Sunday 14 June 2020

صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ پروفیسر ولی اختر ندوی کی رحلت

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہارکے
پیدائش: 3جولائی1968
وفات: 09 جون 2020 
ڈاکٹر جسیم الدین
jasimqasmi@gmail.com

 مشفق ومکرم استاذ محترم، عربی زبان وادب میں نمایاں خدمات کی بنیاد پر صدرجمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز،شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے مایہ ناز پروفیسر، استاذ الاساتذہ ڈاکٹر ولی اختر کے انتقال پر ملال کو چھ دن گزر چکے ہیں، لیکن طبیعت اس قدر مغموم اور بجھی ہوئی ہے کہ کچھ سپرد قرطاس کرنے میں خود کو بے بس محسوس کررہا ہوں، کئی بار کچھ لکھنے کی کوشش کی، لیکن ایک پیرا گراف بھی نہیں، بلکہ دو چار سطور قلمبند کرتے ہی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور دل پارہ پارہ ہونے لگتاہے اور سلسلہ موقوف کرنا پڑتا ہے، ایسا محسوس ہوتاہے کہ ذہن واعصاب نے ساتھ دینا چھوڑدیاہے، اپنی چونتیس سالہ زندگی میں کبھی بھی میں اس طرح جگر پارہ نہ ہوا، جس طرح استاذ محترم کے سانحہئ ارتحال پر دل فگار ہوں،آج جب برادر مکرم ڈاکٹر عبد الملک رسولپوری استاذ شعبۂ عربی ذاکر حسین دہلی کالج نے یہ پیغام بھیجا کہ:”سر(پروفیسر ولی اختر ندوی) کے تعلق سے کوئی تاثراتی مضمون قلمبند کیا ہو، تو ارسال فرمائیں“۔اس پیغام کو پڑھنے کے بعد کچھ لکھنے کی ہمت جٹائی ہے، اور کچھ قلمبند کرنے کے لیے طبیعت کو آمادہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ استاذ محترم پروفیسر ولی اخترسرکے ساتھ گزرے ہوئے لمحات بارہ برس پر محیط ہیں، جن میں دو سال ایم اے میں بحیثیت نووارد طالب علم عربی سے انگلش ترجمہ کی کلاسیزمیں جو لگاتار دوگھنٹوں پر مشتمل ہواکرتی تھیں۔اور پانچ سال بطور پی ایچ ڈی اسکالرآپ کی نگرانی میں اور پی ایچ ڈی کے بعد پھر ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن پوسٹ ڈاکٹورل فیلو یوجی سی کی حیثت سے تین سال اور بحیثیت گیسٹ فیکلٹی دوسال۔بارہ برس کا عرصہ کوئی معمولی نہیں ہے، اس طویل عرصے میں سر کو بہت ہی قریب سے جانا اور پہچانابھی۔یہاں یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، میری کوشش ہوگی کہ میں نے جیسا ان کو پایا، ویسا ہی سراپا پیش کروں۔ایم اے میں جب ترجمہ کی کلاس میں حاضری ہوئی تو تعارف کراتے ہی جب سیتامڑھی کا نام لیا تو فوراً چونکے سیتامڑھی میں کہاں؟ میں نے کہاکہ سیتامڑھی ضلع کے نانپور بلاک میں واقع ددری گاؤں کا ہوں۔ تو سر نے مسکراتے ہوئے کہاکہ میں بھی سیتامڑھی کا ہوں، لیکن کلاس میں اس بنیاد پر کوئی ہمدردی نہیں رہے گی۔یہاں آپ محنت سے پڑھیں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔مجھے بھی سر کی یہ بات بے حد پسند آئی اور ان کے یہ پوچھے جانے پر:’محنت کریں گے نا؟