Tuesday 20 October 2020

قمرعالم: ایک مخلص دوست جو بچھڑگیا

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

(ڈاکٹرجسیم الدین، گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی)

یہ میری سعادت مندی ہے کہ میری صبح کا آغاز اپنی والدہ محترمہ کی مزاج پرسی سے ہوتاہے اور دن کا اختتام بھی عموماًانھی کی گفتگو سے ہوتاہے ، مغرب کی نمازکے بعد بٹلہ ہاؤس مرزا سپر مارکیٹ سے کچھ ضروری سامان خرید نے کے بعد جیسے ہی ایگزٹ ڈور کی طرف بڑھاکہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی ، جیب سے نکالاتو دیکھا کہ والدہ کی کال آرہی ہے ، ان کی طرف سے کال آنے کا مطلب ہی یہ ہوتاہے کہ کوئی انہونی ہے،چوں کہ عموماً دن بھر میں دو تین بار میں خیریت دریافت کرہی لیتاہوں ،اس لیے انھیں کال کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، کال رسیو کرتے ہی والدہ نے یہ اطلاع دی کہ قمرعالم کا انتقال ہوگیا۔یہ خبر سنتے ہی میں سکتے میں آگیا اور کسی طرح ترجیع کی اورکچھ دیر خاموش رہ کر کال منقطع ہوگئی۔

یہ سچ ہے کہ کوئی انسان قدرت کی بارگاہ سے ہمیشہ کی زندگی لے کر نہیں آیاہے،ہر انسان جو پیدا ہوا ہے، اس کی زندگی کے پہلے دن سے ہی اس کے ساتھ موت چلی آرہی ہے، لیکن خویش واقارب کی موت جس طرح دل فگار ہوتی ہے ،ایسے ہی کوئی بچپن کا دوست ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائے تو جگر لخت لخت ہونا فطری ہے، دوستی ذہنی مسرت کا نام ہے، لیکن ساتھ ہی حقیقی دوستی حسن کی طرح نا پائیدار ہے، جب امیدیں دلوں میں حصار بنالیتی ہیںتو دوستی کا مطلع دھندلاجاتاہے۔قمر عالم کے ساتھ میرے  بیتے ہوئےماہ و سال میری زندگی کے متاع گراں مایہ سے کم نہیں، بچپن کی دوستی کی بنیاد ہی اخلاص پر ہوتی ہے، یہی دوستی جب پختہ ہوجاتی ہے تو وہ پھر قربانی وایثار کی طرف لے جاتی ہےاور زندۂ جاوید بن جاتی ہے۔قمر عالم سے میری قربت اور دوستی کی متعدد وجوہات ہیں ،وہ میرے ہم سبق ہونے کے ساتھ ساتھ میرے محلے کے بھی تھے ،رشتے میں چچا تھے ،لیکن ہم سبق ہونے کی وجہ سے چچا بھتیجے والا رشتہ نہیں رہا ،ہمیشہ ایک دوسرے ساتھ پڑھائی لکھائی کے ساتھ شام کے اوقات میں کھیل کود اور سیر وتفریح میں بھی ساتھ ساتھ رہتے۔پڑھنے میں جہاں وہ ذہین وفطین تھے ،وہیں مترنم آواز میں نعت خوانی کے لیے بھی مشہوررہے۔گاؤں میں جب بھی کسی دینی تقریب کا انعقاد کیاجاتا،اس میں مترنم آواز میں نعت خوانی کے ذریعے سماں باندھ دیتے ۔ابتدائی درجات سے لے کر ہم دونوں نےفارسی کی پہلی، آمدنامہ، اسلامی معلومات اور اردو کی چوتھی کتاب ساتھ میں پڑھی، ان کی ذہانت وفطانت کی ستائش اساتذہ بھی کرتے تھے۔  قمر عالم مرحوم کا گھرانہ بھی پڑھالکھا تھا،ان کے دادا حنیف مرحوم تادم زیست جامع مسجد ددری میں جمعہ کے مؤذن رہے۔ان کے چچامولانا یاسین صاحب کوبھی زبان وبیان پر عبورحاصل ہے، جب یہ ددری گاؤں کے مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تو مجھے بھی ان سے شرف تلمذ حاصل ہوا، ان دنوں الٰہ آباد میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں، قمر عالم کے والد محترم جناب عبد القیوم صاحب بھی پڑھے لکھے ہیں اور آج بھی دینی کتابوں کے مطالعہ کے شوقین ہیں ، میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو کوئی دینی کتاب کی فرمائش کرتے اور  میں نے بھی متعدد بار ان کی فرمائش پوری کی۔قمرعالم کا گھرانہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود معاشی مسائل سے دوچار رہا اوراسی معاشی تنگی نے قمر عالم کی  تعلیمی راہ میں رکاوٹ ڈال دی اور آخر کار وہ فارسی کی پہلی جماعت کے بعد کسب معاش کے لیے ممبئی کا رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوگئے اور میں نے اپنا گھرانا پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود حالات کے پیچ وخم سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بھی تعلیمی سلسلہ جاری رکھااور گاؤں کے مدرسہ سے فارسی کی پہلی کی تعلیم کے بعد علاقہ کے مشہور مدرسہ دارالعلوم بالاساتھ میں داخلہ لیا ، یہاں سے بھی کئی بار بھاگ کر گھرآیا ،لیکن والد مرحوم کی سختی کی وجہ سے اسی وقت گھر سے مدرسہ بھیج دیا جاتااور اس طرح میں  نے بھی یہ طے کر لیاکہ اب مدرسہ سے فرار ہوکر گھر نہیں جاناہے۔اوراس طرح بالاساتھ مدرسہ سے عربی سوم (کافیہ ، قدوری وغیرہ)تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجوپٹی سیتامڑھی  آکر جلالین تک تعلیم حاصل کی ، بعد ازاں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی اس دوران قمر عالم میرے ذہن ودماغ سے کبھی جدا نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ مجھ سے الگ ہوئے ،ہرچندکہ وہ ممبئی میں کسب معاش کے لیے اقامت پذیر تھے ،لیکن برابر رابطے میں رہتے اور جب بھی ہم گاؤں میں ایک دوسرے سے ملتے تو وہی زمانۂ طالب علمی کے واقعات کا اعادہ کرتے ،وہ کبھی افسوس کرتے تو کبھی اظہار خوشی کرتے ۔مدرسہ کی تعلیم کے بعد میں نے جب جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور دہلی یونیورسٹی  جیسی درسگاہوں سے استفاہ کیا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی ، وہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے کہ میرا بدلہ بھی آپ ہی پڑھ رہے ہیں۔ان کے یہ جملے مجھے باربار اشکبار کررہے ہیں۔

ادھر پچھلے چند برسوں سے کڈنی کا عارضہ لاحق ہوگیا اورمسلسل علاج ومعالجہ کے بعد بھی وہ جانبر نہ ہوسکے  اورآج بتاریخ 20 اکتوبر2020 بعد نماز مغرب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

قمر عالم کی زندگی گرچہ مختصر رہی مگر بامقصد رہی اور مختصر بامقصد زندگی بے مقصد طویل زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔ایسے خوش فہم اور مخلص دوست کم ہی کسی کو ملتے ہیں اور جس کو بھی مل جائے سمجھیے کہ نعمت عظمیٰ مل گئی۔ان کے ساتھ گزرے ہوئے یادوں اور باتوں کا لامتناہی سلسلہ ہے ، جب تک زندہ رہے میری ہر خوشی اورغم میں شریک رہے ، اتفاق ہے کہ انھوں نے جہاں شادی کی ، وہیں میرے لیے بھی  میری  پسندکے مطابق ایک مناسب رشتہ بھی تلاش دیا اور میں نے بھی اپنی بچپن کی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے ان پر مکمل اعتماد جتایا اور رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگیا ،اس من پسند رشتے نے میرے دل میں ان کے حوالے سے عظمت کا پہاڑنصب کردیااور مجھے یہ احساس ہواکہ قمر عالم کی لائن گرچہ مجھ سے مختلف ہوگئ ،لیکن  اس نے حق رفاقت میں نبھانے میں کبھی بھی ،کہیں بھی لیت ولعل سے کام نہیں لیا۔انسان اٹھ جاتاہے تو اس کی یادیں ہمیشہ کے لیے دل میں کسک بن کر بیٹھ جاتی ہیں، آج وہ جسمانی طور پر مجھ سے بہت دورجہاں سے واپسی ناممکن ہے ،چلے گئے ،لیکن ان کی یادیں میرے لوح دل پر منقش ہیں، میں دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس کو اس کا مسکن بنائے اور پسماندگان میں شامل بیوہ ، تین بیٹے اور ایک بیٹی کی کفالت کا مسئلہ آسان فرمائے ۔ان کے والد محترم جناب عبد القیوم دادا ، دادی مہر النسا اور ان کے دونوں بھائی ظفر عالم  اوربدر عالم   کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

آتی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا



Monday 21 September 2020

مولانا امین اشرف قاسمی کی رحلت



مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
(ڈاکٹر جسيم الدين، شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی )
موت سے کسی کو مفر نہیں، ایک اللہ کی ذات ہے جس کو فنا نہیں، باقی سب کے لیے موت برحق ہے، کوئی شخص موت سے لڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کو ٹال سکتا ہے اگر انسانوں کو ان کے امتیازی خصائص کی وجہ سے موت نہ آتی تو بے شمار انسان صبح قیامت تک زندہ رہتے، اس لیے جب کوئی شخص داعی اجل کو لبیک کہتا ہے تو ہمیں موت حادثہ معلوم نہیں ہوتی، بلکہ جو شخص کائنات کی بزم سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی رحلت ایک سانحہ نظر آتی ہے، پھر یہ کہ جانے والا کوئی بلند وبالا عالم، زاہد شب بیدار، متقی وپرہیزگار، عابد وصالح اور مرجع خلائق عمر فانی پوری کرکے راہی عالم بقا ہوتا ہے تو صدمہ یہ نہیں ہوتا کہ موت نے اپنا مشن کیوں پورا کیا، صدمہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ اور دن بزم کائنات سجائے رکھتے تو اس میں حرج کیا تھا. سرزمین بہار کے ضلع سیتامڑھی میں واقع ممتاز ومنفرد دینی و تعلیمی ادارہ دعوۃ الحق مادھو پور سلطانپور کے مہتمم اور میرے محب ومخلص دوست نجیب اشرف نجمی حال مقیم ریاض کے والد محترم مولانا امین اشرف کی ذات والا صفات اور ان کا وجود مسعود نہ صرف سرزمین سیتامڑھی بلکہ پورے بہار کے لیے رحمت وحیات کا سرچشمہ تھا، ان کی رحلت نے عجیب و غریب انداز میں سکتہ طاری کردیا ہے، ان کی وفات کی اطلاع میرے عزیز دوست حسان جامی قاسمی حال مقیم دبئی نے بذریعہ واٹس ایپ دی، موبائل کے اسکرین پر جیسے یہ پیغام ملا، میرے ہوش اڑ گئے اور کچھ دیر کے لیے دار العلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے نجیب اشرف قاسمی کے ساتھ گزرے ہوئے حسین لمحات کے نقوش رواں دواں ہوگئے، نجیب اشرف قاسمی سے قربت کی متعدد وجوہات تھیں جن کا ذکر یہاں ضروری نہیں ہے یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ مولانا امین اشرف کو اللہ تعالیٰ نے جن اوصاف وکمالات سے نوازا تھا وہ تمام خوبیاں اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی دیوبند تشریف لاتے تو اپنے صاحبزادے کے علمی اشتغال و انہماک کی پوری روداد طلب کرتے، مولانا مرحوم کا آبائی وطن رونی سید پور کے مضافات میں واقع مادھوپور سلطان پور تھا، یہاں سے میرے گاؤں کی مسافت تقریباً دس کلومیٹر ہے، بارہا میں نے مولانا کے چمنستان علم ادارہ دعوۃ الحق کو قریب سے دیکھا کئی ایکڑ اراضی پر انھوں نے ایک دور افتادہ گاؤں میں علم وفضل کا روشن مینارہ قائم کیا ہے وہ قابل رشک ہی نہیں لائق تحسین بھی ہے.
مولانا سے میری دہلی میں ایک آفس میں ملاقات ہوئی جہاں میں جزوقتی اکیڈمک اسسٹنٹ تھا، مولانا نے مجھے یہاں پاکر اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز طالب علم رہے ہیں، آپ یہاں وقت برباد نہ کریں آپ دعوۃ الحق میں عز وشرف کے ساتھ تدریسی خدمت کے لیے خود کو آمادہ کریں، مولانا کا یہ مشورہ کوئی مفاد پر مبنی نہ تھا، بلکہ میرے ساتھ ہورہے ناروا سلوک سے دلبرداشتہ ہوکر انھوں نے یہ پیش کش کی تھی، لیکن جب میں نے اپنے مستقبل کے عزائم سے انھیں آگاہ کیا تو انہوں نے نہ صرف حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ ہر طرح کے علمی ومادی تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی.
مولانا ایک عظیم ادارہ کے مہتمم نہیں تھے، بلکہ پورے علاقے میں علمی و اصلاحی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے ان کا تعلق اہل اللہ سے بھی تھا، وہ علاقے کی بزرگ ہستیاں مولانا شمس الہدی راجو، مولانا عبد المنان قاسمی ناظم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجوپٹی، خلیفہ محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے چشمہ صافی سے تزکیہ قلب کیا کرتے تھے. مولانا کا پورا خانوادہ علمی خانوادہ آپ کے سبھی برادران اعلی تعلیم یافتہ ہیں، آپ کے بڑے بھائی مفتی ثمین اشرف قاسمی حبطور مسجد دبئی کے امام و خطیب ہیں، مولانا فطین اشرف، رزین اشرف وغیرہ سب اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہیں. مولانا امین اشرف اپنی بے مثال قوت لسانی، فکر ونظر کی پختگی اور انسانیت سے بے لوث محبت کے پیش نظر شمالی بہار کی ہر دل عزیز شخصیت تھے، لوگوں کے عیب پر پردہ پوشی عمر بھر کا شیوہ رہا، خوبیوں پر نگاہ رکھتے اور کمزوریوں کو در گزر فرماتے.
قسام ازل نے آپ کو گوناگوں امتیازی خصوصیات سے نوازا تھا، آپ اپنی ذات میں بے مثال خطیب، متبحر عالم دین، اعلیٰ مدبر نابغہ اور صاحب بصیرت انسان تو تھے ہی مگر ساتھ ہی معاملہ فہمی، مزاج شناسی، دوست داری، وضع داری، تحمل وروا داری جیسی صفات بھی آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں، یہی وہ بنیادی وجوہ ہیں کہ آپ مرجع خلائق اور عوام وخواص کے دلوں کی دھڑکن تھے. زندگی کے تمام مراحل میں نیک نام اور ہر دل عزیز رہے. آپ کی وفات ایک خانوادے کے لیے دل گیر نہیں بلکہ پورے ملک بطور خاص شمالی بہار کے عوام وخواص کے لیے ناقابل تلافی خسارہ ہے. مولانا نے دور افتادہ علاقوں میں شبانہ روز کی جدوجہد سے جہالت و خرافات کا قلع قمع کیا ساتھ ہی انھوں نے فضائل ومسائل زکوٰۃ، فضائل ومسائل رمضان وروزہ جیسی متعدد علمی تصانیف کے ذریعے امت کو فیضیاب کیا. خدا ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے. میں اپنی غیر مربوط تحریر جو میرے احساسات ہیں کے ذریعے آپ کے جملہ برادران مفتی ثمین اشرف، مولانا رزین اشرف، ڈاکٹر فطین اشرف، مولانا حسین اشرف اور صاحبزادے نجیب اشرف قاسمی، لبیب اشرف وجملہ اہل خانہ کی خدمت میں تعزیہ مسنونہ پیش کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرماکر ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے ذریعے کیے گئے علمی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے.
فروغ شمع تو باقی رہے گا صبح محشر تک
مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے

Tuesday 25 August 2020

دیدہ ور صحافی ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی کی رحلت



واقعی ’شمس ‘تھے جس کی ضیاپاشی ہر ایک پر یکساں ہوتی تھی
ڈاکٹر جسیم الدین، دہلی
ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی کی رحلت ایک فرد کی رحلت نہیں ،بلکہ ایک فکر صحیح کے ترجمان کی رحلت ہے، ان کے زرخیزذہن سے سپرد قرطاس ہونے والی فکری تحریرمیں جہاں ملت کے درد کا درما ں تھا، وہیں نوجوان نسل کے لیے متاع گراں مایہ ہوتاتھا، قرطاس وقلم سے ان کا رشتہ بہت قدیم اور مضبوط تھا، وہ زمانۂ طالب علمی سے ہی اپنی تقریروتحریر کی بدولت معاصرین کے درمیان ممتاز تھے ہی، ساتھ ہی اپنے احباب کے محبوب نظر ہونے کے ساتھ اساتذہ کے منظورنظر بھی تھے۔ پھریہ کہ سرزمین ہند کی مردم ساز شخصیت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی،سابق صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی صحبت صالح اور بے مثال تربیت نے جہاں ان کی قلمی صلاحیتوں کو جلابخشی ،وہیں ان کے زرخیزذہن کی فکری آبیاری بھی کی، جس کا اثر تادم زیست باقی رہا، وہ آفس ٹائم میں ضرور پتلون شرٹ زیب تن کیا کرتے تھے ، لیکن یہ ان کا اختیاری عمل نہ تھا،بلکہ اضطراری تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی علما وصلحا کی مجلسوں میں جلوہ افروز ہوتے تودرویشانہ لباس میں ہی نظر آتے۔ شرافت ان کے چہرے سے، انسانیت ان کی حالت سے ،خوبصورتی ان کی صورت سے اور محبت ان کی باتوں سے ظاہر ہوتی تھی۔ آپ کے قلم سے جمال ٹپکتا تھا اور ہرجملہ نگاہوں سے لپٹ جاتا تھا، آپ کی نثری تاب وتب شاعری کو شرمادیتی تھی۔
1995 سے قاضی صاحب کی وفات 2002 تک وہ جہاں قاضی صاحب علیہ الرحمہ کے پریس سکریٹری تھے ،وہیں آل انڈیا ملی کونسل بہار کے آرگنائزربھی رہے۔ قاضی صاحب کی وفات کے بعد انھوں نے اردو عربی ادبیات کے ممتاز قلمکارمولانا بدرالحسن قاسمی حال مقیم کویت،سابق اڈیٹر ’الداعی‘ دارالعلوم دیوبند کی خوشہ چینی اختیارکی اور ہنوز ان سے استفادہ وافادہ کا عمل جاری تھا۔ جس کا اظہار مولانابدرالحسن قاسمی نے اپنی ایک تاثراتی تحریر میں بھی کیاہے۔ اسی دوران جب سہارا انڈیا میڈیا نے راشٹریہ سہارا اور عالمی سہاراکی اشاعت شروع کی تو آپ نے بحیثیت صحافی یہاں ملازمت شروع کی اور تادم زیست ملازمت کرتے رہے، اس دوران انھوں نے ملک کی مایہ ناز یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔وہ بظاہر ایک صحافتی ادارے سے وابستہ ضرورتھے ،لیکن فکر صحیح کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں ان کا قبلہ بالکل واضح تھا۔ وہ دہلی میں کسی بھی نووارد صحافت کے طلبہ اور صحافی کی ذہنی وفکری تربیت میں لیت ولعل سے کام نہیں لیتے ،بلکہ ہر وقت اورہرگام پہ مدد کے لیے تیاررہتے۔ انھوں نے اردو کے بہت سے بے نام چہرے کو سہارا کے پلیٹ فارم سے مضامین کی نشرواشاعت کے ذریعے نہ صرف شناخت دی ،بلکہ ان کے لیے ترقی کی راہیں ہموارکیں۔ کبرونخوت سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا، وہ ہمیشہ اپنے احباب کی ترقی کو اپنی ترقی سمجھتے تھے، ایسے ہی عزیز واقارب کی حوصلہ افزائی میں کبھی بخل نہیں کرتے ۔
خود راقم الحروف کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت مختلف الجہات تھی، وہ کہیں پر بحیثیت سرپرست ومربی اپنا فرض نبھاتے تو کہیں پر بطور دوست خندہ پیشانی سے روبروہوتے اور کہیں پر اپنا عزیزخیال کرتے ہوئے علمی وعملی تعاون کرنے میں دریغ نہیں کرتے ۔آل انڈیا ریڈیو پر ٹاک پیش کرنے کا معاملہ ہو،یا مختلف سیاسی وعلمی موضوعات پر مضامین لکھنے کی بات ہو یا کسی علمی وادبی سمینار وکانفرنس میں شرکت کی چاہت ،ہر موقع پر بغیر کسی صلہ وستائش کہ میری چاہت کی تکمیل کرتے ۔ ان کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوتاتھا، وہ اسم بامسمیٰ تھے ،جتنی اتنی قدرت تھی اس سے کہیں زیادہ فیضیاب کرتے ،کیا قاسمی، کیا ندوی، کیا فلاحی، کیا اصلاحی، کیا سنابلی او ر کیا مصباحی ہر ایک کے لیے آپ واقعی ’شمس ‘تھے جس کی ضیاپاشی ہر ایک پر یکساں ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ آج  آپ کی رحلت پر بالکل راحت اندوری کی رحلت کے دن کی طرح سوشل میڈیا پر بلا تفریق مسلک ومشرب ہر شخص غم واندوہ سے نڈھال ہے اور ہرایک اپنے اپنے الفاظ میں اپنی شکستہ دلی کو بیان کررہاہے۔ آپ کے چہرے کی شگفتگی آپ کی تحریروں میں بھی عیاں ہوتی۔ جب آپ کسی سے روبرو ہوتے تو بوجہ کامل ہوتے اور مکمل انہماک سے مخاطب ہوتے اورزیر لب تبسم ہوتا،اس کیفیت کی ملاقات سے ہرشخص پہلی ملاقات کے ختم ہوتے دوسری ملاقات کا خواہاں ہوجاتا۔ آپ کی اس کیفیت کا اظہار معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے اپنے تاثراتی مضمون ’اے فلک پیر،عارف ابھی جواں تھا‘میں کیاہے ۔
حال ہی میں یکم جولائی کو جب آپ وطن مالوف ’ڈوبا‘ارریہ ،بہارسے دہلی واپس ہوئے تو مجھے کسی اہم علمی پہلوپرکیےگئے کام کو تکمیل تک پہنچانے میں تعاون کی ضرورت تھی ،تو انھوں نے ہی خلوص ووفا کا وہ کارنامہ انجام دیا،جسے میں تادم زیست بھلا نہیں سکتا، اس طرح درجنوں ایسے احسانات ہیں میرے اوپر کہ میں انھیں شمار نہیں کراسکتا۔ جب بھی ملاقات کے لیے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا ،علمی کاموں میں مصروف پایا۔ وہ قرطاس وقلم کے شہ سوارتھے، رات دن لکھنا ہی ان کا مشغلہ تھا، یہ سعادت بھی انھیں حاصل ہے کہ عظیم شخصیات کی بافیض صحبت ومجالست نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میدان صحافت میں پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود ان کے قلم میں وہی جولانی ہے جو ایک داعی کے اندر ہوتی ہے۔ اکابر علما سے عقیدت ومحبت اور ان کی زندگی کے لیل ونہار کو دیکھ کر سپرد قرطاس کرنا یقینا ًایک لائق تحسین ہی نہیں بلکہ قابل تقلید عمل ہے۔ 
اردوصحافت سے ان کی وابستگی طویل اور گہری تھی،ایک عرصے سے سماجی، سیاسی، سوانحی، ادبی  وعلمی موضوعات پر ان کی تجزیاتی تحریریں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ آپ کا قلم بالکل آپ کی فکر کا ترجمان تھا۔آپ نےاپنے پیچھے ایسی مستقل تصانیف چھوڑی ہیں ،جن سے آپ کی فکر کی گہرائی اور قلم کی عظمت کا احساس ہوتاہے۔ ہرکتاب کا انداز موضوع کی مناسبت سے جداگانہ ہے، ہر مقام پر موقع ومحل کے مطابق مناسب الفاظ، متناسب اسلوب،چبھتے جملے اور بولتے استعارے ایک خاص سلیقے اور قرینے کے ساتھ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ آپ کے اسلوب تحریر میں ندرت کی شگفتگی اورجدت کی شادابی دونوں پائے جاتے ہیں۔ آپ کے اشہب قلم سے ’جن سے روشن ہے کائنات‘ عظیم شخصیات کے سوانحی نقوش پر مشتمل کتاب منظر عام پر آکر شرف قبولیت حاصل کرچکی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے شخصیات پر لکھے ہوئے مضامین کو جمع کیا ہے، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ اعتدال پسندقلمکارکے لیے اعتدال وتوازن کو ملحوظ رکھتے شخصیت سے متعلق حقائق وکارناموں کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ کہیں عقیدت تو کہیں دیگراسباب قلمکار کے قدم کو متزلزل کرتے رہتےہیں، لیکن ڈاکٹرعبد القادر شمس نے شخصیات پر قلم اٹھاتے ہوئے اعتدال کو ملحوظ رکھا ،جو بھی لکھا ، وہ حقیقت کے آئینے میں لکھا ’جن سے روشن ہے کائنات‘کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جن شخصیات کوموضوعِ تحریر بنایاگیاہے،ان میں علمائے دین کے علاوہ معروف و مشہور دانشوران و مفکرین اور سیاست داں بھی شامل ہیں،ایک اور اچھی بات اس کتاب کی یہ ہے کہ اس میں مذہبی و مسلکی بنیادوں کی بجائے علمی،سماجی و سیاسی میدانوں میں شخصیات کے کارناموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا تذکرہ کیا گیا ہے؛چنانچہ مختلف مکاتبِ فکرکے مسلم رہنما،علما ودانشوران کے ساتھ جواہرلال نہرو، ڈاکٹر رادھا کرشنن، اندرا گاندھی،اننت مورتی جیسے غیرمسلم قومی رہنماؤں اور مفکرین کے نقوشِ حیات پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ بنیادی طورپراس کتاب کے دوابواب ہیں،پہلے باب میں’ممتازعلما واکابرِ امت‘کے عنوان سے مختلف علماے کرام کا مختصرتذکرہ اور ان کی خدمات کا ذکر ہے۔اس ذیل میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی،علامہ شبلی نعمانی،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی،اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان، مولاناابوالمحاسن محمد سجاد، حکیم الاسلام قاری محمد طیب،امیر شریعت مولانامنت اللہ رحمانی،قاری صدیق احمد باندوی، مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندوی،قاضی مجاہد الاسلام قاسمی،مولانا شفیق الرحمن ندوی،مولانااحمد شاہ نورانی،مولانامجیب اللہ ندوی،مولانااخلاق حسین دہلوی، ڈاکٹرمحمودغازی اور مفتی ظفیر الدین مفتاحی کا ذکرِ خیر ہے۔ان میں سے بیشتر شخصیات ایسی ہیں،جن پر ان کے متعلقین و متوسلین نے پہلے ہی بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں،ان کتابوں میں ان حضرات کی زندگی ،ان کی خدمات اور کارناموں کا تفصیلی ذکر ملے گا،مگر ڈاکٹرعبدالقادرشمس نے اپنے ان مضامین اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان شخصیات کی خا ص خاص خوبیوں اور مخصوص کارناموں کوروشنی میں لایاجائے۔ ان کی نگاہ ایسی درویشانہ شخصیت پر مرتکز ہوجاتی تھی اور وہ ان کے علمی واصلاحی کارناموں کو اجاگر کرکے نیک بختی کا ثبوت پیش کرتے ۔ڈاکٹر عبدا لقادر شمس کے اشہب قلم سے ’جن سے روشن ہے کائنات‘ کے علاوہ کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں،جن میں ’چند نامور علما‘(مرتب)، مولانا ظریف احمدندوی ،شیخ الحدیث مولانایونس : چندباتیں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
 ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی صاحب نوجوان نسل قلمکاروں کے لیے آئیڈیل تھے ،صلہ وستائش کی پروا کیے بغیر ہر شخص کا علمی وعملی تعاون کرنے میں تردد نہیں کرتے ، یہ شاید انہی نیک طینت شخصیات کی صحبتوں کا اثر ہےکہ وہ خود بھی حسن سلوک اور خوش خلقی جیسے عظیم اوصاف ان کے رگ وپے میں خون کی طرح گردش کررہےتھے۔
بے کس وبے بس کے حق وانصاف کے لیے ہمہ دم اٹھنے والی توانا آواز ، دوسروں کے غم کو اپنا درد وغم سمجھنے والی شخصیت ، اپنی اولاد کی طرح اپنے ملنے جلنے والے بے روزگاروں کو روزگار سے جوڑنے کے مسلسل فکرمند رہنے والےمیرے محسن ومربی ڈاکٹر مولانا عبد القادر شمس قاسمی نے کئی ہفتہ تک علاج ومعالجہ کے بعد جامعہ ہمدرد کے مجیدیہ اسپتال میں بوقت ایک بج کر دس منٹ پر جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ 12 اگست کو 08.56pm پر بات چیت آخری ثابت ہوگی جب میں نے فون کیا تو آواز میں غیر معمولی نقاہت تھی ،انھوں نے بس اتنا بتایاکہ سانس لینے میں بہت مشقت ہورہی ہے ، دعا کیجیے اور اپنے احباب سے بھی دعا کے لیے کہیے ۔میری طبیعت بہت خراب ہے۔میں نے جلد شفایابی کے لیے دعائیہ کلمات کہے اور بعد میں وقفے وقفے سے آپ کے بھانجا مولانا خطیب ندوی سے رابطے میں تھا اور ایک دن کے وقفے سے کبھی جناب شاہ عالم اصلاحی نیوز اڈیٹر روزنامہ انقلاب اور کبھی خطیب سے ڈاکٹر صاحب کی مزاج پرسی کرتارہا۔لیکن جانکاہ خبر سنتے ہی صدمے میں آگیا۔ کئی بار کچھ لکھنے کو بیٹھا  لیکن لکھتے وقت بار بار احباب کے فون کی وجہ سے خلل واقع ہوتا رہا، اب شب کی تنہائی میں اپنے احساسات کو لفظوں کا سہارا دیاہے ، اس دعا کے ساتھ کہ خدا ڈاکٹر عبد القادرشمس صاحب کو مغفرت کاملہ سے ڈھانپ لے اور آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور پسماندگان میں شامل اہلیہ، صاحبزادیاں وصاحبزادے مولانا عمار ندوی کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

Monday 20 July 2020

مولانا متین الحق اسامہ اور مولانا سید محمد سلمان کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کا خسارہ

مولانا متین الحق اسامہ اور مولانا سید محمد سلمان کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کا خسارہ


ڈاکٹر جسیم الدین، شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی
ابھی مولانا متین الحق اسامہ کانپوری صدرجمعیۃ علماء ہند یوپی کی وفات کا غم تازہ ہی تھاکہ یہ خبر سن کر دل کانپ اٹھاکہ جامعہ مظاہر علوم ناظم مولانا سیدمحمد سلمان صاحب ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارنپوربھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔انا للہ واناالیہ راجعون، موت سے کسی کو مفر نہیں ہے ، ہر انسان جو دنیا میں آیاہے ، اسے ایک نہ ایک دن اللہ کے یہاں ضرور جاناہے، لیکن جب کوئی منفرد وممتاز ہستی داغ مفارقت دیتی ہے تو اس کی سیرت وصورت کے نقوش دل ودماغ میں متحرک ہوکران کی رحلت سے واقع ہونے والے خلاکا ایک عجیب احساس پیدا کرتے ہیں، مولانا متین الحق اسامہ ہوں یامولاناسیدمحمد سلمان، بلاشبہ دونوں حضرات قرن اول کے ان مسلمانوں کی جیتی جاگتی تصویر تھے ،جن کے وجود میں علم وفقر اور غیرت وحمیت سمٹ آئے تھے۔مولانا متین الحق اسامہ کانپوری اور مولانا محمد سلمان دونوں ہی اسلاف کا نمونہ تھے۔دینی غیرت وحمیت کے ساتھ ساتھ علم ومعرفت سے بھی آراستہ تھے۔وضع قطع سے لے کر نشست وبرخاست تک سنت وشریعت کا آئینہ تھے۔اس قحط الرجال کے دور میں ایسی عظیم شخصیات کا رخصت ہونا بلاشبہ قرب قیامت کی علامات میں سے ہے۔حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ راسخین فی العلم کو دنیا سے اٹھاتے جائیں گے تاآں کہ قیامت آجائے گی ۔یکے بعد دیگرے تواتر کے ساتھ اہل علم ومعرفت کا قافلہ نہایت تیزی سے دارآخرت کی طرف رواں دواں ہے، جو یہ بتارہاہے کہ آنے والا وقت امت مسلمہ کے لیے سخت آزمائش والاہے۔خدا کی زمین کا اللہ والوں سے اس طرح خالی ہونا بندۂ مومن کے لیے ابتلاوآزمائش سے کم نہیں ہے۔ مولانا متین الحق اسامہ ایک جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے لیے آلام ومصائب کی گھڑی میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، آپ جمعیۃ علما ء اترپردیش کے صدر تھے ۔مسلسل رفاہی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔حال ہی میںپورے ملک میں پھیلی قاتل وبانے جب تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کو اپنا شکار بنایا اور پھر میڈیا کی ظالمانہ کارروائی سے ان بے چاروں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا نظرآیا تو ایسے نازک وقت میں ان مظلوموں اور بے کسوں کی فریاد رسی کے لیے مولانا متین الحق اسامہ کانپوری ہی میدان میں اترے اور اس بطل جلیل نے چند ہی دن قبل تبلیغی جماعت سے وابستہ ڈیڑھ سوافراد کی ضمانت منطور کراکر انھیں سلاخوں سے رہائی دلائی ، یہی نہیں فسادات میں لٹے پٹے بے یار ومددگار افراد کی بازآبادکاری اورراحت رسانی آپ کا وتیرہ تھا۔آپ نے جہاںمسجد ومدرسہ کے وقار کو بلند کیا۔وہیں مسلمانوں کوبطور خاص اترپردیش کے اقلیتوںکو سر اٹھاکر چلنے کا حوصلہ دیا۔
دوسری طرف مولانا محمد سلمان صاحب علیہ الرحمہ کی شخصیت بھی بے مثال رہی ہے ،آپ کی نسبت جتنی عظیم رہی ،آپ نے تادم زیست اس کے وقار وآبرو کی پاسداری کی ، دنیا جانتی ہے کہ آپ شیخ الحدیث شیخ زکریا علیہ الرحمہ کے داماد تھے، لیکن اس نسبت کی وجہ سے تفاخر بالانساب کو اپنا وتیرہ نہیں بنایا ،بلکہ منکسر المزاجی کو اپنا شعار بنایا۔آپ کا وجود مسعود اس امر کی دلیل تھا کہ جس کے پاس دین کا علم ہو وہ نہ امرا کے آستانے پر جبیں سائی کرتا اور نہ بادشاہوں کی ثنا خوانی کو اپنے سجادے کی آبرو گردانتا۔وہ ان سب سے بے نیاز ہوتاہے۔آپ کا سرجھکا تو صرف قادر مطلق کے آگے جھکا، آپ اخبارواشتہار کے انسان نہ تھے ، بلکہ قرآن وسنت کے علمبردارتھے۔ راقم سطور کو بارہا آپ کودیکھنے کا شرف حاصل ہے ،دارالعلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں کئی بار سہارنپور جانا ہوا ، اسی ضمن میں جامعہ مظاہر علوم کو بھی دیکھنے کی سعادت ملی لیکن آپ کی قربت کے حصول سے محروم رہا ۔آج جب سہ پہر میں جب سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ مولاناسید محمد سلمان صاحب بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تو طبیعت اچاٹ ہوگئی اور کچھ دیر کے لیے ورطۂ حیرت میں پڑا رہا اور بار بار یہ سوچتارہا کہ یا خدا آخر یہ کیا ہورہاہے کہ ہفتہ عشرہ نہیں بلکہ ایک دو دن کے وقفے سے عظیم شخصیات رخصت ہوتی جارہی ہیں۔اورخدا کی یہ سرزمین نیک طینت اور پاکباز لوگوں سے بہت تیزی سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ 
مذکورہ دونوں شخصیات کی رحلت سے صرف ایک خاص مکتب فکر سےوابستہ افراد کا نقصان نہیں ہوا ہے ، بلکہ پوری ملت کا خسارہ ہواہے، ملک بھر میں دین کی جو حالت ہے وہ ظاہر ہے کہ اس مرتبے کے لوگ جس رفتار سے اٹھتے جارہے ہیں ، اس سے ایک ایسا خلا پیدا ہورہاہے ،جس کا پر کرنا بظاہر ناممکن ہے۔یہ دونوں حضرات اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے ، انھوں نے جس تندہی ، ذوق وشوق، انہماک واشتغال، فہم وبصیرت اور اخلاص وللہیت  کے ساتھ جس طرح دین حنیف کی خدمت کی ہے ، اس کا اعتراف دینی حلقوں میں ضرور کیا جائے گا۔اہل اللہ فقر ودرویشی کی زندگی بسر کرتے ہیںتو نمائش کی یہ دنیا ان کی عظمت ورفعت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہتی ہے، لیکن جب وہ اس دنیا کو  چھوڑکر اپنے خالق حقیقی سے جاملتے ہیںتو پھر ایک دنیا سوگوار اور اشکبار ہوجاتی ہے۔ظاہر ہے کہ ان شخصیات کو اب ہم واپس نہیں لاسکتے ہیں، البتہ جس مشن کو وہ چلاتے رہے اور جس مشن ہی نے انھیں محبوب ومحترم بنایا ، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو جاری رکھیں ، یہی ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگااور ان کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنے گا۔جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کی جس آن بان شان کے ساتھ آپ نے آبیاری کی اور نامساعد حالات میں بھی جس طرح ثبات قدمی کا ثبوت دیا وہ آپ ہی کی ذات تک منحصر ہے۔درس وتدریس سے لے کر انتظام وانصرام اور پھر دعوت وتبلیغ ودیگر شعبہ ہائے دین کو جس تندہی اور چابک دستی سے آپ تادم زیست انجام دیتے رہے ،بارگاہ ایزدی میں اسے ضرور شرف قبولیت حاصل ہوگا۔آپ کا سراپا ایک ایسے شخص کا سراپا تھا، جس میں بیک وقت کئی شخصیتیں جمع ہوگئیں تھیں، آپ کی وسعت نظر، اسلوب فکر،علم آشنائی ، ذوق ایثار اور دینی جاہ وجلال نے آپ کو جامع صفات بنادیاتھا۔آپ کی رحلت سے ملت اسلامیہ ہند ایک عظیم سپوت سے تہی داماں ہوگئی۔اللہ آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور ملت اسلامیہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔

