسطینی ہی رہیں گے ۔ہم بیت المقدس کو غاصب صہیونیوں سے نجات دلائیں گے، ہم خون میں نہا کر مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حفاظت کریں گے ۔بس ہمیں مسلمانوں کی حمایت و پشت پناہی کی ضرورت ہے ۔اے مسلمانو! اپنا مرگبار سکوت اور خاموشی کو توڑ کر اٹھو ہم فلسطینی مجاہدین کی آواز سے آواز ملاؤ قدس ہمارا ہے، قبلۂ اول ہمارا ہے ہم قدس کو آزاد کرائیں گے ۔ہم قدس کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں گے ،لیکن قدس کو غاصبوں کے وجود سے پاک کرکے ہی دم لیں گے ۔
یوم قدس اسلامی دنیا کے منافق چہروں اور قدس و فلسطین کے وفادار مسلمانوں کی شناخت و پہچان کا دن ہے جو مسلمان ہیں قدس کی آزادی کے لئے عالم اسلام کے دوش بدوش مظاہروں میں شریک ہوکر فلسطینی جانبازوں کی حمایت کا یقین دلاتے ہیں اور منافقین صہیونی قوتوں کے ساتھ مل کر سازشیں رچتے اور اپنے زير اقتدار مسلمان ملتوں کو یوم قدس کے مظاہروں میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے ۔
عالم اسلام فلسطین اور بیت المقدس پر صہیونیوں کے غاصبانہ تسلط کو مظلوم فلسطینیوں کے خلاف سامراجی جارحیت سمجھتا ہے اور قدس کی بازیابی کے لئے ملت فلسطین کا طرفدار ہے گزشتہ ۶۳؍ سال کے دوران صہیونیوں نے یہاں برطانیہ اور امریکہ کی سامراجی سازشوں کے تحت اپنے قدم جمائے اور ساحلی شہر یافا اور حیفا کے قریب تل ابیب کو آباد کیا اور بیت المقدس پر اپنے خونی پنجے گاڑنے شروع کردیے اور اس وقت تقریبا اسی فی صدی علاقوں پر قبضہ کررکھا ہے ۔فلسطینیوں کے منصوبہ بند قتل عام ، گھروں اور کاشانوں پر فوجی یلغار ، قید وبند ، جلاوطنی اور مہاجرت کی مانند خوف و وحشت کی فضائیں ایجاد کرکے ایک ملت کو اس کے ابتدائی ترین انسانی حقوق سے محروم کردینا اسرائيل کا سب سے بڑا کارنامہ ہے !!
حضور نبی کریم سرور کونین کا ارشاد گرامی ہے کہ جمعة المبارک کا دن سید الایا م ہے اور تمام دنوں سے افضل و بر ترہے اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ دن سلامتی و رحمت کا حامل ہے جسکی بڑی اہمیت و فضلیت ہے ۔رمضان کریم کے جمعہ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے، کیونکہ اس جمعہ المبارک میں رمضان الکریم کی فضیلتیں بھی شامل ہو جاتیں ہیں، لیکن جو فضلیت اور مرتبت رمضان المبارک کے آخری جمعة المبارک کو حاصل ہے وہ کسی اور دن کو حاصل نہیں۔ بلاشبہ یہ دعائوں کی قبولیت کا دن ہے اس دن امت مسلمہ کی فلاح بہود اور عالم اسلام کے غلبہ و عزت کے لیے چہار سو مساجد میں دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ جمعة الوداع کے خطبہ کی بھی اپنی شان و منزلت ہے جس میں مسلمانوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے اسلامی شعار کے مطابق راہ متعین کی جاتی ہے ،اتحاد بین المسلمین کا درس ان خطبات کا خاصہ ہوتا ہے انہی خطبات میں ملت اسلامیہ کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے پرزور مطالبات عالمی برادری کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ جمعة الوداع کے خطبہ و نماز کے بعد دنیا بھر کے مسلمان ریلیوں ،جلسوں ،جلوسوں کی صورت میں اسلامی دنیا کے خلاف امریکہ ،اسرائیل اور مغربی ممالک کی پالیسیوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان پالیسیوں کے خلاف عظیم الشان مظاہرے بر پا کرتے ہیں ۔ ملت اسلامیہ کی جانب سے جمعة الوداع کا مبارک دن قبلہ اول کی آزادی سے منسوب کر کے یو م القدس قرار دیا گیا ہے،تا کہ بیت المقدس کو یہودیوں کے شکنجہ سے آزادی دلانے کا جذبہ حریت مسلمانوں میں کبھی ماند نہ پڑے اور عالمی عدالت انصاف،انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی ملت اسلامیہ کے اس دیرینہ مسئلہ کو کبھی فراموش نہ کرسکیں۔
محمد جسیم الدین
ریسرچ اسکالر شعبہ عربی ،دہلی یونیورسٹی
  Email:jasimqasmi@gmail.com


مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام مفید یا مضر؟ ایک جائزہ


                                                      
مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام کن مقاصد کے تحت عمل میں لایا جارہا ہے اور کیا اس سے مسلمانوں کا بھلا ہوسکتا ہے یا یہ بھی حکومت کی دیگر اسکیموں کی طرح ایک  لالی پاپ ثابت ہوگابے شک یہ ایسا پہلو ہے جس پر ہر ایک کو خاص طور سے قائدین ملت اور ارباب مدارس ودانشوران قوم کو سنجیدگی سے مل بیٹھ کر تبادلہ خیال کرنا چاہیے اور ذہن وفکر کے تمام دریچوں کو واکرکے ملت کی فلاح وبہبود اور اس کے لیے لازمی عوامل واسباب پر نہایت سنجیدگی سے غور کر کے حکومت اس اقدام کی موافقت یا مخالفت کرنی چاہیے ، صرف شخصی رائے کو پوری ملت کی گردن پہ تھوپنے سے گریز کرنا چاہیے حکومت مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کے درپے کیوں ہے آخر انھیں کون سی ایسی ضرورت آپڑی ؟اسے جاننا بہت ضروری ہے آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وزارت ِ عظمیٰ کی اعلیٰ سطحی سچر کمیٹی رپورٹ جس میں مسلمانوں کی تعلیمی ،سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالت پسماندہ(OBC) ہندو سے نہایت خراب اور ایس سی ۔ ایس ٹی  (SC,ST)سے کچھ بہتر دکھائی گئی ہے ،کے آنے کے بعد یو پی اے حکومت نے مسلمانوں میں تعلیمی بہتری لانے کے لیے مرکزی مدرسہ بورڈ کی تشکیل کا اعلان کیا اور اس کی ذمہ داری  قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کے چیئرمین جناب سہیل اعجاز صدیقی صاحب کے سپرد کی۔ جنہوں نے اس سلسلے میں بڑی محنت اور تگ و دو سے کام  لیتے ہوئے کئی سیمینار اور میٹنگوں کا اہتمام کیا ۔ان میں 3دسمبر2006کی میٹنگ قابلِ ذکر ہے ۔اس میٹنگ میں انہوں نے ہندوستان کے اکثر و بیشتر مدارس کے مہتمم و منتظم حضرات کو مدعو کیا  تاکہ وہ مرکزی مدرسہ بورڈ سے متعلق اپنی آراء و خیالات کا اظہار کریں۔پھرانہوں نے 21اپریل 2007کو مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام سے متعلق سفارشات پر مبنی رپورٹ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل جناب ارجن سنگھ کے سامنے پیش کر دی ۔اس رپورٹ میں یہ، دکھایا گیا تھا کہ مرکزی مدرسہ بورڈ کی حمایت اکثر مکتبۂ فکر کے علماء نے کی ہے ۔مگر 23اپریل2008کو مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء اور مسلم پرسنل لا کے صدر جناب رابع حسنی ندوی نے مرکزی مدرسہ بورڈ کی مخالفت کھل کر کرنی شروع کر دی۔بلا شبہ یو پی اے حکومت کی مدارس کے تئیں یہ اصلاحی کو ششیں اور ان مدارس کو مین اسٹریم سے جوڑنے کی جد و جہد ایک قابل ِ ستائش عمل ہے اسے سراہا جانا چاہیے اور تمام ہندوستان میں تقریباً سات ہزار مدارس جو تقریباً ساڑھے تین لاکھ طلباء کو علم کی دولت سے سرفراز کر رہے ہیں ،ان کے لیے ایک خوش آئند بات ہے۔
مگر بعض لوگ جن میںعلماء اوردانشوران کی ایک جماعت بھی شامل ہے مرکزی مدرسہ بورڈ کو لے کر مختلف اندیشوں میںگھرے ہوئے ہیںاور کئی طرح کے شبہات لاحق امیر شریعت بہار واڑیسہ مولانا نظام الدین نے مدارس کے تعلق سے مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل ارجن سنگھ کے دئے گئے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مدرسوں کو ہر صورت میں اپنی حالت میں رکھنا چاہیے اور اس کا ووٹ سے الحاق نہیں کیا جانا چاہیے البتہ اگر حکومت بغیر کسی شرط پر امداد دے رہی ہے تو اسے قبول کیا جاسکتا ہے جیسے کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم کے لیے کمپیوٹر فراہم کرے یا دیگر عصری تعلیم سے متعلق جو ان کے اختیار میں ہو امداد کرے تو اسے قبول کرنے میں احتراز نہیں ہے لیکن اس امداد میں کوئی شرط شامل نہ ہو کیوں کہ جہاں جہاں مدارس کا الحاق ہوا ہے وہاں دینی تعلیم وتربیت کا مقصد ہی فوت ہوگیا ہے مولانا نے مزید کہا ہے کہ بہار میں 1250مدارس کا ریاستی حکومت سے الحاق ہے لیکن وہاں تعلیم وتربیت بہت ہی ابتر ہے اس لیے مدرسوں کو اصل حالت میں نہ رکھا جائے اس وقت تک بہتر نتائج کی جستجو فضول بات ہوگی ‘‘دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث اور جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس استدلال کے ساتھ کہ مدارس سے ہماری دنیا نہیں مسلمان کا دین اور آنے والی نسلوں کا ایمان وتشخص وابستہ ہے ،سینٹرل مدرسہ بورڈ کی تشکیل کو اس ملک میں مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی منصوبہ بند کوشش قراردیا اور پارلیمنٹ میں متعلق بل کو ناکام کرنے کے لیے فیصلہ کن جد وجہد کا اعلان کیا ۔ان کا مانناہے کہ ملحقہ مدارس کی تعلیمی وتربیتی روح ختم ہوچکی ہے لہذا جمعیۃ علماء ہند اور ہندوستانی مسلمان ایسے کسی بورڈ کی تشکیل کی تائید نہیں کریں گے ۔مولانا مدنی کا دعوی ہے کہ مدرسہ کی سطح پر تعلیم کے نظام کو مربوط بنانے ،بین مذاہب ومسالک مفاہمت کو فروغ دینے اور مدرسے کی تعلیم کو قومی ترقی کے لیے موثر بنانے کی آڑ میں مدارس میں اسلامی تعلیمات کو مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں بے اثر کرنے کی یہ ایک دیرینہ سازش ہے ،جسے دہشت گردی سے متاثر ماحول میں اس اندازے سے لانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عام مسلمان جھانسے میں آجائے اور اس طرح وہ بلا مزاحمت اپنے اسلامی تشخص سے محروم ہوجائے ۔