Monday 20 July 2020

مولانا متین الحق اسامہ اور مولانا سید محمد سلمان کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کا خسارہ

مولانا متین الحق اسامہ اور مولانا سید محمد سلمان کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کا خسارہ


ڈاکٹر جسیم الدین، شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی
ابھی مولانا متین الحق اسامہ کانپوری صدرجمعیۃ علماء ہند یوپی کی وفات کا غم تازہ ہی تھاکہ یہ خبر سن کر دل کانپ اٹھاکہ جامعہ مظاہر علوم ناظم مولانا سیدمحمد سلمان صاحب ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارنپوربھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔انا للہ واناالیہ راجعون، موت سے کسی کو مفر نہیں ہے ، ہر انسان جو دنیا میں آیاہے ، اسے ایک نہ ایک دن اللہ کے یہاں ضرور جاناہے، لیکن جب کوئی منفرد وممتاز ہستی داغ مفارقت دیتی ہے تو اس کی سیرت وصورت کے نقوش دل ودماغ میں متحرک ہوکران کی رحلت سے واقع ہونے والے خلاکا ایک عجیب احساس پیدا کرتے ہیں، مولانا متین الحق اسامہ ہوں یامولاناسیدمحمد سلمان، بلاشبہ دونوں حضرات قرن اول کے ان مسلمانوں کی جیتی جاگتی تصویر تھے ،جن کے وجود میں علم وفقر اور غیرت وحمیت سمٹ آئے تھے۔مولانا متین الحق اسامہ کانپوری اور مولانا محمد سلمان دونوں ہی اسلاف کا نمونہ تھے۔دینی غیرت وحمیت کے ساتھ ساتھ علم ومعرفت سے بھی آراستہ تھے۔وضع قطع سے لے کر نشست وبرخاست تک سنت وشریعت کا آئینہ تھے۔اس قحط الرجال کے دور میں ایسی عظیم شخصیات کا رخصت ہونا بلاشبہ قرب قیامت کی علامات میں سے ہے۔حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ راسخین فی العلم کو دنیا سے اٹھاتے جائیں گے تاآں کہ قیامت آجائے گی ۔یکے بعد دیگرے تواتر کے ساتھ اہل علم ومعرفت کا قافلہ نہایت تیزی سے دارآخرت کی طرف رواں دواں ہے، جو یہ بتارہاہے کہ آنے والا وقت امت مسلمہ کے لیے سخت آزمائش والاہے۔خدا کی زمین کا اللہ والوں سے اس طرح خالی ہونا بندۂ مومن کے لیے ابتلاوآزمائش سے کم نہیں ہے۔ مولانا متین الحق اسامہ ایک جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے لیے آلام ومصائب کی گھڑی میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، آپ جمعیۃ علما ء اترپردیش کے صدر تھے ۔مسلسل رفاہی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔حال ہی میںپورے ملک میں پھیلی قاتل وبانے جب تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کو اپنا شکار بنایا اور پھر میڈیا کی ظالمانہ کارروائی سے ان بے چاروں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا نظرآیا تو ایسے نازک وقت میں ان مظلوموں اور بے کسوں کی فریاد رسی کے لیے مولانا متین الحق اسامہ کانپوری ہی میدان میں اترے اور اس بطل جلیل نے چند ہی دن قبل تبلیغی جماعت سے وابستہ ڈیڑھ سوافراد کی ضمانت منطور کراکر انھیں سلاخوں سے رہائی دلائی ، یہی نہیں فسادات میں لٹے پٹے بے یار ومددگار افراد کی بازآبادکاری اورراحت رسانی آپ کا وتیرہ تھا۔آپ نے جہاںمسجد ومدرسہ کے وقار کو بلند کیا۔وہیں مسلمانوں کوبطور خاص اترپردیش کے اقلیتوںکو سر اٹھاکر چلنے کا حوصلہ دیا۔