Sunday 14 June 2020

صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ پروفیسر ولی اختر ندوی کی رحلت

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہارکے
پیدائش: 3جولائی1968
وفات: 09 جون 2020 
ڈاکٹر جسیم الدین
jasimqasmi@gmail.com

 مشفق ومکرم استاذ محترم، عربی زبان وادب میں نمایاں خدمات کی بنیاد پر صدرجمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز،شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے مایہ ناز پروفیسر، استاذ الاساتذہ ڈاکٹر ولی اختر کے انتقال پر ملال کو چھ دن گزر چکے ہیں، لیکن طبیعت اس قدر مغموم اور بجھی ہوئی ہے کہ کچھ سپرد قرطاس کرنے میں خود کو بے بس محسوس کررہا ہوں، کئی بار کچھ لکھنے کی کوشش کی، لیکن ایک پیرا گراف بھی نہیں، بلکہ دو چار سطور قلمبند کرتے ہی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور دل پارہ پارہ ہونے لگتاہے اور سلسلہ موقوف کرنا پڑتا ہے، ایسا محسوس ہوتاہے کہ ذہن واعصاب نے ساتھ دینا چھوڑدیاہے، اپنی چونتیس سالہ زندگی میں کبھی بھی میں اس طرح جگر پارہ نہ ہوا، جس طرح استاذ محترم کے سانحہئ ارتحال پر دل فگار ہوں،آج جب برادر مکرم ڈاکٹر عبد الملک رسولپوری استاذ شعبۂ عربی ذاکر حسین دہلی کالج نے یہ پیغام بھیجا کہ:”سر(پروفیسر ولی اختر ندوی) کے تعلق سے کوئی تاثراتی مضمون قلمبند کیا ہو، تو ارسال فرمائیں“۔اس پیغام کو پڑھنے کے بعد کچھ لکھنے کی ہمت جٹائی ہے، اور کچھ قلمبند کرنے کے لیے طبیعت کو آمادہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ استاذ محترم پروفیسر ولی اخترسرکے ساتھ گزرے ہوئے لمحات بارہ برس پر محیط ہیں، جن میں دو سال ایم اے میں بحیثیت نووارد طالب علم عربی سے انگلش ترجمہ کی کلاسیزمیں جو لگاتار دوگھنٹوں پر مشتمل ہواکرتی تھیں۔اور پانچ سال بطور پی ایچ ڈی اسکالرآپ کی نگرانی میں اور پی ایچ ڈی کے بعد پھر ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن پوسٹ ڈاکٹورل فیلو یوجی سی کی حیثت سے تین سال اور بحیثیت گیسٹ فیکلٹی دوسال۔بارہ برس کا عرصہ کوئی معمولی نہیں ہے، اس طویل عرصے میں سر کو بہت ہی قریب سے جانا اور پہچانابھی۔یہاں یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، میری کوشش ہوگی کہ میں نے جیسا ان کو پایا، ویسا ہی سراپا پیش کروں۔ایم اے میں جب ترجمہ کی کلاس میں حاضری ہوئی تو تعارف کراتے ہی جب سیتامڑھی کا نام لیا تو فوراً چونکے سیتامڑھی میں کہاں؟ میں نے کہاکہ سیتامڑھی ضلع کے نانپور بلاک میں واقع ددری گاؤں کا ہوں۔ تو سر نے مسکراتے ہوئے کہاکہ میں بھی سیتامڑھی کا ہوں، لیکن کلاس میں اس بنیاد پر کوئی ہمدردی نہیں رہے گی۔یہاں آپ محنت سے پڑھیں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔مجھے بھی سر کی یہ بات بے حد پسند آئی اور ان کے یہ پوچھے جانے پر:’محنت کریں گے نا؟‘ میں نے ہامی بھری اور کلاسوں کی پابندی کی۔ایم اے کے سال میں مجھے دہلی یونیورسٹی میں ہاسٹل بھی مل گیاتھا، اس لیے بھی کلاس کی پابندی میں آسانی رہی، اسی دوران ایک بار جوبلی ہال دہلی یونیورسٹی سے متصل مسجد ’پٹھان والی‘خیبر پاس میں بعد نماز جمعہ میں نے استاذ محترم پروفیسر ولی اختر اور ڈاکٹر نعیم الحسن صاحبان کوظہرانے کی پیش کش کی، سر اولاًانکار کرتے رہے، لیکن میرے پیہم اصرار کے سامنے انکار کی گنجائش نہیں رہی، ہاسٹل کی صفائی ستھرائی دیکھ کر سر کافی متاثر ہوئے اور ظہرانہ تناول فرمانے کے دوران مفید باتیں بھی ہوتی رہیں۔ ایم اے میں دوران درس عربک ٹیکسٹ ریڈنگ میں جہاں عربی قواعد و محاورات کی بہترین وضاحت فرماتے، وہیں ترجمہ کے تکنک کو بھی نہایت سہل انداز میں سمجھاتے۔
 بلاشبہ آپ ایک قابل فخر، کہنہ مشق، طلبہ کی نفسیات کو سمجھنے والے ایک کامل استاذ تھے، خوش نصیب ہیں وہ تمام طلبہ وطالبات جن کو آپ سے استفادے کا موقع ملا۔طلبہ وطالبات کے درمیان مقبول ترین اساتذہ میں آپ کا شمار تھا، آپ کے شخصی رعب، علمی مقام اور وجاہت کی وجہ سے طلبہ اگرچہ آپ سے بے تکلفانہ گفتگو نہیں کرپاتے تھے، لیکن سبھی طلبہ وطالبات دل وجان سے آپ سے محبت کرتے تھے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے یہ علمی تفوق، بلند مقام، عوم وخواص کے درمیان مقبولیت ومحبوبیت اور ملک بھر کی متعدد جامعات میں سلیکشن کمیٹی کی رکنیت کسی بیساکھی کے ذریعہ حاصل نہیں کی، بلکہ اس کے پیچھے صرف اور صرف اللہ کا فضل وکرم اور آپ کی مفوضہ ذمے داری کے تئیں جفاکشی، وقت کا صحیح استعمال اور روزو شب جہد مسلسل اور سعی پیہم کارفرما رہی۔ ایم اے سال مکمل کرنے کے بعد آپ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن ہوا، اس دوران میں نے جے آر ایف کوالیفائی کیاتو سر بے حد خوش ہوئے اور کہاکہ یوجی سی فیلوشپ اس لیے مہیا نہیں کرتی آپ آرام سے کھا پی کر موٹے ہوتے رہیں، بلکہ آپ اپنی مطلوبہ وپسندیدہ کتابیں خریدیں اور پڑھنے لکھنے میں جن وسائل کی ضرورت درپیش ہوتی ہیں ان کی حصولیابی میں آپ کو کوئی دشورای کا سامنا نہ کرنا پڑے، اورآپ مالی تنگی کا سامنا کیے بغیر پرسکون انداز میں ریسرچ کریں۔سر کی یہ باتیں مجھے بے حد پسند آئیں اور وہ گاہے بگاہے یہ پوچھتے بھی رہتے کہ اس مہینے میں کونسی کتاب خریدی،لائبریری سے کن کن کتابوں کی فوٹو کاپی کرائی؟ جب بھی میں فیلو شپ کی رقم کی حصولیابی کے لیے فارم پر دستخط کرانے کے لیے حاضر خدمت ہوا، فوراً فرماتے کہ کام دکھائیے اگر کچھ کام بروقت دکھاتا تو ٹھیک اسی وقت دستخط فرمادیتے ورنہ ہفتہ عشرہ میں کچھ نہ کچھ متعلقہ موضوع پر مواد دکھانا پڑتا پھر دستخط فرماتے۔ایک بار سر تقریباًپندرہ بیس دنوں کے لیے اپنے وطن مالوف (ضلع سیتامڑھی میں بیرگنیا بلاک کے تحت واقع بھکورہر گاؤں) چلے گئے اور اس دوران مجھے ان سے کئی کاغذات پر دستخط کرانے تھے، سرنے وطن مالوف سے دہلی آتے ہی  فون کیا کہ آج جمعہ ہے اگر ضروری ہے  توگھر آکر دستخط کرالو، میں دہلی آچکا ہوں۔ قابل ذکر ہے کہ جب میراایم اے میں داخلہ ہوا تواسی سال آپ صدر شعبہ بنے۔صدر شعبہ بنتے ہی آپ نےدہلی یونیورسٹی کے سبھی کالجز میں عربی زبان وادب کی تعلیم شروع کرانے کے لیے سلسلے وارتمام کالجز کے پرنسپلوں کو خطوط لکھے، دو تین کالجز سے مثبت جواب آنے پر بے پناہ خوش ہوئے، اسی سلسلے کی ایک کڑی سینٹ اسٹیفنز کالج میں سرٹیفیکیٹ، ڈپلومہ او رایڈوانسڈ ڈپلومہ کی شروعات آپ کی رہین منت ہے۔آپ نے سینٹ اسٹیفنز میں عربی کے پارٹ ٹائم کورسیز شروع کرانے میں غیر معمولی دلچسپی لی اور یہاں لاک ڈاؤن سے پہلے تک کلاسیز لیتے رہے۔ جب میرا  پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن ہوا، اسی سال استاذ محترم پروفیسر کے عہدے سے سرفراز ہوئے میری بھی دیرینہ خواہش تھی کہ سرکے نام سے پہلے پروفیسر لکھوں، چوں کہ رجسٹریشن کے وقت جب میں نے سیناپسس پر پروفیسر لکھدیا تھا تو سر نے کاٹ دیا اور کہاکہ ابھی آفیشیل لیٹر نہیں موصول ہوا ہے، جب ہوجائے گا تب لکھنا۔خیر میں جمعہ کو عصر مغرب کے درمیان سر کی رہائش گاہ پر حاضر ہوگیا، حسن اتفاق کہ میری شریک حیات بھی ساتھ تھیں، ڈور بیل بجائی تو امینہ غالباً اس وقت پانچ چھ سال کی رہی ہوں گی،ڈور کھولا اور کہاکہ آجایئے، سر لنگی اور بنیان زیب تن کیے کرسی پر بیٹھے سامنے کمپیوٹر پر کچھ کام کررہے تھے اور بڑے صاحبزادے حماد گردان سنارہے تھے، میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے سر نے کہا کہ تمھاری شادی ہوگئی ہے اور فیلوشپ بھی مل رہی ہے تو وائف کو ساتھ کیوں نہیں رکھتے،میں نے کہاکہ سر ساتھ میں آئی ہوئی ہیں،سر بولے کہ کہاں ہیں؟ میں نے کہاکہ مجھے تو صرف دستخط کرانے تھے اس لیے ان کو دروازے  پر انتظار کرنے کو کہاہے، یہ کہتے ہی سر بھڑک گئے  اور کہاکہ  پاگل ہو، بلاؤ انھیں، جب میں نے بلایا تو سر نے امینہ کو بلاکر فرسٹ فلور پر امینہ کی والدہ کے پاس بھیج دیا اور مجھے اپنے پاس بٹھالیے، چائے ناشتے کے بعد دستخط کردیے اور کہاکہ پہلی بار تمھاری وائف آئی ہے، اس لیے ماحضر تناول کرکے واپس جانا، اس دوران مجھے وقت کے صحیح استعمال کی تلقین کرتے رہے اور عشا کی نماز سے قبل عشائیہ کھلاکر واپس کیے۔سرکی یہ الفت وعنایت دیکھ کر میں گرویدہ ہوگیا۔دیکھتے دیکھتے میری پی ایچ ڈی بھی ہوگئی، ہرچندکہ بارہا گھر بلاکر سر نے پچاس پچاس صفحات ایک نشست میں بآواز بلندپڑھوائے اور جہاں اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی اصلاح کی، اس طر پوری پی ایچ ڈی کو سنابھی اور فائنل شکل دینے کے بعد بذات خود پڑھا بھی، ریڈ پین سے سر کی تصحیح شدہ کاپی میں نے بطور یادگار محفوظ رکھی ہے۔ میرے سبمیشن کے سال میں ہی سر کے والد محترم سایہئ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔پی ایچ ڈی کے بعد ایک سال گیسٹ فیکلٹی کے طور پر شعبہ میں درس وتدریس وابستہ رہا، اسی دوران پی ڈی ایف کے لیے میرا انتخاب ہوگیا تو پھر اسے جوائن کرلیا، اور گزشتہ سال کے تعلیمی سال میں دوسال پی ڈی ایف کرکے پھر گیسٹ جوائن کرلیا۔اس دوران آپ نے بارہ سال میں بارہ  باربھی کوئی ذاتی کام مجھ سے نہیں لیا، ہاں لائبریری سے مطلوبہ کتابیں بکثرت منگواتے اور جو کتاب انھیں پسند آتی فورا زیروکس کرواتے۔بطور خاص عربک گرامر، ٹرانسلیشن سے متعلق نئی کتابیں۔رواں سال چند کتابیں زیروکس کرائیں جن میں How to write in Arabic  اور ایڈوانسڈ میڈیا عربک، انٹرمیڈیٹ لیول اور اڈوانسڈ لیول قابل ذکر ہیں۔علمی اشتغال آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا، مزاج میں یکسوئی اور زندگی میں انتہائی سادگی تھی، یونیورسٹی کیمپس میں زیادہ لوگوں سے آپ کے راہ و رسم نہیں تھے اور علمی اشتغال کی وجہ سے آپ کے پاس اس کا موقع بھی نہیں تھا، جب بھی آپ کے چیمبر میں جاتا کچھ پڑھتے ہوئے، پڑھاتے ہوئے، لکھتے ہوئے، سنتے ہوئے یا نصیحت کرتے ہوئے ملتے۔
رمضان المبارک میں سر سے بکثرت رابطے میں رہا، اس کی وجہ یہ رہی سر Qura'anic Verbs  الافعال فی القرآن الکریم پر کچھ نئے انداز کا تحقیقی کام کررہے تھے، اس کی ترتیب یہ بنائی تھی کہ پہلے افعال کی جتنی قسمیں ہیں، وہ تمام کے تمام سامنے آجائیں، پھر بکثرت کون افعال استعمال ہوئے اور اسی درجہ بندی کے ساتھ اپنے لیے پندرہ پاروں کو مختص کیا اور پانچ پانچ پارے مجھے اور ڈاکٹر ظفیرالدین صاحب استاذ شعبۂ عربی ذاکر حسین دہلی کالج کے سپرد کیے۔ سر نے فون کرکے پہلے پوچھاکہ لاک ڈاؤن میں کیا کررہے ہو؟ میں نے بتایا کہ این سی پی یوایل حکومت ہند سے منظور شدہ علمی پروجیکٹ بعنوان ’شمالی ہند سے شائع ہونے والے عربی رسائل وجرائد کا مطالعہ‘ کو مکمل کررہاہوں، ڈھائی سو صفحات ہوچکے ہیں،پچاس صفحات باقی ہیں، سر نے کہا پہلے اپنا پروجیکٹ مکمل کرلو، پھر میرا کام کرنا، ثواب کی نیت سے۔یہ اکیلا کرنے والاکام نہیں ہے، میں نے بسروچشم قبول کیا، اور سر کی ہدایت کے مطابق جب سر نے مجھے ورڈ ٹیکسٹ میں مکمل قرآن اور پہلے نواں اور دسواں پارہ بھیجا، ان دونوں پاروں سے سارے افعال نکال کربھیجنے پر پھر پندرہ اورسولہواں پارہ سر نے بھیجا اور میں نے یہ دونوں پارے بھی اٹھائیس اور انتیسویں رمضان کی شب میں مکمل کرکے سر کو بھیج دیے، سر نے واٹس ایپ پر اطلاع دینے کے جواب میں کلمات تشکر بھی پیش کیے اور دعائیں بھی دیں۔پھر بتایا کہ عید کی شام میں تمھاری طرف آؤں گا، لیکن میں نے عید کے دن دوپہر میں سر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ سر کب تشریف لا رہے ہیں؟ تو سرنے معذرت کردی کہ آج نہیں کل آتا ہوں، عیدکے کل ہوکر میرے محسن وبہی خواہ ڈاکٹر مجیب اختر صاحب استاذ شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے گھرتشریف لائے، سر کی تشریف آوری سے قبل ڈاکٹر مجیب اختر صاحب نے مجھے بھی بلایا اور بتایاکہ سر سے یہیں ملاقات ہوگی۔در اصل سر کو ایک کتاب بھی دینی تھی، ڈاکٹر منورحسن کمال کی تصنیف ”تحریک آزادی اور خلافت“، یہ کتاب سر کے کوئی استاذ جو پٹنہ میں قیام پذیر ہیں، انھوں نے منگوائی تھی، سر نے مجھ سے لاک ڈاؤن سےقبل ہی یہ کتاب منگوائی، لیکن اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے سر سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی تو اسی ملاقات پر سر نے مذکورہ کتاب بھی اپنے استاذ کے لیے لے لی۔
دراصل  استاذ محترم پروفیسر  ولی اخترندوی کی شخصیت مختلف الجہات ہے، آپ جہاں ایک کامیاب وبے مثال معلم تھے، وہیں آپ کے پہلو میں ضرورتمندوں کے لیے دھڑکتاہوا دل بھی تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی رحلت سے نہ صرف عربی زبان وادب سے وابستہ شخصیات رنجیدہ وافسردہ ہیں،بلکہ آپ کے دم سے جن کی دادرسی ہوتی تھی وہ بھی مغموم ومحزون ہیں۔آپ اپنی زندگی متعدد بیواؤں کی کفالت فرماتے تھے، جس کا گواہ میں خود ہوں، متعدد خواتین کے نام سے ہرماہ کسی کو تین ہزار، کسی کو چار ہزار، کسی کوپانچ ہزار بھیجواتے،میں نے کئی بار پوچھا بھی کہ سر یہ کون خواتین ہیں، جن کو آپ پابندی سے پیسے بھیجتے ہیں، سر بولتے کہ میرے یہاں کام کرتی ہیں، میں پوچھتاکہ سر کام تو ایک کرتی ہوگی صفائی ستھرائی،لیکن سر ٹال دیتے کہ چھوڑو پیسے بھیج دو ان کو، ان کی وفات کے بعد پتہ چلاکہ یہ خواتین وہ ہیں جو بیوہ ہوچکی ہیں اور ان کی کفالت کا ذریعہ ہمارے سر بنے ہوئے تھے۔ اللہ اکبر!سر آن لائن بینکنگ استعمال نہیں کرتے تھے وہ اکثر بذریعہ چیک یا اے ٹی ایم پیسے نکالتے تھے، لیکن کسی کو پیسے آن لائن ٹرانسفر کرنا ہوتا تو مجھ سے یہ کام بکثرت لیا کرتے تھے اور مجھے چیک یا کیش کے ذریعہ ادا کردیتے۔حساب وکتاب ان کا بالکل کلیئر ہوا کرتاتھا، سود کی رقم سے حد درجہ محتاط تھے، پاس بک کو ٹائم ٹوٹائم اپڈیٹ کراتے اور سود کے طور پر بینک سے ملی ہوئی رقم پر ریڈ مارک لگاتے اور اس رقم کو فورا نکال کرباہر کرتے۔نام ونمود کے قول وعمل سے بالکل اپنی شخصیت کو آلودہ ہونے نہیں دیا، آپ کی نرم خوئی اور انسانیت نوازی قابل رشک تھی، غلطی پر سخت انتباہ کے لیے بھی آپ مشہور تھے۔کوئی بھی اسکالر بطور خاص فیلوشپ یافتہ اسکالر دستخط کرانے کے لیے یک بارگی چیمبر میں جانے کی ہمت نہیں کرپاتا، ایک دو بار ڈور کے پاس جاتا پھر واپس آجاتا دو تین بار کے بعد ہمت کرکے داخل ہوتا کامیاب ہوتا تو زہے نصیب نہیں تو منھ بنائے واپس لوٹتا۔
ایک بار مجھے بھی سر پر بہت غصہ آیا کہ انھوں نے ذاکر حسین دہلی کالج سے دوماہ کی ملی ہوئی تنخواہ مجھ سے واپس کرادی، اس کا پس منظر یہ ہے کہ میں ایس آر ایف کے دوسرے سال میں تھاکہ فیلو شپ کی رقم غیر معمولی طور پر بڑھ گئی،اس لیے میں گیسٹ چھوڑکر فیلوشپ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، میری خواہش تھی کہ ذاکر حسین دہلی کالج سے ملی ہوئی دوماہ کی تنخواہ واپس نہ کروں اور فیلو شپ بھی ری ایکٹیویٹ کرالوں، لیکن سر نے یہ قبول نہیں کیا، میرے چہرے کے اثرات کو دیکھتے ہوئے سر نے کہاکہ جسیم جب یونیورسٹی کا قانون ہے کہ گیسٹ رہتے ہوئے فیلوشپ نہیں لے سکتے تو یہ کیسے میں منظور کروں؟ اس دنیاکے بعد بھی ایک دنیا ہے۔ سر کے یہ الفاظ سنتے ہی میرا غم وغصہ کافور ہوگیا۔       
    استاذ محترم کی شخصیت پر لکھنے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر لکھنے والے انشاء اللہ خوب لکھیں گے، میں بھی لکھوں گا، فی الحال میں استاذ مکرم کے اہل خانہ بالخصوص آپ کے برادر گرامی اور اپنے محسن وکرم فرماشیخ علی اختر مکی حفظہ اللہ استاذ مدرسہ ریاض العلوم جامع مسجد اردو بازار جامع مسجد دہلی، بھائی جمیل اختر، مولانا سہیل اختر ندوی اور آپ کے صاحبزادے حماد و خطاب اور صاحبزادیاں ثمینہ اور امینہ اور ان سب کی والدہ محترمہ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتاہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ جل شانہ استاذ محترم کو جنت الفردوس نصیب فرمائے، آپ کی زریں و سنہری خدمات کوشرف قبولیت عطا فرمائے اور دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔
ویراں ہے میکدہ خم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے


Saturday 6 June 2020

مودی حکومت: کبر ونخوت اور خون مسلم کی ارزانی کے چھ سال



حکومت: کبر ونخوت اور خون مسلم کی ارزانی کے چھ سال 

ڈاکٹر جسیم الدین
jasimqasmi@gmail.com
9711484126
ہم نے ماناکہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مرزا اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر وطن عزیز کی موجودہ صورتحال کی ترجمانی کررہاہے، آج کوئی بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر لقمۂ اجل بننے کو ترجیح دے رہاہے ،تو کوئی معاشی تنگی کے دباؤ میں آکر اپنے ہی گمچھا کو پھندہ بناکر سرعام جھول جارہاہے تو کوئی اپنے اہل وعیال کے ساتھ اجتماعی خودکشی کرکے معاش کی تنگی سے نجات پا رہاہے، اور جو طبعی زندگی جینا چاہتاہے تو اسے ملک کے اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے شرپسند عناصر آلام ومصائب کی چکی میں پیسنا چاہتے ہیں، کبھی جبرا شری رام کے نعرے لگانے کے نام پر موت کے گھاٹ اتارنا ، تو کبھی بچہ چور کا الزام لگاکر ہجومی تشدد کا شکار بنانا  انھوں نے اپنا مقصد حیات بنالیاہے۔ یہ کوئی افسانوی کردار نہیں ہے ،بلکہ زمینی حقیقت ہے بھوک کی شدت سے تڑپ کر جان دینے والی ماں کی خبریں گونج ہی رہی تھی کہ کل گیا میں ایک معمولی دکاندار لاک ڈاؤن کی وجہ سے مالک کی طرف سے کرایہ کے لیے بار بار دباؤ بنائے جانے پر اپنے گمچھاکو ہی پھندہ بناکر سرعام دکان کے بالائی حصے پر بنی گیلری سے باندھ موت کو گلے لگا لیا، ایسے ہی اترپردیش کا ایک خانوادہ اپنے ارکان کے ساتھ معاشی تنگی کے سبب زندگی کو خیرآباد کہہ دیا۔ وطن عزیز میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو زندگی کے تمام مصائب وآلام کو سہتے ہوئے  اپنے دم پر جینا چاہتاہے تو اسے اکثریتی فرقے کا شرپسند طبقہ موت کے گھاٹ اتارنے میں لیت ولعل سے کام نہیں لیتا۔ کل ہی نان پور بلاک ضلع سیتامڑھی کے ددری پنچایت میں آنے والے بہورار موہن پور ٹولہ کے باشندہ محمد وحید عرف پپو کو گوری پنچایت کے اکثریتی فرقہ کے شرپسندوں نے چاقو سے تابڑ توڑ وار کیے اور پورا جسم زخموں سے چھلنی کردیا، شرپسندوں کو آخر اتنا حوصلہ کہاں سے مل رہاہے کہ وہ اتنے بدمست ہوکر قانون کو ہاتھ میں لینے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ظلم وجبر کی سنگین ترین واردات کو انجام دینے کے بعد بھی وہ بے خوف وخطر آزاد گھومتا نظر آتاہے۔ جب کہ ددری اور گوری پنچایت کے باشندگان میں آپسی میل جول بے مثال رہاہے، ماضی میں کبھی اس طرح کے ناخوشگوار واقعات پیش نہیں آئے،لیکن آج کیا شہر اور کیا دیہات اور گاؤں ، ہرشہر ، ہرقریہ اور ہر بستی میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ جاری ہے، آخر انسانی معاشرے میں مذہبی بالادستی کے نام پر زہر کون گھول رہاہے؟ کبھی چمپارن کے مسلم نوجوان کو اکثریتی فرقے کے شرپسند عناصر نشانہ بناتے ہیں تو کبھی سیتامڑھی کے مسلم نوجوانوں کو ہدف بناتے ہیں،آخر بے موت مرنے یامارے جانے کا تسلسل کب تک قائم رہے گا؟ کیا مودی حکومت  اقتدار کے نشے میں اتنا بدمست ہوگئی ہے کہ وہ انسانی جان کو شیٔ حقیر سمجھ کر ان کے خون کو ارزاں ٹھہرا دیا ہے۔ کیاقانون کی بالا دستی ختم کردی گئی ہے، یا پھرکمزوروں اور بے بسوں سے جینے کا حق سلب کرلیا گیا ہے، اگر جواب نفی میں ہے تو پھر حکمراں طبقہ کی خاموشی کس بات کا اشارہ دیتی ہے؟         
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگرمودی حکومت کے چھ سالہ دور اقتدار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آفتاب نصف النہار کی طرح سامنے آئے گی کہ  ملک کے بیشتر باشندگان خواہ وہ تعلیمی ادارے سے وابستہ ہوں، یاملک کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے صنعتی کارخانوں کے کارکنان، یا ملٹی نیشنل کمپنیوں میں برسرکار ملازمین، یا پھر روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرکے پیٹ کی آگ بجھانے والے یومیہ مزدور بحیثیت مجموعی سب کے سب پریشان حال اور منتشر الخیال ہیں۔ایک انصاف پسند حکمراں کی اساسی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایاکے بنیادی حقوق کا خیال رکھے، ناخواندگی کی شرح کو کم کرنے کے لیے نئے تعلیمی ادارے قائم کرے۔ متوسط اور کمزور طبقہ کی آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کے لیےصنعت وحرفت کو فروغ دے ۔کم ازکم خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے ایسا نظم ونسق کرے کہ وہ بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر لقمۂ اجل نہ بن جائے۔بلکہ وہ طبعی زندگی گزار سکے۔ متوسط طبقہ کی بھی اتنی پاسداری کرے کہ وہ اپنے چھوٹے موٹے کاروبار کے ذریعے خود کفیل ہوجائے۔خود کفیل (آتم نربھر) موجودہ حکومت کا سلوگن بھی بن چکا ہے، لیکن یہ صرف زبانی جمع خرچ سے منطقی انجام تک نہیں پہنچے گا ،بلکہ اسے عملی طور پر نفاذ کی راہیں ہموار کرنا ہوگی۔ یہ سچ ہے کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتااور نہ اس قافلہ کے ارکان آپس میں ایک دوسرے کے فدائی ہوتے ہیں، بلکہ ان کی رفاقت بسنت پہ اڑنے والے پتنگوں کی طرح ہے جو آپس میں اڑتے اور آپس میں ہی کٹتے ہیں۔ ایسے ہی اقتدار کسی کا دائمی ساتھی نہیں ہوتا، دوست کا دوست تو کیا،خود اپنا دوست نہیں، جو لوگ بھی اقتدار کی کشتی پر سوار ہوتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں یہ کشتیاں کھی غرقاب بھی ہوسکتی ہیں، سلطنتوں کا جاہ وجلال، وزارتوں کا عروج وزوال یہ سب روزوشب کے تماشے ہیں، موجودہ حکومت کی فضول خرچیوں اور وسائل کی غلط تقسیم و بندر بانٹ، نا تجربہ کاری اور بعض غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج عوام کی اکثریت مشکلات کا شکار اور غیر مطمئن نظر آتی ہے۔ ارکان حکومت اور ان کے محبوب نظر سرمایہ داروں کی لوٹ مار کا تسلسل، ناکافی وسائل، مذہبی انتہا پسندی، ناقص العقل مشیروں کی کج روی، جہالت اور بے سوچے سمجھے لیے گئے فیصلے ملک کو مزید اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے نہ ماضی سے سبق سیکھا نہ حال کی فکر ہے اور نہ ہی مستقبل کی پروا۔ ماضی قریب کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عجیب تماشا نظر آتا ہے۔ پچھلے چھ سال کی مدت دراز میں اگر ملک کا حکمراں طبقہ صدق دل سے چاہتا تو ملک کی  تقدیر بدل سکتاتھا مگر ایسا ہو نہ سکا اور وقت کا بے رحم پہیہ آگے نکل چکا ہے۔گاؤں گاؤں اور شہر شہر الغر ض ملک کے طول وعرض میں فرقہ پرستی کا عفریت سر ابھارچکاہے۔حکومت وقت کی عدم توجہ یا صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے جہاں ملک کی اقتصادی صورتحال نہایت تشویشناک ہے، وہیں عام سہولتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اور عوام میں بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ ایسا لگ رہاہے کہ قیامت سے پہلے اس حکومت نے قیامت لادی ہے۔

Thursday 28 May 2020

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا    
ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ  فیکلٹی شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی،دہلی
jasimqasmi@gmail.com
9711484126
وطن عزیزکے باشندگان کے خواب وخیال میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ ان کے جنت نشاں اراضی کو کشت وخوں میں بدلنے کے لیے ماحول کو مسموم کردیا جائے گا، یہاں کی تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات نے بھی کبھی یہ سوچانہیں ہوگاکہ ان کو اپنے ہی ملک میں اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آنا ہوگا اور جب وہ صدائے احتجاج بلند کریں گےتوانھیں پابند سلاسل کردیا جائے گا۔یہی نہیں یہاں کے یومیہ مزدور کے وہم وگمان میں یہ بات نہیں پھٹکی ہوگی کہ ایسا بھی دن آئے گا کہ وہ نان شبینہ کے محتاج ہوجائیں گے اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر اسٹیشن پر ممتاکی پجاری ماں موت کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔مزدوروں نے یہ بھی نہیں سوچاہوگا کہ ان کی جہالت وناخواندگی کا خمیازہ اس طرح بھگتنا ہوگا کہ انھیں منزل مقصود تک پہنچانے کے نام پر ایسا بھونڈا مذاق بھی کیا جائے گا کہ سورت سے بہارجانے والی ٹرین کو بنگلور پہنچادیاجائے گا اور چاردن بعد پانچ دن میں وہ ٹرین  بہا رپہنچے گی، بس پر سوار ہونے والے جفاکش بندۂ مزدور کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھیں دہلی سے مرادآباد کے لیے چلنے والی بس انھیں مراد آباد نہ پہنچاکر علی گڑھ پہنچا دے گی اور وہ یہاں بے یارومددگار ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے، یہ کوئی افسانوی اور خیالی باتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ ہمارے ہندوستان کی موجودہ تصویر ہے، جو ہرکس وناکس پر عیاں ہے،  ہندوستان کا موجودہ منظر نامہ اگر کسی کی نگاہوں سے اوجھل ہے تو وہ برسر اقتدار حکمراں جماعت ہے، اقتدار کی مستی میں یہ اس طرح مدہوش ہے کہ انھیں خبر بھی نہیں ہے آنے والے انتخابات میں اقتدار سے بے دخلی کی شکل میں قیمت چکانی پڑے گی۔اگر آج حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اقتدار کے بل پر تعلیم گاہوں سے اٹھنے والی آواز کو بند کردے گی، تو یہ اس کی خام خیالی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ تعلیم گاہوں سے اٹھنے والی صدائے احتجاج نے تحریک کی شکل اختیار کی ہے اور حکومت وقت کے تختۂ اقتدار کو پلٹ دیا ہے، اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بندۂ مزدور کو ظلم وستم کی چکی میں پیس کر ان کے وجود کو نیست ونابود کردے گی تو یہ بھی اس کی نادانی ہے، ہندوستان کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل طبقہ مزدوروں کے ہاتھوں میں اقتدار کی کنجی ہوتی ہے، اگر حکومت آج انھیں بے بس وبے کس سمجھ کر جیسے تیسے ان کے حقوق کو پامال کررہی ہے تو اسے بھی اقتدار سے محرومی کی شکل میں اس کی بھی قیمت چکانی پڑے گی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اس ملک کا ہر امن پسندشہری حکومت کے موجودہ طرز عمل سے نالاں ہے، حکومت کی پے درپے ناکامی کا سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتا جارہاہے، ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہوتی جارہی ہے،تعلیمی اداروں میں بے جا دخل اندازی نے تعلیمی نظام کو مفلوج کردیا ہے، تعلیمی اداروں کی خودمختاری کو نہ صرف سلب کرنے پرحکومت  آمادہ ہے،بلکہ ان اداروں میں گرانٹ کی تخفیف کرکے تعلیم کو متمول طبقہ میں محصور کرنے کا مذموم ارادہ بھی رکھتی ہے۔جیساکہ حال ہی میں مرکزی وزیر نتن گٹکری نے فکی آڈیٹوریم کے ایک ہائی پروفائل ویبینار میں اس کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ تعلیمی اداروں کوکم ازکم پچاس فیصد گرانٹ خود ارینج کرنا ہوگا،حکومت کے بس میں نہیں ہے کہ سو فیصد گرانٹ فراہم کرے۔اسے ہم وزیر اعظم کی زبان میں اس طرح بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو بھی خود کفیل (آتم نربھر) ہونا پڑے گا۔
یہ طرفہ تماشا ہی ہے کہ ایک طرف حکومت ’میک ان انڈیا‘کا راگ الاپ رہی ہے اور دوسری طرف ہرایک کو آتم نربھر (خود کفیل) ہونے کا درس دے رہی ہے۔تعلیمی اداروں کو نجکاری کے دلدل میں دھکیل کر متوسط اور قلیل آمدنی والے طبقہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروزے بند کرکے ان کی ترقی کے دروازوں پر قفل بندی کررہی ہے۔حکومت کی ذمہ داری تو یہ بنتی ہے کہ اعلیٰ طبقات کے ساتھ ساتھ اپنے بلند وبانگ نعرے ’سب کا ساتھ،سب کا وکاس‘ پر عمل پیرا ہوکر اعلیٰ تعلیم کے نہ صرف دروازے کھولے، بلکہ ضرورت مند طلبہ وطالبات کے لیے سابقہ حکومتوں کی طرف جاری کردہ تمام اسکالرشپ کو بدستور جاری رکھے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت نے تقریباً پندرہ اہم اسکالرشپ کوٹھنڈے بستے میں ڈالدی ہے، ان میں ریٹائرڈ پروفیسر کی تعلیمی وتحقیقی تجربات سے استفادہ کو جاری رکھنے کے سلسلے میں دی جانے پروفیسر ایمریطس فیلو شپ کے علاوہ اڈوانس ریسرچ کے لیے متعدد اسکالرشپ،جیسے ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن پوسٹ ڈاکٹورل فیلو شپ، ڈاکٹر ڈی ایس کوٹھاری ہوسٹ ڈاکٹورل فیلوشپ، راجیو گاندھی  فیلو شپ فار ایس سی ایس ٹی، اندرا گاندھی وومن فیلو شپ، سوامی وویکانند ا سنگل گرل چائلڈ اسکالر شپ برائے سوشل سائنس، پوسٹ گریجویٹ اندرا گاندھی اسکالرشپ فار سنگل گرل چائلڈ، پوسٹ گریجویٹ میرٹ اسکالرشپ فار یونیورسٹی رینک ہولڈر،پوسٹ گریجویٹ اسکالرشپ  فار پروفیشنل کورس فار ایس سی ایس ٹی امیداوار،پوسٹ ڈاکٹورل فیلوشپ فار وومن، نیشنل فیلوشپ  فار ہائر ایجوکیشن، نیشنل فیلوشپ فار ڈس ایبلیٹیز،نیشنل فیلوشپ فار اوبی سی امیدوار کے علاوہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یوجی سی) کی طرف سے دیے جانے والے متعددمیجر ومائنر پروجیکٹ پر روک لگادی ہے۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مذکورہ تمام اسکالرشپ کا سابقہ حکومت میں ہرسال باضابطہ نوٹیفیکیشن ہوتا تھا، لیکن موجودہ حکومت  کی  سرد مہری یا سرکشی کی وجہ سے پچھلے تین برسوں سے یہ تمام اسکالر شپ اور پروجیکٹ  التواکا شکار ہیں۔حالاں کہ وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے سے قبل اپنے انتخابی ریلیوں میں اسی کی دہائی دیتے رہے کہ اس وقت کی حکومت (کانگریس) کے پاس نہ نیت ہے اور نہ نیتی یعنی کانگریس کے پاس کوئی معقول ایجنڈا ہے اور نہ اس کی نیت صاف ہے، لیکن قارئین کو یاد ہوگا کہ  اس (کانگریس)کی حکومت  میں تمام تر کساد بازاری کے باوجود ہندوستان معیشت کی پٹری پر تیزی سے رواں دواں تھا اور تمام علمی وتحقیقی کاموں کے لیے مختص فنڈ کو بروقت ریلیزکیاجاتارہا، اب صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کون سا طبقہ ہے جو ملک کی موجودہ صورتحال سے مطمئن ہے، تعلیمی اداروں سے جڑے اساتذہ پریشان ہیں، یومیہ اجرت پر کام کرنے والابندۂ مزدور جاں کنی کے عالم  میں ہے، تو تاجر طبقہ بھی ماتم کناں ہے۔خدا جانے یہ حکومت کن مقاصد اور عزائم کے تحت حکمرانی کررہی ہے کہ روز خوشنما وعدوں سے عوام کو بہلایا جاتاہے اور کبھی پندرہ ہزار تو کبھی بیس لاکھ کروڑ روپے مزدوروں کے ڈیولپمنٹ کے لیے مختص کرنے کا شگوفہ چھوڑا جاتاہے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات  غالب نے ٹھیک ہی کہاتھا:
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا    