مولانا ارشد مدنی کا مطالبہ ہے کہ اگر مدرسہ بورڈ بنایا جائے تو اختیاری بنایا جائے یعنی جس کا دل چاہے وہ امداد لے اور جس کا جی نہ چاہے وہ امداد نہ لے ،ان کی مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ کالج ،انجینئرنگ کالج ،آئی ٹی آئی اور عصری علوم کے دیگر ادارے قائم کریں اور حکومت کی جانب سے خوب امداد لیں لیکن دینی مراکز میں حکومت کودخل اندازی نہ کردیں ‘‘مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا محمد رابع جسن ندوی ،امیرشریعت مولانا نظام الدین اور مولانا ارشد مدنی اور ان کے ہم خیال لوگوں  کو خدشہ لاحق ہے کہ مرکزی مدرسہ بورڈکے ذریعے حکومت مدارس کے امور میں دخل اندازی کرنا چاہتی ہے اوراس طرح مدارس کی انفرادیت و سالمیت پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔جس سے مدارس کے وجود کوخطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس اندیشے پر بات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی مدرسہ بورڈ کا تعارف اور مقاصد بالتفصیل بیان کر دیے جائیں۔تاکہ اس اندیشے کا ازالہ خود بخود ہو جائے:
مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ UGCکی طرح ایک خود مختار ادارہ (autonomous body)ہوگا۔جس کا مقصد ہندوستان کے کونے کونے میں تسبیح کے  ٹوٹے ہوئے دانوں کی طرح بکھرے ہزاروں مدارس اسلامیہ کو ایک نظام کے تحت مربوط کرنا ہے اور ان کے درمیان مکمل تعاون اور تال میل پیدا کرنا ہے۔اس کے علاوہ مرکزی مدرسہ کا بنیادی مقصد مدارس اسلامیہ کو عصری علوم سے جوڑکر ان کی اسناد کو سرکاری منظوری دلانا ہے تاکہ ان مدارس کے فارغین جو فراغت کے بعد معاشی پریشانیوں کے لیے سرگرداں پھرتے ہیں ان کو ان پریشانیوں سے نجات دلایا جا سکے اور انہیں سرکاری و غیر سرکاری نوکریوں میں کام کر نے کے مواقع فراہم کیے جا سکیں تاکہ وہ اپنی اور اپنے خاندان اور قوم و ملت کی اقتصادی اعتبار سے خدمت کر سکیں۔
اس مرکزی مدرسہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے الحاق اجباری نہیں بلکہ اختیاری ہوگا اور جو مدارس اس بورڈ سے الحاق کریں گے ان کے اساتذہ کو ا اس الحاق کے بدلے میں سرکار اتنی ہی تنخواہ فراہم کرے گی جتنی کہ اسکول کے سرکاری ٹیچر کو ملتی ہے۔اس کے علاوہ مرکزی مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کو ہر سال ان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک بڑی رقم عطا کرے گی۔ان رقوم اور اساتذہ کی تنخواہ دینے کا مقصد یہ بالکل نہیں ہے کہ یہ بورڈ مدارس ِ اسلامیہ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کریں گے۔جیسا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر حضرات کاخیال ہے بلکہ مرکزی مدرسہ بورڈ مدارس کے نصاب میں تبدیلی صرف انہی مضامین میں کرنا چاہے گا جو عصری علوم پر مشتمل ہوں گے ناکہ ان مضامین میں جو دینی علوم پر مشتمل ہیں۔یہ تبدیلی بھی مرکزی مدرسہ بورڈ کے ممبران کی اکثریتی رائے سے ہوگی اور یہ ممبران مسلمانوں کے اپنے نمائندے ہوں گے۔مزید یہ کہ مرکزی مدرسہ بورڈ مدارس ِ اسلامیہ کے مالی امور میں دخل اندازی نہیں کرے گابلکہ ان ہی رقوم کے حساب و کتاب کے بارے میں باز پرس کرے گا جو حکومت انہیں عصری علوم کے فروغ کے لیے عطا کرے گی۔مزید برآں اگر کوئی مدرسہ اس بورڈ سے کسی طرح کا خطرہ محسوس کرے تو وہ جب چاہے اپنا الحاق ختم کرا سکتا ہے۔الحاق ختم کرانے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ان میں سے ایک یہ کہ آپ نیشنل کمیشن فار مائنارٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کے نام درخواست لکھ کر الحاق ختم کرا کر مالی امداد لینا بند کر سکتے ہیں۔
دوسرا اندیشہ جو مرکزی مدرسہ بورڈ سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ اس بورڈ کی حالت کہیں ویسی ہی نہ ہو جائے جیسی ریاستی مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس کی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا اندیشہ ہے جو بجا ہے۔ مگر اس اندیشہ کا سدِباب کیا جا سکتا ہے اگر ہماری مسلم قیادت بالخصوص علماء اور مسلم پرسنل لابورڈ ،دور اندیشی سے کام لیں۔یہ سچ ہے کہ مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کی ایک نہایت ہی بے بنیاد وجہ بیان کی گئی ہے کہ مدرسوں کو آزاد چھوڑنے کی وجہ سے وہ دہشت گردی کے مراکز بن گئے ہیں یہ سراسر جھوٹ وافترا ہے چوں کہ مدرسوں پر دہشت گردی کے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں انھیں حکومت کی کوئی ایجنسی بھی سچ ثابت نہیں کرپائی ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ مدارس نے طلبہ میں دین کی سمجھ پیداکرنے میں جو کردار اداکیاہے اور ہنوزکررہے ہیں اس میں کسی حد تک کمی آسکتی ہے تاہم اگر حکومت مدارس کے فارغین کو یہ موقع فراہم کررہی ہے کہ وہ اپنی محنت سے جدید تعلیم کے مختلف شعبوں میں جائیں اور مرکزی ملازمتیں حاصل کریں تو اس میں کسی قسم کا مضائقہ نہیں ہونا چاہیے ۔