‘ میں نے ہامی بھری اور کلاسوں کی پابندی کی۔ایم اے کے سال میں مجھے دہلی یونیورسٹی میں ہاسٹل بھی مل گیاتھا، اس لیے بھی کلاس کی پابندی میں آسانی رہی، اسی دوران ایک بار جوبلی ہال دہلی یونیورسٹی سے متصل مسجد ’پٹھان والی‘خیبر پاس میں بعد نماز جمعہ میں نے استاذ محترم پروفیسر ولی اختر اور ڈاکٹر نعیم الحسن صاحبان کوظہرانے کی پیش کش کی، سر اولاًانکار کرتے رہے، لیکن میرے پیہم اصرار کے سامنے انکار کی گنجائش نہیں رہی، ہاسٹل کی صفائی ستھرائی دیکھ کر سر کافی متاثر ہوئے اور ظہرانہ تناول فرمانے کے دوران مفید باتیں بھی ہوتی رہیں۔ ایم اے میں دوران درس عربک ٹیکسٹ ریڈنگ میں جہاں عربی قواعد و محاورات کی بہترین وضاحت فرماتے، وہیں ترجمہ کے تکنک کو بھی نہایت سہل انداز میں سمجھاتے۔
 بلاشبہ آپ ایک قابل فخر، کہنہ مشق، طلبہ کی نفسیات کو سمجھنے والے ایک کامل استاذ تھے، خوش نصیب ہیں وہ تمام طلبہ وطالبات جن کو آپ سے استفادے کا موقع ملا۔طلبہ وطالبات کے درمیان مقبول ترین اساتذہ میں آپ کا شمار تھا، آپ کے شخصی رعب، علمی مقام اور وجاہت کی وجہ سے طلبہ اگرچہ آپ سے بے تکلفانہ گفتگو نہیں کرپاتے تھے، لیکن سبھی طلبہ وطالبات دل وجان سے آپ سے محبت کرتے تھے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے یہ علمی تفوق، بلند مقام، عوم وخواص کے درمیان مقبولیت ومحبوبیت اور ملک بھر کی متعدد جامعات میں سلیکشن کمیٹی کی رکنیت کسی بیساکھی کے ذریعہ حاصل نہیں کی، بلکہ اس کے پیچھے صرف اور صرف اللہ کا فضل وکرم اور آپ کی مفوضہ ذمے داری کے تئیں جفاکشی، وقت کا صحیح استعمال اور روزو شب جہد مسلسل اور سعی پیہم کارفرما رہی۔ ایم اے سال مکمل کرنے کے بعد آپ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن ہوا، اس دوران میں نے جے آر ایف کوالیفائی کیاتو سر بے حد خوش ہوئے اور کہاکہ یوجی سی فیلوشپ اس لیے مہیا نہیں کرتی آپ آرام سے کھا پی کر موٹے ہوتے رہیں، بلکہ آپ اپنی مطلوبہ وپسندیدہ کتابیں خریدیں اور پڑھنے لکھنے میں جن وسائل کی ضرورت درپیش ہوتی ہیں ان کی حصولیابی میں آپ کو کوئی دشورای کا سامنا نہ کرنا پڑے، اورآپ مالی تنگی کا سامنا کیے بغیر پرسکون انداز میں ریسرچ کریں۔سر کی یہ باتیں مجھے بے حد پسند آئیں اور وہ گاہے بگاہے یہ پوچھتے بھی رہتے کہ اس مہینے میں کونسی کتاب خریدی،لائبریری سے کن کن کتابوں کی فوٹو کاپی کرائی؟ جب بھی میں فیلو شپ کی رقم کی حصولیابی کے لیے فارم پر دستخط کرانے کے لیے حاضر خدمت ہوا، فوراً فرماتے کہ کام دکھائیے اگر کچھ کام بروقت دکھاتا تو ٹھیک اسی وقت دستخط فرمادیتے ورنہ ہفتہ عشرہ میں کچھ نہ کچھ متعلقہ موضوع پر مواد دکھانا پڑتا پھر دستخط فرماتے۔