دوسری طرف مولانا محمد سلمان صاحب علیہ الرحمہ کی شخصیت بھی بے مثال رہی ہے ،آپ کی نسبت جتنی عظیم رہی ،آپ نے تادم زیست اس کے وقار وآبرو کی پاسداری کی ، دنیا جانتی ہے کہ آپ شیخ الحدیث شیخ زکریا علیہ الرحمہ کے داماد تھے، لیکن اس نسبت کی وجہ سے تفاخر بالانساب کو اپنا وتیرہ نہیں بنایا ،بلکہ منکسر المزاجی کو اپنا شعار بنایا۔آپ کا وجود مسعود اس امر کی دلیل تھا کہ جس کے پاس دین کا علم ہو وہ نہ امرا کے آستانے پر جبیں سائی کرتا اور نہ بادشاہوں کی ثنا خوانی کو اپنے سجادے کی آبرو گردانتا۔وہ ان سب سے بے نیاز ہوتاہے۔آپ کا سرجھکا تو صرف قادر مطلق کے آگے جھکا، آپ اخبارواشتہار کے انسان نہ تھے ، بلکہ قرآن وسنت کے علمبردارتھے۔ راقم سطور کو بارہا آپ کودیکھنے کا شرف حاصل ہے ،دارالعلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں کئی بار سہارنپور جانا ہوا ، اسی ضمن میں جامعہ مظاہر علوم کو بھی دیکھنے کی سعادت ملی لیکن آپ کی قربت کے حصول سے محروم رہا ۔آج جب سہ پہر میں جب سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ مولاناسید محمد سلمان صاحب بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تو طبیعت اچاٹ ہوگئی اور کچھ دیر کے لیے ورطۂ حیرت میں پڑا رہا اور بار بار یہ سوچتارہا کہ یا خدا آخر یہ کیا ہورہاہے کہ ہفتہ عشرہ نہیں بلکہ ایک دو دن کے وقفے سے عظیم شخصیات رخصت ہوتی جارہی ہیں۔اورخدا کی یہ سرزمین نیک طینت اور پاکباز لوگوں سے بہت تیزی سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ 
مذکورہ دونوں شخصیات کی رحلت سے صرف ایک خاص مکتب فکر سےوابستہ افراد کا نقصان نہیں ہوا ہے ، بلکہ پوری ملت کا خسارہ ہواہے، ملک بھر میں دین کی جو حالت ہے وہ ظاہر ہے کہ اس مرتبے کے لوگ جس رفتار سے اٹھتے جارہے ہیں ، اس سے ایک ایسا خلا پیدا ہورہاہے ،جس کا پر کرنا بظاہر ناممکن ہے۔یہ دونوں حضرات اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے ، انھوں نے جس تندہی ، ذوق وشوق، انہماک واشتغال، فہم وبصیرت اور اخلاص وللہیت  کے ساتھ جس طرح دین حنیف کی خدمت کی ہے ، اس کا اعتراف دینی حلقوں میں ضرور کیا جائے گا۔اہل اللہ فقر ودرویشی کی زندگی بسر کرتے ہیںتو نمائش کی یہ دنیا ان کی عظمت ورفعت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہتی ہے، لیکن جب وہ اس دنیا کو  چھوڑکر اپنے خالق حقیقی سے جاملتے ہیںتو پھر ایک دنیا سوگوار اور اشکبار ہوجاتی ہے۔ظاہر ہے کہ ان شخصیات کو اب ہم واپس نہیں لاسکتے ہیں، البتہ جس مشن کو وہ چلاتے رہے اور جس مشن ہی نے انھیں محبوب ومحترم بنایا ، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو جاری رکھیں ، یہی ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگااور ان کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنے گا۔جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کی جس آن بان شان کے ساتھ آپ نے آبیاری کی اور نامساعد حالات میں بھی جس طرح ثبات قدمی کا ثبوت دیا وہ آپ ہی کی ذات تک منحصر ہے۔درس وتدریس سے لے کر انتظام وانصرام اور پھر دعوت وتبلیغ ودیگر شعبہ ہائے دین کو جس تندہی اور چابک دستی سے آپ تادم زیست انجام دیتے رہے ،بارگاہ ایزدی میں اسے ضرور شرف قبولیت حاصل ہوگا۔آپ کا سراپا ایک ایسے شخص کا سراپا تھا، جس میں بیک وقت کئی شخصیتیں جمع ہوگئیں تھیں، آپ کی وسعت نظر، اسلوب فکر،علم آشنائی ، ذوق ایثار اور دینی جاہ وجلال نے آپ کو جامع صفات بنادیاتھا۔آپ کی رحلت سے ملت اسلامیہ ہند ایک عظیم سپوت سے تہی داماں ہوگئی۔اللہ آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور ملت اسلامیہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