Sunday 24 May 2020

بدلتے زمانے میں عید الفطر کا پیغام اور مرد مؤمن کا کام

بدلتے زمانے میں عید الفطر کا پیغام اور مرد مؤمن کا کام
ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ فیکلٹی، شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی
jasimqasmi@gmail.com
خاتم الانبیاء والمرسلین، شفیع المذنبین،سرورکونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت پرخلوص لہجہ میں اہل ایمان کو تلقین فرمائی:”لوگو! اسلام کو پھیلاؤ (سب کو سلام کرو سب کو سلامتی کی دعائیں دو) اور بھوکو ں کو کھانا کھلاؤ اور رات کو محو خواب ہونے کے بعد، نرم ونازک بستر سے الگ ہوکرتہجدادا کرو، اس  کے بدلہ میں جنت میں داخل ہو جاؤگے،یہ ہے خالق کی عبادت اورمخلوق کی خدمت۔پھر فرمایا اللہ کا شکر گزار بندہ وہی ہوتا ہے جو لوگوں کاشکر گزار ہو(مسلم)ایک جگہ اور ارشاد فرمایا اگر لوگ اپنی دعاؤں کو قبولیت کے مقام تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خدا کے بندوں کی ضروریات پوری کریں۔ 
الغرض  اسلام نے انسانی زندگی کا پورا نقشہ اور معلومات زندگی کا پورا خاکہ پیش کر دیا ہے اوریہ بھی واضح کردیا ہے کہ خدا کا یہ دین، دین اسلام، انسانیت کا مذہب ہے اوریہ مذہب، پیشہ و ر مذہبی لوگوں کے کسی طبقہ کو تسلیم نہیں کرتا اور عبدو معبود کے درمیان کسی قسم کی اجارہ داری کو حائل نہیں ہونے دیتا، ہر روح کسی پادری، پنڈت، پروہت، پیر، نیم ملا کی وساطت کے بغیر اپنے پیدا کرنے والے کی طرف صعود کرتی ہے ایک مضطرب دل کو تسکین دینے والی ہستی کے حضور میں جانے کے لیے ذاتی مفادات کے مدعیوں کی ایجاد کردہ راہوں اور رسموں کی کوئی گنجائش نہیں ہر انسان اپنا وکیل وشفیع ہے۔اسلام میں کوئی شخص کسی کو غلام نہیں بنا سکتا۔ سب خدا کے بندے اور غلام ہیں بہ حیثیت انسان سب مساوی درجہ رکھتے ہیں صرف تقوی قابل اعزاز ہے، ارشاد گرامی ہے، کلکم را ع و کلکم مسؤول عن رعیتہ(حدیث) تم میں ہر شخص راعی ہے۔ نگراں ہے اورمسؤول ہے۔ ہر ایک کو جو ابدہ ہونا ہے اپنی رعایا کے بارے میں۔
 عید الفطر اسلام کا عظیم تہوار ہے یہ تہوار خدا پرستی اوراسلامی تہذیب کا آئینہ دار ہے، عید الفطر میں فرندان اسلام کی ذمہ جو فرائض عائد کیے گئے ہیں وہ پوری انسانیت کے لیے رحمت اورسلامتی کے ضامن ہیں، امن، سلامتی، عدل، مساوات ہمہ گیر بھائی چاری عالمگیری محبت و اخوت اور فرقہ دارانہ ہم آہنگی کے روشن مینار ہیں اس عظیم تہوار عید الفطر میں فضول خرچی، رسم و رواج اور غیر معقول طرز زندگی کی گنجائش نہیں ہے، اسراف تبذیر، رنگ رقص اور لہوولعب یعنی غیر معنی کوئی فعل وعمل، عید الفطر کے مقدس پروگرام سے خارج ہیں، یا د رکھیے قومی کرداراور صحت مند معاشرہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی تعمیل سے وجود میں آتا ہے، مسلمان صحیح الفکر اور سلیم الدماغ ہوتا ہے، اور اسی صحت فکر و ذہن کی بنیاد پر مسلمان اسلام کا ترجمان بنتا ہے اوریہ مسلمان اسلام کی تصویر کی صحیح عکاسی کرتا ہے، ایک طرف اس کی بے پناہ مسرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ پوری گرم جوشی کے ساتھ رمضان المبارک کااستقبال کرتاہے، رمضان کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے تعلق مع اللہ کے ہر عنوان کو سرانجام دیتا ہے اور دوسری طرف خدا کی مخلوق خدتم اور انسانی حقوق کی ادائیگی میں سر گرم عمل ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، بیوی بچوں، قرابت داروں اوررشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا ہے، پڑوسیوں،  دوستوں، بیواؤں یتیموں، بیماروں، مسکینوں اورتمام انسانوں کے حقوق ادا کرتا ہے، سب کو خوش کرتا ہے مسرت و راحت سے ہمکنار کرتا اور دشمنوں کی دشمنی کو دوستی سے بدل دیتا ہے اس طرح انسانی معاشرہ پر مسرت و انبساط کی لہر دوڑ جاتی ہے، ماحول خوش گوار بن جاتا ہے اور عید الفطر کی خوشویں سے اسلامی تہذیب کا جلوہ فضا میں طاری ہو جاتاہے۔آئیے عید کے پس منظر بھی نگاہیں دوڑائیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ نے وہاں بھی یہ دیکھا کہ چند یوم مخصوص ہیں جن میں لہوو لعب کے مظاہرے ہوتے ہیں اورتمام متعلقہ لوگ اس میں شریک رہتے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان تہواروں کے دن ہیں جن کا سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تمارے  لیے دو دن مقرر کئے ہیں جو ان سے کہیں بہتر ہیں اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحی۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہر سال ان عیدوں کو اسلامی طریقے پر منا کر قیامت تک آنے والے حضرات کی مستقل رہنمائی فرمادی۔ احادیث میں تفصیل سے ان سب اعمال کا تذکرہ موجود ہے۔ جن کی رو سے بنیادی حیثیت اور عیدالفطر میں نماز عید اور صدقہ فطر کو حاصل ہے،  نماز عید سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے بعد حضرات خلفا ء راشدین خطبہ دیتے اورصدقہ فطر کے احکام وغیرہ سے لوگوں کو باخبر کرتے۔ صدقہ، فطر کے سلسلے میں یہ ہدایت تھی کہ جو لوگ بھی حیثیت رکھتے ہیں، اپنے اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقہ فطر نکال کر مساکین کو دے دیا کریں اور یہ اشارے بھی ملتے ہیں کہ اسے جتنا جلد ہو سکے ادا کر دیاجائے۔ اس تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ عید کے بنیادی عناصر دو ہیں۔ رب کریم کی بندگی کے  لیے سجدہ ریزہ ہونا جس کے  لیے دوگانہ عید کو واجب قرار دیا گیا اور غریبوں کی غمخواری اور باخبر گیری کرنا جس کے  لیے صدقہ، فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ ان نکات پر غور کرنے سے ہم خود بھی سمجھ سکتے ہیں کہ عید بے شک ہمارا تیوہار ہے لیکن اس کی نوعیت وہ ہرگز نہیں ہے جو دوسروں کے یہاں ان کے تہواروں کی ہے۔  اسلامی نظریہ ہر ہر قدم پر اطاعت فرماں برداری کا ہے اور اس کے  لیے اسلامی تعلیمات میں مکمل ہدایات موجود ہیں اور عید کا معاملہ بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ چنانچہ انسانی مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اسلام نے خصوصی دن متعین تو کر دئے ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ اجتماعیت کو اور اجتماعیت کے اظہار کو اچھا سمجھا گیا ہے لیکن اس کو عبادت سے ہم آہنگ کردیا گیا ہے جس میں بندگی کا بھرپور اظہار بھی ہے اور قوم کے بے کس اور بے سہارا اشخاص کا تعاون بھی ہے۔ عید کے یہی وہ بنیادی عناصر ہیں جنہوں نے اسلامی عید کو دوسرے تہواروں سے ممتاز کر دیا ہے اور اس سے اسلام کا یہ مزاج بھی ظاہر ہو کر سامنے آجاتا ہے، کہ بندگی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر حال میں مقدم ہے چاہے وہ خوشی کا موقع ہو یا رنج و غم کا۔
البتہ اسلام نے خدمت خلق اور قوم کے سہارا افراد کی رعایت کو بھی کار ثواب قرار دیا ہے اوراسے یا تو ایک فرض کی حیثیت دی ہے اور جہاں فرض نہیں ہے اس حالت میں بھی اسے بہت بڑے اجر و و ثواب والا عمل بتایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ موقع جن میں عام لوگ صرف خرافات میں بدمستی کو اصل موضوع سمجھتے ہیں، اسلام نے ان مواقع میں بھی ان چیزوں کو اہمیت اوراولیت دی ہے۔ عید کی ایک حیثیت انعام اور تحفہ کی بھی ہے۔ دن بھر اللہ کی رضا کے  لیے بھوکے پیاسے اوردوسری تمام نفسانی خواہشات سے دور ہے اور ایک دن یا ہفتہ نہیں پورا ایک مہینہ اس حال میں گزارا پھر راتوں کو سب سے پہلے تراویح میں مشغول رہ کر نماز اور قرآن سننے کی سعادت حاصل کی پھر حسب توفیق نوافل تسبیحات اور تہجد وغیرہ میں ان کاوقت مصروف رہا۔  مانگنے والوں نے خدا سے خیر و سلامتی کی دعائیں مانگیں اوراس کے فضل و کرم اور بخشش و مغفرت کے حقدار قرار پائے، صدقہ خیرات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا غرضیکہ خیر اور بھلائی کے جتنے ذرائے تھے ان سب میں پیش پیش رہے۔ عید کا دن انہیں عبادت گزاروں کا دن اوراللہ پاک کی طرف سے آج ان کو انعام دیا جانے والا ہے گو یا حقیق معنوں میں اصل عید تو انہیں کی ہے جنہوں نے رمضان کو رمضان گزارا اور بندگی کے تقاضے پورے  کیے، مگر ان کے طفیل میں دوسرے بھی اس خوشی میں شریک قرار پائے اور عید کے منانے کا حق انہیں بھی عطا کردیا گیا۔ اس موقع پر ایک بات بھی قابل توجہ ہے کہ عبادت اور نیکیاں جو رمضان میں کی جاتی ہیں، لوگ خیر اوربھلائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں او جس طرح زیادہ سے زیادہ عبادت گزار بندے بن کر اپنا وقت گزارتے ہیں یہ صرف رمضان ہی کے  لیے نہیں  ہے، بلکہ بندۂ مؤمن کا یہ شعار ہونا چاہیے کہ اس کا ہر عمل سنت وشریعت کا مظہر ہو، دوسروں کے لیے باعث کشش ہو اور وہ بندۂ مؤمن کے طرزحیات میں اپنی کامیابی وکامرانی کی جھلک پا رہا ہو، اگر ہمارے اعمال واخلاق اسوہئ نبوی کا پرتو ہوجائے تو آج بھی معاندین اسلام اپنی تمام تر ضد اورہٹ دھرمی کے باوجود ایک نہ ایک دن اسلام کے سایہ ٔ عاطفت میں ضرور آجائیں گے۔


