Thursday 28 May 2020

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا    
ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ  فیکلٹی شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی،دہلی
jasimqasmi@gmail.com
9711484126
وطن عزیزکے باشندگان کے خواب وخیال میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ ان کے جنت نشاں اراضی کو کشت وخوں میں بدلنے کے لیے ماحول کو مسموم کردیا جائے گا، یہاں کی تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات نے بھی کبھی یہ سوچانہیں ہوگاکہ ان کو اپنے ہی ملک میں اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آنا ہوگا اور جب وہ صدائے احتجاج بلند کریں گےتوانھیں پابند سلاسل کردیا جائے گا۔یہی نہیں یہاں کے یومیہ مزدور کے وہم وگمان میں یہ بات نہیں پھٹکی ہوگی کہ ایسا بھی دن آئے گا کہ وہ نان شبینہ کے محتاج ہوجائیں گے اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر اسٹیشن پر ممتاکی پجاری ماں موت کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔مزدوروں نے یہ بھی نہیں سوچاہوگا کہ ان کی جہالت وناخواندگی کا خمیازہ اس طرح بھگتنا ہوگا کہ انھیں منزل مقصود تک پہنچانے کے نام پر ایسا بھونڈا مذاق بھی کیا جائے گا کہ سورت سے بہارجانے والی ٹرین کو بنگلور پہنچادیاجائے گا اور چاردن بعد پانچ دن میں وہ ٹرین  بہا رپہنچے گی، بس پر سوار ہونے والے جفاکش بندۂ مزدور کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھیں دہلی سے مرادآباد کے لیے چلنے والی بس انھیں مراد آباد نہ پہنچاکر علی گڑھ پہنچا دے گی اور وہ یہاں بے یارومددگار ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے، یہ کوئی افسانوی اور خیالی باتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ ہمارے ہندوستان کی موجودہ تصویر ہے، جو ہرکس وناکس پر عیاں ہے،  ہندوستان کا موجودہ منظر نامہ اگر کسی کی نگاہوں سے اوجھل ہے تو وہ برسر اقتدار حکمراں جماعت ہے، اقتدار کی مستی میں یہ اس طرح مدہوش ہے کہ انھیں خبر بھی نہیں ہے آنے والے انتخابات میں اقتدار سے بے دخلی کی شکل میں قیمت چکانی پڑے گی۔اگر آج حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اقتدار کے بل پر تعلیم گاہوں سے اٹھنے والی آواز کو بند کردے گی، تو یہ اس کی خام خیالی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ تعلیم گاہوں سے اٹھنے والی صدائے احتجاج نے تحریک کی شکل اختیار کی ہے اور حکومت وقت کے تختۂ اقتدار کو پلٹ دیا ہے، اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بندۂ مزدور کو ظلم وستم کی چکی میں پیس کر ان کے وجود کو نیست ونابود کردے گی تو یہ بھی اس کی نادانی ہے، ہندوستان کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل طبقہ مزدوروں کے ہاتھوں میں اقتدار کی کنجی ہوتی ہے، اگر حکومت آج انھیں بے بس وبے کس سمجھ کر جیسے تیسے ان کے حقوق کو پامال کررہی ہے تو اسے بھی اقتدار سے محرومی کی شکل میں اس کی بھی قیمت چکانی پڑے گی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اس ملک کا ہر امن پسندشہری حکومت کے موجودہ طرز عمل سے نالاں ہے، حکومت کی پے درپے ناکامی کا سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتا جارہاہے، ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہوتی جارہی ہے،تعلیمی اداروں میں بے جا دخل اندازی نے تعلیمی نظام کو مفلوج کردیا ہے، تعلیمی اداروں کی خودمختاری کو نہ صرف سلب کرنے پرحکومت  آمادہ ہے،بلکہ ان اداروں میں گرانٹ کی تخفیف کرکے تعلیم کو متمول طبقہ میں محصور کرنے کا مذموم ارادہ بھی رکھتی ہے۔جیساکہ حال ہی میں مرکزی وزیر نتن گٹکری نے فکی آڈیٹوریم کے ایک ہائی پروفائل ویبینار میں اس کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ تعلیمی اداروں کوکم ازکم پچاس فیصد گرانٹ خود ارینج کرنا ہوگا،حکومت کے بس میں نہیں ہے کہ سو فیصد گرانٹ فراہم کرے۔اسے ہم وزیر اعظم کی زبان میں اس طرح بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو بھی خود کفیل (آتم نربھر) ہونا پڑے گا۔
یہ طرفہ تماشا ہی ہے کہ ایک طرف حکومت ’میک ان انڈیا‘کا راگ الاپ رہی ہے اور دوسری طرف ہرایک کو آتم نربھر (خود کفیل) ہونے کا درس دے رہی ہے۔تعلیمی اداروں کو نجکاری کے دلدل میں دھکیل کر متوسط اور قلیل آمدنی والے طبقہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروزے بند کرکے ان کی ترقی کے دروازوں پر قفل بندی کررہی ہے۔حکومت کی ذمہ داری تو یہ بنتی ہے کہ اعلیٰ طبقات کے ساتھ ساتھ اپنے بلند وبانگ نعرے ’سب کا ساتھ،سب کا وکاس‘ پر عمل پیرا ہوکر اعلیٰ تعلیم کے نہ صرف دروازے کھولے، بلکہ ضرورت مند طلبہ وطالبات کے لیے سابقہ حکومتوں کی طرف جاری کردہ تمام اسکالرشپ کو بدستور جاری رکھے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت نے تقریباً پندرہ اہم اسکالرشپ کوٹھنڈے بستے میں ڈالدی ہے، ان میں ریٹائرڈ پروفیسر کی تعلیمی وتحقیقی تجربات سے استفادہ کو جاری رکھنے کے سلسلے میں دی جانے پروفیسر ایمریطس فیلو شپ کے علاوہ اڈوانس ریسرچ کے لیے متعدد اسکالرشپ،جیسے ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن پوسٹ ڈاکٹورل فیلو شپ، ڈاکٹر ڈی ایس کوٹھاری ہوسٹ ڈاکٹورل فیلوشپ، راجیو گاندھی  فیلو شپ فار ایس سی ایس ٹی، اندرا گاندھی وومن فیلو شپ، سوامی وویکانند ا سنگل گرل چائلڈ اسکالر شپ برائے سوشل سائنس، پوسٹ گریجویٹ اندرا گاندھی اسکالرشپ فار سنگل گرل چائلڈ، پوسٹ گریجویٹ میرٹ اسکالرشپ فار یونیورسٹی رینک ہولڈر،پوسٹ گریجویٹ اسکالرشپ  فار پروفیشنل کورس فار ایس سی ایس ٹی امیداوار،پوسٹ ڈاکٹورل فیلوشپ فار وومن، نیشنل فیلوشپ  فار ہائر ایجوکیشن، نیشنل فیلوشپ فار ڈس ایبلیٹیز،نیشنل فیلوشپ فار اوبی سی امیدوار کے علاوہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یوجی سی) کی طرف سے دیے جانے والے متعددمیجر ومائنر پروجیکٹ پر روک لگادی ہے۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مذکورہ تمام اسکالرشپ کا سابقہ حکومت میں ہرسال باضابطہ نوٹیفیکیشن ہوتا تھا، لیکن موجودہ حکومت  کی  سرد مہری یا سرکشی کی وجہ سے پچھلے تین برسوں سے یہ تمام اسکالر شپ اور پروجیکٹ  التواکا شکار ہیں۔حالاں کہ وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے سے قبل اپنے انتخابی ریلیوں میں اسی کی دہائی دیتے رہے کہ اس وقت کی حکومت (کانگریس) کے پاس نہ نیت ہے اور نہ نیتی یعنی کانگریس کے پاس کوئی معقول ایجنڈا ہے اور نہ اس کی نیت صاف ہے، لیکن قارئین کو یاد ہوگا کہ  اس (کانگریس)کی حکومت  میں تمام تر کساد بازاری کے باوجود ہندوستان معیشت کی پٹری پر تیزی سے رواں دواں تھا اور تمام علمی وتحقیقی کاموں کے لیے مختص فنڈ کو بروقت ریلیزکیاجاتارہا، اب صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کون سا طبقہ ہے جو ملک کی موجودہ صورتحال سے مطمئن ہے، تعلیمی اداروں سے جڑے اساتذہ پریشان ہیں، یومیہ اجرت پر کام کرنے والابندۂ مزدور جاں کنی کے عالم  میں ہے، تو تاجر طبقہ بھی ماتم کناں ہے۔خدا جانے یہ حکومت کن مقاصد اور عزائم کے تحت حکمرانی کررہی ہے کہ روز خوشنما وعدوں سے عوام کو بہلایا جاتاہے اور کبھی پندرہ ہزار تو کبھی بیس لاکھ کروڑ روپے مزدوروں کے ڈیولپمنٹ کے لیے مختص کرنے کا شگوفہ چھوڑا جاتاہے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات  غالب نے ٹھیک ہی کہاتھا:
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا    