ایک بار سر تقریباًپندرہ بیس دنوں کے لیے اپنے وطن مالوف (ضلع سیتامڑھی میں بیرگنیا بلاک کے تحت واقع بھکورہر گاؤں) چلے گئے اور اس دوران مجھے ان سے کئی کاغذات پر دستخط کرانے تھے، سرنے وطن مالوف سے دہلی آتے ہی  فون کیا کہ آج جمعہ ہے اگر ضروری ہے  توگھر آکر دستخط کرالو، میں دہلی آچکا ہوں۔ قابل ذکر ہے کہ جب میراایم اے میں داخلہ ہوا تواسی سال آپ صدر شعبہ بنے۔صدر شعبہ بنتے ہی آپ نےدہلی یونیورسٹی کے سبھی کالجز میں عربی زبان وادب کی تعلیم شروع کرانے کے لیے سلسلے وارتمام کالجز کے پرنسپلوں کو خطوط لکھے، دو تین کالجز سے مثبت جواب آنے پر بے پناہ خوش ہوئے، اسی سلسلے کی ایک کڑی سینٹ اسٹیفنز کالج میں سرٹیفیکیٹ، ڈپلومہ او رایڈوانسڈ ڈپلومہ کی شروعات آپ کی رہین منت ہے۔آپ نے سینٹ اسٹیفنز میں عربی کے پارٹ ٹائم کورسیز شروع کرانے میں غیر معمولی دلچسپی لی اور یہاں لاک ڈاؤن سے پہلے تک کلاسیز لیتے رہے۔ جب میرا  پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن ہوا، اسی سال استاذ محترم پروفیسر کے عہدے سے سرفراز ہوئے میری بھی دیرینہ خواہش تھی کہ سرکے نام سے پہلے پروفیسر لکھوں، چوں کہ رجسٹریشن کے وقت جب میں نے سیناپسس پر پروفیسر لکھدیا تھا تو سر نے کاٹ دیا اور کہاکہ ابھی آفیشیل لیٹر نہیں موصول ہوا ہے، جب ہوجائے گا تب لکھنا۔خیر میں جمعہ کو عصر مغرب کے درمیان سر کی رہائش گاہ پر حاضر ہوگیا، حسن اتفاق کہ میری شریک حیات بھی ساتھ تھیں، ڈور بیل بجائی تو امینہ غالباً اس وقت پانچ چھ سال کی رہی ہوں گی،ڈور کھولا اور کہاکہ آجایئے، سر لنگی اور بنیان زیب تن کیے کرسی پر بیٹھے سامنے کمپیوٹر پر کچھ کام کررہے تھے اور بڑے صاحبزادے حماد گردان سنارہے تھے، میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے سر نے کہا کہ تمھاری شادی ہوگئی ہے اور فیلوشپ بھی مل رہی ہے تو وائف کو ساتھ کیوں نہیں رکھتے،میں نے کہاکہ سر ساتھ میں آئی ہوئی ہیں،سر بولے کہ کہاں ہیں؟ میں نے کہاکہ مجھے تو صرف دستخط کرانے تھے اس لیے ان کو دروازے  پر انتظار کرنے کو کہاہے، یہ کہتے ہی سر بھڑک گئے  اور کہاکہ  پاگل ہو، بلاؤ انھیں، جب میں نے بلایا تو سر نے امینہ کو بلاکر فرسٹ فلور پر امینہ کی والدہ کے پاس بھیج دیا اور مجھے اپنے پاس بٹھالیے، چائے ناشتے کے بعد دستخط کردیے اور کہاکہ پہلی بار تمھاری وائف آئی ہے، اس لیے ماحضر تناول کرکے واپس جانا، اس دوران مجھے وقت کے صحیح استعمال کی تلقین کرتے رہے اور عشا کی نماز سے قبل عشائیہ کھلاکر واپس کیے۔سرکی یہ الفت وعنایت دیکھ کر میں گرویدہ ہوگیا۔دیکھتے دیکھتے میری پی ایچ ڈی بھی ہوگئی، ہرچندکہ بارہا گھر بلاکر سر نے پچاس پچاس صفحات ایک نشست میں بآواز بلندپڑھوائے اور جہاں اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی اصلاح کی، اس طر پوری پی ایچ ڈی کو سنابھی اور فائنل شکل دینے کے بعد بذات خود پڑھا بھی، ریڈ پین سے سر کی تصحیح شدہ کاپی میں نے بطور یادگار محفوظ رکھی ہے۔ میرے سبمیشن کے سال میں ہی سر کے والد محترم سایہئ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔پی ایچ ڈی کے بعد ایک سال گیسٹ فیکلٹی کے طور پر شعبہ میں درس وتدریس وابستہ رہا، اسی دوران پی ڈی ایف کے لیے میرا انتخاب ہوگیا تو پھر اسے جوائن کرلیا، اور گزشتہ سال کے تعلیمی سال میں دوسال پی ڈی ایف کرکے پھر گیسٹ جوائن کرلیا۔اس دوران آپ نے بارہ سال میں بارہ  باربھی کوئی ذاتی کام مجھ سے نہیں لیا، ہاں لائبریری سے مطلوبہ کتابیں بکثرت منگواتے اور جو کتاب انھیں پسند آتی فورا زیروکس کرواتے۔بطور خاص عربک گرامر، ٹرانسلیشن سے متعلق نئی کتابیں۔رواں سال چند کتابیں زیروکس کرائیں جن میں How to write in Arabic  اور ایڈوانسڈ میڈیا عربک، انٹرمیڈیٹ لیول اور اڈوانسڈ لیول قابل ذکر ہیں۔علمی اشتغال آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا، مزاج میں یکسوئی اور زندگی میں انتہائی سادگی تھی، یونیورسٹی کیمپس میں زیادہ لوگوں سے آپ کے راہ و رسم نہیں تھے اور علمی اشتغال کی وجہ سے آپ کے پاس اس کا موقع بھی نہیں تھا، جب بھی آپ کے چیمبر میں جاتا کچھ پڑھتے ہوئے، پڑھاتے ہوئے، لکھتے ہوئے، سنتے ہوئے یا نصیحت کرتے ہوئے ملتے۔
رمضان المبارک میں سر سے بکثرت رابطے میں رہا، اس کی وجہ یہ رہی سر Qura'anic Verbs  الافعال فی القرآن الکریم پر کچھ نئے انداز کا تحقیقی کام کررہے تھے، اس کی ترتیب یہ بنائی تھی کہ پہلے افعال کی جتنی قسمیں ہیں، وہ تمام کے تمام سامنے آجائیں، پھر بکثرت کون افعال استعمال ہوئے اور اسی درجہ بندی کے ساتھ اپنے لیے پندرہ پاروں کو مختص کیا اور پانچ پانچ پارے مجھے اور ڈاکٹر ظفیرالدین صاحب استاذ شعبۂ عربی ذاکر حسین دہلی کالج کے سپرد کیے۔ سر نے فون کرکے پہلے پوچھاکہ لاک ڈاؤن میں کیا کررہے ہو؟ میں نے بتایا کہ این سی پی یوایل حکومت ہند سے منظور شدہ علمی پروجیکٹ بعنوان ’شمالی ہند سے شائع ہونے والے عربی رسائل وجرائد کا مطالعہ‘ کو مکمل کررہاہوں، ڈھائی سو صفحات ہوچکے ہیں،پچاس صفحات باقی ہیں، سر نے کہا پہلے اپنا پروجیکٹ مکمل کرلو، پھر میرا کام کرنا، ثواب کی نیت سے۔یہ اکیلا کرنے والاکام نہیں ہے، میں نے بسروچشم قبول کیا، اور سر کی ہدایت کے مطابق جب سر نے مجھے ورڈ ٹیکسٹ میں مکمل قرآن اور پہلے نواں اور دسواں پارہ بھیجا، ان دونوں پاروں سے سارے افعال نکال کربھیجنے پر پھر پندرہ اورسولہواں پارہ سر نے بھیجا اور میں نے یہ دونوں پارے بھی اٹھائیس اور انتیسویں رمضان کی شب میں مکمل کرکے سر کو بھیج دیے، سر نے واٹس ایپ پر اطلاع دینے کے جواب میں کلمات تشکر بھی پیش کیے اور دعائیں بھی دیں۔پھر بتایا کہ عید کی شام میں تمھاری طرف آؤں گا، لیکن میں نے عید کے دن دوپہر میں سر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ سر کب تشریف لا رہے ہیں؟ تو سرنے معذرت کردی کہ آج نہیں کل آتا ہوں، عیدکے کل ہوکر میرے محسن وبہی خواہ ڈاکٹر مجیب اختر صاحب استاذ شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے گھرتشریف لائے، سر کی تشریف آوری سے قبل ڈاکٹر مجیب اختر صاحب نے مجھے بھی بلایا اور بتایاکہ سر سے یہیں ملاقات ہوگی۔در اصل سر کو ایک کتاب بھی دینی تھی، ڈاکٹر منورحسن کمال کی تصنیف ”تحریک آزادی اور خلافت“، یہ کتاب سر کے کوئی استاذ جو پٹنہ میں قیام پذیر ہیں، انھوں نے منگوائی تھی، سر نے مجھ سے لاک ڈاؤن سےقبل ہی یہ کتاب منگوائی، لیکن اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے سر سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی تو اسی ملاقات پر سر نے مذکورہ کتاب بھی اپنے استاذ کے لیے لے لی۔
دراصل  استاذ محترم پروفیسر  ولی اخترندوی کی شخصیت مختلف الجہات ہے، آپ جہاں ایک کامیاب وبے مثال معلم تھے، وہیں آپ کے پہلو میں ضرورتمندوں کے لیے دھڑکتاہوا دل بھی تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی رحلت سے نہ صرف عربی زبان وادب سے وابستہ شخصیات رنجیدہ وافسردہ ہیں،بلکہ آپ کے دم سے جن کی دادرسی ہوتی تھی وہ بھی مغموم ومحزون ہیں۔آپ اپنی زندگی متعدد بیواؤں کی کفالت فرماتے تھے، جس کا گواہ میں خود ہوں، متعدد خواتین کے نام سے ہرماہ کسی کو تین ہزار، کسی کو چار ہزار، کسی کوپانچ ہزار بھیجواتے،میں نے کئی بار پوچھا بھی کہ سر یہ کون خواتین ہیں، جن کو آپ پابندی سے پیسے بھیجتے ہیں، سر بولتے کہ میرے یہاں کام کرتی ہیں، میں پوچھتاکہ سر کام تو ایک کرتی ہوگی صفائی ستھرائی،لیکن سر ٹال دیتے کہ چھوڑو پیسے بھیج دو ان کو، ان کی وفات کے بعد پتہ چلاکہ یہ خواتین وہ ہیں جو بیوہ ہوچکی ہیں اور ان کی کفالت کا ذریعہ ہمارے سر بنے ہوئے تھے۔ اللہ اکبر!سر آن لائن بینکنگ استعمال نہیں کرتے تھے وہ اکثر بذریعہ چیک یا اے ٹی ایم پیسے نکالتے تھے، لیکن کسی کو پیسے آن لائن ٹرانسفر کرنا ہوتا تو مجھ سے یہ کام بکثرت لیا کرتے تھے اور مجھے چیک یا کیش کے ذریعہ ادا کردیتے۔حساب وکتاب ان کا بالکل کلیئر ہوا کرتاتھا، سود کی رقم سے حد درجہ محتاط تھے، پاس بک کو ٹائم ٹوٹائم اپڈیٹ کراتے اور سود کے طور پر بینک سے ملی ہوئی رقم پر ریڈ مارک لگاتے اور اس رقم کو فورا نکال کرباہر کرتے۔نام ونمود کے قول وعمل سے بالکل اپنی شخصیت کو آلودہ ہونے نہیں دیا، آپ کی نرم خوئی اور انسانیت نوازی قابل رشک تھی، غلطی پر سخت انتباہ کے لیے بھی آپ مشہور تھے۔کوئی بھی اسکالر بطور خاص فیلوشپ یافتہ اسکالر دستخط کرانے کے لیے یک بارگی چیمبر میں جانے کی ہمت نہیں کرپاتا، ایک دو بار ڈور کے پاس جاتا پھر واپس آجاتا دو تین بار کے بعد ہمت کرکے داخل ہوتا کامیاب ہوتا تو زہے نصیب نہیں تو منھ بنائے واپس لوٹتا۔