Wednesday 20 May 2020

عالم عرب میں ہندوستانی علمی میراث کے سفیر

عالم عرب میں ہندوستانی علمی میراث کے سفیر
مولانا رحمت اللہ ندوی: مفصل تعارف
از: ڈاکٹر جسیم الدین 
گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی،دہلی یونیورسٹی، دہلی
jasimqasmi@gmail.com.
9711484126
عالم عرب میں ہندوستانی نامور علما کے علمی میراث کے سفیر مولانا رحمت اللہ ندوی نوجوان نسل کے لیے آئیڈیل اور لائق تقلید ہیں، بہت معمولی عرصہ میں آپ نے غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے، علم وتحقیق کے میدان میں آپ نے جو نمایاں مقام حاصل کرکے معاصرین  کے درمیان جو امتیازی شناخت بنائی ہے،اس میں جہاں آپ کی شبانہ روز کی سعی پیہم اور جہد مسلسل کو دخل ہے، وہیں آپ کی شخصیت سازی  میں آپ کے مشفق اساتذہئ کرام کی مثالی تربیت اور آپ کے چچا محترم مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری سینئر قاضی امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ بہار کی غیر معمولی توجہات اور دعائے نیم شبی کار فرما رہی ہے۔مولانا محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم نے نہ صرف آپ کی علمی رہنمائی کی،بلکہ آپ کی شخصیت کو بنانے سنوارے میں بھی غیر معمولی دلچسپی لی،آج مولانا رحمت اللہ ندوی جو کچھ بھی ہیں، اس میں مولانا قاسم صاحب مظفر پوری کا اہم کردارہے۔
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ  مولانا رحمت اللہ ندوی خود علم وتحقیق کے  شناور ہیں، کتب بینی ان کی غذا،تصنیف وتالیف ان کا مشغلہ اورعلمی اشتغال و انہماک روز وشب کا معمول ہے۔عربی زبان کی گہرائی وگیرائی اور اس کی نزاکتوں سے واقف ہیں۔عربی زبان کی مکمل آگہی اور اس پر دسترس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو  اردو زبان وادب سے فطری وابستگی بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مایہ ناز ونابغہ روزگار علما کی اردو تصانیف کو جہاں عربی کا جامہ پہنارہے ہیں، وہیں یہاں کے اکابر علما ومفکرین کی بیش بہا خدمات کا احاطہ عربی زبان میں کررہے ہیں، آپ اپنے اس منفرد وممتاز علم وتحقیق کی بدولت جہاں ہندوستانی علما کے محبوب نظر ہیں، وہیں اپنے فضل وکمال کی بدولت عرب علما کے بھی منظور نظربن چکے ہیں۔
راقم الحروف  نے دو سال قبل دہلی یونیورسٹی نارتھ کیمپس کی سینٹرل لائبریری میں کئی کتابوں کے مصنف محترم مولانا ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی سینئر سب اڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ساتھ مولانا رحمت اللہ ندوی صاحب کو دیکھا کہ ان کے دونوں ہاتھ گرد آلود ہیں اور وہ مطلوبہ کتابوں کی جستجو میں سرگرداں تھے، یقین جانیے مجھے آپ کو اس حال میں دیکھ کر بالکل حیرت نہیں ہوئی، چوں کہ چند سال قبل غالباً 2007-08 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں آپ کی کسی تصنیف کی رسم رونمائی کی تقریب تھی، یہاں مجھے آپ کی شخصیت سے مکمل طور پر آشنائی ہوچکی تھی کہ آپ علم وتحقیق کے کس مقام پر فائز ہیں، اس تقریب کی نظامت ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی صاحب نے کی تھی، اور مہمان خصوصی آپ کے چچا محترم مولانا محمد قاسم مظفرپوری، اورمشہور ونامور اسلامی اسکالر پرفیسر اختر الواسع وائس چانسلرمولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، پروفیسر ایمریطس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی تھے۔یہاں موجود اصحاب علم وفضل، اساطین قرطاس وقلم کی زبانی آپ کی شخصیت اور کارنامے پر مفصل روشنی ڈالی جاچکی تھی، اس لیے آپ کی علم دوستی اور تحقیق میں جانفشانی پر یہاں محوحیرت نہیں ہونا پڑا۔ہر چندکہ یہاں (دہلی یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری) پر بھی آپ کا یہ عمل آپ کے ذوق تحقیق اور علم وادب کی شناوری پر شاہد عدل ہے۔ آپ فی الحال قطر کی وزارت اوقاف سے وابستہ ہیں، ہندوستان چند دنوں کے لیے آتے ہیں،  لیکن یہاں آکر بھی آپ کتابوں کے درمیان ہی بیشتر اوقات گزارتے ہیں بطور خاص کتب خانوں میں۔آج مجھے ''خطبات مدراس'' سید القلم سید سلیمان ندوی صاحب کی سیرت پر کی گئی تقریروں کا مجموعہ کا عربی ترجمہ ''الرسالۃ المحمدیۃ'' کا ٹائٹل پیج القلم للبحث والترجمہ واٹس ایپ گروپ پر دیکھ کر بے پناہ خوشی ہوئی کہ آپ دیار عرب میں ہندوستانی علماء کے  علمی میراث کو کس شان سے منظر عام پر لارہے ہیں، آپ ٹیم ورک کو بھی تن تنہا مسلسل انجام دے رہے ہیں اور آپ کی اکثر عربی میں ترجمہ شدہ کتابیں دمشق کے دارالقلم سے شائع ہورہی ہیں۔آپ کی تصانیف میں المنثورات فی عیون المسائل المھمات (المعروفۃ بفتاویٰ الامام النووی،معدّل الصلاۃ، وجوب الطمأنینۃ والاعتدال فی أرکان الصلاۃ (تحقیق وایڈیٹنگ)،سیرۃ أم المؤمنین السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا،أشرف علی التھانوی حکیم الامۃ وشیخ المشائخ العصر فی لہند،مستدلات الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ (تخریج وتحقیق)  أدلۃ الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ علی المسائل الفقہیۃ،أدلۃ الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ علی المسائل،الفقہیۃ(مجلد ثانی وثالث) شامل ہیں، علاوہ ازیں رسائل فی الدعوۃ إلی الإسلام شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے تین رسائل(1) فضائل دعوت إلی اللہ(2) فضائل قرآن (3) فضائل نماز کے عربی  ترجمہ کی تحقیق وایڈیٹنگ کاکام انجام دیاہے۔علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے تین مشہور رسائل (1)فصل الخطاب فی مسألۃ أم الکتاب (2)کشف الستر فی صلاۃ الوتر (3)إکفار الملحدین فی ضروریات الدینکی تحقیق وایڈیٹنگ احادیث کی تخریج کے ساتھ۔ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ (سابق وزیر اوقاف پاکستان، وسابق وائس چانسلر اسلام آباد یونیورسٹی) کے مقدمہ کے ساتھ۔ 756 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دارالبشائرالإسلامیہ بیروت لبنان سے سنہ 2010ء میں طبع ہوئی۔ الطریقۃ المحمدیۃ والسیرۃ الاحمدیۃ(تحقیق وتدوین)،المدخل الوجیز إلی دراسۃ الاعجاز فی الکتاب العزیز(تحقیق وتدوین) مبادیئ فقہ القانون الدولی الإنسانی فی الشریعۃ الإسلامیۃ،(تحقیق وتدوین)، الابواب والتراجم لصحیح البخاری(تحقیق وتدوین) کے علاوہ اردو تصانیف کی بھی فہرست طویل ہے۔جن میں،وصیت اور اسکی شرعی حیثیت ،ہدیہ اور رشوت قابل ذکر ہیں۔علاوہ ازیں حال ہی میں جزء حجۃ الوداع وعمرات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (تحقیق وتدوین)مختصر الطحاوی (تحقیق وتدوین)مقاصد الشریعۃ والحیاۃ المعاصرۃ (عربی میں ترجمہ)جزء حجۃ الوداع وعمرات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (تخریج احادیث) المحدث الکبیر الداعیۃ الجلیل الشیخ محمد زکریا الکاندہلوی، حیاتہ وجہودہ العلمیۃ والتعریف بأہم مؤلفاتہ،الأبواب والتراجم لصحیح البخاری(تحقیق وتدوین) جیسی کتابیں بیروت ودمشق سے شائع ہوچکی ہیں  قرآن کریم کتاب ہدایت تصنیف کرکے مفت تقسیم کی گئی۔جو کتابیں زیر تحقیق وتالیف ہیں،ان میں تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ فی الہند للشیخ مسعود عالم الندوی رحمہ اللہ مع نبذۃ عن حیاتہ وأعمالہ ومآثرہ العلمیۃ والدعویۃ،الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ، النظام التعلیمی والتربوی للمسلمین فی الہند قدیما وحدیثا،مشہورمصنف ومحقق علامہ مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی 600صفحات پر مشتمل کتاب”ہندوستان میں مسلمانوں کا تعلیمی وتربیتی نظام تعلیم“ کاعربی زبان میں ترجمہ اورتحقیق کاکام زیرتکمیل ہے۔ آپ کا قلم جہا
ں سیال ہے،وہیں آپ کی فکربالیدہ  او رشعور پختہ ہے۔آپ کا فکر وفن آپ کو معاصرین سے ممتاز کرتا ہے، بات چاہے معلومات کی ہو یا اسلوب نگارش کی، ہرمیدان میں آپ کی انفرادیت آپ کی شناخت ہے، آپ کا اسلوب نگارش بھی بڑا البیلا ہے، آپ کی تصانیف کی ہر سطر چاشنی وشیرینیت کے ساتھ معنی خیز تعبیرات سے لبریز ہے۔ اللہ کرے زورقلم اور زیادہ۔
 اس وقت مولانا رحمت اللہ ندوی دیار عرب میں ہندوستانی علماء کے علمی میراث کی ترویج واشاعت کے سفیر ہونے کے ساتھ ہم نسل نو کے لیے آئیڈیل ہیں۔آپ نہایت خاموشی سے بڑے بڑے علمی و تحقیقی مشاریع پر پیہم کام کررہے ہیں، ہرسال قابل ذکر آپ کا علمی کارنامہ منظر عام پر آنے کے بعد شرف قبولیت حاصل کرتا ہے اور علم وادب کے شائقین کے لیے اس طرح گراں قدر سرمایہ آپ فراہم کرتے ہیں۔آپ کا جہد مسلسل اور سعی پیہم آپ کے روشن مستقبل کا غماز ہے، یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مردہ پرستی کا رواج عام ہے، زندگی میں خواہ آپ علم وفن کے کوہ گراں کو سر کردیں، لیکن اس کی ستائش کرنے والے خال خال ہی ملیں گے اور داعی اجل کو لبیک کہتے ہی متوفیہ کے فکر وفن پر تحقیق اور کارناموں کو گنوانے کے لیے قومی و بین الاقوامی سیمیناروں و کانفرنسوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اس ذہن ومزاج اور اس فرسودہ طریقہ کار کو بدلا جائے گا اور جو بھی علمی وتحقیقی کارنامے انجام دینے والی موجودہ شخصیات ہیں، ان کی زندگی میں ہی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے، بلکہ نسل نو ان کے طریق کار کو اپنانے کی تلقین بھی کی جائے. میری یہی دعا ہے کہ  اللہ تعالیٰ آپ کے علمی وتحقیقی سفر کو یونہی جاری رکھے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے علمی پس منظر سے بھی آگاہ کرایا جائے،تاکہ مولانا رحمت اللہ ندوی کی علمی شخصیت سے مکمل آگہی کے ساتھ، ان کے تعلیمی مراحل ومنازل سے بھی آشنائی ہوجائے۔مولانا رحمت اللہ ندوی نے یکم اکتوبر 1974کو ضلع مظفر پور کے ایک گاؤں مادھوپور میں علمی خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ابتدائی تعلیم اپنے گھرمیں اپنے والدحافظ محمدناظم رحمانی سے حاصل کی، بعدازاں گاؤں کے مدرسے میں مولانامحمداختراورمولاناشمیم احمدجومیرے خالوبھی ہیں،سے تعلیم حاصل کی پھرآپ کے چچا محترممشہورعالم دین حضرت مولانا قاضی محمدقاسم مظفرپوری جو مدرسہ رحمانیہ سپول بہارمیں شیخ الحدیث تھے،کے ساتھ مدرسہ رحمانیہ سپول گئے جہاں ان کی نگرانی میں باضابطہ تعلیمی سفرکاآغاز کیا۔مدرسہ رحمانیہ سپول میں ثانویہ کی تعلیم مکمل کی۔یہاں پر اپنے بڑے ابا کی نگرانی اورخصوصی تربیت میں ثانویہ درجات کی تمام درسی کتابیں پڑھیں۔وہاں فقہ،حدیث،عربی زبان،نحووصرف اورقرآن کریم کے کچھ پاروں کاترجمہ مع تفسیرکی تعلیم ہوئی آپ کے چچا محترم مولانا قاضی محمدقاسم مظفرپوری نے قاضی القضاۃ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی سے مشورہ کیا اس کے بعد مولانارحمت اللہ ندوی نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے لیے1986 میں رخت سفرباندھا۔ندوۃ العلماء میں کئی برس رہ کر علیادرجات کی تعلیم حاصل کی اورفقہ میں تخصص کیا۔1993ء تک ندوۃ العلما کی علمی وروحانی فضاؤ ں میں تعلیم وتربیت کاموقع ملا۔مختلف علوم وفنون میں یکتائے روزگاراساتذہ کرام سے کسب فیض کاموقع ملتارہا۔جن میں سرفہرست حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی،حضرت مولاناڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی،حضرت مولانا زکریاسنبھلی،حضرت مولانامحمدعارف سنبھلی،مفسرقران مولانابرہان الدین سنبھلی،حضرت مولاناشہباز احمداصلاحی،حضرت مولانانذرالحفیظ ندوی،شیخ الحدیث حضرت مولاناناصر علی ندوی لکھنوی،فقیہ الاسلام مفتی ظہوراحمدندوی،حضرت مولانا نیاز احمدقاسمی ندوی خاص طورپر قابل ذکرہیں۔ ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مولانارحمت اللہ ندوی کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں حضرت مولاناڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی کی خصوصی توجہ حاصل رہی۔ان کی خصوصی تربیت میں عربی زبان وادب کاذوق پروان چڑھا۔1991ء میں عالمیت اور1993ء میں فضیلت کی ڈگری اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ 1992ء میں انہیں مفکراسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن ندوی اورحضرت مولاناعبداللہ عباس ندوی رحمہااللہ کے ہاتھوں ’مثالی طالب علم‘ کااعزاز حاصل ہوا۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم:
مولانارحمت اللہ ندوی نے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد1994ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سعودی عربیہ میں بی اے کلیۃ الشرعیہ میں داخلہ لیا۔وہاں ممتاز طالب علم کی حیثیت سے مشہوررہے اوروہاں کے مختلف علمی وثقافتی پروگراموں میں حصہ لیا۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ان کے علمی وتحقیقی ذوق کو خوب پرواز ملی۔وہاں انہو ں نے فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن محمدالغنیمان،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبدالرازق بن عبدالمحسن العباد،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر محمدمختارالشنقیطی،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبدالسلام السہیمی،فضیلۃ الشیخ احمدحسن الحارثی،فضیلۃ الاستاذڈاکٹر غازی بن غزای المطیری سے خاص طورپر فیض حاصل کیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم:
مولانارحمت اللہ ندوی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے عربی ادب میں 2008ء میں ایم اے کیا۔اس کے بعد2012ء میں اسلامک اسٹڈیزسے ایم اے کیا۔عربی اوراسلامک اسٹڈیز میں پرائیویٹ امیدوارکی حیثیت سے امتیازی نمبرکے ساتھ ڈگری حاصل کی۔
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں بحیثیت باحث:
مولانارحمت اللہ ندوی نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعدفقیہ الاسلام حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی کی دعوت پر امارت شرعیہ پھلواری شریف آئے جہاں مرکز البحث والدراسہ والترجمہ کے باحث کی حیثیت سے اپنی علمی وتحقیقی سرگرمیو ں کاآغاز کیا۔یہاں کئی علمی پروجیکٹ پر کام کیا۔
کویت کے مخطوطات کے ادارہ سے وابستگی:
پٹنہ میں قیام کے دوران کویت میں قائم مخطوطات کے ایک سرکاری ادارہ سے وابستگی ہوئی اورہندوستان میں اس ادارہ کے نمائندہ کے طورپر کام کیا۔
دوحہ،قطر میں ملازمت:
مولانارحمت اللہ ندوی نے 1998ء میں دوحہ قطر کی وزارت داخلہ میں ملازمت اختیارکی۔وہ روزاول سے ہی وزارت کی مفوضہ ذمہ داریو ں کو نہایت ایمانداری اوروفاداری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔
رب ذوالجلال سے یہی دعاہے کہ آپ کے علم وتحقیق کا سفر یونہی جاری رہے،اور آپ کا فیض پوری دنیا میں عام ہوتارہے۔بلاشبہ آپ تصنیف وتالیف کے ذریعے اکابر علما کے علمی میراث کی نشر واشاعت اور ارتقا میں زبردست کردار ادا کررہے ہیں۔
خدا کرے یہ مرحلہ شوق تمام نہ ہو

Tuesday 19 May 2020

فقیہ النفس محدث جلیل مفتی سعید احمد پالنپوری کی رحلت



 تیری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی ،دہلی
jasimqasmi@gmail.com
9711484126
کائنات کا روز ازل سے یہ دستور ہے کہ جوبھی کارگہ عالم میں آیا ہے،اسے ایک نہ ایک دن جاناپڑے گا، لیکن بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں، جن کے وجود سے ایک انجمن آراستہ رہتی ہے اور ان کے جانے سے انجمن کی رونق ماند پڑجاتی ہے، استاذ محترم فقیہ النفس،محدث جلیل مفتی سعید احمدپالنپوری بلاشبہ ایسی شخصیت تھے کہ جن کے وجود مسعودسے دارالعلوم دیوبند کی علمی فضا معطر ومشکبار تھی، آپ کی ذات والا صفات قرن اول کی سادگی کانمونہ تھی،آپ کی طبیعت میں حلم وبردباری،مزاج میں انکساری  اورزبان میں شیرینی  تھی، آپ علم القرآن کے شیدائی،علم الحدیث کے رسیا اور فقہ اسلامی کے زمزشناس تھے، آپ کے بیان میں شیفتگی، تحریرمیں شگفتگی تھی،آپ فقید المثال اساتذ ہ کے شاگرد  اور نامور شاگردوں کے استاذ تھے، چہرہ مہرہ شرافت کی دستاویز، دل خوف غیر اللہ سے خالی، دماغ غور وفکر کا خزینہ اورآپ کا سراپا اکابر واسلاف کا نمونہ تھا۔آپ کی رحلت سے ایک فرد یا ایک خانوادہ ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ مغموم ورنجور ہے، آپ ملت اسلامیہ ہند کے لیے جہاں گراں مایہ تھے، وہیں علوم نبویہ کے طالبعلموں کے لیے چشمۂ صافی تھے۔آپ کے علم وفضل کادائرہ غیر محدود تھا، آپ کے درس حدیث کا عالم میں غلغلہ تھا۔صرف دارالعلوم دیوبند میں داخلہ پانے والوں نے ہی آپ کے علم وفضل سے استفادہ کیا، بلکہ آپ کی بیش قیمت تصانیف وتالیفات سے بلا تفریق مذہب وملت ہر خاص وعام نے کسب فیض کیا۔آپ کی  غیر معمولی علمی خدمات کے اعتراف میں صدرجمہوریہ ہند کی طرف سے ایوارڈبھی پیش کیاگیا۔بلاشبہ آپ کی ذات والا صفات ہرچندکہ اس طرح کے ایوارڈ سے بلند وبالاتھی، لیکن آپ نے حب الوطنی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ہند کی طرف سے دیے جانے والے اس اعزاز کو قبول فرمالیا تھا۔
آپ کو ذات باری تعالیٰ نے جہاں قرطاس وقلم کی بے پایاں قوت واستعداد سے سرفراز کیا تھا، وہیں آپ کی شخصیت رجال سازی کے لیے مشہور تھی، آپ نہ صرف اپنے گرد وپیش رہنے والے طلبہ کے لیے فکرمند رہتے،بلکہ طلبہ کی پوری برادری کے لیے دل دردمند رکھتے تھے، راقم الحروف نے   2001 میں آپ سے جامع ترمذی جلد اول پڑھی۔درس وتدریس میں آپ کے کچھ منفرد اصول وضوابط تھے، جن پراخیر وقت تک سختی سے قائم رہے، یوں تو آپ کا طریقۂ تدریس ہی ممتازخصوصیات کا حامل تھا، شاید ہی کوئی طالب علم آپ کے سبق سے غیر حاضر ہوتا، جامع ترمذی جلد اول کی عبارت خوانی کے لیے بھی چند طلبہ کو اپنی رہائش گاہ پر بلاتے اور فرداً فرداً عبارت خوانی کراتے اگر آواز مترنم اور پرکشش ہوتی تو زہے نصیب،ورنہ جامع ترمذی کی عبارت خوانی کے شرف سے محروم رہنا پڑتا، صرف سماعت سے مستفید ہوتے۔وقت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ بعد نماز مغرب  متصلاً درس حدیث شروع ہوجاتا، مفتی صاحب کے ورود مسعود سے پہلے تمام طلبہ کی درسگاہ (دارلحدیث تحتانی) میں اپنی نشستوں پر موجودگی لازم ہوتی، مفتی صاحب رونق افروز ہوتے اور عشاکی اذان تک تقریباً دیڑھ گھنٹہ تشنگان علوم حدیث کو اپنے منفرد اسلوب وانداز میں سیراب کرتے۔بطور خاص سال کے اختتام پر آخری سبق جو سبھی طلبہ کے لیے اپنے میدان عمل میں نہ بھلایاجانے والا سبق ہوتا، اس سبق میں آپ کا انداز وآہنگ اتنا پرتاثیر ہوتاکہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد جہاں آپ کے ارشادات کو قلمبند کرتے وہیں کچھ طلبہ ٹیپ ریکارڈکی  مدد سے ریکارڈنگ میں مصروف رہتے،اور باقی ہمہ تن گوش ہوکر میدان عمل میں اترنے کے لیے جن آلات کی ضرورت درپیش ہوتی ہیں ان کے بارے میں کیاتیاری ہو اور کس نہج پر ہو گرہ باندھ لیتے۔اس آخری سبق میں جہاں مفتی صاحب اپنے طلبہ کو بیش بہاپند ونصائح سے نوازتے وہیں مدارس کے مروجہ نظام (چندہ وغیرہ)پر کھل کر تنقید بھی فرماتے اور بطور خاص ناقص الاستعداد طلبہ سے منصب اہتمام سے خود کو دور رکھنے کا عہد وپیمان بھی لیتے، مفتی صاحب کا نقطۂ نظر یہ تھا منصب اہتمام مدرسہ آگ پر چلنے کے مترادف ہے، اگر یہ کوالیٹی آپ میں ہے تو آپ شوق سے منصب اہتمام کو سنبھالیے،ورنہ نہیں۔تبلیغی جماعت میں علماء کی شمولیت کتنا  مفید اور کتنا مضر؟ اس حوالے سے بھی پرتاثیر خطاب فرماتے کہ جو جید الاستعداد طلبہ ہوں وہ فراغت کے فوراً بعد سال بھرکے لیے دعوت وتبلیغ میں جانے کے بجائے تخصصات کے شعبوں میں وقت لگائیں، ہاں جو متوسط ہیں وہ درس وتدریس سے جڑ جائیں اور جو ناقص الاستعداد ہیں وہ مسجد سے وابستہ ہوکر اذان وامامت کی ذمہ داری نبھائیں۔ آپ جہاں علم حدیث میں ید طولیٰ رکھتے تھے،وہیں آپ علم کلام اور علم فقہ میں بھی ممتاز ومنفرد مقام رکھتے تھے۔آپ نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شہرۂ آفاق تصنیف ’حجۃ اللہ البالغہ‘ کی شرح’رحمۃ اللہ الواسعہ‘ کے نام سے تقریباً چار جلدوں میں لکھی، حجۃ اللہ البالغہ کی شرح ’رحمۃ اللہ الواسعہ‘ میں مفتی صاحب نے جس انداز میں شاہ ولی اللہ کے علوم ومعارف کی تشریح وتوضیح کی ہے وہ آپ کی امتیازی شان ہے۔
آپ فقیہ النفس تھے، فقہ جو در اصل قرآن  وحدیث فہمی کے بعد اس سے مستنبط ہونے والے مسائل کا مصدر وسرچشمہ ہے، اس میں بھی آپ کو رب ذوالجلال نے آفاقیت عطا فرمائی، آپ قدیم مختلف فیہ مسائل کو جس انداز سے تشریح وتوضیح کرتے ہوئے فقہ حنفی  کی وجہ ترجیح کو احادیث اور آیات قرآنی سے ثابت کرتے، یہ بھی آپ کا یگانہ اندازہوتا تھا، جدید مسائل میں بھی امت مسلمہ کی رہنمائی کافریضہ جس انداز میں انجام دیا، وہ بھی قابل رشک ہے، حال ہی میں ’کورونا‘ کے ختم ہوجانے کے سلسلے میں ’ثریا‘ ستارہ کے طلوع ہونے کے بعد بیماری کے خاتمہ کا سبب ہونے کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی گئیں تھیں اس کی واضح تردیدکرتے ہوئے  بہت  ہی مفصل محدثانہ خطاب فرمایا جو یوٹیوب وغیرہ پر موجود ہے۔غرضیکہ قدیم مختلف فیہ فروعی مسائل میں مضبوط رائے کے ساتھ نصوص شرعیہ کو پیش کرنے اور اختلاف کو رفع کرنے میں قسام ازل نے غیرمعمولی قدرت دی تھی۔چھ دہائیوں سے مسلسل درس وتدریس اور پچھلے اڑتالیس برسوں سے دارالعلوم دیوبند کی مسند درس وتدریس اورشیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد  2009سے بحیثیت شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی آن بان شان تھے۔آپ کا وجود ایک ادارہ، آپ کی شخصیت ایک انجمن اورآپ کی ذات ایک جماعت تھی۔کاش ابھی آپ  داغ مفارقت نہ دیتے، لیکن قدرت کے منشا کے سامنے انسان بے بس ہے۔اس مبارک ماہ میں آپ کی رحلت قابل رشک ہے،ساتھ ہی آپ کی رحلت سے نہ صرف وابستگان دارالعلوم دیوبند کا بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا جو ناقابل تلافی نقصان ہواہے، اللہ اس کی بھرپائی کرے۔رب ذوالجلال آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے۔ع
تیری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