Sunday 24 May 2020

بدلتے زمانے میں عید الفطر کا پیغام اور مرد مؤمن کا کام

بدلتے زمانے میں عید الفطر کا پیغام اور مرد مؤمن کا کام
ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ فیکلٹی، شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی
jasimqasmi@gmail.com
خاتم الانبیاء والمرسلین، شفیع المذنبین،سرورکونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت پرخلوص لہجہ میں اہل ایمان کو تلقین فرمائی:”لوگو! اسلام کو پھیلاؤ (سب کو سلام کرو سب کو سلامتی کی دعائیں دو) اور بھوکو ں کو کھانا کھلاؤ اور رات کو محو خواب ہونے کے بعد، نرم ونازک بستر سے الگ ہوکرتہجدادا کرو، اس  کے بدلہ میں جنت میں داخل ہو جاؤگے،یہ ہے خالق کی عبادت اورمخلوق کی خدمت۔پھر فرمایا اللہ کا شکر گزار بندہ وہی ہوتا ہے جو لوگوں کاشکر گزار ہو(مسلم)ایک جگہ اور ارشاد فرمایا اگر لوگ اپنی دعاؤں کو قبولیت کے مقام تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خدا کے بندوں کی ضروریات پوری کریں۔ 
الغرض  اسلام نے انسانی زندگی کا پورا نقشہ اور معلومات زندگی کا پورا خاکہ پیش کر دیا ہے اوریہ بھی واضح کردیا ہے کہ خدا کا یہ دین، دین اسلام، انسانیت کا مذہب ہے اوریہ مذہب، پیشہ و ر مذہبی لوگوں کے کسی طبقہ کو تسلیم نہیں کرتا اور عبدو معبود کے درمیان کسی قسم کی اجارہ داری کو حائل نہیں ہونے دیتا، ہر روح کسی پادری، پنڈت، پروہت، پیر، نیم ملا کی وساطت کے بغیر اپنے پیدا کرنے والے کی طرف صعود کرتی ہے ایک مضطرب دل کو تسکین دینے والی ہستی کے حضور میں جانے کے لیے ذاتی مفادات کے مدعیوں کی ایجاد کردہ راہوں اور رسموں کی کوئی گنجائش نہیں ہر انسان اپنا وکیل وشفیع ہے۔اسلام میں کوئی شخص کسی کو غلام نہیں بنا سکتا۔ سب خدا کے بندے اور غلام ہیں بہ حیثیت انسان سب مساوی درجہ رکھتے ہیں صرف تقوی قابل اعزاز ہے، ارشاد گرامی ہے، کلکم را ع و کلکم مسؤول عن رعیتہ(حدیث) تم میں ہر شخص راعی ہے۔ نگراں ہے اورمسؤول ہے۔ ہر ایک کو جو ابدہ ہونا ہے اپنی رعایا کے بارے میں۔
 عید الفطر اسلام کا عظیم تہوار ہے یہ تہوار خدا پرستی اوراسلامی تہذیب کا آئینہ دار ہے، عید الفطر میں فرندان اسلام کی ذمہ جو فرائض عائد کیے گئے ہیں وہ پوری انسانیت کے لیے رحمت اورسلامتی کے ضامن ہیں، امن، سلامتی، عدل، مساوات ہمہ گیر بھائی چاری عالمگیری محبت و اخوت اور فرقہ دارانہ ہم آہنگی کے روشن مینار ہیں اس عظیم تہوار عید الفطر میں فضول خرچی، رسم و رواج اور غیر معقول طرز زندگی کی گنجائش نہیں ہے، اسراف تبذیر، رنگ رقص اور لہوولعب یعنی غیر معنی کوئی فعل وعمل، عید الفطر کے مقدس پروگرام سے خارج ہیں، یا د رکھیے قومی کرداراور صحت مند معاشرہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی تعمیل سے وجود میں آتا ہے، مسلمان صحیح الفکر اور سلیم الدماغ ہوتا ہے، اور اسی صحت فکر و ذہن کی بنیاد پر مسلمان اسلام کا ترجمان بنتا ہے اوریہ مسلمان اسلام کی تصویر کی صحیح عکاسی کرتا ہے، ایک طرف اس کی بے پناہ مسرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ پوری گرم جوشی کے ساتھ رمضان المبارک کااستقبال کرتاہے، رمضان کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے تعلق مع اللہ کے ہر عنوان کو سرانجام دیتا ہے اور دوسری طرف خدا کی مخلوق خدتم اور انسانی حقوق کی ادائیگی میں سر گرم عمل ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، بیوی بچوں، قرابت داروں اوررشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا ہے، پڑوسیوں،  دوستوں، بیواؤں یتیموں، بیماروں، مسکینوں اورتمام انسانوں کے حقوق ادا کرتا ہے، سب کو خوش کرتا ہے مسرت و راحت سے ہمکنار کرتا اور دشمنوں کی دشمنی کو دوستی سے بدل دیتا ہے اس طرح انسانی معاشرہ پر مسرت و انبساط کی لہر دوڑ جاتی ہے، ماحول خوش گوار بن جاتا ہے اور عید الفطر کی خوشویں سے اسلامی تہذیب کا جلوہ فضا میں طاری ہو جاتاہے۔آئیے عید کے پس منظر بھی نگاہیں دوڑائیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ نے وہاں بھی یہ دیکھا کہ چند یوم مخصوص ہیں جن میں لہوو لعب کے مظاہرے ہوتے ہیں اورتمام متعلقہ لوگ اس میں شریک رہتے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان تہواروں کے دن ہیں جن کا سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تمارے  لیے دو دن مقرر کئے ہیں جو ان سے کہیں بہتر ہیں اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحی۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہر سال ان عیدوں کو اسلامی طریقے پر منا کر قیامت تک آنے والے حضرات کی مستقل رہنمائی فرمادی۔ احادیث میں تفصیل سے ان سب اعمال کا تذکرہ موجود ہے۔ جن کی رو سے بنیادی حیثیت اور عیدالفطر میں نماز عید اور صدقہ فطر کو حاصل ہے،  نماز عید سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے بعد حضرات خلفا ء راشدین خطبہ دیتے اورصدقہ فطر کے احکام وغیرہ سے لوگوں کو باخبر کرتے۔ صدقہ، فطر کے سلسلے میں یہ ہدایت تھی کہ جو لوگ بھی حیثیت رکھتے ہیں، اپنے اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقہ فطر نکال کر مساکین کو دے دیا کریں اور یہ اشارے بھی ملتے ہیں کہ اسے جتنا جلد ہو سکے ادا کر دیاجائے۔ اس تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ عید کے بنیادی عناصر دو ہیں۔ رب کریم کی بندگی کے  لیے سجدہ ریزہ ہونا جس کے  لیے دوگانہ عید کو واجب قرار دیا گیا اور غریبوں کی غمخواری اور باخبر گیری کرنا جس کے  لیے صدقہ، فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ ان نکات پر غور کرنے سے ہم خود بھی سمجھ سکتے ہیں کہ عید بے شک ہمارا تیوہار ہے لیکن اس کی نوعیت وہ ہرگز نہیں ہے جو دوسروں کے یہاں ان کے تہواروں کی ہے۔  اسلامی نظریہ ہر ہر قدم پر اطاعت فرماں برداری کا ہے اور اس کے  لیے اسلامی تعلیمات میں مکمل ہدایات موجود ہیں اور عید کا معاملہ بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ چنانچہ انسانی مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اسلام نے خصوصی دن متعین تو کر دئے ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ اجتماعیت کو اور اجتماعیت کے اظہار کو اچھا سمجھا گیا ہے لیکن اس کو عبادت سے ہم آہنگ کردیا گیا ہے جس میں بندگی کا بھرپور اظہار بھی ہے اور قوم کے بے کس اور بے سہارا اشخاص کا تعاون بھی ہے۔ عید کے یہی وہ بنیادی عناصر ہیں جنہوں نے اسلامی عید کو دوسرے تہواروں سے ممتاز کر دیا ہے اور اس سے اسلام کا یہ مزاج بھی ظاہر ہو کر سامنے آجاتا ہے، کہ بندگی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر حال میں مقدم ہے چاہے وہ خوشی کا موقع ہو یا رنج و غم کا۔
البتہ اسلام نے خدمت خلق اور قوم کے سہارا افراد کی رعایت کو بھی کار ثواب قرار دیا ہے اوراسے یا تو ایک فرض کی حیثیت دی ہے اور جہاں فرض نہیں ہے اس حالت میں بھی اسے بہت بڑے اجر و و ثواب والا عمل بتایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ موقع جن میں عام لوگ صرف خرافات میں بدمستی کو اصل موضوع سمجھتے ہیں، اسلام نے ان مواقع میں بھی ان چیزوں کو اہمیت اوراولیت دی ہے۔ عید کی ایک حیثیت انعام اور تحفہ کی بھی ہے۔ دن بھر اللہ کی رضا کے  لیے بھوکے پیاسے اوردوسری تمام نفسانی خواہشات سے دور ہے اور ایک دن یا ہفتہ نہیں پورا ایک مہینہ اس حال میں گزارا پھر راتوں کو سب سے پہلے تراویح میں مشغول رہ کر نماز اور قرآن سننے کی سعادت حاصل کی پھر حسب توفیق نوافل تسبیحات اور تہجد وغیرہ میں ان کاوقت مصروف رہا۔  مانگنے والوں نے خدا سے خیر و سلامتی کی دعائیں مانگیں اوراس کے فضل و کرم اور بخشش و مغفرت کے حقدار قرار پائے، صدقہ خیرات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا غرضیکہ خیر اور بھلائی کے جتنے ذرائے تھے ان سب میں پیش پیش رہے۔ عید کا دن انہیں عبادت گزاروں کا دن اوراللہ پاک کی طرف سے آج ان کو انعام دیا جانے والا ہے گو یا حقیق معنوں میں اصل عید تو انہیں کی ہے جنہوں نے رمضان کو رمضان گزارا اور بندگی کے تقاضے پورے  کیے، مگر ان کے طفیل میں دوسرے بھی اس خوشی میں شریک قرار پائے اور عید کے منانے کا حق انہیں بھی عطا کردیا گیا۔ اس موقع پر ایک بات بھی قابل توجہ ہے کہ عبادت اور نیکیاں جو رمضان میں کی جاتی ہیں، لوگ خیر اوربھلائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں او جس طرح زیادہ سے زیادہ عبادت گزار بندے بن کر اپنا وقت گزارتے ہیں یہ صرف رمضان ہی کے  لیے نہیں  ہے، بلکہ بندۂ مؤمن کا یہ شعار ہونا چاہیے کہ اس کا ہر عمل سنت وشریعت کا مظہر ہو، دوسروں کے لیے باعث کشش ہو اور وہ بندۂ مؤمن کے طرزحیات میں اپنی کامیابی وکامرانی کی جھلک پا رہا ہو، اگر ہمارے اعمال واخلاق اسوہئ نبوی کا پرتو ہوجائے تو آج بھی معاندین اسلام اپنی تمام تر ضد اورہٹ دھرمی کے باوجود ایک نہ ایک دن اسلام کے سایہ ٔ عاطفت میں ضرور آجائیں گے۔


