دارالعلوم دیوبندایک عالم گیر دعوت اور دینی تحریک
دارالعلوم دیوبند کا قیام سرزمین ہند کے لئے باعث صدافتخار ہے، جس نے ہندوستان کی بنجرزمین کو سرسبزی وشادابی عطا کی،چنانچہ اس ادارے نے مسلمانوں کی دینی وقومی روایات کو تحفظ فراہم کرکے، ہر قسم کی آلودگی سے پاک کیا، بدعات وخرافات کی تاریکیوں میں سنت کی مشعلیں روشن کیں، باطل کے مقابلے ہر اعتبار سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہزاروں مجاہد، عالم، مفسر، محدث، متکلم، فقیہ، مقرر، مناظر، حفاظ، قراء اور صوفیا کے ساتھ ساتھ عظیم شہسوارانِ قلم بھی پیدا کیے، جنھوں نے اپنی قلمی جولانیوں سے طوفانِ تندوتیز کا رخ پھیردیا۔
دار العلوم دیوبند کے قیام کے اسباب:
دنیا کا کوئی کام بغیر کسی سبب‘ داعیہ اور محرک کے معرض وجود اور منصہ شہود پر نہیں آتا‘ ہم جب ہندوستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں انگریز سر ہندی ایلیٹ کی مسخ شدہ تاریخ سے پہلے ہندوستان کی سیاسی اور مذہبی تاریخ کچھ اور صورت میں نظر آتی ہے۔ ہم صرف مذہبی نقطہٴ نظر سے یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کم وبیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت اور دورِ اقتدارمیں رہاہے‘ جس میں نہایت فراخ دلی بلکہ بعض بادشاہوں کی طرف سے بڑے ملحدانہ انداز میں ہر فرقہ اور اہل مذہب کو اپنے مذہب پر عمل پیرا رہنے اور مذہبی رسوم بجا لانے کی کھلی آزادی تھی‘ جب گردش زمانہ سے سلطنت مغلیہ کا ٹمٹماتا ہوا چراغ گل ہوگیا اور اپنوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ظالم اور جابر برطانیہ قہر الٰہی کی صورت میں ہندوستان پرمسلط ہوگیا تو اس کے مقابلے کے لئے ہندوستان کی دیگر اقوام عموماً اور مسلمان خصوصاً میدان میں نکلے اور عملی طور پر اس کے ساتھ جہاد کیا‘ جس کو انگریز کے منحوس دور میں نمک خوار برطانیہ غدر ۱۸۵۷ء کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں۔
دارالعلوم کی تاسیس ملت اسلامیہ کے دینی علمی مستقبل کی تعمیر وتشکیل:
۱۸۵۷ء کی تحریک ہوئی پسپا ہونے کے نتیجہ میں، انگریزوں کا دوبارہ تسلط قائم ہوگیا تھا، جو ان کی پہلی حکومت سے بہت زیادہ جابرانہ قاہرانہ تھا۔ اس کا ایک بہت برا اثر یہ ہوا تھا کہ اس تحریک میں شرکت کی سزا اور الزام میں لاکھوں علماء اور اہل کمال پھانسیوں پر لٹکائے گئے، ہزاروں جلاوطن ہوئے، بے شمار لوگوں کو مختلف سزائیں دی گئیں اورہزاروں حالات کی سختیوں سے مجبور ہوکر، ہندوستان سے حرمین شریفین ہجرت کرگئے تھے، جس کی وجہ سے اکثر خانقاہیں برباد، مسجدیں ویران اور مدرسے بے نام ونشان ہوگئے تھے، حالات ایسے سخت اور ناقابل بیان تھے کہ کہنا مشکل ہے، نہ کسی کو زبان کھولنے کی اجازت تھی، نہ آہ وفغاں کرنے کی۔ چوں کہ علمائے کرام اور دینی طبقہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف معرکہ آرائی میں بڑا اور سرگرم حصہ لیا تھا، اس لئے اس تحریک کے ناکام ہونے کے بعد، انگریزوں کے مظالم اور سزاؤں کانشانہ بھی یہی بنے، لیکن حالات کی پکڑ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو، ملت کو بہر صورت اپنا راستہ خود متعین کرنا اور چلنے کے لئے ایک طریقہ اور شاہراہ عمل مقرر کرنی ضروری تھی۔ علمائے کرام سوچتے تھے کہ ملت ایک ایسے حادثہ کاشکار ہوئی ہے کہ اگر فوراً اس کا بڑا، دیرپا مضبوط علاج اور مستقبل کی اکثر ضرورتوں میں، رہنمائی کرنے والی تدبیر اور طریقہٴ کار وضع نہ کیاگیا، تو اس ملک بلکہ پورے برصغیر میں، مسلمانوں کا اور دینی اقدار ومعاملات کاباقی رہنا مشکل ہوجائے گا، ان مشکل حالات میں جب کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقائے کرام نے، اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے، ملت ہندیہ کے لئے ایک ایسا نسخہ صحت تجویز کیا، جس نے زخم خوردہ بلکہ نیم جاں ملت اسلامیہ کو بڑی حد تک شفا بخشی اوراس کے زخموں سے چور چور جسم میں زندگی کی لہر دوڑادی۔
یہ کام دیوبند میں ایک ایسے بڑے کثیر المقاصد اور خود کفالت پر مبنی مدرسہ (دارالعلوم) کا آغاز تھا، جس نے اس ملک میں رہنے بسنے والے تمام مسلمانوں میں امید کی ایک شمع روشن کردی تھی، عام مسلمانوں نے دیوبند سے اٹھنے والی اس آواز، اس تحریک، اس جدوجہد کی بھرپور آبیاری کی اور حضرت مولانا محمدقاسم اور ان کے عالی مرتبت رفقاء کے منصوبوں کو، پورے حوصلہ، جذبہ اور اخلاص ودردمندی کے ساتھ آگے بڑھایا، اور پروان چڑھایا،یہاں تک کہ وہ ایسا گھنا اور بافیض سایہ بن گیا، کہ اب ہندوپاکستان کے مسلمان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کا ایک حصہ، اسی کے زیرسایہ،اتباع شریعت وسنت، تعلیم قرآن وحدیث اور پیروی دین، کا سفر طے کررہا ہے، اور یہ بات بلا تکلف کہی جاسکتی ہے، کہ عصر حاضر میں کم سے کم ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش میں کوئی بڑا دینی علمی ادارہ اور فکر صحیح اور عمل قرآن وسنت کا مرکز ایسا نہیں ہے، جس کا رشتہ دارالعلوم سے جڑا ہوا نہ ہو۔
اس مدرسہ اور دارالعلوم کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے، دینی خدمت اور ایسے افراد وعلماء تیار کرنا تھا، جو آگے چل کر ملت کی زمام سنبھالیں اور ہندوستان کے سیاسی حالات میں اس کی ڈوبتی کشتی کو طوفان سے سلامت نکال کر، دریا کے کنارہ پر لانے کی جدوجہد کے لئے، اپنی زندگی اور دوسرے تمام مقاصد فنا کردیں، اور قال اللہ وقال الرسول صلى الله عليه کا بھولا ہوا سبق، پوری ملت اسلامیہ کے کانوں اور دل میں پوری طرح اتار دیں۔
اس مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) کا ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ (پنجشنبہ ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء) کو بے سروسامانی کی حالت میںآ غاز ہوا تھا، افتتاح کے وقت اس میں صرف ایک استاذ تھے اور ان کے سامنے بیٹھنے والے دو تین طالب علم تھے، مدرسہ کی کوئی عمارت تھی نہ کچھ اور سامان، دیوبند کی ایک کئی سو سال پرانی مسجد (چھتہ) کے صحن میں موجود، انار کے ایک