فی الوقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جامعہ ہمدرد مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی اور جے این یو نے کئی مدارس کو ملحق کررکھ ہے اور وہ ان مدارس کے فارغین کو مخصوص مضامین ا ور شعبوں مثلادینیات ،عربی ،اردو ،فارسی ،اسلامک اسٹڈیز ،جغرافیہ ،سیاسیات ،معاشیات اور یونانی میڈیسن وغیرہ میں داخلہ کا اہل قرار دیتے ہیں۔خوش آئند بات ہے  کہ اب یہ طلبہ مرکزی مدرسہ بورڈ کی بدولت انجینئرنگ ،منیجمنٹ ،سائنس کے مختلف مضامین ،میڈیسین ،کمپیوٹر اور اس طرح کے دیگر جدید شعبہ ہائے جات میں اپنی قسمت آزمائی کا موقع حاصل کریں گے ۔اس طرح یہ طلبہ دین کی سمجھ کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آگے رہیںگے وہ اپنے آپ کو اوراپنے اہل خانہ کو معاشی اعتبار سے مضبوط کریں نتیجے کے طورپر ساری قوم نفع اٹھائے گی ۔
نصاب ونظام تعلیم میں عصری تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے علماء کرام انسانیت اور ملت کے احتجاجی مسائل سے بے تعلق ہوتے جارہے ہیں ،علماء جنھیں پوری انسانیت کو دین پہنچانا ہے وہ مسجد ومدرسہ کے خول میں سمٹتے جارہے ہیں ،ہماری نئی نسل خاص طورسے جدید تعلیم یافتہ طبقہ علماء کی ثقیل درسی زبان سمجھنے سے قاصر ہے اسی چیز نے مدارس وجامعات کے بعض اہم مقاصد کو فوت کردیاہے ،کیوں کہ علم سیکھنے کا مقصد دنیائے انسانیت تک ان کی زبان وفہم کے مطابق اور عصری اسلوب میں دین پہنچانا ہی تو ہے ۔اسلام میں علم (دینی وعصری )ایک وحدت ہے ،قرآن کی تصریح کے مطابق حضرت آدم کو خلافت ارضی کائناتی علم کی بدولت سپرد کی گئی ،لیکن انسان اپنا اور کائنات کا صحیح استعمال علم (تشریعی)میں حاصل کرسکتاہے ،غرض یہ کہ دونوں علوم (تشریعی وتکوینی )ملت کی زندگی کی گاڑی کے دوپہیے ہیں اگڑ دینی علوم سے محروم ہوجائیں تو دنیا وآخرت کا خسران ہے اگر کائناتی علوم میں بچھڑ جائیں تو دنیا میں غلبہ وسربلندی سے محرومی مقد ر ہوگی مثلا ہندوستان کے 20کروڑ مسلمان قاری ،حافظ ،عالم ،مفتی بن جائیں تو کیا ان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے یا ان کی ذلت ختم ہوجائے گی ؟سربلندی حاصل ہوجائے گی ؟ہرگز نہیں بلکہ دونوں علوم (دینی وعصری )کے ذریعہ ہی پسماندگی کو دور کرنا ہوگا اسلام کے نزدیک حسنہ دنیا بھی مطلوب ہے اور حسنہ آخرت بھی ،دور نبوت سے لے کر 1857تک علم کی وحدت واکائی باقی رہی ہماری درسگاہوںسے ایک طرف عالم ،مفتی ،حافظ امام وخطیب نکلتے تو دوسری طرف تاریخ ،کیمسٹری ،جغرافیہ ،فلکیات وارضیات کے ماہرین سائنسداں اور سلطنت چلانے والے وزرائوسالار بھی نکلتے رہے اس لیے ہمیں دوبارہ اصل یعنی علم کی وحدت کی طرف لوٹنا پڑے گا۔مدارس پر ہونے والے سیمیناروں میں اس بات کی ضرورت کی جاتی رہی ہے مدارس کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاناچاہیے،یقینی طورپر یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا لیکن اس چیلنج سے نبرد آزما ہوناپڑے گا ،اب مسجد ودرسہ کے حصار میں ہی اپنی دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی تلاش کرنے کے بجائے کائنات کی سیر کرنا پڑے گا جدید علوم سے استفادہ کرنا پڑے گا صرف شکوک وشبہات اور خدشات کے پیش نظر ملت کے نوجواں نسل کے معاشی مسائل سے چشم پوشی کرنا کسی طرح بھی دانشمندی نہیں ہوگی ،دنیا کے مطالبات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم پر قناعت شریعت کے لیے تو کافی ہے لیکن معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے عصری علوم کو بھی شجر ممنوعہ سمجھنے کے بجائے ایک لازمی ضروت کے طورپر اپنانا بہت ضروری ہے ۔حکومت کی طرف سے ملنے والی مراعات سے روگردانی کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے تجربہ شاہد ہے کہ جن مدارس میں انگلش ،سائنس وغیرہ کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہاں کے طلبہ ان مدارس کے مقابلہ میں جہاں عصری علوم کو 
ممنوعہ خیال کیا جاتا ہے بہترہوتے ہیں اور ان کی معاشی حالت بھی اچھی ہوتی ہے ۔
محمد جسیم الدین قاسمی
jasimqasmi@gmail.com

عالمی یوم القدس طاغوتی قوتوں کے خلاف جدوجھد کا دن