Wednesday 20 May 2020

عالم عرب میں ہندوستانی علمی میراث کے سفیر

عالم عرب میں ہندوستانی علمی میراث کے سفیر
مولانا رحمت اللہ ندوی: مفصل تعارف
از: ڈاکٹر جسیم الدین 
گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی،دہلی یونیورسٹی، دہلی
jasimqasmi@gmail.com.
9711484126
عالم عرب میں ہندوستانی نامور علما کے علمی میراث کے سفیر مولانا رحمت اللہ ندوی نوجوان نسل کے لیے آئیڈیل اور لائق تقلید ہیں، بہت معمولی عرصہ میں آپ نے غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے، علم وتحقیق کے میدان میں آپ نے جو نمایاں مقام حاصل کرکے معاصرین  کے درمیان جو امتیازی شناخت بنائی ہے،اس میں جہاں آپ کی شبانہ روز کی سعی پیہم اور جہد مسلسل کو دخل ہے، وہیں آپ کی شخصیت سازی  میں آپ کے مشفق اساتذہئ کرام کی مثالی تربیت اور آپ کے چچا محترم مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری سینئر قاضی امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ بہار کی غیر معمولی توجہات اور دعائے نیم شبی کار فرما رہی ہے۔مولانا محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم نے نہ صرف آپ کی علمی رہنمائی کی،بلکہ آپ کی شخصیت کو بنانے سنوارے میں بھی غیر معمولی دلچسپی لی،آج مولانا رحمت اللہ ندوی جو کچھ بھی ہیں، اس میں مولانا قاسم صاحب مظفر پوری کا اہم کردارہے۔
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ  مولانا رحمت اللہ ندوی خود علم وتحقیق کے  شناور ہیں، کتب بینی ان کی غذا،تصنیف وتالیف ان کا مشغلہ اورعلمی اشتغال و انہماک روز وشب کا معمول ہے۔عربی زبان کی گہرائی وگیرائی اور اس کی نزاکتوں سے واقف ہیں۔عربی زبان کی مکمل آگہی اور اس پر دسترس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو  اردو زبان وادب سے فطری وابستگی بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مایہ ناز ونابغہ روزگار علما کی اردو تصانیف کو جہاں عربی کا جامہ پہنارہے ہیں، وہیں یہاں کے اکابر علما ومفکرین کی بیش بہا خدمات کا احاطہ عربی زبان میں کررہے ہیں، آپ اپنے اس منفرد وممتاز علم وتحقیق کی بدولت جہاں ہندوستانی علما کے محبوب نظر ہیں، وہیں اپنے فضل وکمال کی بدولت عرب علما کے بھی منظور نظربن چکے ہیں۔
راقم الحروف  نے دو سال قبل دہلی یونیورسٹی نارتھ کیمپس کی سینٹرل لائبریری میں کئی کتابوں کے مصنف محترم مولانا ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی سینئر سب اڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ساتھ مولانا رحمت اللہ ندوی صاحب کو دیکھا کہ ان کے دونوں ہاتھ گرد آلود ہیں اور وہ مطلوبہ کتابوں کی جستجو میں سرگرداں تھے، یقین جانیے مجھے آپ کو اس حال میں دیکھ کر بالکل حیرت نہیں ہوئی، چوں کہ چند سال قبل غالباً 2007-08 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں آپ کی کسی تصنیف کی رسم رونمائی کی تقریب تھی، یہاں مجھے آپ کی شخصیت سے مکمل طور پر آشنائی ہوچکی تھی کہ آپ علم وتحقیق کے کس مقام پر فائز ہیں، اس تقریب کی نظامت ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی صاحب نے کی تھی، اور مہمان خصوصی آپ کے چچا محترم مولانا محمد قاسم مظفرپوری، اورمشہور ونامور اسلامی اسکالر پرفیسر اختر الواسع وائس چانسلرمولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، پروفیسر ایمریطس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی تھے۔یہاں موجود اصحاب علم وفضل، اساطین قرطاس وقلم کی زبانی آپ کی شخصیت اور کارنامے پر مفصل روشنی ڈالی جاچکی تھی، اس لیے آپ کی علم دوستی اور تحقیق میں جانفشانی پر یہاں محوحیرت نہیں ہونا پڑا۔ہر چندکہ یہاں (دہلی یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری) پر بھی آپ کا یہ عمل آپ کے ذوق تحقیق اور علم وادب کی شناوری پر شاہد عدل ہے۔ آپ فی الحال قطر کی وزارت اوقاف سے وابستہ ہیں، ہندوستان چند دنوں کے لیے آتے ہیں،  لیکن یہاں آکر بھی آپ کتابوں کے درمیان ہی بیشتر اوقات گزارتے ہیں بطور خاص کتب خانوں میں۔آج مجھے ''خطبات مدراس'' سید القلم سید سلیمان ندوی صاحب کی سیرت پر کی گئی تقریروں کا مجموعہ کا عربی ترجمہ ''الرسالۃ المحمدیۃ'' کا ٹائٹل پیج القلم للبحث والترجمہ واٹس ایپ گروپ پر دیکھ کر بے پناہ خوشی ہوئی کہ آپ دیار عرب میں ہندوستانی علماء کے  علمی میراث کو کس شان سے منظر عام پر لارہے ہیں، آپ ٹیم ورک کو بھی تن تنہا مسلسل انجام دے رہے ہیں اور آپ کی اکثر عربی میں ترجمہ شدہ کتابیں دمشق کے دارالقلم سے شائع ہورہی ہیں۔آپ کی تصانیف میں المنثورات فی عیون المسائل المھمات (المعروفۃ بفتاویٰ الامام النووی،معدّل الصلاۃ، وجوب الطمأنینۃ والاعتدال فی أرکان الصلاۃ (تحقیق وایڈیٹنگ)،سیرۃ أم المؤمنین السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا،أشرف علی التھانوی حکیم الامۃ وشیخ المشائخ العصر فی لہند،مستدلات الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ (تخریج وتحقیق)  أدلۃ الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ علی المسائل الفقہیۃ،أدلۃ الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ علی المسائل،الفقہیۃ(مجلد ثانی وثالث) شامل ہیں، علاوہ ازیں رسائل فی الدعوۃ إلی الإسلام شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے تین رسائل(1) فضائل دعوت إلی اللہ(2) فضائل قرآن (3) فضائل نماز کے عربی  ترجمہ کی تحقیق وایڈیٹنگ کاکام انجام دیاہے۔علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے تین مشہور رسائل (1)فصل الخطاب فی مسألۃ أم الکتاب (2)کشف الستر فی صلاۃ الوتر (3)إکفار الملحدین فی ضروریات الدینکی تحقیق وایڈیٹنگ احادیث کی تخریج کے ساتھ۔ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ (سابق وزیر اوقاف پاکستان، وسابق وائس چانسلر اسلام آباد یونیورسٹی) کے مقدمہ کے ساتھ۔ 756 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دارالبشائرالإسلامیہ بیروت لبنان سے سنہ 2010ء میں طبع ہوئی۔ الطریقۃ المحمدیۃ والسیرۃ الاحمدیۃ(تحقیق وتدوین)،المدخل الوجیز إلی دراسۃ الاعجاز فی الکتاب العزیز(تحقیق وتدوین) مبادیئ فقہ القانون الدولی الإنسانی فی الشریعۃ الإسلامیۃ،(تحقیق وتدوین)، الابواب والتراجم لصحیح البخاری(تحقیق وتدوین) کے علاوہ اردو تصانیف کی بھی فہرست طویل ہے۔جن میں،وصیت اور اسکی شرعی حیثیت ،ہدیہ اور رشوت قابل ذکر ہیں۔علاوہ ازیں حال ہی میں جزء حجۃ الوداع وعمرات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (تحقیق وتدوین)مختصر الطحاوی (تحقیق وتدوین)مقاصد الشریعۃ والحیاۃ المعاصرۃ (عربی میں ترجمہ)جزء حجۃ الوداع وعمرات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (تخریج احادیث) المحدث الکبیر الداعیۃ الجلیل الشیخ محمد زکریا الکاندہلوی، حیاتہ وجہودہ العلمیۃ والتعریف بأہم مؤلفاتہ،الأبواب والتراجم لصحیح البخاری(تحقیق وتدوین) جیسی کتابیں بیروت ودمشق سے شائع ہوچکی ہیں  قرآن کریم کتاب ہدایت تصنیف کرکے مفت تقسیم کی گئی۔جو کتابیں زیر تحقیق وتالیف ہیں،ان میں تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ فی الہند للشیخ مسعود عالم الندوی رحمہ اللہ مع نبذۃ عن حیاتہ وأعمالہ ومآثرہ العلمیۃ والدعویۃ،الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ، النظام التعلیمی والتربوی للمسلمین فی الہند قدیما وحدیثا،مشہورمصنف ومحقق علامہ مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی 600صفحات پر مشتمل کتاب”ہندوستان میں مسلمانوں کا تعلیمی وتربیتی نظام تعلیم“ کاعربی زبان میں ترجمہ اورتحقیق کاکام زیرتکمیل ہے۔ آپ کا قلم جہا
ں سیال ہے،وہیں آپ کی فکربالیدہ  او رشعور پختہ ہے۔آپ کا فکر وفن آپ کو معاصرین سے ممتاز کرتا ہے، بات چاہے معلومات کی ہو یا اسلوب نگارش کی، ہرمیدان میں آپ کی انفرادیت آپ کی شناخت ہے، آپ کا اسلوب نگارش بھی بڑا البیلا ہے، آپ کی تصانیف کی ہر سطر چاشنی وشیرینیت کے ساتھ معنی خیز تعبیرات سے لبریز ہے۔ اللہ کرے زورقلم اور زیادہ۔
 اس وقت مولانا رحمت اللہ ندوی دیار عرب میں ہندوستانی علماء کے علمی میراث کی ترویج واشاعت کے سفیر ہونے کے ساتھ ہم نسل نو کے لیے آئیڈیل ہیں۔آپ نہایت خاموشی سے بڑے بڑے علمی و تحقیقی مشاریع پر پیہم کام کررہے ہیں، ہرسال قابل ذکر آپ کا علمی کارنامہ منظر عام پر آنے کے بعد شرف قبولیت حاصل کرتا ہے اور علم وادب کے شائقین کے لیے اس طرح گراں قدر سرمایہ آپ فراہم کرتے ہیں۔آپ کا جہد مسلسل اور سعی پیہم آپ کے روشن مستقبل کا غماز ہے، یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مردہ پرستی کا رواج عام ہے، زندگی میں خواہ آپ علم وفن کے کوہ گراں کو سر کردیں، لیکن اس کی ستائش کرنے والے خال خال ہی ملیں گے اور داعی اجل کو لبیک کہتے ہی متوفیہ کے فکر وفن پر تحقیق اور کارناموں کو گنوانے کے لیے قومی و بین الاقوامی سیمیناروں و کانفرنسوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اس ذہن ومزاج اور اس فرسودہ طریقہ کار کو بدلا جائے گا اور جو بھی علمی وتحقیقی کارنامے انجام دینے والی موجودہ شخصیات ہیں، ان کی زندگی میں ہی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے، بلکہ نسل نو ان کے طریق کار کو اپنانے کی تلقین بھی کی جائے. میری یہی دعا ہے کہ  اللہ تعالیٰ آپ کے علمی وتحقیقی سفر کو یونہی جاری رکھے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے علمی پس منظر سے بھی آگاہ کرایا جائے،تاکہ مولانا رحمت اللہ ندوی کی علمی شخصیت سے مکمل آگہی کے ساتھ، ان کے تعلیمی مراحل ومنازل سے بھی آشنائی ہوجائے۔مولانا رحمت اللہ ندوی نے یکم اکتوبر 1974کو ضلع مظفر پور کے ایک گاؤں مادھوپور میں علمی خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ابتدائی تعلیم اپنے گھرمیں اپنے والدحافظ محمدناظم رحمانی سے حاصل کی، بعدازاں گاؤں کے مدرسے میں مولانامحمداختراورمولاناشمیم احمدجومیرے خالوبھی ہیں،سے تعلیم حاصل کی پھرآپ کے چچا محترممشہورعالم دین حضرت مولانا قاضی محمدقاسم مظفرپوری جو مدرسہ رحمانیہ سپول بہارمیں شیخ الحدیث تھے،کے ساتھ مدرسہ رحمانیہ سپول گئے جہاں ان کی نگرانی میں باضابطہ تعلیمی سفرکاآغاز کیا۔مدرسہ رحمانیہ سپول میں ثانویہ کی تعلیم مکمل کی۔یہاں پر اپنے بڑے ابا کی نگرانی اورخصوصی تربیت میں ثانویہ درجات کی تمام درسی کتابیں پڑھیں۔وہاں فقہ،حدیث،عربی زبان،نحووصرف اورقرآن کریم کے کچھ پاروں کاترجمہ مع تفسیرکی تعلیم ہوئی آپ کے چچا محترم مولانا قاضی محمدقاسم مظفرپوری نے قاضی القضاۃ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی سے مشورہ کیا اس کے بعد مولانارحمت اللہ ندوی نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے لیے1986 میں رخت سفرباندھا۔ندوۃ العلماء میں کئی برس رہ کر علیادرجات کی تعلیم حاصل کی اورفقہ میں تخصص کیا۔1993ء تک ندوۃ العلما کی علمی وروحانی فضاؤ ں میں تعلیم وتربیت کاموقع ملا۔مختلف علوم وفنون میں یکتائے روزگاراساتذہ کرام سے کسب فیض کاموقع ملتارہا۔جن میں سرفہرست حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی،حضرت مولاناڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی،حضرت مولانا زکریاسنبھلی،حضرت مولانامحمدعارف سنبھلی،مفسرقران مولانابرہان الدین سنبھلی،حضرت مولاناشہباز احمداصلاحی،حضرت مولانانذرالحفیظ ندوی،شیخ الحدیث حضرت مولاناناصر علی ندوی لکھنوی،فقیہ الاسلام مفتی ظہوراحمدندوی،حضرت مولانا نیاز احمدقاسمی ندوی خاص طورپر قابل ذکرہیں۔ ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مولانارحمت اللہ ندوی کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں حضرت مولاناڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی کی خصوصی توجہ حاصل رہی۔ان کی خصوصی تربیت میں عربی زبان وادب کاذوق پروان چڑھا۔1991ء میں عالمیت اور1993ء میں فضیلت کی ڈگری اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ 1992ء میں انہیں مفکراسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن ندوی اورحضرت مولاناعبداللہ عباس ندوی رحمہااللہ کے ہاتھوں ’مثالی طالب علم‘ کااعزاز حاصل ہوا۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم:
مولانارحمت اللہ ندوی نے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد1994ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سعودی عربیہ میں بی اے کلیۃ الشرعیہ میں داخلہ لیا۔وہاں ممتاز طالب علم کی حیثیت سے مشہوررہے اوروہاں کے مختلف علمی وثقافتی پروگراموں میں حصہ لیا۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ان کے علمی وتحقیقی ذوق کو خوب پرواز ملی۔وہاں انہو ں نے فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن محمدالغنیمان،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبدالرازق بن عبدالمحسن العباد،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر محمدمختارالشنقیطی،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبدالسلام السہیمی،فضیلۃ الشیخ احمدحسن الحارثی،فضیلۃ الاستاذڈاکٹر غازی بن غزای المطیری سے خاص طورپر فیض حاصل کیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم:
مولانارحمت اللہ ندوی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے عربی ادب میں 2008ء میں ایم اے کیا۔اس کے بعد2012ء میں اسلامک اسٹڈیزسے ایم اے کیا۔عربی اوراسلامک اسٹڈیز میں پرائیویٹ امیدوارکی حیثیت سے امتیازی نمبرکے ساتھ ڈگری حاصل کی۔
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں بحیثیت باحث:
مولانارحمت اللہ ندوی نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعدفقیہ الاسلام حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی کی دعوت پر امارت شرعیہ پھلواری شریف آئے جہاں مرکز البحث والدراسہ والترجمہ کے باحث کی حیثیت سے اپنی علمی وتحقیقی سرگرمیو ں کاآغاز کیا۔یہاں کئی علمی پروجیکٹ پر کام کیا۔
کویت کے مخطوطات کے ادارہ سے وابستگی:
پٹنہ میں قیام کے دوران کویت میں قائم مخطوطات کے ایک سرکاری ادارہ سے وابستگی ہوئی اورہندوستان میں اس ادارہ کے نمائندہ کے طورپر کام کیا۔
دوحہ،قطر میں ملازمت:
مولانارحمت اللہ ندوی نے 1998ء میں دوحہ قطر کی وزارت داخلہ میں ملازمت اختیارکی۔وہ روزاول سے ہی وزارت کی مفوضہ ذمہ داریو ں کو نہایت ایمانداری اوروفاداری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔
رب ذوالجلال سے یہی دعاہے کہ آپ کے علم وتحقیق کا سفر یونہی جاری رہے،اور آپ کا فیض پوری دنیا میں عام ہوتارہے۔بلاشبہ آپ تصنیف وتالیف کے ذریعے اکابر علما کے علمی میراث کی نشر واشاعت اور ارتقا میں زبردست کردار ادا کررہے ہیں۔
خدا کرے یہ مرحلہ شوق تمام نہ ہو