Saturday 16 May 2020

الهند كما يصفها الدكتور محمد حسين هيكل

الهند كما يصفها الدكتور محمد حسين هيكل

د. محمد جسيم الدين
محاضر ضيف في قسم اللغة العربية بجامعة دلهي

الدكتور محمد حسين هيكل من الرحاليين الذين رحلوا إلى الهند وكتبوا عن مشاهداتهم و تجاربهم عن الثقافات الهندية وحضاراتها، فقد نال شهرة فائقة بين أقرانهم وخلف وراءه آثارا رائعة وأعمالا قيمة، لها دور في تطوير العلوم والفنون الأدبية من التاريخ والجغرافيا والرحلات. إنه زار الهند في عام 1953م، وجمع المعلومات والمعرفة عنها، ثم نسخها و رتبها في شكل المقالة في كتابه القيم "الشرق الجديد"، وقد أمضى خمسة أسابيع من 31 ديسمبر إلى 3 فبراير 1954م.
وكتب مارأى في الهند من علم وثقافة، والأماكن التاريخية، والمراكز الدينية، والمعابد الهندوسية التي زارها بالقصد وبعضها مروراً في الطريق بدون الإرادة.
لايمكن لي أن أقوم بالتركيز على جميع انطباعاته للهند في هذا المقال الوجيز، بل أريد أن أتناول انطباعاته الخاصة التي تتعلق بزيارته إلى أربعة أماكن. الأول: زيارته التاج محل وفتح بور سيكري، والثاني: زيارته مدينة مومباى ولقاؤه حاكمها وحوراه مع حاكم مومباى حول قضايا شتى مثل قضايا المرأة الهندوسية ونظام الطبقات وشأن المنبوذين وأهمية غاندي في تعميم المساوات بين الأسرة الهندوسية خاصة بين الطبقات العليا والمنبوذين وتأثيره على المجتمع الهندي. والثالث: زيارته المعابد الهندوسية الواقعة في بنارس ومواضع أخرى. والرابع: زيارته جامعة علي كره الإسلامية وانطباعاته عنها.
وإنه كان مشتاقا للغاية إلى زيارة الهند كما يذكر في كتابه: "منذ عهد غير بعيد كنا إذا ذكرت الهند حسبناها من البعد عنا بحيث لايجول بخاطر أحد منا أن يفكر في زيارتها أو يمر بخاطره أن هذه الزيارة مما يدخل في حيز الممكنات، وكان عامتنا حين يذكرون بلاد العجائب يذكرون الهند والسند وبلادا تركب الأفيال، فلما انقضت الحرب العالمية الأولى وبدأت الثورة المصرية سنة 1919م بدأنا نسمع في مصر عن أنباء حركة "المهاتما غاندي" في الهند ونرى وجوها للشبه غير قليلة بين حركتنا وحركة الاضطراب ومقاطعة البضائع الأجنبية، وعدم التعاون وماإلى ذلك من شؤون قربت في أذهاننا بين تلك البلاد وبلادنا، ودلتنا على أن ذلك  الذي كنا نتصوره من قبل من بعد بلاد الهند عنا لم يكن مرجعه إلى مايفصل بيننا وبينها من آلاف الأميال، وإنما كان مرجعه إلى جهلنا أمرها وعدم وقوفنا على شؤونها، فلما بدأنا نقف على بعض هذه الشؤون قربت منا، لأن العلم يقرب بين الإنسان ومايعرف، في حين يباعد الجهل بين الإنسان و مايجهل".
الهند تَعني بالحركة الاستقلالية:
يصف الدكتور حسين هيكل حركة الهند الاستقلالية في كتابه "الشرق الجديد" بأن حركة الهند الاستقلالية زادت نشاطا وقوة، وازددنا تتبعا لها ووقوفا على الكثير من أمرها، فازددنا قربا منها. وزاد في هذا القرب أن رأينا الهند تعني من شؤون مايجري في محيطنا بما نعني به نحن، وتشاركنا في آلامنا وآمالنا. لما ألغت تركيا الخلافة الإسلامية بعد أقصت سلاطين آل عثمان عن عرشها بدأت في العالم الإسلامي حركة تفكير قوية في هذا الأمر الذي كان يعتبر يومئذ حيويا عندجميع المسلمين وكانت جمعية الخلافة في الهند أقوى مظهر لهذه الحركة. ولم يكن ذلك عجبا ومسلمو الهند يبلغون يومئذمئة مليون ويؤلفون أكبر كتلة إسلامية في العالم كله. ولكن العجب في اشتراك الهنود غير المسلمين مع الهنود المسلمين في حركتهم هذه وتأييدهم لها حرصا على وحدة الهند وكان طبيعيا يومئذ أن تتطلع الأنظار هنا في مصر، وأن تتطلع أنظار المسلمين في شتى بقاع العالم، إلى هذه الحركة الهندية الإسلامية وإلى تأييد "المهاتما عاندي" وأنصاره من الهندوس لها، وأن يقرب ذلك بين الهند والعالم الإسلامي كله،وأن يدفعنا هذا التعاطف إلى الشعور بأن الهند ليست بعيدة عنا بقدر ما كنا نتصور. وهل يقرب بين الناس شيئ كاشتراكهم في العواطف إزاء أمر بعينه. وهذه الاشتراك في العواطف يمحو الأبعاد وإن بلغت ألوف الأميال وعشرات الألوف من الأميال.
فلما نجحت الحركة الاستقلالية في الهند زاد نجاحها في قربها منا معشر الذين يطلبون الحرية والاستقلال للشعوب جميعا، وبخاصة لأن الهند قارة أوشبه قارة كما يسمونها، ولأن استقلال أربع مئة مليون من البشر يمثلون خمس الإنسانية في مجموعها يعتبر نصرا مؤزراً وفتحا مبيناً للحرية والاستقلال وللكرامة الإنسانية ولكل المعاني الإنسانية السامية. وبدأ الغرب يكشف لنا عما في الهند من قيم روحية وخلقية عليا كما كان جهادها في سبيل الاستقلال مثلاً فذاً في تاريخ الجهاد الإنساني للحرية، وبدأنا بذلك نشعر أن هذه البلاد المترامية الأطراف ذات الماضي المجيد والفلسفة الروحية السامية جديراً  حقاً بأن نزورها وأن نشهد ما فيها وأن نقف على حاضرها وماضيها.
لذلك لم أتردد حين وجهت إلي حكومة الهند الدعوة للاشتراك في الندوة التي تعقد (عقدت) في نيو دلهي لدرس ماكان لتعاليم غاندي وأساليبه العلمية من أثر في توثيق العلاقات الإنسانية في داخل الأمم وبين الأمم بعضها وبعض، فقبلت الدعوة لأول ما عرضت علي، وأخذت أدرس حياة غاندي وتعاليمه، وأقف أثناء هذه الدراسة على شيئ غير قليل عن حياة الهند في ماضيها وحاضرها، وأهيئ نفسي على ما هناك من ألوان  الحياة ومظاهرها في هذا العالم الجديد الذي لم يتح لي من قبل أن أتصل به أو أقف عليه.
وترتب على قبول الدعوة أن عرفت أن الطائرة تقطع مابين القاهرة و بومباي في عشر ساعات وكذلك سافرت إلى الهند فقضيت بها خمسة أسابيع من 31 ديسمبر إلى 3 فبراير وفي هذه الأسابيع الخمسة شهدت الشيئ الكثير مما يسرني أن أحدثكم الأن عنه.
على أنني أبادر إلى القول بأنني لم أتنقل خلال ربوع الهند طيلة هذه الأسابيع الخمسة. فقد كانت ندوة غاندي معقودة في نيو دلهي، وكان مقررا أن يمتد انعقادها من 5إلى 17 يناير، فكان لزاما أن نقيم بعاصمة الهند طوال هذه المدة. فلما انتهت الندوة تنقلت أنا وصديقي الدكتور "أحمد متين الدفتري" رئيس وزراء إيران السابق خلال الهند طيلة الأسبوعين اللذين بقيا من إقامتنا في ربوعها. فلما فرغنا من تجوالنا السريع في أرجائها قفلنا عائدين معاً حتى نزلنا بغداد ليسافر هو منها بعد أيام إلى طهران، ولأسافر أنا منها بعد أيام كذلك إلى القاهرة.
الهند تشابه في كثير من الأوضاع بمصر:
كثيرون يظنون أن الهند بلاد جميلة كسويسرا أو كلبنان. ويغريهم بهذا الظن أن بها جبال الهيماليه حيث تقوم قمة إفرست أعلى قمة في جبال العالم. ويظن آخرون أن الهند بلاد الغابات والأدغال الموحشة التي تغطي عشرات الآلاف من الأفدنة، وأنها تحوي من الوحوش أمثال الأسد والنمر والفهد مايخافه الإنسان. يغريهم بهذا الظن ما كتبه الرحالون الإنجليز وغير الإنجليز عن صيد الوحوش في الهند وكلا هذين الظنين لايصوران الواقع من أمر الهند في مجموعها. صحيح أن الجبال تمتد في شمال الهند وتقوم حاجزا منيعا بينها وبين جاراتها من الأمم الأخرى. لكن طبيعة الهند فيما سوى هذه المنطقة الشمالية طبيعة سهلة تشبه طبيعة وادينا المصري في كثير من الأحيان، والمرتفعات التي تقوم على الساحل الهندي ليست جبالاً علية عظيمة الارتفاع، بل هي في كثير من الأحيان هضاب لايزيد ارتفاع الكثير منها على الجبال المحيطة بوادينا والتي تفصل بينه وبين صحرائنا الشرقية وصحرائنا الغربية. صحيح أن بعض البلاد بالداخل ترفع عن سطح البحر بضع مئات من الأمتار، وأن هذا الارتفاع يجعل جوها رقيقاً مقبولاً على مدار فصول السنة، لكن ارتفاعها هذا لايجعلها جبلية، بل هي أراض منبسطة تجري السيارة في طرقها مستوية مئات الأميال تنبسط عن يمينها وعن يسارها المزروعات الممرعة ويمتد البصر منها إلى الأفق فلا يقف في طريقها حائل من تل أو هضبة أو جبل إلا نادراً.
لفتت هذه الطبيعة السهلة المنبسطة نظرالكثيرين من إخواننا الذين دعوا إلى ندوة عاندي، ولفت نظرهم خصب الأرض المخضرة بالزروع النامية الممتدة إلى مدى البصر.
زيارته تاج محل وفتح بور سيكري:
يذكر الدكتور محمد حسين هيكل زيارته تاج محل وفتح بور سيكري في كتابه بهذه الألفاظ"ذهبت أنا والدكتور "رالف بانش" نزور  تاج محل في آغرا ونزور آثاراً أخرى في المدينة المهجورة "فتح بور سيكري" وآغرا تبعد عن دلهي مسافة مئة وخمسة وعشرين ميلا، و"فاتح بور سيكري" التي تبعد عن آغرا خمسة وأربعين ميلاً، وقد كان انبساط الأرض وخصبها موضع  حديثنا ونحن في السيارة".
الهند بلاد زراعية وفيرة الثروة:
أن الهند بلاد زراعية وفيرة الثروة كثيرة الخامات ولذلك كانت مطمح نظرالمستعمرين في عصور كثيرة. ولم أقف أثناء تجوالي بالهند على تلك الغابات التي تصاد فيها النمور والحيوانات المفترسة ولعل هذه الغابات تقع في مناطق محدودة لم يتسن لي أن أذهب إليها.
الأثار الهندية تجذب الأنظار:
يقول الدكتور هيكل: "إذا كانت الطبيعة أول مايأخذ بنظر السائح الغريب عن الديار فالآثار هي أشد مايجذبه ويستهويه. فالسائح القادم إلى مصر أول ما يفكر  في زيارة الهرم وأبي ابي الهول وسقارة والأقصر. حين نزلنا دلهي قيل لنا أن من جاء الهند ولم ير تاج محل لم يكن قد زار الهند. فأنت حين تذهب إلى فرنسا مثلاً فأول ما يعينك أن تشهده وأول ما يعني أهل فرنسا أن يطلعوك عليه هي الآثار الموجودة في باريس وما حولها في فرساي وفونتنبلو، وفنسين، وقصور اللوار في أواسط فرنسا.
وزيارة الآثار لايقصد بها إلى مشاهدة هذه المباني وما تحويه للمتاع بجمال العمارة وجمال ما بداخلها وكفى، بل يقصد بها إلى معنى أدق من هذا بكثير . يقصد بها إلى معرفة صلة الإنسان بالحياة والوجود في مختلف أدوار التاريخ. فالآثار المصرية القديمة تصور حياة الفراعنة وتصورهم للحياة ولما بعد الحياة. والآثار الفرنسية تصور حياة فرنسا السياسية والاجتماعية وما طرأ عليها من هزات بلغت حد الثورات أحياناً وماتقع عليه العين من آثار روما ما هو مهدم منها وما هو باق إلى اليوم، يصور حياة الرومان القديمة وتطور هذه الحياة خلال العصور إلى وقتنا الحاضر".
ويعترف الدكتور هيكل بأن الهند غنية بالآثار إلى غير حد وآثارها تترك في النفس ألواناً مختلفةً من التصور الإنساني للحياة في عصور الإنسان المختلفة. ذلك بأن الهند طرأت عليها ألوان من الحضارات استقرت فيها وتركت من آثارها ما يقف النظر بالفعل. فهناك إلى جانب الآثار  الهندوسية الأصلية- التي يرجع تاريخ بعضها إلى ألفي سنة أو أكثر- آثار المغول، وآثار الفرس، وغير هؤلاء وأولئك من المسلمين. كما أن هناك آثاراً حديثةً أقام الهنود بعضها وأقام البريطانيون البعض الآخر، وكل هذه الآثار تقف النظر وتدعو إلى أعمق التفكير.
انطباعات هيكل عن الآثار  الإسلامية الواقعة في الهند :
ويبين الدكتور هيكل بأن الهند لها الآثار الإسلامية التي يشهدها الإنسان في أرجائها المختلفة وهي المساجد والمقابر وتاج محل وهو أبهى هذه الآثار وأكثرها روعة وجلالاً، إنما هي مقبرة شادها الملك "شاهجهان" لامرأته، كما أن أهرامات مصر مقابر شادها الفراعنة ليدفنوا بها. وأنت تشهد هذه العمارات البديعة التي أقامها ملوك المسملمين في الهند ليدفنوا أو يدفن بعض ذويهم بها منتشرة في كثير من المدن. تشهدها في دلهي، وفي آغرا، وفي الكسندرا، وفي حيدرآباد وفي مثلها من المدن الكبرى ذات التاريخ المجيد في الهند وكثيرا مانرى إلى جانب هذه المساجد الفخمة مساجد مستقلة غير متصلة بها. وهي في ذلك تختلف عن مقابر المصريين المتصلة بالمساجد وتختلف كذلك عن مقابر الصالحين المتصلة بالمساجد في العراق وتركيا. فقبور الصالحين في مصر والعراق أو مقصوراتهم كما نسميها هي جزء من المسجد كما أن المقصورة النبوية جزء من المسجد النبوي بالمدينة. وعمارة المساجد تختلف بين مصر والعراق، لكن السالحين المدفونين هناك تقع مزاراتهم داخل المسجد  على حين تقع مقابر الملوك المسلمين في الهند منفردة عن المسجد، يفصل بينها وبينه طريق يختلف سعة وضيقاً.
صورة المساجد والمقابر في الهند كما رأى هيكل:
يقول هيكل بأنه لم يرى مقابر متصلة بالمسجد إلا ماكان في مسجد "حيدرآباد" على أن نظام المقابر في هذا المسجد يختلف عنه في مساجد مصر والعراق سواء منها مساجد أهل السنة أو مساجد الشيعة. فمقابر "حيدرآباد" هذه وهي ثلاثة تقع في دهليز طويل يبلغ طوله ثلاثين مترا أو تزيد، وهذا الدهليز مرتفع عن الأرض قرابة متر، مبني كله بالرخام، والقبور تتوسطه مبنية بالرخام، وقد غطي كل منها بستر من قماش كثيف، يرفعه سادن هذه القبور للزائرين ذوي المكانة من ضيوف الدولة.
فأما مساجد الهند فتختلف كذلك عن غيرها من مساجد المسلمين، ولم أر لها شبيها إلا الجامع الأموي بدمشق. فأما مساجد العراق ومساجد إستانبول فتشبه مساجدنا هنا من حيث إنها مسقوفة كلها. أما مسجد دمشق، وأما مساجد الهند فالجانب المتصل منها بالقبلة مسقوف يرتكز سقفه على عمد ثم يظل سائر المسجد مكشوفا إلى السماء متصلاً مع ذلك ببقية المسجد على أنه جزء منه. ومساجد الهند التي رأيتها حسنة البناء كلها. ولم أعن نفسي بالبحث عن أي هذه المساجد لأهل السنة وأيها للشيعة، وإن كنت قد عرفت في كثير من المدن التي زرتها أن للشيعة مساجد ولأهل السنة مساجد أخرى. وفي البعض يزيد أهل السنة على الشيعة زيادة كبرى، وفي البعض الآخر يزيد الشيعة على أهل السنة زيادة ظاهرة. ويرجع ذلك إلى التاريخ أكثر مما يرجع إلى أي سبب آخر. فقد نزل الفرس الذين جاءوا الهند بعض المدن وكثروا فيها فكانت الكثرة فيها للشيعة، بينا كثر غير الفرس من المسلمين في مدن أخرى فكانت الكثرة فيها لأهل السنة.
الأثار الهندوسية والمعابد الهندوكية في عيون هيكل:
يصف الدكتور هيكل بأن الهند تفتخر على الآثار الهندوسية المختلفة ومعظمها معابد، يرجع تاريخ بعضها إلى ألفي سنة أو أكثر. بينا أقيم البعض في عهد حديث وقد هجرت بعض هذه المعابد الهندوسية حتى تهدمت أو كادت، بينا بقي بعضها إلى اليوم عامراً. ويتعذر على من لم يدرس عقائد الهند وفلسفة هذه العقائد أن يميز بين هذه المعابد والمذهب الذي تمثله. ولقد كانت مدة إقامتي باهند قصيرة فلم أتمكن من دراسة تعاونني على هذا التمييز بين المعابد. ولكنني مع ذلك زرت الكثير منها ووقفت عند بعضه معجباً بدقة عمارته، معتجاً كذلك بما بين ألوان العبادة فيه وبين التثليث المصري القديم والتثليث المسيحي وبين التثليث الهندوسي من شبه، وإن اختلف مايرمز إليه التثليث الفرعوني والمسيحي والهندي خلافاً كبيراً. وتبعث هذه المعابد وما فيها من نشاط صورة من حياة الماضي الهندي يجعله في حكم الحاضر ونشاطه.
انطباعاته عن مدينة بنارس:
لا يخفى على أحد من الناس بأن بنارس مدينة شهيرة في الهند لكونها عاصمة دينية للهنادك. يصفها الدكتور حسين هيكل بألفاظه: "زرنا المدينة المقدسة "بنارس" الواقعة على نهر "الجانج" أو "الجانجي" كما يسميه الهنود، ومررنا بعد العشاء ببعض معابدها فألفينا العشرات بل المئات يذهبون إلى هذه المعابد ومع الكثيرين منهم مايتقربون به إلى معبوداتهم، يصنعون من ذلك ماكان يصنعه أسلافهم منذ مئات السنين أو ألوفها، ويشهدون بذلك على أن هذا الماضي مازال حياً كما كان، وأن مظاهر الحضارة الغربية لم تجن عليه في قليل ولاكثير.
وزرنا عصر ذلك اليوم معابد تشهد ألوان العبادة فيها بأن الحياة الحديثة والعلم الحديث لم يجنيا على مقدسات الماضي السحيق حين كان الإنسان يتخذ الحيوان ويتخذ الأحجار إلى الله زلفى.
زرنا بعد ذلك في "سارناث" على مقربة من مدينة "بنارس" معبد "بوذا" وآثاره. الشجرة التي يذكرون أن الإلهام أضاء أمامه بنوره وهو تحتها، والهضبة التي آوى إليها ليعبد فيها ربه، والمعبد الذي أقيم من عهد غير بعيد رسمت على جدرانه تعاليمه. ومن عجب أن البوذية التي نشأت في الهند لم يبق لها في الهند أتباع إلا قليلين، بينما ازدهرت في بلاد أخرى تجاور الهند، برما والتبت وبعض أنحاء الصين واليابان.
ومادمنا بصدد المعابد الهندية والحديث عنها فلا أستطيع أن أغفل أقربها عهداً وأقربها إلى تصوير التطور في الحياة الروحية الهندية تطوراً كان المهاتما غاندي صورته الحية. أقصد معبد "برلا" وهو المعبد الذي أقامه السري الهندي برلا في نيو دلهي وافتتحه "المهاتما غاندي". فهذا المعبد مجموعة تحتوي عدة معابد أحدها برهمي، والآخر بوذي، والثالث لمذهب آخر من المذاهب الهندية. وفي كل واحد من المعابد يرى الإنسان مكتوباً بالإنجليزية وحدانية الله، وتشير إلى ماكان يكرره "غاندي"من أن الله هو الحق، وأن الحق هو الله، وتذكر أن الخلق والحياة والانهيار والفناء مظاهر، وأن البقاء لله وحده، وأن الأرباب التي تصور الخلق والبقاء والتجدد إنما تصور صفات من صفات الله. أ ليست هذه المعاني الدينية المنقوشة على جدران هذا المعبد تمثل المعاني المشتركة في الأديان كلها.
انطباعاته عن المهاتما غاندي :
يقول الدكتور هيكل إن "غاندي" كان رجلاً متديناً شديد الإيمان بالله. طلب إليه بعضهم يوماً أن يكتب كتاباً يصور فيه فلسفته الدينية والسياسية فقال: إنني لست فيلسوفاً، ولكنني رجل عمل، فإذا عرضت لي مشكلة استخرت الله فألهمني طريقاً فسرت فيه فوفقني إلى ما أبتغيه. ليس هذا المقام مقام الحديث عن غاندي وآرائه لكني وأنا أقص مشاهداتي في الهند لابد لي من أن أذكر أنني حين قرأت حياته أخذت منها أكثر من كل شيئ بمجهوده لمقاومة عقائد تأصلت في الهند خلال عشرات القرون بل مئاتها، ونجاحه في ذلك نجاحاً منقطع النظير، حتى لقد كان أول مادار بحاطري وأنا بالطائرة في طريقي إلى الهند أن أرى مبلغ هذا النجاح. قاوم "غاندي" نظام المنبوذين، وقاوم عبودية المرأة للرجل، فكان لذلك من أتباعه منبوذون كثيرون، ونساء كثيرات. وقد سألت نفسي: أتأصل هذا في الهند فأصبح بعض عقائدها، أم تراه تطاير فعادت الهند إلى سابق عهدها قبل "غاندي".
لقاؤه حاكم ولاية مومباي:
يعبر حسين هيكل عن آرائه وأفكاره خلال لقاء حاكم ولاية "مومباي" إنه دعاه إلى طعام الغداء يوم وصوله إلى "مومباي". ويذكر هيكل في كتابه بهذه الألفاظ" فلما التقينا ودار بيننا الحديث سألته: ما شأن المنبوذين في الهند اليوم؟ وكان جوابه: لقد ألغى الدستور نظام الطبقات وقرر مساواة الهنود جميعاً. قلت: هذا حسن من والوجهة النظرية فهل انتقل الأمر إلى الحياة العملية فأصبح الناس يعاملون بعضهم بعضا وكأن لم يبق بين الطبقات فارق؟ وأجابني الرجل في صراحة: لا أستطيع أن أقول نعم. فما يزال من أهل الطبقات القديمة من لايؤمن بهذه المساواة، ولايزال منهم من يرى المنبوذين نجساً. لكني مقتنع أن هذا الاعتقاد مصيره إلى الزوال بعد أن أصبح أبناء المنبوذين يجلسون إلى جانب أبناء الطبقات الأخرى في المدارس ومعاهد التعليم، وبعد أن فتحت ابواب الوظائف الحكومية للأكفاء جميعاً بسرف النظر عن الطبقات التي ينتمون إليها، وبعد أن أصبح من حق الجميع أن يعملوا في الأعمال الحرة المختلفة، وأن يكسبوا من المال ما تؤهله لهم كفايتهم. وللتطور الاقتصادي حكم على التطور العقلي، كما أن التطور العقلي متأثر بأحوال العالم الذي تقاربت أجزاؤه. لهذا أعتقد أن هذا التمييز بين الطبقات صائر إلى الزوال عما قريب، وإن كان زواله ليس معناه ألا تنشأ طبقات أخرى أساس منشئها الثروة أو الجاه أو ما شئت من أسباب التفرقة المختلفة".
والتقينا ونحن في "بنارس" بالفيلسوف الهندي الدكتور "باجوات داسي"، وهو رجل مهيب الطلعة يبلغ من العمر آنذاك أربع وثمانين سنة، فحدثته في أمر المنبوذين، فكان جوابه غير جواب حاكم "بومباي" قال: إن محاولة القضاء على الطوائف معارضة للطبعية وللتكوين الإنساني. فقد أثبت الإحصاء في أمريكا أن ثلاثة وأربعين في الألف فقط من بين المتعلمين تعليما عالياً هم الذين يستطيعون السمو بتفكيرهم إلى مرتبة التجريد وأن غير هؤلاء من المتعلمين ومن غيرهم هم الذين يقومون بالتجارة أو بشؤون الجيش، وأن العدد الأكبر هم الذين يزاولون الأعمال الجسمانية كالزراعة والصناعة وما إليهما ومن هؤلاء من لايستطيعون من هذه الأعمال إلا أقلها حاجة للكفاية أو المهارة. وتطبيق هذا الذي قرره الإحصاء بعد ذلك يعود بك إلى تصوير الطوائف في الهند تصويراً يرجع إلى ألوف السنين. وإذا كان هذا التصوير قد فسد وأصبحت الطوائف العليا تعمل لكسب المال وهو محرم عليها فليس الذنب في ذلك ذنب الفكرة المستندة إلى تكوين الإنسان الطبيعي، بل الذنب ذنب الجماعات الإنسانية التي يهوي بها الضعف إلى درك لا يتفق وما فرضته الطبيعة بين الناس من اختلاف.
كان هذا جواب الفيلسوف الهندي الحكيم. وهو كما ترون جواب علمي لا يغير من واقع الحياة شيئا. وواقع الحياة في عصرنا الحاضر أكثر اتفاقاً مع الرأي الذي أبداه حاكم "بومباي" والذي تتجه إليه الديمقراطية وغير الديمقراطية في العصر الحديث.