عالمی یوم القدس رمضان المبارک کے آخری جمعہ (جمعۃ الوداع ) کو منایا جاتاہے یہ کوئی جشن نہیں ہوتا ،بلکہ صیہونی طاقتوں کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں کے احتجاج کا دن ہوتاہے، اگست ۱۹۷۹میں انقلاب کی کامیابی کے تقریبات ۶ماہ بعد امام خمینی نے مسلمانوں کے قبلہ اول قدس کی آزادی کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے کی خاطر اس دن کو خاص کیا۔ جس کو ناپاک صیہونیوں نے اپنی تحویل میںکررکھا ہے ، قیام اسرائیل کے بعد سے فلسطین کی مزاحمتی تحریکیں فلسطین اور قدس کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرتی چلی آرہی ہیں، لیکن اس سلسلے میں کسی قسم کی مربوط حکمت عملی کا فقدان تھا عرب اسرائیل جنگیں بھی صیہونیوں کے توسیع پسندانہ منصوبوں کو روکنے میں ناکام رہیں۔ 
عرب دنیا میں فلسطینی کاز کواس دقت شدید دھچکا لگا، جب امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کے ساتھ مصرنے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کیا، اس کے بعد عالمی سامراج اور صیہونی طاقتیں عربوں کو نام نہاد امن مشن کے جال میں پھنسا نے کی کوشش کررہی ہے اور عربوں میں اسرائیل کے ساتھ مقابلہ کی امیدیں دم توڑگئی تھیں، ان حالات میں امام خمینی کی طرف سے یوم القدس کا اعلان فلسطین کی مزاحمتی تحریک میں نئی جان پھونکنے کا سبب بنا اور مایوس فلسطینی مجاہدین کو نیا عزم وحوصلہ ملا، چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ۹۰کی دہائی میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کو تقویت ملی اور انتفاضہ ، حماس ،اسلامی جہاد، حزب اللہ جیسی مزاحمتی تحریکیں معرض وجود میں آئیں ،جنہوں نے صہیونیوں کی نیندیں اڑاکر رکھ دی ہیں۔
یوم القدس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے امام خمینی نے کہا یہ (یوم القدس ) اسلام کے نشاۃ ثانیہ کادن ہے، امام خمینی اس دن کو استکباری طاقتوں کے خلاف مظلوم و محروم اقوام کی جدوجہد کا دن سمجھتے تھے، انہون نے پیش گوئی کی تھی کہ فلسطین اور لبنان کے مظلوم عوام یوم القدس کی بدولت نئے عزم ولولے سے ا ٓزادی و حریت کی آواز بلند کریںگے اور سرائیل واس کے آقا امریکہ کے ناکوں چنے چبوادیںگے ۔
امام خمینی نے یوم القدس کو اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کادن قراردیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ قدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور یہ شہر مکہ ومدینہ کے بعد مسلمانوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے ، کیوں کہ یہ انبیائے الہی کا مرکز رہاہے اور یہاں سے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج شروع کیا۔
جغرافیائی لحاظ سے قدس ایک خاص محل وقوع کا حامل شہر ہے ، اسی لیے قدس تاریخ کے مختلف ادوار میں علاقائی وبیرونی طاقتوں کے حملوں کی زد میں رہاہے ، تاریخی حیثیت کے علاوہ بیت المقدس کا جغرافیائی و سیاسی محل وقوع بھی اہمیت کا حامل ہے۔ فلسطین افریقہ اور یورپ کے نزدیک بر اعظم ایشیا کے جنوب مغرب میں واقع ہے شہر تقریبا مشرق ومغرب کے اسلامی ممالک کے وسط میں واقع ہے، انیسویں صدی میں قدس وفلسطین کو سوق الجیسی اہمیت کی وجہ سے عالمی طاقتوں خاص طورپر برطانیہ اور فرانس نے اس مقدس سرزمین پر اپنی توجہ مرکوز کردی، بحیرۃ ابیض کو بحیرۃ احمر سے ملانے کے لیے اس صدی کے اواخر میںنہر سوئز کھودی گئی اس کے بعد فلسطین کی اہمیت دو چند ہوگئی۔
انگریزوں نے مشرق وسطی سے اٹھتی ہوئی اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کے لیے عثمانی خلافت کو کمزور کرتےہوئے عرب ممالک سے اس کا عمل دخل ختم کردیا اور ۱۹۱۶میں خلافت عثمانیہ کی بساط لپٹ دی گئی ، چنانچہ وہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل تک بہت سے عرب علاقوں پر قابض ہوئے اور عالم عرب کو متعدد ممالک میں تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی، دنیا میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے۱۸۹۷میں سوئزر لینڈ کے صہیونی پہاڑیوں کے دامن میں عالمی یہودی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی منظوری دی گئی اور فلسطین میں اس ریاست کے قیام کے لیے برطانیہ نے کلیدی کردار اداکیا، چنانچہ۱۹۴۸میں وسیع فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور انگریز یہاں سے چلے گئے یہ ریاست فلطسین کے مغربی ساحلی علاقوں میں قائم کی گئی اسی دوران مغربی بیت المقدس پر قبضہ ہوا، اس پر فلسطینیوں نے  اپنی مزاحمت جاری رکھی لیکن عرب ممالک کی طر ف سے فلسطین کی آزادی کے لیے کوئی نمایا ں قدم نہیں اٹھایا گیا۔
قائدین میں بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی  وہ واحد رہنما ہیں جنھوں نے قبلہ اول کی آزادی کا نعرہ بلند کیا، انھوں نے شاہ ایران کے خلاف اپنی تاریخی تحریک کا آغاز بھی اسرائیل نوازی پر مبنی شاہی پالیسی کے خلاف تنقید سے کیا، ۳؍جون۱۹۶۳کو عاشورہ کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ’’شاہ اور اسرائیل کے درمیان کیا تعلق ہے؟ ساداک کے (خفیہ شاہی) کارندے کیوں یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف کچھ نہ کہو؟ کیا شاہ اسرائیل ہے؟ 