ایک بار مجھے بھی سر پر بہت غصہ آیا کہ انھوں نے ذاکر حسین دہلی کالج سے دوماہ کی ملی ہوئی تنخواہ مجھ سے واپس کرادی، اس کا پس منظر یہ ہے کہ میں ایس آر ایف کے دوسرے سال میں تھاکہ فیلو شپ کی رقم غیر معمولی طور پر بڑھ گئی،اس لیے میں گیسٹ چھوڑکر فیلوشپ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، میری خواہش تھی کہ ذاکر حسین دہلی کالج سے ملی ہوئی دوماہ کی تنخواہ واپس نہ کروں اور فیلو شپ بھی ری ایکٹیویٹ کرالوں، لیکن سر نے یہ قبول نہیں کیا، میرے چہرے کے اثرات کو دیکھتے ہوئے سر نے کہاکہ جسیم جب یونیورسٹی کا قانون ہے کہ گیسٹ رہتے ہوئے فیلوشپ نہیں لے سکتے تو یہ کیسے میں منظور کروں؟ اس دنیاکے بعد بھی ایک دنیا ہے۔ سر کے یہ الفاظ سنتے ہی میرا غم وغصہ کافور ہوگیا۔       
    استاذ محترم کی شخصیت پر لکھنے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر لکھنے والے انشاء اللہ خوب لکھیں گے، میں بھی لکھوں گا، فی الحال میں استاذ مکرم کے اہل خانہ بالخصوص آپ کے برادر گرامی اور اپنے محسن وکرم فرماشیخ علی اختر مکی حفظہ اللہ استاذ مدرسہ ریاض العلوم جامع مسجد اردو بازار جامع مسجد دہلی، بھائی جمیل اختر، مولانا سہیل اختر ندوی اور آپ کے صاحبزادے حماد و خطاب اور صاحبزادیاں ثمینہ اور امینہ اور ان سب کی والدہ محترمہ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتاہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ جل شانہ استاذ محترم کو جنت الفردوس نصیب فرمائے، آپ کی زریں و سنہری خدمات کوشرف قبولیت عطا فرمائے اور دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔
ویراں ہے میکدہ خم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے


Saturday 6 June 2020

مودی حکومت: کبر ونخوت اور خون مسلم کی ارزانی کے چھ سال



حکومت: کبر ونخوت اور خون مسلم کی ارزانی کے چھ سال 

ڈاکٹر جسیم الدین
jasimqasmi@gmail.com
9711484126
ہم نے ماناکہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مرزا اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر وطن عزیز کی موجودہ صورتحال کی ترجمانی کررہاہے، آج کوئی بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر لقمۂ اجل بننے کو ترجیح دے رہاہے ،تو کوئی معاشی تنگی کے دباؤ میں آکر اپنے ہی گمچھا کو پھندہ بناکر سرعام جھول جارہاہے تو کوئی اپنے اہل وعیال کے ساتھ اجتماعی خودکشی کرکے معاش کی تنگی سے نجات پا رہاہے، اور جو طبعی زندگی جینا چاہتاہے تو اسے ملک کے اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے شرپسند عناصر آلام ومصائب کی چکی میں پیسنا چاہتے ہیں، کبھی جبرا شری رام کے نعرے لگانے کے نام پر موت کے گھاٹ اتارنا ، تو کبھی بچہ چور کا الزام لگاکر ہجومی تشدد کا شکار بنانا  انھوں نے اپنا مقصد حیات بنالیاہے۔ یہ کوئی افسانوی کردار نہیں ہے ،بلکہ زمینی حقیقت ہے بھوک کی شدت سے تڑپ کر جان دینے والی ماں کی خبریں گونج ہی رہی تھی کہ کل گیا میں ایک معمولی دکاندار لاک ڈاؤن کی وجہ سے مالک کی طرف سے کرایہ کے لیے بار بار دباؤ بنائے جانے پر اپنے گمچھاکو ہی پھندہ بناکر سرعام دکان کے بالائی حصے پر بنی گیلری سے باندھ موت کو گلے لگا لیا، ایسے ہی اترپردیش کا ایک خانوادہ اپنے ارکان کے ساتھ معاشی تنگی کے سبب زندگی کو خیرآباد کہہ دیا۔ وطن عزیز میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو زندگی کے تمام مصائب وآلام کو سہتے ہوئے  اپنے دم پر جینا چاہتاہے تو اسے اکثریتی فرقے کا شرپسند طبقہ موت کے گھاٹ اتارنے میں لیت ولعل سے کام نہیں لیتا۔ کل ہی نان پور بلاک ضلع سیتامڑھی کے ددری پنچایت میں آنے والے بہورار موہن پور ٹولہ کے باشندہ محمد وحید عرف پپو کو گوری پنچایت کے اکثریتی فرقہ کے شرپسندوں نے چاقو سے تابڑ توڑ وار کیے اور پورا جسم زخموں سے چھلنی کردیا، شرپسندوں کو آخر اتنا حوصلہ کہاں سے مل رہاہے کہ وہ اتنے بدمست ہوکر قانون کو ہاتھ میں لینے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ظلم وجبر کی سنگین ترین واردات کو انجام دینے کے بعد بھی وہ بے خوف وخطر آزاد گھومتا نظر آتاہے۔ جب کہ ددری اور گوری پنچایت کے باشندگان میں آپسی میل جول بے مثال رہاہے، ماضی میں کبھی اس طرح کے ناخوشگوار واقعات پیش نہیں آئے،لیکن آج کیا شہر اور کیا دیہات اور گاؤں ، ہرشہر ، ہرقریہ اور ہر بستی میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ جاری ہے، آخر انسانی معاشرے میں مذہبی بالادستی کے نام پر زہر کون گھول رہاہے؟ کبھی چمپارن کے مسلم نوجوان کو اکثریتی فرقے کے شرپسند عناصر نشانہ بناتے ہیں تو کبھی سیتامڑھی کے مسلم نوجوانوں کو ہدف بناتے ہیں،آخر بے موت مرنے یامارے جانے کا تسلسل کب تک قائم رہے گا؟ کیا مودی حکومت  اقتدار کے نشے میں اتنا بدمست ہوگئی ہے کہ وہ انسانی جان کو شیٔ حقیر سمجھ کر ان کے خون کو ارزاں ٹھہرا دیا ہے۔ کیاقانون کی بالا دستی ختم کردی گئی ہے، یا پھرکمزوروں اور بے بسوں سے جینے کا حق سلب کرلیا گیا ہے، اگر جواب نفی میں ہے تو پھر حکمراں طبقہ کی خاموشی کس بات کا اشارہ دیتی ہے؟         
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگرمودی حکومت کے چھ سالہ دور اقتدار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آفتاب نصف النہار کی طرح سامنے آئے گی کہ  ملک کے بیشتر باشندگان خواہ وہ تعلیمی ادارے سے وابستہ ہوں، یاملک کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے صنعتی کارخانوں کے کارکنان، یا ملٹی نیشنل کمپنیوں میں برسرکار ملازمین، یا پھر روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرکے پیٹ کی آگ بجھانے والے یومیہ مزدور بحیثیت مجموعی سب کے سب پریشان حال اور منتشر الخیال ہیں۔