أوضاع المرأة الهندية في عيون هيكل:
يذكر هيكل عن أوضاع المرأة الهندية في العصر الحديث فيقول إن تطور شأن المرأة في الهند أعظم من تطور شأن الرجال. فقد تناول التطور في أمر الرجال طائفة منهم بعينها. أما المرأة فقد دفعها التطور في كل الطوائف إلى الأمام وإلى الحرية دفعاً لايكاد الإنسان يصدقه. وكان أكبر الفضل في هذا "للمهاتما غاندي" كذلك. كانت المرأة الهندية إلى عهد غير بعيد في حالة تقرب من الرق، حتى لكانت تحرق مع زوجها حين يموت، وكانت في حياتها في مركز يكاد يكون مركز الرقيق. فلما أشركها "غاندي" في حركة المقاومة في غير عنف، وفي حركة العصيان المدني، أظهرت من قوة الاحتمال ماعجز عنه الرجال في بعض الأحيان هنالك ارتفعت الصيحة بأن للمرأة من الحق في الحياة ما للرجل، وسرعان ما انتقلت من ذلك إلى مساواته في الحقوق كلها، وفي الحقوق السياسية نفسها. ولعمري إنها بذلك لجديرة. لقد كنت شديد الإعجاب بمدام "بانديت" شقيقة الرئيس نهرو منذ رأيتها في الجمعية العامة للأمم المتحدة عام 1946م وعام 1947م، وكنت أحسبها امرأة ممتازة لايشاركها في امتيازها رجل أو امرأة. فلما ذهبت إلى الهند وأتيح لي أن اتحدث إلى بعض السيدات هناك، رأيت صورة إنسانية بالغة غاية الرقي، في تفكيرها وفي ذوقها الحياة. وزادني اقتناعاً بذلك أن شهدت بعض مظاهر النشاط النسوي في الحياة الاجتماعية وفي الحياة التربوية، لافي دلهي وحدها، بل في مدن مختلفة زرتها. وليس عجباً أن تنهض المرأة في أمة كل شيئ فيها ناهض أو متوثب للنهوض.


انطباعاته عن ازدهار الهند في العصر الحديث:
قد اعترف هيكل بتقدم الهند وازدهارها كما يقول في كتابه "الشرق الجديد"  إن الهند بلاد زراعية أرضها خصبة متنوعة الحاصلات مع ذلك تعمل الحكومة المركزية متعاونة مع حكومات الهندية لمضاعفة الإنتاج الزراعي بإقامة السدود لتنظيم الري، وتعمل في الوقت نفسه لتصنيع البلاد وتركيز الصناعات الكبرى في الأجواء الملائمة لها. والصناعة هي الوسيلة الأكيدة لشعور الأمم بمقدرتها الإنسانية على الدفاع عن نفسها. ولقد نشأت في الهند صناعات ضخمة كثيرة في مقدمتها صناعة النسيج للقطن والحرير، ومنها صناعة الحديد، والخزف، ومنها كذلك صناعة أجزاء الطائرات المختلفة. وقد زرت المدرسة التي يتعلم فيها الهنود صناعة الطائرات على يد أساتذة من الألمان ومن السويديين ومن غيرهم فأثارت غاية إعجابي. وإذا لم تكن قد بلغت بعد أن تصنع محركات الطائرات فإن تقدمها المطرد يبشر بأنها ستبلغ أن تصنع هذه المحركات في زمن قريب.
انطباعاته عن الحركات العلمية:
و في جانب آخر يعترف هيكل بأن جماعة كبيرة من الهنود أصبحوا خبيراً في البحوث العلمية المتقدمة في الزرة وصناعة الصواريخ والطائرات الجوية بالجودة العالية كما يقول: "لست فيما أذكر من ذلك مبالغا في التفاؤل، فإن نشاط الحركة العلمية في الهند يدعو إلى الإعجاب، بل يدعو إلى الدهشة، وقد كانت هذه الحركة العلمية أشد ما أثار اهتمامي مدة مقامي في الهند. لذلك زرت كل جامعة استطعت زيارتها في البلاد التي مررت بها، وتحدثت إلى الأساتذة والطلاب فيها. وأشهد لقد أدهشني ما رأيته في بعضها من تجارب علمية بالغة غاية الدقة".
انطباعاته عن جامعة علي كره الإسلامية:
إن حسين هيكل قد تأثر كثيرا بزيارة جامعة علي كره الإسلامية كما يقول: "كثيرا ما سمعت عن "جامعة عليكره" أو "أليجار الإسلامية" كما يسمونها بالإنجليزية، وقد ذهبت لزيارتها مع صديقي الدكتور "متين دفتري" بدعوة من مديرها الدكتور "ذاكر حسين" وكان أكبر ظني أن هذه الجامعة الإسلامية تعني بالدراسات الإسلامية المختلفة ولاتتعداها. فلما بدأنا زيارتها لم يتغير هذا الظن في نفسي. فقد كان مسجد الجامعة أول ما سار بنا الدكتور "ذاكر" إليه. ثم إننا زرنا مكتبة الجامعة ورأينا فيها الكثير من الكتب العربية والفارسية ومن المخطوطات القديمة فلم يغير ذلك من ظني الأول كثيراً. لكنني لم ألبث حين انتقلت مع الدكتور "ذاكر" إلى أقسام الجامعة العلمية أن تغير ظني من أساسه. فهذه الأقسام العلمية في الطبيعة والكيمياء والرياضة العليا وغيرها تتناول أدق مشاكل العلم في الوقت الحاضر. وبعض هذه الأقسام مما رتب للبحث العلمي ينقطع له من أتموا دراساتهم العليا ويصلون فيه إلى نتائج تفخر بمثلها أكبر الجامعات في أوربا وأمريكا، ويشرف عليها بعض العلماء الأمريكان. وحسبي أن أذكر لكم من هذه الأبحاث محاولة ناجحة لقياس الضغط الجوي على ارتفاع مئة ألف قدم وآثاره الكهربية على ألواح تعد خصيصاً لهذا الغرض وترسل في الجو على مناطيد صغيرة تسجل الآلات الدقيقة فيها هذه الآثار الجوية العجيبة. وقد شهدت مثل هذه الأبحاث في معاهد جامعة "بنجلور" وفي غيرها من الجامعات التي زرتها. و كان أكبر اهتمامي في هذه الزيارات الجامعية أن أبحث الوسيلة التي تستطيع البلاد الشرقية، وتستطيع الهند معها أن تتبادل من ألوان التعاون العلمي والثقافي والفلسفي ما يزيد روابطها قوة إذ يجعل أبناءها اكثر معرفة بما في غير بلادهم من اتجاهات وأبحاث. ولقد شعرت بأن هذا الموضوع ليس من اليسر بما يتصور الإنسان. قال أحد الأساتذة في جامعة "بنجلور" بأن بحثاً كهذا البحث جرى لتقريب أجزاء الكمنولث البريطاني من "بنجلور" مع سير  "صمويل رانجادان" والسيد "جوردون" في هذا الموضوع وذكرت لهما ما عرض من اقتراحات بعقد مؤتمرات وتبادل أساتذة وطلاب وتبادل مؤلفات وبحوث فتمنيا لي النجاح في المحاولة التي أعالجها وإن بدأ عليهما شيئ من الشك في هذا النجاح. وكم أود لو استطاع رجال جامعتنا وعلماؤنا أن يتناولوا هذا الموضوع بالبحث فيما بينهم. فالصلات العلمية والأدبية والفنية بين الأمم هي التي تكفل ارتباطها بأوثق رباط.      
خلاصة المقال:
كان الدكتور محمد حسين هيكل حريصاً على وصف انطباعاته وآرائه عما كان يرى أو يسمع أو يشاهد وأهم وصفه في الكتابة هو إحساسه وشعوره وما اعتلج في قلبه من الأفكار النادرة. ويتجنب كل الاجتناب في كتابة المذكرات خلال الرحلات ماذا أكل من المآكل وماذا شرب من المشروبات وماذا لبس من الملبوسات، بل دائماً يركز على أن يكتب ما يكون نافعاً للمجتمع الإنساني ويأتي بأفكار قيمة كما تتجلى في كتبه القيمة عامة وعلى الأخص في كتابه "الشرق الجديد".
لم يكن متصومعًا على نفسه، يحلق بفكره في أبراج عاجية تنأى عن هموم الناس ومشاكلها اليومية، بل كان رجل فكر وحركة، فكما كان يكتب في الفلسفة والتاريخ والأدب، كان في ذات الوقت رائدًا من رواد العمل السياسي العام في مصر الحديثة، يكافح من أجل استقلال مصر، وقد توفي الدكتور هيكل عام ١٩٥٦م.

المصدر والمرجع:
هيكل،محمد حسين: الشرق الجديد، دار المعارف القاهرة، الطبعة الثانية 1990م
(هذه المقالة نشرت في "الدعي"مجلة عربية إسلامية شهرية الصادرة من دار العلوم، ديوبند، جمادي الأولى 1441 المصادف يناير 2020،العدد:5، المجلد:44 )