امام خمینی کی طرف سے یوم القدس کے اعلان کے بعد فلسطین مسئلے میں ایک نئی جان پھونکی گئی اور یہ مسئلہ جو طاق نسیاں بن چکا تھا دوبارہ زندہ ہوا، چنانچہ دنیا کے گوشے گوشے میں ہرسال لاکھوں مسلمان اس دن قدس کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کے خلاف ملک شکاف نعرے لگاتے ہوئے قبلہ اول کی آزادی کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔
رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس قرارد ینے کی امام خمینی کی حکمت عملی اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ماہ مسلمانوں کے تزکیہ نفس کا مہینہ ہے  اور مسلمان اسلام کی زریںتعلیمات کے سائے میں اعلی انسان اقدار کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور ایسے روحانی ماحول میں لاکھوں روزے داروں کا ایک مقدس مقصد کے لیے جمع ہونا اور صہیونی مظالم کی مذمت کے لیے آخری جمعہ کے بعد مظاہرہ کرنا اسلام دشمن طاقتوں کے پیکر پر کاری ضرب لگانے کا باعث بنتا ہے، یہ سب یوم القدس کا کرشمہ ہے۔
محمد جسیم الدین قاسمی
ریسرچ اسکالر 
شعبۂ عربی ،دہلی یونیورسٹی
jasimqasmi@gmail.com





جدت پسندی کی آڑ میں لادینیت کا بڑھتا رجحان



جدت پسندی نے مشرقی اقدارروایات کی چولیں ہلادی ہے ،جس کے منفی اثرات سے نئی نسل ادب واحترام سے عاری ہوتے جارہے ہیں
آج پورے ملک میں اخلاقی انحطاط کے بادل جھائے ہوے ہیں، جس کا اثرخاص طورپر نوجوان نسل میںدکھائی دے رہاہے، اگر ہم اس کے اسباب کا پتہ لگائیں تو بنیادی طور پر جو چیزیں سامنے آتی ہیں وہ جدت پسندی کے نام پر مادہ پرستی اور مذہب بیزاری ہے، ان کے علاوہ استعماری اور صیہونی افکار نے اسلامی تہذیب واقدار کو مسخ کرنے کے لیے جو حربے اپنائے ہیں ان میں ذرائع ابلاغ اور ترسیلی سہولتیںمثلاً ٹیلی ویژن، سنیما، انٹرنیٹ اور موبائل کا منفی استعمال ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نے نئی نسل کے ذہنوں کو بری طرح پراگندہ کررہاہے،اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال شجر ممنوعہ ہے، اصل مسئلہ اس کے استعمال کی نوعیت کا ہے ،اچھی غذا بھی ضرورت سے زیادہ لینے پر نقصان پہنچاتی ہے،اسی طرح انٹرنیٹ اور موبائل کا بے جا استعمال بھی نئی نسل کو بربادی کے دہانے پر دھکیل رہی ہے۔
اس وقت تین نسلیں ہمارے سامنے ہیں: پہلی نسل پختہ عمر والوں کی ہے۔ دوسری وہ جوجوان ہوچکی ہے اور پختگی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تیسری وہ نئی نسل جو دس، بارہ سال سے پچیس سے تیس سالوں کی عمر تک کی ہے۔ پہلی نسل کی صورت حال غنیمت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہے جس پر مذہب کے اثرات غالب تھے۔ دوسری نسل پر اس کے اثرات ہلکے ہیں۔ تیسری نسل میں اس کا یکسر فقدان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے اس پر مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑی ہے۔ تو دوسری طرف نئی تہذیب کی یلغار ہے جو بیشتر جدید تعلیم کی راہ سے اس پر حملہ آور ہوئی ہے۔
اس وقت ہمارے لیے نئی نسل بہت اہمیت رکھتی ہے،کیونکہ آنے والی نسلیں اسی پر منحصر ہیں، اگر اسے موجودہ روش پر چھوڑ دیا گیا تو آنے والی نسلیں کیسی ہوں گی اور ان پر اسلامی تہذیب وافکار اور عقائد کا کتنا اثر ہوگا ، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں ہندستانی مسلمانوں میں الحمد للہ خوشحالی آئی ہے اور مسلمانوں نے تعلیم کی طرف خصوصی توجہ کی ہے، ان میں تعلیمی گراف بڑھا ہے، بڑی تعداد میں مسلمان بچے عصری تعلیم حاصل کررہے ہیں اور مختلف میدانوں میں انہیں نمایاں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ حالانکہ جو پیش رفت ہونی چاہیے وہ اب بھی کم ہے۔ آبادی کے تناسب سے مسلمان خاطرخواہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، لیکن اس کا دوسرا درد انگیز پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں میں مذہب کے تئیں منفی ذہنیت پیدا ہوئی ہے، مذہبی تعلیم اور اسلامی تہذیب واقدار کو فرسودہ سمجھاجانے لگا ہے، مخالفانہ رویہ یہ ہے کہ عصری تعلیم میں مذہبی تعلیم کی ہم آہنگی کوتعلیمی ترقی میں رکاوٹ سمجھا جانے لگا ہے۔ اس رویہ اور ذہنیت کی وجہ سے ایسے عصری ادارے جو اسلامی تعلیم اور اسلامی تہذیب کے ساتھ عصری تعلیم کا انتظام کرتے تھے روبہ زوال ہیں۔ نئی نسل کے سرپرستوں کا رجحان مشنری اسکولوں کی جانب ہے۔ رفتہ رفتہ نئی نسل اسلامی تہذیب سے بے گانہ ہورہی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اپنے مذہب کے بنیادی افکار، اسلامی تاریخ کی شخصیات اور واقعات سے اتنی واقفیت بھی نہیں جتنی دوسرے مذاہب کی حقیقی اور افسانوی شخصیات وواقعات سے ہے۔ دوسری طرف غیر اسلامی درس گاہوں میں تہذیبی یلغار ہے۔ سیکولرزم یا لادینی فکر کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش ہورہی ہے کہ مذہب انسان کو تنگ نظر اور جانب دار بناتا ہے۔