درخت کے نیچے اس کی ابتداء ہوئی تھی، مگر حق تعالیٰ شانہ کو اس مکتب ومدرسہ کے بانیوں کا اخلاص، ان کی حسن نیت اور سادگی کا عمل کچھ ایسا پسند آیا کہ یہی چھوٹا سا مکتب اور مدرسہ آگے بڑھ کر، ایک بڑا دارالعلوم، ایک ممتاز عالمی درس گاہ، ایک بہت بڑی، بہت کثیر المقاصد، بہت ہمہ جہت اور بہت دوراندیش تحریک ثابت ہوئی، اس مدرسہ کے قیام نے برصغیر (ہندوپاکستان، بنگلہ دیش) کے دینی ماحول میں امیدوں کے چراغ روشن کردئیے، اور پوری ملت اسلامیہ کو ایک واضح طریقہ عمل اورایسی شاہراہ مستقیم عنایت کردی کہ برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی باشعور اور دیندار اکثریت، اس کے سایہ میں سفرکررہی ہے۔ دیوبند کے مدرسے کے قیام اور دینی تعلیم جاری ہونے اور اس کے باقاعدہ عمدہ انتظام کی، اس قدر پذیرائی، تحسین اور پرجوش تعاون ہوا کہ مدرسہ دیوبند کے بلند مرتبہ رہنماؤں میں سب سے ممتاز شخصیت، حضرت مولانا محمد قاسم نے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے، مختلف مقامات پر اسی قسم کے پانچ مدرسے اور قائم کئے، ان سے بھی اس طرح علم اور دین پر عمل کا چرچا شروع ہوا، اور ان میں ہر ایک مدرسہ نے دارالعلوم دیوبند کے مقاصد، طریقہ تعلیم اور دینی عقیدہ ونظریات کو اپنا رہنما قرار دیا اور پھر یہ مدرسے بھی بڑھتے بڑھتے گھنے درخت بن گئے، اور اب ان مدرسوں کے تعلیم و تربیت یافتہ لاکھوں افراد، خصوصاً ہندوستان اور عموماً دنیاکے گوشہ گوشہ میں، دینی اصلاحی، تبلیغی، ملی خدمات، پورے اطمینان اور توجہ سے انجام دے رہے ہیں۔
دارالعلوم صرف ایک مدرسہ نہیں علمی وعملی تحریک بھی ہے:
دارالعلوم دیوبند، جس کی ابتداء مسلمانوں کو دین وشریعت سے جوڑنے اور علوم نبوی کے احیاء کے لئے ہوئی تھی، بعد میں ایک بڑی، بہت با فیض، بہت طاقتور اور کثیر الجہت تحریک بن گئی تھی۔ جس نے اس برصغیر میں مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا، دینی فکر ومزاج، اتباع شریعت وسنت، علوم اسلامیہ کی خدمت وآبیاری، وعظ وارشاد، اصلاح وتربیت، تذکیر وتصنیف، حکومت وسیاست، اختلاف نظریات وعقائد، کلام ومعقولات، یعنی برصغیر کی ملت اسلامیہ کی عمومی زندگی اور شعور کا، کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تحریک نے متاثر نہ کیاہو،اور آج جب دارالعلوم کو قائم ہوئے تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں، دارالعلوم کی آواز، اس کا پیغام اور اس کے نظریات وتعلیمات دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے ہیں، دنیا کا شاید کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں ہے جہاں دارالعلوم دیوبند سے استفادہ کرنے والے، وہاں کے فارغ طلباء، علماء اور دارالعلوم سے وابستہ ارباب وفضل وکمال نہ پہنچے ہوں اور اس خطہ کی دینی، علمی اصلاحی فضاؤں پر اپنے گہرے نقوش نہ ثبت کئے ہوں۔
دارالعلوم اب ایک ادارہ نہیں ایک عالم گیر دعوت ہے، ایک تحریک ہے، ایک جدوجہد ہے، ایک نصب العین ہے،جس کے ساتھ مقاصد ومستقبل کی تعمیر کا، ایک بامعنی خوب تجربہ کیاہوا اور ایسا طریقہٴ عمل ہے کہ اس کی ایسی جامع، موٴثر ، دیرپا اور عالم گیر، اثر انداز مثال تلاش کرلینا آسان نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دارالعلوم کی اس آفاقیت، ہمہ گیریت، مقاصد کے تنوع اور بلند نگہی اور تاثیر ونفع میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا بہت بڑا اور خاص حصہ ہے۔ اگر مدرسہ دیوبند کو اوّل دن سے حضرت مولانا کی سرپرستی اور رفاقت حاصل نہ ہوتی، تو ممکن تھا کہ یہ بہت اچھا مدرسہ بن جاتا، مگر اس کا ملت اسلامیہ کا حصن حصین اور ہر طرح کے مصائب ومسائل میں ملت کی پناہ گاہ اور امیدوں کا مرکز بننا مشکل تھا۔