ایک انصاف پسند حکمراں کی اساسی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایاکے بنیادی حقوق کا خیال رکھے، ناخواندگی کی شرح کو کم کرنے کے لیے نئے تعلیمی ادارے قائم کرے۔ متوسط اور کمزور طبقہ کی آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کے لیےصنعت وحرفت کو فروغ دے ۔کم ازکم خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے ایسا نظم ونسق کرے کہ وہ بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر لقمۂ اجل نہ بن جائے۔بلکہ وہ طبعی زندگی گزار سکے۔ متوسط طبقہ کی بھی اتنی پاسداری کرے کہ وہ اپنے چھوٹے موٹے کاروبار کے ذریعے خود کفیل ہوجائے۔خود کفیل (آتم نربھر) موجودہ حکومت کا سلوگن بھی بن چکا ہے، لیکن یہ صرف زبانی جمع خرچ سے منطقی انجام تک نہیں پہنچے گا ،بلکہ اسے عملی طور پر نفاذ کی راہیں ہموار کرنا ہوگی۔ یہ سچ ہے کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتااور نہ اس قافلہ کے ارکان آپس میں ایک دوسرے کے فدائی ہوتے ہیں، بلکہ ان کی رفاقت بسنت پہ اڑنے والے پتنگوں کی طرح ہے جو آپس میں اڑتے اور آپس میں ہی کٹتے ہیں۔ ایسے ہی اقتدار کسی کا دائمی ساتھی نہیں ہوتا، دوست کا دوست تو کیا،خود اپنا دوست نہیں، جو لوگ بھی اقتدار کی کشتی پر سوار ہوتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں یہ کشتیاں کھی غرقاب بھی ہوسکتی ہیں، سلطنتوں کا جاہ وجلال، وزارتوں کا عروج وزوال یہ سب روزوشب کے تماشے ہیں، موجودہ حکومت کی فضول خرچیوں اور وسائل کی غلط تقسیم و بندر بانٹ، نا تجربہ کاری اور بعض غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج عوام کی اکثریت مشکلات کا شکار اور غیر مطمئن نظر آتی ہے۔ ارکان حکومت اور ان کے محبوب نظر سرمایہ داروں کی لوٹ مار کا تسلسل، ناکافی وسائل، مذہبی انتہا پسندی، ناقص العقل مشیروں کی کج روی، جہالت اور بے سوچے سمجھے لیے گئے فیصلے ملک کو مزید اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے نہ ماضی سے سبق سیکھا نہ حال کی فکر ہے اور نہ ہی مستقبل کی پروا۔ ماضی قریب کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عجیب تماشا نظر آتا ہے۔ پچھلے چھ سال کی مدت دراز میں اگر ملک کا حکمراں طبقہ صدق دل سے چاہتا تو ملک کی  تقدیر بدل سکتاتھا مگر ایسا ہو نہ سکا اور وقت کا بے رحم پہیہ آگے نکل چکا ہے۔گاؤں گاؤں اور شہر شہر الغر ض ملک کے طول وعرض میں فرقہ پرستی کا عفریت سر ابھارچکاہے۔حکومت وقت کی عدم توجہ یا صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے جہاں ملک کی اقتصادی صورتحال نہایت تشویشناک ہے، وہیں عام سہولتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اور عوام میں بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ ایسا لگ رہاہے کہ قیامت سے پہلے اس حکومت نے قیامت لادی ہے۔