آج جو لوگ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں ان میں کچھ اسلامی غیر ت سے ا ور کچھ شرما حضوری میں دنیا کی دم بہ دم بدلتی صورت حال اور لادینی تہذیب وافکار کے رجحان سازوں کے فتنہ پرور شاخسانوں سے بے خبر کسی سادہ لوح مولوی کو رکھ کر قرآن اور اردو پڑھوالیتے ہیں۔ بلاشبہ ان کا یہ عمل مذہبی غیرت وحمیت کا ثبوت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے بچہ میں اسلامی تہذیب آجائے گی؟ مذہب کے تئیں جو والہانہ لگا ؤ ہونا چاہیے محض اتنے سے عمل سے بچے میں در آئے گا؟ میرا خیال ہے نہیں، کیونکہ تہذیبی عمل گرچہ واضح اور محسوس ہوتا ہے، مگر اس کو اس طرح چند گھنٹوں کی روا روی میں نہیں سکھایا جاسکتا ہے۔ نہ ٹیوشن میں پڑھانے والے کو اس کی فرصت ہوتی اور نہ ہی اس میں عام طور پر اس کا فہم ہوتا ہے کہ بچے کو اسلامی تہذیب کے اجزا سے روشنا س کرائے۔
تہذیب ایک طرز معاشرت ہے جو گھر کی معاشرت میں رہ کر ہی سیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے سیکھنے میں شعور اور لاشعور دونوں کی کارفرمائی ہوتی ہے، بلکہ تہذیب کے اکثر امور انسان پر لاشعوری طور پر ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گھر کا طرز معاشرت اگر اسلامی تہذیب پر مبنی ہوگا تو بچے اس سے اثر انداز ہوں گے اور اگر گھر میں دوسری تہذیب اپنا قدم جمائے ہوئے ہوگی تو بچے کے ذہن پر اسی تہذیب کے اقدار کا اثر مرتب ہوگا۔ ساتھ ہی  ایام طفولیت میں ہر عمل پر بروقت بچے کی رہنمائی اور درست عمل کی طرف نشاندہی بھی ضروری ہے۔
دوسری طرف غیر اسلامی اداروں میں جس طرح کی تہذیبی یلغار ہے اس کا تدارک بڑی بیدار مغزی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو نئی نسل میں اسلامی تشخص کی بقا کا مسئلہ سنگین ہوتا چلا جائے گا۔
آج کی نئی تہذیب جو مادہ پرستی ، عیش پرستی وعیش کوشی، آزادروی اور دکھاوے پر مشتمل ہے ہر قوم اور ہر جماعت کو اپنی فکر کا غلام بناچکی ہے۔ نئی نسل کو بتایا جائے کہ مادہ پرستی وعیش پرستی ، آزادروی اور دکھاوے کے نقصانا ت کیا ہیں۔ ان سے کیسے بچا جائے اور اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں، اسلام نے آپس میں ایک دوسرے پرجو حقوق متعین کئے ہیں ان کے فوائد کیاہیں، ان کی ادائیگی سے سماج میں کونسی خوبیاں پیدا ہوں گی اور آپسی رشتوں کی استواری کے میں ان کی اہمیت کیا ہے، ان سے آشنا کرایاجائے۔
عام طورپر چھوٹی عمر میں کپڑوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔ بچوں کو عجیب انداز کے کپڑے دئیے جاتے ہیں جن سے ستر پوشی تو کم ہوتی ہے لیکن عریانیت میں نکھار آجاتا ہے۔ لڑکیوں کو لڑکوں کے لباس پہنا دئے جاتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ابھی کم عمر ہے۔ حالانکہ اسی وقت سے ان کے ذہنوں پر اس کے اثرات مرتسم ہونے لگتے ہیں جن کا اثر بلوغت کے بعد بھی رہ جاتا ہے۔ تنگ اور پتلے کپڑے عام ہوتے جارہے ہیں۔ اس پر کنٹرول کی ضرورت ہے۔
نئی ٹکنالوجی کے شر سے بچنے کے لیے موبائل اور انٹر نیٹ وغیرہ کے استعمال پر کنٹرول رکھا جائے۔ کوشش کی جائے کہ چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل نہ دیئے جائیں۔ بچے اگر کسی ساتھی یا عزیز سے موبائل پر گفتگو کریں تو انہیں تنہائی میں نہ چھوڑا جائے۔ حیرت یہ ہے کہ لڑکیاں گھروں میں گھنٹوں موبائل پر بات کرتی رہتی ہیں اور والدین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ لڑکے یا لڑکیوں کو گھرسے باہر موبائل رکھنے کی اجازت بالکل نہیں دی جائے،حالانکہ موبائل ایک ضرورت  هے جس سے گفتگو اور ترسیل کی سہولت حاصل ہونی چاہیے ،لیکن  ملٹی میڈیا موبائل کے ذریعہ اس کے مثبت استعمال کی بجائے منفی استعمال عام ہے۔ نئی نسل کے لڑکے اور لڑکیاں موبائل کا بڑا استعمال گانا سننے اور فلموں کے دیکھنے لیے ہی کررہے ہیں۔ فلموں کے اثرات یہ ہیں کہ نئی نسل کے بچے اداکار اور اداکاراوں کو اپناآئیڈیل مانتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ گھروں میں ملٹی میڈیا موبائل نہ رکھے جائیں۔ تجارتی اغراض سے اگر رکھے بھی جائیں تو بچوں کے ہاتھوں سے ان کو بچایا جائے۔ انٹر نیٹ کا استعمال بچوں کو نہ کرنے دیا جائے، اگر ضروری ہو تو ان کے سامنے گھر کاکوئی بڑا فرد موجود رہے، کیونکہ انٹرنیٹ جہاں علم اور وسیع معلومات کا خزانہ ہے وہیں وہ مجموعہ خباثت بھی ہے جہاں ہر قسم کی برائیاں موجود ہیں۔ دیکھنے والوں کے لیے کسی قسم کی پابندی بھی نہیں ہے، بلکہ اکثر اوقات کام کی چیزیں ڈھونڈنے میں تو وقت لگتا ہے ،لیکن نیم عریاں تصویریں اور ایسی علامتیں جو عریانیت اور اور فحاشی دکھانے والی ہوتی ہیں کمپیوٹر اسکرین پر آجاتی ہیں اور اس کا لنک موجود ہوتا ہے جس پر کلک کرتے ہی وہاں پہنچ جائیے۔