بانئ دارالعلوم کی دیگر دینی خدمات:
حضرت مولانا محمدقاسم دینی ملی معاملات میں اعلیٰ درجہ کے صاحب فکر، حساس اور دردمند عالم تھے، حضرت مولانا کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا، کہ کوئی اہم دینی ملی معاملہ سامنے آئے اور وہ خاموش بیٹھے رہیں، درس وتعلیم کی مسند ہو، خانقاہ وارشاد کی تعلیمات ہوں، وعظ واصلاح کا میدان ہو، تصنیف وتالیف کی جلوہ فرمائی ہو، مناظرہ ومباحثہ کی ضرورت ہو، یا دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کے اسلام و شریعت پر سوالات واعتراضات کا جواب، حضرت مولانا ہر ایک میں نمایاں اور پیش پیش رہتے تھے، جہاں جس طرح کی ضرورت ہو اس کا بروقت احساس اوراس کا ویساہی علاج اور دفاع فرماتے تھے، جیسی ضرورت وتقاضہ ہو۔ مسلمانوں کے وہ طبقات ہوں جو عقائد وکلام کے معاملات میں راہ سے بے راہ ہوگئے تھے، یا بدعات ورسوم کے خوگر افراد ہوں، اہل تشیع یا کوئی اور! دینی معاملہ، عقیدہ سلف واہل سنت سے انحراف کی بات ہو، یا دین وشریعت کے مسائل ومباحث اور عقائد کے کلام کی گفتگو ان کو قرآن وسنت سے حل کرنے، اور ان کی عقلی توجیہ کی ضرورت، حضرت مولانا کا ہر ایک میں سرگرم اور بڑا حصہ رہتا تھا۔
اس دور میں خصوصاً عیسائیوں اور ہندوؤں کی ایک نوزائیدہ جماعت آریہ سماج نے خصوصاً اسلام کے خلاف ایک پرزور محاذ کھولا ہوا تھا، ان کے پادری اور پنڈت جگہ جگہ عیسائیت اور ہندو مذہب کی منادی کرتے، مسلمان علماء کو مناظرہ کا چیلنج دیتے اور عیسائیت واسلام کے مسائل وموضوعات پر بحث وگفتگو کے لئے چھیڑتے تھے۔ حضرت مولانا ان کا مقابلہ کرنے، جواب دینے اور ان کے اعتراضات کی حقیقت واضح کرنے کے لئے، ہمیشہ تیار رہتے تھے، جہاں علی الاعلان بحث ومقابلہ کی بات ہوتی وہاں اس کا اہتمام کرتے، جہاں لکھنے اور گلی کوچوں میں اطلاعات کا کام ہوتا، وہاں اس کا انتظام فرماتے تھے۔
حضرت مولانا کے عیسائی پادریوں اور ہندو پنڈتوں سے، کئی نہایت کامیاب مناظرے بھی ہوئے، جس میں عیسائیوں سے مباحثہ شاہجہاں پور اور مشہور ہندوسماجی مصلح اور مذہبی پیشوا، سوامی دیانند سرسوتی سے گفتگو اور جوابات کی ملک بھر میں شہرت ہوئی، بعد میں حضرت مولانا نے ان مباحث میں پیش آئے، سوالات پر کتابی صورت میں لکھا، ان میں سے ہر ایک تصنیف اپنی جگہ جوے رواں اور علم وبصیرت کا شاہکار ہے۔
حضرت مولانا نے اپنی کتابوں میں قرآن مجید، حدیث، سنت وشریعت کی جو گرہ کشائی فرمائی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت کا ایک منفرد حصہ ہے۔ خصوصاً شریعت اور عقائد واعمال کی حکمتوں اور اسرار وحکم پر حضرت مولانا کے افادات وتحریرات، ایک نئے اور مستقل علم کلام کی حیثیت رکھتے ہیں، ضرورت ہے کہ ان سب کا جامع مطالعہ کرکے، ایک لڑی میں پروکر، امت کے سامنے پیش کیاجائے۔ اس سے نہ صرف ہمارے عقلی کلامی ذخیرہ میں ایک وقیع اضافہ ہوگا، بلکہ اس کی اساس پر اور بھی کئی مشکل مباحث ومسائل حل کئے جاسکیں گے۔