Tuesday 19 May 2020

فقیہ النفس محدث جلیل مفتی سعید احمد پالنپوری کی رحلت



 تیری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی ،دہلی
jasimqasmi@gmail.com
9711484126
کائنات کا روز ازل سے یہ دستور ہے کہ جوبھی کارگہ عالم میں آیا ہے،اسے ایک نہ ایک دن جاناپڑے گا، لیکن بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں، جن کے وجود سے ایک انجمن آراستہ رہتی ہے اور ان کے جانے سے انجمن کی رونق ماند پڑجاتی ہے، استاذ محترم فقیہ النفس،محدث جلیل مفتی سعید احمدپالنپوری بلاشبہ ایسی شخصیت تھے کہ جن کے وجود مسعودسے دارالعلوم دیوبند کی علمی فضا معطر ومشکبار تھی، آپ کی ذات والا صفات قرن اول کی سادگی کانمونہ تھی،آپ کی طبیعت میں حلم وبردباری،مزاج میں انکساری  اورزبان میں شیرینی  تھی، آپ علم القرآن کے شیدائی،علم الحدیث کے رسیا اور فقہ اسلامی کے زمزشناس تھے، آپ کے بیان میں شیفتگی، تحریرمیں شگفتگی تھی،آپ فقید المثال اساتذ ہ کے شاگرد  اور نامور شاگردوں کے استاذ تھے، چہرہ مہرہ شرافت کی دستاویز، دل خوف غیر اللہ سے خالی، دماغ غور وفکر کا خزینہ اورآپ کا سراپا اکابر واسلاف کا نمونہ تھا۔آپ کی رحلت سے ایک فرد یا ایک خانوادہ ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ مغموم ورنجور ہے، آپ ملت اسلامیہ ہند کے لیے جہاں گراں مایہ تھے، وہیں علوم نبویہ کے طالبعلموں کے لیے چشمۂ صافی تھے۔آپ کے علم وفضل کادائرہ غیر محدود تھا، آپ کے درس حدیث کا عالم میں غلغلہ تھا۔صرف دارالعلوم دیوبند میں داخلہ پانے والوں نے ہی آپ کے علم وفضل سے استفادہ کیا، بلکہ آپ کی بیش قیمت تصانیف وتالیفات سے بلا تفریق مذہب وملت ہر خاص وعام نے کسب فیض کیا۔آپ کی  غیر معمولی علمی خدمات کے اعتراف میں صدرجمہوریہ ہند کی طرف سے ایوارڈبھی پیش کیاگیا۔بلاشبہ آپ کی ذات والا صفات ہرچندکہ اس طرح کے ایوارڈ سے بلند وبالاتھی، لیکن آپ نے حب الوطنی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ہند کی طرف سے دیے جانے والے اس اعزاز کو قبول فرمالیا تھا۔
آپ کو ذات باری تعالیٰ نے جہاں قرطاس وقلم کی بے پایاں قوت واستعداد سے سرفراز کیا تھا، وہیں آپ کی شخصیت رجال سازی کے لیے مشہور تھی، آپ نہ صرف اپنے گرد وپیش رہنے والے طلبہ کے لیے فکرمند رہتے،بلکہ طلبہ کی پوری برادری کے لیے دل دردمند رکھتے تھے، راقم الحروف نے   2001 میں آپ سے جامع ترمذی جلد اول پڑھی۔درس وتدریس میں آپ کے کچھ منفرد اصول وضوابط تھے، جن پراخیر وقت تک سختی سے قائم رہے، یوں تو آپ کا طریقۂ تدریس ہی ممتازخصوصیات کا حامل تھا، شاید ہی کوئی طالب علم آپ کے سبق سے غیر حاضر ہوتا، جامع ترمذی جلد اول کی عبارت خوانی کے لیے بھی چند طلبہ کو اپنی رہائش گاہ پر بلاتے اور فرداً فرداً عبارت خوانی کراتے اگر آواز مترنم اور پرکشش ہوتی تو زہے نصیب،ورنہ جامع ترمذی کی عبارت خوانی کے شرف سے محروم رہنا پڑتا، صرف سماعت سے مستفید ہوتے۔وقت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ بعد نماز مغرب  متصلاً درس حدیث شروع ہوجاتا، مفتی صاحب کے ورود مسعود سے پہلے تمام طلبہ کی درسگاہ (دارلحدیث تحتانی) میں اپنی نشستوں پر موجودگی لازم ہوتی، مفتی صاحب رونق افروز ہوتے اور عشاکی اذان تک تقریباً دیڑھ گھنٹہ تشنگان علوم حدیث کو اپنے منفرد اسلوب وانداز میں سیراب کرتے۔بطور خاص سال کے اختتام پر آخری سبق جو سبھی طلبہ کے لیے اپنے میدان عمل میں نہ بھلایاجانے والا سبق ہوتا، اس سبق میں آپ کا انداز وآہنگ اتنا پرتاثیر ہوتاکہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد جہاں آپ کے ارشادات کو قلمبند کرتے وہیں کچھ طلبہ ٹیپ ریکارڈکی  مدد سے ریکارڈنگ میں مصروف رہتے،اور باقی ہمہ تن گوش ہوکر میدان عمل میں اترنے کے لیے جن آلات کی ضرورت درپیش ہوتی ہیں ان کے بارے میں کیاتیاری ہو اور کس نہج پر ہو گرہ باندھ لیتے۔اس آخری سبق میں جہاں مفتی صاحب اپنے طلبہ کو بیش بہاپند ونصائح سے نوازتے وہیں مدارس کے مروجہ نظام (چندہ وغیرہ)پر کھل کر تنقید بھی فرماتے اور بطور خاص ناقص الاستعداد طلبہ سے منصب اہتمام سے خود کو دور رکھنے کا عہد وپیمان بھی لیتے، مفتی صاحب کا نقطۂ نظر یہ تھا منصب اہتمام مدرسہ آگ پر چلنے کے مترادف ہے، اگر یہ کوالیٹی آپ میں ہے تو آپ شوق سے منصب اہتمام کو سنبھالیے،ورنہ نہیں۔تبلیغی جماعت میں علماء کی شمولیت کتنا  مفید اور کتنا مضر؟ اس حوالے سے بھی پرتاثیر خطاب فرماتے کہ جو جید الاستعداد طلبہ ہوں وہ فراغت کے فوراً بعد سال بھرکے لیے دعوت وتبلیغ میں جانے کے بجائے تخصصات کے شعبوں میں وقت لگائیں، ہاں جو متوسط ہیں وہ درس وتدریس سے جڑ جائیں اور جو ناقص الاستعداد ہیں وہ مسجد سے وابستہ ہوکر اذان وامامت کی ذمہ داری نبھائیں۔ آپ جہاں علم حدیث میں ید طولیٰ رکھتے تھے،وہیں آپ علم کلام اور علم فقہ میں بھی ممتاز ومنفرد مقام رکھتے تھے۔آپ نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شہرۂ آفاق تصنیف ’حجۃ اللہ البالغہ‘ کی شرح’رحمۃ اللہ الواسعہ‘ کے نام سے تقریباً چار جلدوں میں لکھی، حجۃ اللہ البالغہ کی شرح ’رحمۃ اللہ الواسعہ‘ میں مفتی صاحب نے جس انداز میں شاہ ولی اللہ کے علوم ومعارف کی تشریح وتوضیح کی ہے وہ آپ کی امتیازی شان ہے۔
آپ فقیہ النفس تھے، فقہ جو در اصل قرآن  وحدیث فہمی کے بعد اس سے مستنبط ہونے والے مسائل کا مصدر وسرچشمہ ہے، اس میں بھی آپ کو رب ذوالجلال نے آفاقیت عطا فرمائی، آپ قدیم مختلف فیہ مسائل کو جس انداز سے تشریح وتوضیح کرتے ہوئے فقہ حنفی  کی وجہ ترجیح کو احادیث اور آیات قرآنی سے ثابت کرتے، یہ بھی آپ کا یگانہ اندازہوتا تھا، جدید مسائل میں بھی امت مسلمہ کی رہنمائی کافریضہ جس انداز میں انجام دیا، وہ بھی قابل رشک ہے، حال ہی میں ’کورونا‘ کے ختم ہوجانے کے سلسلے میں ’ثریا‘ ستارہ کے طلوع ہونے کے بعد بیماری کے خاتمہ کا سبب ہونے کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی گئیں تھیں اس کی واضح تردیدکرتے ہوئے  بہت  ہی مفصل محدثانہ خطاب فرمایا جو یوٹیوب وغیرہ پر موجود ہے۔غرضیکہ قدیم مختلف فیہ فروعی مسائل میں مضبوط رائے کے ساتھ نصوص شرعیہ کو پیش کرنے اور اختلاف کو رفع کرنے میں قسام ازل نے غیرمعمولی قدرت دی تھی۔چھ دہائیوں سے مسلسل درس وتدریس اور پچھلے اڑتالیس برسوں سے دارالعلوم دیوبند کی مسند درس وتدریس اورشیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد  2009سے بحیثیت شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی آن بان شان تھے۔آپ کا وجود ایک ادارہ، آپ کی شخصیت ایک انجمن اورآپ کی ذات ایک جماعت تھی۔کاش ابھی آپ  داغ مفارقت نہ دیتے، لیکن قدرت کے منشا کے سامنے انسان بے بس ہے۔اس مبارک ماہ میں آپ کی رحلت قابل رشک ہے،ساتھ ہی آپ کی رحلت سے نہ صرف وابستگان دارالعلوم دیوبند کا بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا جو ناقابل تلافی نقصان ہواہے، اللہ اس کی بھرپائی کرے۔رب ذوالجلال آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے۔ع
تیری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