یہ موجودہ اخلاقی انحطاط اور اس کے سد باب کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے چند اشارے ہیں۔ مسلمانوں کی تہذیب کو مسخ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں ہورہی ہیں۔ اگر اس طرح کے اقدامات سے گریزکیا گیا تو ہندستان میں اسلام کا مستقبل زوال آشنا ہوتا چلاجائے گا۔

محمد جسیم الدین قاسمی
 ریسرچ اسکالرشعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی
jasimqasmi@gmail.com

کیا یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے؟

مکرمی
اس میں شک وشبہ کی گنجائش با لکل نہیں کہ مدارس ومساجدبر صغیر میں اسلام کے تحفظ وبقا کے مضبوط ذرائع ہیں، ہمارےبوریہ نشیں علما و اسلاف نے جس سادگی کے ساتھ دین کی خدمت انجام دی اس میں نام ونموداور جاہ طلبی کا دور دور تک شائبہ بھی نہ تھا،لیکن مقام حیرت وتاسف ہے کہ آج انھی اکابر واسلاف کے نام نہاد پیروکار سستی شہرت وجاہ طلبی کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں خواہ ان کو اس کے لیے مدارس ومساجد کی تعمیر ،ملت اسلامیہ کی بہبوداورغربا ومساکین کی اعانت کے نام پر دنیا بھرسے بٹوری گئی زکوۃ ،صدقات اورچرم قربانی کی رقوم کو پانی کی طرح کیوں نہ بہانا پڑے ،یہی نہیں چندہ دہندگان کے سامنے اپنی مقبولیت اور اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے کسی ضرورتمند صاحب قلم کومعاوضہ دے کراپنی خدمات کا پولندہ تیارکراکے اسے ـ’متاع زندگی‘کا نام دیتے ہیں اور اس کی تشہیر کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرکے سیاسی لیڈران ہی کو جمع کرنے پر قناعت نہیں کرتے ہیں ،بلکہ اس کا اجرا کرانے کے لیے اس وزیر اعلی کے ناپاک ہاتھوں کا استعمال کرتے ہیں جس نے بارہا انسانیت کے قاتل نریندرمودی سے ملایا ہے اور حال ہی میں پورے ہندستان کوفرقہ وارانہ فسادمیں جھونکنے والے بابری مسجد کومسمارکرکے جشن منانے والے اسلام ومسلمانوں کے ازلی دشمن لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کا افتتاح اسی سرزمین سے کرایاہے جہاں لالو پرسادکے دور اقتدار میں اس کو منھ کی کھانی پڑی تھی،اس کتاب میں امت کے فلاح وبہبود کی کیا ایسی  چیزیں ہیں وہ تو قارئین ہی اس کا مطالعہ کرکے مطلع ہوںگے ،راقم الحروف نے اس کے چند اوراق کو دیکھا تو اس ’متاع زندگی‘کے مشمولات نے ماتم کرنے پر مجبور کردیا ،اس میں بیعت وخلافت کی فوٹو کاپی بھی شامل ہے،اس کا کیا مقصد ہے ؟ایک طرف  ان بوریہ نشیں عالموں سے بیعت وخلافت اور دوسری طرف اس کتاب کا اجرا انسانیت کے قاتل نریندر مودی کے دوست سے !’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘ ۔ہمارے اکابر واسلاف نے لامحدود کارنامے انجام دیے ،لیکن انھوں نے کبھی اپنی زندگی میں اس طرح کے کارناموں کانہ تو ڈھینڈورا پٹوایااور نہ جاہ طلبی کے لیے کسی سیاسی لیڈرکا سہارا لیا ۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف نے نام ونمود سے بے پروا ہوکرعلمی ودینی خدمات انجام دیں انھوں نے’نگہ بلند،سخن دلنواز ،جاں پرسوز‘کو اپنے لئے رخت سفر مانا ،نام ونمود ،جاہ و حشمت اور سستی شہرت کے تا عمر طلب گا رنہ ہوے ،ان کے تلامذہ نے حق شاگردی نبھاتے ہوئے ان کے کارناموں کو اجاگر کیااور ہونا بھی یہی چاہیے’مشک آں گوید کہ خود ببوید ‘لیکن آج علمی بے بضاعتی کے شکار چند شہرت پسند علما مدرسہ ،مسجد کی تعمیر ،اعانت غربا ومساکین کے نام پر نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک جاکر امراوروسا سے چندہ مانگتے ہیں اور جب خطیر رقم بٹور لیتے ہیں تو پھر اس کا نشہ سوار ہوتاہے اور اس وقت تک  ان کی طبیعت آسودہ نہیں ہوتی ہے ،جب تک کہ ’ان اللذین یاکلون اموال الیتامی ما یاکلون فی بطونھم الا النار‘کے مطابق پوری رقم کو اپنے پیٹ کا ایندھن نہ بنالے،راقم الحروف کی ایسے سستی شہرت کے حریصوں سے درخواست ہے کہ خدارا ملت کے نام پر مختلف حیلوں ،حربوں سے بٹوری گئی رقم سے شکم پروری کی بجائے ملت کے لئے بھی کچھ کریںاور اپنے لئے بھی رخت سفر تیار کریں۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اترجائے تیرے دل میں مری بات
محمد جسیم الدین قاسمی
ریسرچ اسکالر شعبۂ عربی ،دہلی یونیورسٹی