Saturday 16 May 2020

الهند كما يصفها الدكتور محمد حسين هيكل

الهند كما يصفها الدكتور محمد حسين هيكل

د. محمد جسيم الدين
محاضر ضيف في قسم اللغة العربية بجامعة دلهي

الدكتور محمد حسين هيكل من الرحاليين الذين رحلوا إلى الهند وكتبوا عن مشاهداتهم و تجاربهم عن الثقافات الهندية وحضاراتها، فقد نال شهرة فائقة بين أقرانهم وخلف وراءه آثارا رائعة وأعمالا قيمة، لها دور في تطوير العلوم والفنون الأدبية من التاريخ والجغرافيا والرحلات. إنه زار الهند في عام 1953م، وجمع المعلومات والمعرفة عنها، ثم نسخها و رتبها في شكل المقالة في كتابه القيم "الشرق الجديد"، وقد أمضى خمسة أسابيع من 31 ديسمبر إلى 3 فبراير 1954م.
وكتب مارأى في الهند من علم وثقافة، والأماكن التاريخية، والمراكز الدينية، والمعابد الهندوسية التي زارها بالقصد وبعضها مروراً في الطريق بدون الإرادة.
لايمكن لي أن أقوم بالتركيز على جميع انطباعاته للهند في هذا المقال الوجيز، بل أريد أن أتناول انطباعاته الخاصة التي تتعلق بزيارته إلى أربعة أماكن. الأول: زيارته التاج محل وفتح بور سيكري، والثاني: زيارته مدينة مومباى ولقاؤه حاكمها وحوراه مع حاكم مومباى حول قضايا شتى مثل قضايا المرأة الهندوسية ونظام الطبقات وشأن المنبوذين وأهمية غاندي في تعميم المساوات بين الأسرة الهندوسية خاصة بين الطبقات العليا والمنبوذين وتأثيره على المجتمع الهندي. والثالث: زيارته المعابد الهندوسية الواقعة في بنارس ومواضع أخرى. والرابع: زيارته جامعة علي كره الإسلامية وانطباعاته عنها.
وإنه كان مشتاقا للغاية إلى زيارة الهند كما يذكر في كتابه: "منذ عهد غير بعيد كنا إذا ذكرت الهند حسبناها من البعد عنا بحيث لايجول بخاطر أحد منا أن يفكر في زيارتها أو يمر بخاطره أن هذه الزيارة مما يدخل في حيز الممكنات، وكان عامتنا حين يذكرون بلاد العجائب يذكرون الهند والسند وبلادا تركب الأفيال، فلما انقضت الحرب العالمية الأولى وبدأت الثورة المصرية سنة 1919م بدأنا نسمع في مصر عن أنباء حركة "المهاتما غاندي" في الهند ونرى وجوها للشبه غير قليلة بين حركتنا وحركة الاضطراب ومقاطعة البضائع الأجنبية، وعدم التعاون وماإلى ذلك من شؤون قربت في أذهاننا بين تلك البلاد وبلادنا، ودلتنا على أن ذلك  الذي كنا نتصوره من قبل من بعد بلاد الهند عنا لم يكن مرجعه إلى مايفصل بيننا وبينها من آلاف الأميال، وإنما كان مرجعه إلى جهلنا أمرها وعدم وقوفنا على شؤونها، فلما بدأنا نقف على بعض هذه الشؤون قربت منا، لأن العلم يقرب بين الإنسان ومايعرف، في حين يباعد الجهل بين الإنسان و مايجهل".
الهند تَعني بالحركة الاستقلالية:
يصف الدكتور حسين هيكل حركة الهند الاستقلالية في كتابه "الشرق الجديد" بأن حركة الهند الاستقلالية زادت نشاطا وقوة، وازددنا تتبعا لها ووقوفا على الكثير من أمرها، فازددنا قربا منها. وزاد في هذا القرب أن رأينا الهند تعني من شؤون مايجري في محيطنا بما نعني به نحن، وتشاركنا في آلامنا وآمالنا. لما ألغت تركيا الخلافة الإسلامية بعد أقصت سلاطين آل عثمان عن عرشها بدأت في العالم الإسلامي حركة تفكير قوية في هذا الأمر الذي كان يعتبر يومئذ حيويا عندجميع المسلمين وكانت جمعية الخلافة في الهند أقوى مظهر لهذه الحركة. ولم يكن ذلك عجبا ومسلمو الهند يبلغون يومئذمئة مليون ويؤلفون أكبر كتلة إسلامية في العالم كله. ولكن العجب في اشتراك الهنود غير المسلمين مع الهنود المسلمين في حركتهم هذه وتأييدهم لها حرصا على وحدة الهند وكان طبيعيا يومئذ أن تتطلع الأنظار هنا في مصر، وأن تتطلع أنظار المسلمين في شتى بقاع العالم، إلى هذه الحركة الهندية الإسلامية وإلى تأييد "المهاتما عاندي" وأنصاره من الهندوس لها، وأن يقرب ذلك بين الهند والعالم الإسلامي كله،وأن يدفعنا هذا التعاطف إلى الشعور بأن الهند ليست بعيدة عنا بقدر ما كنا نتصور. وهل يقرب بين الناس شيئ كاشتراكهم في العواطف إزاء أمر بعينه. وهذه الاشتراك في العواطف يمحو الأبعاد وإن بلغت ألوف الأميال وعشرات الألوف من الأميال.
فلما نجحت الحركة الاستقلالية في الهند زاد نجاحها في قربها منا معشر الذين يطلبون الحرية والاستقلال للشعوب جميعا، وبخاصة لأن الهند قارة أوشبه قارة كما يسمونها، ولأن استقلال أربع مئة مليون من البشر يمثلون خمس الإنسانية في مجموعها يعتبر نصرا مؤزراً وفتحا مبيناً للحرية والاستقلال وللكرامة الإنسانية ولكل المعاني الإنسانية السامية. وبدأ الغرب يكشف لنا عما في الهند من قيم روحية وخلقية عليا كما كان جهادها في سبيل الاستقلال مثلاً فذاً في تاريخ الجهاد الإنساني للحرية، وبدأنا بذلك نشعر أن هذه البلاد المترامية الأطراف ذات الماضي المجيد والفلسفة الروحية السامية جديراً  حقاً بأن نزورها وأن نشهد ما فيها وأن نقف على حاضرها وماضيها.
لذلك لم أتردد حين وجهت إلي حكومة الهند الدعوة للاشتراك في الندوة التي تعقد (عقدت) في نيو دلهي لدرس ماكان لتعاليم غاندي وأساليبه العلمية من أثر في توثيق العلاقات الإنسانية في داخل الأمم وبين الأمم بعضها وبعض، فقبلت الدعوة لأول ما عرضت علي، وأخذت أدرس حياة غاندي وتعاليمه، وأقف أثناء هذه الدراسة على شيئ غير قليل عن حياة الهند في ماضيها وحاضرها، وأهيئ نفسي على ما هناك من ألوان  الحياة ومظاهرها في هذا العالم الجديد الذي لم يتح لي من قبل أن أتصل به أو أقف عليه.
وترتب على قبول الدعوة أن عرفت أن الطائرة تقطع مابين القاهرة و بومباي في عشر ساعات وكذلك سافرت إلى الهند فقضيت بها خمسة أسابيع من 31 ديسمبر إلى 3 فبراير وفي هذه الأسابيع الخمسة شهدت الشيئ الكثير مما يسرني أن أحدثكم الأن عنه.
على أنني أبادر إلى القول بأنني لم أتنقل خلال ربوع الهند طيلة هذه الأسابيع الخمسة. فقد كانت ندوة غاندي معقودة في نيو دلهي، وكان مقررا أن يمتد انعقادها من 5إلى 17 يناير، فكان لزاما أن نقيم بعاصمة الهند طوال هذه المدة. فلما انتهت الندوة تنقلت أنا وصديقي الدكتور "أحمد متين الدفتري" رئيس وزراء إيران السابق خلال الهند طيلة الأسبوعين اللذين بقيا من إقامتنا في ربوعها. فلما فرغنا من تجوالنا السريع في أرجائها قفلنا عائدين معاً حتى نزلنا بغداد ليسافر هو منها بعد أيام إلى طهران، ولأسافر أنا منها بعد أيام كذلك إلى القاهرة.
الهند تشابه في كثير من الأوضاع بمصر:
كثيرون يظنون أن الهند بلاد جميلة كسويسرا أو كلبنان. ويغريهم بهذا الظن أن بها جبال الهيماليه حيث تقوم قمة إفرست أعلى قمة في جبال العالم. ويظن آخرون أن الهند بلاد الغابات والأدغال الموحشة التي تغطي عشرات الآلاف من الأفدنة، وأنها تحوي من الوحوش أمثال الأسد والنمر والفهد مايخافه الإنسان. يغريهم بهذا الظن ما كتبه الرحالون الإنجليز وغير الإنجليز عن صيد الوحوش في الهند وكلا هذين الظنين لايصوران الواقع من أمر الهند في مجموعها. صحيح أن الجبال تمتد في شمال الهند وتقوم حاجزا منيعا بينها وبين جاراتها من الأمم الأخرى. لكن طبيعة الهند فيما سوى هذه المنطقة الشمالية طبيعة سهلة تشبه طبيعة وادينا المصري في كثير من الأحيان، والمرتفعات التي تقوم على الساحل الهندي ليست جبالاً علية عظيمة الارتفاع، بل هي في كثير من الأحيان هضاب لايزيد ارتفاع الكثير منها على الجبال المحيطة بوادينا والتي تفصل بينه وبين صحرائنا الشرقية وصحرائنا الغربية. صحيح أن بعض البلاد بالداخل ترفع عن سطح البحر بضع مئات من الأمتار، وأن هذا الارتفاع يجعل جوها رقيقاً مقبولاً على مدار فصول السنة، لكن ارتفاعها هذا لايجعلها جبلية، بل هي أراض منبسطة تجري السيارة في طرقها مستوية مئات الأميال تنبسط عن يمينها وعن يسارها المزروعات الممرعة ويمتد البصر منها إلى الأفق فلا يقف في طريقها حائل من تل أو هضبة أو جبل إلا نادراً.
لفتت هذه الطبيعة السهلة المنبسطة نظرالكثيرين من إخواننا الذين دعوا إلى ندوة عاندي، ولفت نظرهم خصب الأرض المخضرة بالزروع النامية الممتدة إلى مدى البصر.
زيارته تاج محل وفتح بور سيكري:
يذكر الدكتور محمد حسين هيكل زيارته تاج محل وفتح بور سيكري في كتابه بهذه الألفاظ"ذهبت أنا والدكتور "رالف بانش" نزور  تاج محل في آغرا ونزور آثاراً أخرى في المدينة المهجورة "فتح بور سيكري" وآغرا تبعد عن دلهي مسافة مئة وخمسة وعشرين ميلا، و"فاتح بور سيكري" التي تبعد عن آغرا خمسة وأربعين ميلاً، وقد كان انبساط الأرض وخصبها موضع  حديثنا ونحن في السيارة".
الهند بلاد زراعية وفيرة الثروة:
أن الهند بلاد زراعية وفيرة الثروة كثيرة الخامات ولذلك كانت مطمح نظرالمستعمرين في عصور كثيرة. ولم أقف أثناء تجوالي بالهند على تلك الغابات التي تصاد فيها النمور والحيوانات المفترسة ولعل هذه الغابات تقع في مناطق محدودة لم يتسن لي أن أذهب إليها.
الأثار الهندية تجذب الأنظار:
يقول الدكتور هيكل: "إذا كانت الطبيعة أول مايأخذ بنظر السائح الغريب عن الديار فالآثار هي أشد مايجذبه ويستهويه. فالسائح القادم إلى مصر أول ما يفكر  في زيارة الهرم وأبي ابي الهول وسقارة والأقصر. حين نزلنا دلهي قيل لنا أن من جاء الهند ولم ير تاج محل لم يكن قد زار الهند. فأنت حين تذهب إلى فرنسا مثلاً فأول ما يعينك أن تشهده وأول ما يعني أهل فرنسا أن يطلعوك عليه هي الآثار الموجودة في باريس وما حولها في فرساي وفونتنبلو، وفنسين، وقصور اللوار في أواسط فرنسا.
وزيارة الآثار لايقصد بها إلى مشاهدة هذه المباني وما تحويه للمتاع بجمال العمارة وجمال ما بداخلها وكفى، بل يقصد بها إلى معنى أدق من هذا بكثير . يقصد بها إلى معرفة صلة الإنسان بالحياة والوجود في مختلف أدوار التاريخ. فالآثار المصرية القديمة تصور حياة الفراعنة وتصورهم للحياة ولما بعد الحياة. والآثار الفرنسية تصور حياة فرنسا السياسية والاجتماعية وما طرأ عليها من هزات بلغت حد الثورات أحياناً وماتقع عليه العين من آثار روما ما هو مهدم منها وما هو باق إلى اليوم، يصور حياة الرومان القديمة وتطور هذه الحياة خلال العصور إلى وقتنا الحاضر".
ويعترف الدكتور هيكل بأن الهند غنية بالآثار إلى غير حد وآثارها تترك في النفس ألواناً مختلفةً من التصور الإنساني للحياة في عصور الإنسان المختلفة. ذلك بأن الهند طرأت عليها ألوان من الحضارات استقرت فيها وتركت من آثارها ما يقف النظر بالفعل. فهناك إلى جانب الآثار  الهندوسية الأصلية- التي يرجع تاريخ بعضها إلى ألفي سنة أو أكثر- آثار المغول، وآثار الفرس، وغير هؤلاء وأولئك من المسلمين. كما أن هناك آثاراً حديثةً أقام الهنود بعضها وأقام البريطانيون البعض الآخر، وكل هذه الآثار تقف النظر وتدعو إلى أعمق التفكير.
انطباعات هيكل عن الآثار  الإسلامية الواقعة في الهند :
ويبين الدكتور هيكل بأن الهند لها الآثار الإسلامية التي يشهدها الإنسان في أرجائها المختلفة وهي المساجد والمقابر وتاج محل وهو أبهى هذه الآثار وأكثرها روعة وجلالاً، إنما هي مقبرة شادها الملك "شاهجهان" لامرأته، كما أن أهرامات مصر مقابر شادها الفراعنة ليدفنوا بها. وأنت تشهد هذه العمارات البديعة التي أقامها ملوك المسملمين في الهند ليدفنوا أو يدفن بعض ذويهم بها منتشرة في كثير من المدن. تشهدها في دلهي، وفي آغرا، وفي الكسندرا، وفي حيدرآباد وفي مثلها من المدن الكبرى ذات التاريخ المجيد في الهند وكثيرا مانرى إلى جانب هذه المساجد الفخمة مساجد مستقلة غير متصلة بها. وهي في ذلك تختلف عن مقابر المصريين المتصلة بالمساجد وتختلف كذلك عن مقابر الصالحين المتصلة بالمساجد في العراق وتركيا. فقبور الصالحين في مصر والعراق أو مقصوراتهم كما نسميها هي جزء من المسجد كما أن المقصورة النبوية جزء من المسجد النبوي بالمدينة. وعمارة المساجد تختلف بين مصر والعراق، لكن السالحين المدفونين هناك تقع مزاراتهم داخل المسجد  على حين تقع مقابر الملوك المسلمين في الهند منفردة عن المسجد، يفصل بينها وبينه طريق يختلف سعة وضيقاً.
صورة المساجد والمقابر في الهند كما رأى هيكل:
يقول هيكل بأنه لم يرى مقابر متصلة بالمسجد إلا ماكان في مسجد "حيدرآباد" على أن نظام المقابر في هذا المسجد يختلف عنه في مساجد مصر والعراق سواء منها مساجد أهل السنة أو مساجد الشيعة. فمقابر "حيدرآباد" هذه وهي ثلاثة تقع في دهليز طويل يبلغ طوله ثلاثين مترا أو تزيد، وهذا الدهليز مرتفع عن الأرض قرابة متر، مبني كله بالرخام، والقبور تتوسطه مبنية بالرخام، وقد غطي كل منها بستر من قماش كثيف، يرفعه سادن هذه القبور للزائرين ذوي المكانة من ضيوف الدولة.
فأما مساجد الهند فتختلف كذلك عن غيرها من مساجد المسلمين، ولم أر لها شبيها إلا الجامع الأموي بدمشق. فأما مساجد العراق ومساجد إستانبول فتشبه مساجدنا هنا من حيث إنها مسقوفة كلها. أما مسجد دمشق، وأما مساجد الهند فالجانب المتصل منها بالقبلة مسقوف يرتكز سقفه على عمد ثم يظل سائر المسجد مكشوفا إلى السماء متصلاً مع ذلك ببقية المسجد على أنه جزء منه. ومساجد الهند التي رأيتها حسنة البناء كلها. ولم أعن نفسي بالبحث عن أي هذه المساجد لأهل السنة وأيها للشيعة، وإن كنت قد عرفت في كثير من المدن التي زرتها أن للشيعة مساجد ولأهل السنة مساجد أخرى. وفي البعض يزيد أهل السنة على الشيعة زيادة كبرى، وفي البعض الآخر يزيد الشيعة على أهل السنة زيادة ظاهرة. ويرجع ذلك إلى التاريخ أكثر مما يرجع إلى أي سبب آخر. فقد نزل الفرس الذين جاءوا الهند بعض المدن وكثروا فيها فكانت الكثرة فيها للشيعة، بينا كثر غير الفرس من المسلمين في مدن أخرى فكانت الكثرة فيها لأهل السنة.
الأثار الهندوسية والمعابد الهندوكية في عيون هيكل:
يصف الدكتور هيكل بأن الهند تفتخر على الآثار الهندوسية المختلفة ومعظمها معابد، يرجع تاريخ بعضها إلى ألفي سنة أو أكثر. بينا أقيم البعض في عهد حديث وقد هجرت بعض هذه المعابد الهندوسية حتى تهدمت أو كادت، بينا بقي بعضها إلى اليوم عامراً. ويتعذر على من لم يدرس عقائد الهند وفلسفة هذه العقائد أن يميز بين هذه المعابد والمذهب الذي تمثله. ولقد كانت مدة إقامتي باهند قصيرة فلم أتمكن من دراسة تعاونني على هذا التمييز بين المعابد. ولكنني مع ذلك زرت الكثير منها ووقفت عند بعضه معجباً بدقة عمارته، معتجاً كذلك بما بين ألوان العبادة فيه وبين التثليث المصري القديم والتثليث المسيحي وبين التثليث الهندوسي من شبه، وإن اختلف مايرمز إليه التثليث الفرعوني والمسيحي والهندي خلافاً كبيراً. وتبعث هذه المعابد وما فيها من نشاط صورة من حياة الماضي الهندي يجعله في حكم الحاضر ونشاطه.
انطباعاته عن مدينة بنارس:
لا يخفى على أحد من الناس بأن بنارس مدينة شهيرة في الهند لكونها عاصمة دينية للهنادك. يصفها الدكتور حسين هيكل بألفاظه: "زرنا المدينة المقدسة "بنارس" الواقعة على نهر "الجانج" أو "الجانجي" كما يسميه الهنود، ومررنا بعد العشاء ببعض معابدها فألفينا العشرات بل المئات يذهبون إلى هذه المعابد ومع الكثيرين منهم مايتقربون به إلى معبوداتهم، يصنعون من ذلك ماكان يصنعه أسلافهم منذ مئات السنين أو ألوفها، ويشهدون بذلك على أن هذا الماضي مازال حياً كما كان، وأن مظاهر الحضارة الغربية لم تجن عليه في قليل ولاكثير.
وزرنا عصر ذلك اليوم معابد تشهد ألوان العبادة فيها بأن الحياة الحديثة والعلم الحديث لم يجنيا على مقدسات الماضي السحيق حين كان الإنسان يتخذ الحيوان ويتخذ الأحجار إلى الله زلفى.
زرنا بعد ذلك في "سارناث" على مقربة من مدينة "بنارس" معبد "بوذا" وآثاره. الشجرة التي يذكرون أن الإلهام أضاء أمامه بنوره وهو تحتها، والهضبة التي آوى إليها ليعبد فيها ربه، والمعبد الذي أقيم من عهد غير بعيد رسمت على جدرانه تعاليمه. ومن عجب أن البوذية التي نشأت في الهند لم يبق لها في الهند أتباع إلا قليلين، بينما ازدهرت في بلاد أخرى تجاور الهند، برما والتبت وبعض أنحاء الصين واليابان.
ومادمنا بصدد المعابد الهندية والحديث عنها فلا أستطيع أن أغفل أقربها عهداً وأقربها إلى تصوير التطور في الحياة الروحية الهندية تطوراً كان المهاتما غاندي صورته الحية. أقصد معبد "برلا" وهو المعبد الذي أقامه السري الهندي برلا في نيو دلهي وافتتحه "المهاتما غاندي". فهذا المعبد مجموعة تحتوي عدة معابد أحدها برهمي، والآخر بوذي، والثالث لمذهب آخر من المذاهب الهندية. وفي كل واحد من المعابد يرى الإنسان مكتوباً بالإنجليزية وحدانية الله، وتشير إلى ماكان يكرره "غاندي"من أن الله هو الحق، وأن الحق هو الله، وتذكر أن الخلق والحياة والانهيار والفناء مظاهر، وأن البقاء لله وحده، وأن الأرباب التي تصور الخلق والبقاء والتجدد إنما تصور صفات من صفات الله. أ ليست هذه المعاني الدينية المنقوشة على جدران هذا المعبد تمثل المعاني المشتركة في الأديان كلها.
انطباعاته عن المهاتما غاندي :
يقول الدكتور هيكل إن "غاندي" كان رجلاً متديناً شديد الإيمان بالله. طلب إليه بعضهم يوماً أن يكتب كتاباً يصور فيه فلسفته الدينية والسياسية فقال: إنني لست فيلسوفاً، ولكنني رجل عمل، فإذا عرضت لي مشكلة استخرت الله فألهمني طريقاً فسرت فيه فوفقني إلى ما أبتغيه. ليس هذا المقام مقام الحديث عن غاندي وآرائه لكني وأنا أقص مشاهداتي في الهند لابد لي من أن أذكر أنني حين قرأت حياته أخذت منها أكثر من كل شيئ بمجهوده لمقاومة عقائد تأصلت في الهند خلال عشرات القرون بل مئاتها، ونجاحه في ذلك نجاحاً منقطع النظير، حتى لقد كان أول مادار بحاطري وأنا بالطائرة في طريقي إلى الهند أن أرى مبلغ هذا النجاح. قاوم "غاندي" نظام المنبوذين، وقاوم عبودية المرأة للرجل، فكان لذلك من أتباعه منبوذون كثيرون، ونساء كثيرات. وقد سألت نفسي: أتأصل هذا في الهند فأصبح بعض عقائدها، أم تراه تطاير فعادت الهند إلى سابق عهدها قبل "غاندي".
لقاؤه حاكم ولاية مومباي:
يعبر حسين هيكل عن آرائه وأفكاره خلال لقاء حاكم ولاية "مومباي" إنه دعاه إلى طعام الغداء يوم وصوله إلى "مومباي". ويذكر هيكل في كتابه بهذه الألفاظ" فلما التقينا ودار بيننا الحديث سألته: ما شأن المنبوذين في الهند اليوم؟ وكان جوابه: لقد ألغى الدستور نظام الطبقات وقرر مساواة الهنود جميعاً. قلت: هذا حسن من والوجهة النظرية فهل انتقل الأمر إلى الحياة العملية فأصبح الناس يعاملون بعضهم بعضا وكأن لم يبق بين الطبقات فارق؟ وأجابني الرجل في صراحة: لا أستطيع أن أقول نعم. فما يزال من أهل الطبقات القديمة من لايؤمن بهذه المساواة، ولايزال منهم من يرى المنبوذين نجساً. لكني مقتنع أن هذا الاعتقاد مصيره إلى الزوال بعد أن أصبح أبناء المنبوذين يجلسون إلى جانب أبناء الطبقات الأخرى في المدارس ومعاهد التعليم، وبعد أن فتحت ابواب الوظائف الحكومية للأكفاء جميعاً بسرف النظر عن الطبقات التي ينتمون إليها، وبعد أن أصبح من حق الجميع أن يعملوا في الأعمال الحرة المختلفة، وأن يكسبوا من المال ما تؤهله لهم كفايتهم. وللتطور الاقتصادي حكم على التطور العقلي، كما أن التطور العقلي متأثر بأحوال العالم الذي تقاربت أجزاؤه. لهذا أعتقد أن هذا التمييز بين الطبقات صائر إلى الزوال عما قريب، وإن كان زواله ليس معناه ألا تنشأ طبقات أخرى أساس منشئها الثروة أو الجاه أو ما شئت من أسباب التفرقة المختلفة".
والتقينا ونحن في "بنارس" بالفيلسوف الهندي الدكتور "باجوات داسي"، وهو رجل مهيب الطلعة يبلغ من العمر آنذاك أربع وثمانين سنة، فحدثته في أمر المنبوذين، فكان جوابه غير جواب حاكم "بومباي" قال: إن محاولة القضاء على الطوائف معارضة للطبعية وللتكوين الإنساني. فقد أثبت الإحصاء في أمريكا أن ثلاثة وأربعين في الألف فقط من بين المتعلمين تعليما عالياً هم الذين يستطيعون السمو بتفكيرهم إلى مرتبة التجريد وأن غير هؤلاء من المتعلمين ومن غيرهم هم الذين يقومون بالتجارة أو بشؤون الجيش، وأن العدد الأكبر هم الذين يزاولون الأعمال الجسمانية كالزراعة والصناعة وما إليهما ومن هؤلاء من لايستطيعون من هذه الأعمال إلا أقلها حاجة للكفاية أو المهارة. وتطبيق هذا الذي قرره الإحصاء بعد ذلك يعود بك إلى تصوير الطوائف في الهند تصويراً يرجع إلى ألوف السنين. وإذا كان هذا التصوير قد فسد وأصبحت الطوائف العليا تعمل لكسب المال وهو محرم عليها فليس الذنب في ذلك ذنب الفكرة المستندة إلى تكوين الإنسان الطبيعي، بل الذنب ذنب الجماعات الإنسانية التي يهوي بها الضعف إلى درك لا يتفق وما فرضته الطبيعة بين الناس من اختلاف.
كان هذا جواب الفيلسوف الهندي الحكيم. وهو كما ترون جواب علمي لا يغير من واقع الحياة شيئا. وواقع الحياة في عصرنا الحاضر أكثر اتفاقاً مع الرأي الذي أبداه حاكم "بومباي" والذي تتجه إليه الديمقراطية وغير الديمقراطية في العصر الحديث.


أوضاع المرأة الهندية في عيون هيكل:
يذكر هيكل عن أوضاع المرأة الهندية في العصر الحديث فيقول إن تطور شأن المرأة في الهند أعظم من تطور شأن الرجال. فقد تناول التطور في أمر الرجال طائفة منهم بعينها. أما المرأة فقد دفعها التطور في كل الطوائف إلى الأمام وإلى الحرية دفعاً لايكاد الإنسان يصدقه. وكان أكبر الفضل في هذا "للمهاتما غاندي" كذلك. كانت المرأة الهندية إلى عهد غير بعيد في حالة تقرب من الرق، حتى لكانت تحرق مع زوجها حين يموت، وكانت في حياتها في مركز يكاد يكون مركز الرقيق. فلما أشركها "غاندي" في حركة المقاومة في غير عنف، وفي حركة العصيان المدني، أظهرت من قوة الاحتمال ماعجز عنه الرجال في بعض الأحيان هنالك ارتفعت الصيحة بأن للمرأة من الحق في الحياة ما للرجل، وسرعان ما انتقلت من ذلك إلى مساواته في الحقوق كلها، وفي الحقوق السياسية نفسها. ولعمري إنها بذلك لجديرة. لقد كنت شديد الإعجاب بمدام "بانديت" شقيقة الرئيس نهرو منذ رأيتها في الجمعية العامة للأمم المتحدة عام 1946م وعام 1947م، وكنت أحسبها امرأة ممتازة لايشاركها في امتيازها رجل أو امرأة. فلما ذهبت إلى الهند وأتيح لي أن اتحدث إلى بعض السيدات هناك، رأيت صورة إنسانية بالغة غاية الرقي، في تفكيرها وفي ذوقها الحياة. وزادني اقتناعاً بذلك أن شهدت بعض مظاهر النشاط النسوي في الحياة الاجتماعية وفي الحياة التربوية، لافي دلهي وحدها، بل في مدن مختلفة زرتها. وليس عجباً أن تنهض المرأة في أمة كل شيئ فيها ناهض أو متوثب للنهوض.


انطباعاته عن ازدهار الهند في العصر الحديث:
قد اعترف هيكل بتقدم الهند وازدهارها كما يقول في كتابه "الشرق الجديد"  إن الهند بلاد زراعية أرضها خصبة متنوعة الحاصلات مع ذلك تعمل الحكومة المركزية متعاونة مع حكومات الهندية لمضاعفة الإنتاج الزراعي بإقامة السدود لتنظيم الري، وتعمل في الوقت نفسه لتصنيع البلاد وتركيز الصناعات الكبرى في الأجواء الملائمة لها. والصناعة هي الوسيلة الأكيدة لشعور الأمم بمقدرتها الإنسانية على الدفاع عن نفسها. ولقد نشأت في الهند صناعات ضخمة كثيرة في مقدمتها صناعة النسيج للقطن والحرير، ومنها صناعة الحديد، والخزف، ومنها كذلك صناعة أجزاء الطائرات المختلفة. وقد زرت المدرسة التي يتعلم فيها الهنود صناعة الطائرات على يد أساتذة من الألمان ومن السويديين ومن غيرهم فأثارت غاية إعجابي. وإذا لم تكن قد بلغت بعد أن تصنع محركات الطائرات فإن تقدمها المطرد يبشر بأنها ستبلغ أن تصنع هذه المحركات في زمن قريب.
انطباعاته عن الحركات العلمية:
و في جانب آخر يعترف هيكل بأن جماعة كبيرة من الهنود أصبحوا خبيراً في البحوث العلمية المتقدمة في الزرة وصناعة الصواريخ والطائرات الجوية بالجودة العالية كما يقول: "لست فيما أذكر من ذلك مبالغا في التفاؤل، فإن نشاط الحركة العلمية في الهند يدعو إلى الإعجاب، بل يدعو إلى الدهشة، وقد كانت هذه الحركة العلمية أشد ما أثار اهتمامي مدة مقامي في الهند. لذلك زرت كل جامعة استطعت زيارتها في البلاد التي مررت بها، وتحدثت إلى الأساتذة والطلاب فيها. وأشهد لقد أدهشني ما رأيته في بعضها من تجارب علمية بالغة غاية الدقة".
انطباعاته عن جامعة علي كره الإسلامية:
إن حسين هيكل قد تأثر كثيرا بزيارة جامعة علي كره الإسلامية كما يقول: "كثيرا ما سمعت عن "جامعة عليكره" أو "أليجار الإسلامية" كما يسمونها بالإنجليزية، وقد ذهبت لزيارتها مع صديقي الدكتور "متين دفتري" بدعوة من مديرها الدكتور "ذاكر حسين" وكان أكبر ظني أن هذه الجامعة الإسلامية تعني بالدراسات الإسلامية المختلفة ولاتتعداها. فلما بدأنا زيارتها لم يتغير هذا الظن في نفسي. فقد كان مسجد الجامعة أول ما سار بنا الدكتور "ذاكر" إليه. ثم إننا زرنا مكتبة الجامعة ورأينا فيها الكثير من الكتب العربية والفارسية ومن المخطوطات القديمة فلم يغير ذلك من ظني الأول كثيراً. لكنني لم ألبث حين انتقلت مع الدكتور "ذاكر" إلى أقسام الجامعة العلمية أن تغير ظني من أساسه. فهذه الأقسام العلمية في الطبيعة والكيمياء والرياضة العليا وغيرها تتناول أدق مشاكل العلم في الوقت الحاضر. وبعض هذه الأقسام مما رتب للبحث العلمي ينقطع له من أتموا دراساتهم العليا ويصلون فيه إلى نتائج تفخر بمثلها أكبر الجامعات في أوربا وأمريكا، ويشرف عليها بعض العلماء الأمريكان. وحسبي أن أذكر لكم من هذه الأبحاث محاولة ناجحة لقياس الضغط الجوي على ارتفاع مئة ألف قدم وآثاره الكهربية على ألواح تعد خصيصاً لهذا الغرض وترسل في الجو على مناطيد صغيرة تسجل الآلات الدقيقة فيها هذه الآثار الجوية العجيبة. وقد شهدت مثل هذه الأبحاث في معاهد جامعة "بنجلور" وفي غيرها من الجامعات التي زرتها. و كان أكبر اهتمامي في هذه الزيارات الجامعية أن أبحث الوسيلة التي تستطيع البلاد الشرقية، وتستطيع الهند معها أن تتبادل من ألوان التعاون العلمي والثقافي والفلسفي ما يزيد روابطها قوة إذ يجعل أبناءها اكثر معرفة بما في غير بلادهم من اتجاهات وأبحاث. ولقد شعرت بأن هذا الموضوع ليس من اليسر بما يتصور الإنسان. قال أحد الأساتذة في جامعة "بنجلور" بأن بحثاً كهذا البحث جرى لتقريب أجزاء الكمنولث البريطاني من "بنجلور" مع سير  "صمويل رانجادان" والسيد "جوردون" في هذا الموضوع وذكرت لهما ما عرض من اقتراحات بعقد مؤتمرات وتبادل أساتذة وطلاب وتبادل مؤلفات وبحوث فتمنيا لي النجاح في المحاولة التي أعالجها وإن بدأ عليهما شيئ من الشك في هذا النجاح. وكم أود لو استطاع رجال جامعتنا وعلماؤنا أن يتناولوا هذا الموضوع بالبحث فيما بينهم. فالصلات العلمية والأدبية والفنية بين الأمم هي التي تكفل ارتباطها بأوثق رباط.      
خلاصة المقال:
كان الدكتور محمد حسين هيكل حريصاً على وصف انطباعاته وآرائه عما كان يرى أو يسمع أو يشاهد وأهم وصفه في الكتابة هو إحساسه وشعوره وما اعتلج في قلبه من الأفكار النادرة. ويتجنب كل الاجتناب في كتابة المذكرات خلال الرحلات ماذا أكل من المآكل وماذا شرب من المشروبات وماذا لبس من الملبوسات، بل دائماً يركز على أن يكتب ما يكون نافعاً للمجتمع الإنساني ويأتي بأفكار قيمة كما تتجلى في كتبه القيمة عامة وعلى الأخص في كتابه "الشرق الجديد".
لم يكن متصومعًا على نفسه، يحلق بفكره في أبراج عاجية تنأى عن هموم الناس ومشاكلها اليومية، بل كان رجل فكر وحركة، فكما كان يكتب في الفلسفة والتاريخ والأدب، كان في ذات الوقت رائدًا من رواد العمل السياسي العام في مصر الحديثة، يكافح من أجل استقلال مصر، وقد توفي الدكتور هيكل عام ١٩٥٦م.

المصدر والمرجع:
هيكل،محمد حسين: الشرق الجديد، دار المعارف القاهرة، الطبعة الثانية 1990م
(هذه المقالة نشرت في "الدعي"مجلة عربية إسلامية شهرية الصادرة من دار العلوم، ديوبند، جمادي الأولى 1441 المصادف يناير 2020،العدد:5، المجلد:44 ) 

Friday 15 May 2020

الدكتور ظفر الإسلام خان ورحلة حياته العلمية والثقافية

الدكتور ظفر الإسلام خان ورحلة حياته العلمية والثقافية
 الدكتور جسيم الدين
محاضر ضيف في قسم اللغة العربية بجامعة دلهي
9711484126
الدكتور ظفر الإسلام خان نجل العالم والمفكر الإسلامي الكبير الشيخ وحيد الدين خان، ويحظى مثل والده العظيم باحترام كبير في مجالات العلم والبحث والصحافة، ولكنه لم يستخدم مكانة والده العلمية وشهرته التي طبقت الآفاق لكسب هذا الاحترام، كما يفعله بعض الناس، وإنما صنع نفسه بنفسه، واختار طريقه الخاص ونهجه المتفرد ليبنى لنفسه شخصية مستقلة، وبذل جهودا مضنية في استكشاف آفاق جديدة والوصول إلى مرتفعات عالية وشامخة. فهو صحافي شهير وكاتب قدير ومثقف بارز، له مساهمات جليلة في مجال التأليف والترجمة والنشر والصحافة العربية والأردية والإنجليزية في الهند وخارجها. ولد السيد ظفر الإسلام خان عام 1948م في بيت علمٍ وتقوى بمدينة أعظم گره بشمال الهِند، وتلقى تعليمه المبكِّر في إحدى مدارسها التقليدية (مدرسة الإصلاح) ثم التحق بدار العلوم ندوة العلماء في مدينة لكناو حتى حصل على شهادة العالمية عام 1966م. قبل أن يقصِد القاهرة للدراسة في جامعة الأزهر، ثم للحصول على الماجستير في التاريخ الإسلامي من كلية دار العلوم جامعة القاهرة عام 1978م، وبعد ذلك رحل إلى بريطانيا لنيل درجة الدكتوراه في الدراسات الإسلامية من جامعة مانشستر عام1987م.
وساهمت رحلة الطلب التي دامت حوالي عشرين عامًا خارج حدود شبه القارة الهندية، في تشكيل مزاجه العلمي وبناء شخصيته وتعيين أولوياته في الحياة، إذ شَهِد كل اللحظات المفصلية والحرِجة في تاريخ الحركة الإسلامية خلال هذين العقدين.
وفي أثناء ذلك تعدَّدت خبراته وتنوَّعَت الوظائف التي شغلها. فهو تارة مذيع ومترجم للنشرة الأُردية بالإذاعة المصرية (1972-73م)، وتارة مُترجمٌ في الخارجية الليبية (1973-79م)، وتارة أستاذ زائر بجامعة الإمام بالرياض (1992م)، وتارة محاضر في الجامعة الملية الإسلامية في نيودلهي (1991م). وبعد استقراره في الهند مطلع التسعينيات أسس معهد الدراسات الإسلامية والعربية، وترأس تحرير مجلته العلمية باسم "وجهات نظر إسلامية وعربية" (Muslim & Arab Perspectives) منذ عام 1993م، ومجلة التاريخ الإسلامي (Journal of Islamic History) التي يُصدِرها في نيودلهي منذ 1995م باللغتين العربية والإنكليزية.
وكذالك ساهم الدكتور خان بعدَّة مقالات في دائرة المعارف الإسلامية، التي تصدُر في ليدن بهولندا؛ عن تاريخ الإسلام وأعلامه في شبه القارة الهندية. وقد ألف وترجم نحوًا من خمسين كتابًا باللغات العربية والإنكليزية والأردية، ونشرت كتبه في القاهرة ونيودلهي ولندن وبيروت والكويت. ومن كتبه الإنكليزية المشتهِرة: الهجرة في الإسلام (نيودلهي 1996م) والوثائق الفلسطينية (نيودلهي 1998م).
و بالنسبة لمساهمته في مجال الترجمة إلى العربية فقد قام بترجمة أهم الكتب التي ألفها والده حول الموضوعات المختلفة ومنها: "مذهب اور جديد جيلينج" عنوانه بالعربية "الإسلام يتحدى" وهذا الكتاب قد ظهرت له عدة طبعات في العالم العربي. وكتاب مهم آخر وهو "تجديد دين" وعنوانه بالعربية "تجديد علوم الدين". وكتاب ثالث وهو "مذهب اور سائنس" يعرف هذا الكتاب بالعربية باسم "الدين في مواجهة العلم" ولهذا الكتاب ظهرت عدة طبعات أيضاً.
وهو ضيفٌ شبه دائم على عدَّة منابر إعلامية، منها قنوات الجزيرة وبي بي سي والعربية؛ للتعليق على شؤون المسلمين في جنوب آسيا. وبالإضافة إلى ذلك حرر عدَّة مجلات ودوريات علمية وثقافية، وعَمِل مُراسلًا لصحف عديدة منها الحياة اللندنية (1992-1993م) وعرب نيوز في جدة (1994-1998م) وصحيفة الرياض (1999-2006م)، إضافة إلى رئاسته وعضويته عددًا من المحافل الإسلامية والمؤسسات الخيرية في شبه القارة.
كما أنه أسس جريدة ملّي غازيت -الناطقة بالإنكليزية- في ديسمبر 2000م، لتكون لسان حال مائتي مليون مسلم يعيشون داخل جمهورية الهند. وبعد أن بدأت طبعتها الورقية بالصدور في 16 صفحة فقط، زادت إلى 32 صفحة تُطبع بالألوان ابتداءً من 2009م. لكنها في عام 2012م اضطرت إلى تخفيض عدد صفحاتها إلى 24 فحسب، للحد من خسائرها.
وقد كانت أعدادها الورقية تصل مُهداةً إلى المثقفين والأكاديميين والنشطاء والإعلاميين (الإسلاميين منهم على وجه الخصوص) في مصر وشتى أنحاء العالم العربي، رغم الصعوبات التي كانت تُعانيها في الصدور. إذ ارتبط الدكتور ظفر الإسلام بمصر والعرب ارتباطًا عاطفيًا وثيقًا مُنذ تلقَّى تعليمه العالي بالقاهرة أواخر ستينيات القرن العشرين.
كان الدكتور خان يطمح في أن يصِل صوت مُسلمي الهند عبر جريدته إلى الملايين خارج شبه القارة، خصوصًا وأن أخبار مُسلمي الهند وأحوالهم يتم تجاهُلها عمدًا من كل صُحف شبه القارة الناطِقة بالإنكليزية أو الهندية، فلا تُنشَر إلا في الصُحف الناطِقة بالأردية، والمحدودة الانتشار بطبيعتها. لكن ما كان بوسع هذا العمل الطموح الاستمرار طويلًا بغير موارِد، خصوصًا وقد عَدِم الدعم الداخلي من مسلمي الهند لهذه الصحيفة الجريئة، والتي مثَّلَت لسان حال المستضعفين، بل تجاوزت اهتماماتها نطاق شبه القارة وصولًا إلى تبني القضية الفلسطينية، ومحاولة تعرية مزاعِم الغرب بالحرب على الإرهاب.
وهو اﻵن يرأس جمعية "شاريتي أليانس" ( (Charity Alliance الخيرية الهندية، والتي تعمل للنهوض بأوضاع مسلمي الهند، وخصوصًا في مجال مساعدتهم على مواصلة التعليم، وتوفير الدعم لهم في مواجهة الارتداد عن الإسلام في الأقاليم التي تنشط فيها جمعيات التنصير والهندكة. وبسبب حجم نشاطاته واهتماماته الإسلامية داخل شبه القارة الهندية؛ فقد اختير في يناير 2004م أمينًا عامًا لمجلس المشاورة الإسلامي لعموم الهند، والذي يُمثِّل اتحادًا للمنظمات والجمعيات والأحزاب الإسلامية في جمهورية الهند. ثم انتُخِبَ رئيسًا للمجلس (2008–2009م)، ثم عُين رئيسًا له بالنيابة خلال عام 2011م، ثم انتخب مرة أخرى رئيسًا للمجلس (2012–2013م)، وتكرر انتخابه للرئاسة في 2014- 2015م. وهو أيضا رئيس لجنة الأقليات في ولاية دلهي (هيئة دستورية) من يوليو 2017م.
اتهامه بإثارة الفتنة:
في 28 أبريل 2020، نشر الدكتور ظفر الإسلام خان تدوينة عبر صفحته على الفيسبوك عبر فيها عن شكره لدولة الكويت لوقوفها إلى جانب مسلمي الهند وانتباهها إلى ما يتعرضون له من اضطهاد، وقال فيها "يعتقد الهندوس المتشددون أن العالم العربي لن يهتم بما يعانيه المسلمون في الهند من اضطهاد. إنهم نسوا أن المسلمين الهنود يتمتعون بمكانة كبيرة في العالم العربي وبين مسلمي العالم أجمع، لدورهم في خدمة القضايا الإسلامية على مر العقود"، مشيرا إلى أن الشخصيات الإسلامية الهندية من أمثال ولي الله الدهلوي ومحمد إقبال وأبو الحسن الندوي وذاكر نايك تحظى باحترام كبير في العالم العربي والإسلامي". وخاطب الهندوس المتطرفين قائلا "أيها المتعصبون، اختار المسلمون الهنود حتى الآن عدم تقديم شكوى للعرب والعالم الإسلامي حول ما يعانونه من حملات كراهية وحالات قتل وإعدام وأعمال شغب". وأكد أنه في حالة اضطرار مسلمي الهند لتقديم شكوى للعالم الإسلامي، سينهار المتعصبون الهندوس.
أثار المتشددون الهندوس جدلا كبيرا حول هذه التدوينة التي نشرها الدكتور ظفر الإسلام خان، واتهموه بتحريض دول أجنبية على محاربة الهند مطالبين باعتقاله وزجّه في السجن، ووجهت الشرطة رسميا تهم انتهاك الدستور وإثارة الفتنة إلى الدكتور خان، وقامت بمداهمة منزله في نيودلهي بتاريخ 6 مايو قبيل موعد الإفطار لتأخذه إلى مقر الشرطة لاستجوابه، وأيضا للاستيلاء على حاسبه الآلي وهاتفه المحمول الذي استخدمه لنشر ما كتبه على مواقع التواصل الاجتماعي، ولكن الشرطة فشلت في مرامها بسبب تجمع المسلمين المحليين بأعداد كبيرة واحتجاجهم على مداهمة الشرطة لمنزل شخصية محترمة تتولى منصبا دستوريا دون إشعار مسبق، وتدخل النائب المحلي المسلم أمانة الله خان الذي يمثل المنطقة في مجلس دلهي التشريعي، وأيضا استدلال محامية الدكتور خان بأن الأنظمة المعمول بها لا تسمح للشرطة بإرغامه على الذهاب إلى مقر الشرطة أو أي مكان آخر غير منزله نظرا لعمره البالغ 72 عاما ومخاطر احتمال الإصابة بفيروس كورونا المستجد. وهناك أيضا دعوى رُفعت ضده أمام محكمة دلهي العليا للمطالبة بعزله من منصبه الدستوري كرئيس للجنة الأقليات بدعوى مخالفته للدستور من خلال دعوته لدول أجنبية للتدخل في شؤون الهند الداخلية.
أدعو الله –عزوجل- أن يبارك في حياة الدكتور ظفر الإسلام خان ويحفظه عن الشرور والفتن في هذا الشهر المبارك.