Wednesday 30 May 2012

یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو



دارالعلوم دیوبندایک عالم گیر دعوت اور دینی تحریک

دارالعلوم دیوبند کا قیام سرزمین ہند کے لئے باعث صدافتخار ہے، جس نے ہندوستان کی بنجرزمین کو سرسبزی وشادابی عطا کی،چنانچہ اس ادارے نے مسلمانوں کی دینی وقومی روایات کو تحفظ فراہم کرکے، ہر قسم کی آلودگی سے پاک کیا، بدعات وخرافات کی تاریکیوں میں سنت کی مشعلیں روشن کیں، باطل کے مقابلے ہر اعتبار سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہزاروں مجاہد، عالم، مفسر، محدث، متکلم، فقیہ، مقرر، مناظر، حفاظ، قراء اور صوفیا کے ساتھ ساتھ عظیم شہسوارانِ قلم بھی پیدا کیے، جنھوں نے اپنی قلمی جولانیوں سے طوفانِ تندوتیز کا رخ پھیردیا۔
دار العلوم دیوبند کے قیام کے اسباب:
دنیا کا کوئی کام بغیر کسی سبب‘ داعیہ اور محرک کے معرض وجود اور منصہ شہود پر نہیں آتا‘ ہم جب ہندوستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں انگریز سر ہندی ایلیٹ کی مسخ شدہ تاریخ سے پہلے ہندوستان کی سیاسی اور مذہبی تاریخ کچھ اور صورت میں نظر آتی ہے۔ ہم صرف مذہبی نقطہٴ نظر سے یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کم وبیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت اور دورِ اقتدارمیں رہاہے‘ جس میں نہایت فراخ دلی بلکہ بعض بادشاہوں کی طرف سے بڑے ملحدانہ انداز میں ہر فرقہ اور اہل مذہب کو اپنے مذہب پر عمل پیرا رہنے اور مذہبی رسوم بجا لانے کی کھلی آزادی تھی‘ جب گردش زمانہ سے سلطنت مغلیہ کا ٹمٹماتا ہوا چراغ گل ہوگیا اور اپنوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ظالم اور جابر برطانیہ قہر الٰہی کی صورت میں ہندوستان پرمسلط ہوگیا تو اس کے مقابلے کے لئے ہندوستان کی دیگر اقوام عموماً اور مسلمان خصوصاً میدان میں نکلے اور عملی طور پر اس کے ساتھ جہاد کیا‘ جس کو انگریز کے منحوس دور میں نمک خوار برطانیہ غدر ۱۸۵۷ء کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں۔
دارالعلوم کی تاسیس ملت اسلامیہ کے دینی علمی مستقبل کی تعمیر وتشکیل:
 ۱۸۵۷ء کی تحریک ہوئی پسپا ہونے کے نتیجہ میں، انگریزوں کا دوبارہ تسلط قائم ہوگیا تھا، جو ان کی پہلی حکومت سے بہت زیادہ جابرانہ قاہرانہ تھا۔ اس کا ایک بہت برا اثر یہ ہوا تھا کہ اس تحریک میں شرکت کی سزا اور الزام میں لاکھوں علماء اور اہل کمال پھانسیوں پر لٹکائے گئے، ہزاروں جلاوطن ہوئے، بے شمار لوگوں کو مختلف سزائیں دی گئیں اورہزاروں حالات کی سختیوں سے مجبور ہوکر، ہندوستان سے حرمین شریفین ہجرت کرگئے تھے، جس کی وجہ سے اکثر خانقاہیں برباد، مسجدیں ویران اور مدرسے بے نام ونشان ہوگئے تھے، حالات ایسے سخت اور ناقابل بیان تھے کہ کہنا مشکل ہے، نہ کسی کو زبان کھولنے کی اجازت تھی، نہ آہ وفغاں کرنے کی۔ چوں کہ علمائے کرام اور دینی طبقہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف معرکہ آرائی میں بڑا اور سرگرم حصہ لیا تھا، اس لئے اس تحریک کے ناکام ہونے کے بعد، انگریزوں کے مظالم اور سزاؤں کانشانہ بھی یہی بنے، لیکن حالات کی پکڑ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو، ملت کو بہر صورت اپنا راستہ خود متعین کرنا اور چلنے کے لئے ایک طریقہ اور شاہراہ عمل مقرر کرنی ضروری تھی۔ علمائے کرام سوچتے تھے کہ ملت ایک ایسے حادثہ کاشکار ہوئی ہے کہ اگر فوراً اس کا بڑا، دیرپا مضبوط علاج اور مستقبل کی اکثر ضرورتوں میں، رہنمائی کرنے والی تدبیر اور طریقہٴ کار وضع نہ کیاگیا، تو اس ملک بلکہ پورے برصغیر میں، مسلمانوں کا اور دینی اقدار ومعاملات کاباقی رہنا مشکل ہوجائے گا، ان مشکل حالات میں جب کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقائے کرام نے، اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے، ملت ہندیہ کے لئے ایک ایسا نسخہ صحت تجویز کیا، جس نے زخم خوردہ بلکہ نیم جاں ملت اسلامیہ کو بڑی حد تک شفا بخشی اوراس کے زخموں سے چور چور جسم میں زندگی کی لہر دوڑادی۔
 یہ کام دیوبند میں ایک ایسے بڑے کثیر المقاصد اور خود کفالت پر مبنی مدرسہ (دارالعلوم) کا آغاز تھا، جس نے اس ملک میں رہنے بسنے والے تمام مسلمانوں میں امید کی ایک شمع روشن کردی تھی، عام مسلمانوں نے دیوبند سے اٹھنے والی اس آواز، اس تحریک، اس جدوجہد کی بھرپور آبیاری کی اور حضرت مولانا محمدقاسم اور ان کے عالی مرتبت رفقاء کے منصوبوں کو، پورے حوصلہ، جذبہ اور اخلاص ودردمندی کے ساتھ آگے بڑھایا، اور پروان چڑھایا،یہاں تک کہ وہ ایسا گھنا اور بافیض سایہ بن گیا، کہ اب ہندوپاکستان کے مسلمان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کا ایک حصہ، اسی کے زیرسایہ،اتباع شریعت وسنت، تعلیم قرآن وحدیث اور پیروی دین، کا سفر طے کررہا ہے، اور یہ بات بلا تکلف کہی جاسکتی ہے، کہ عصر حاضر میں کم سے کم ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش میں کوئی بڑا دینی علمی ادارہ اور فکر صحیح اور عمل قرآن وسنت کا مرکز ایسا نہیں ہے، جس کا رشتہ دارالعلوم سے جڑا ہوا نہ ہو۔
 اس مدرسہ اور دارالعلوم کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے، دینی خدمت اور ایسے افراد وعلماء تیار کرنا تھا، جو آگے چل کر ملت کی زمام سنبھالیں اور ہندوستان کے سیاسی حالات میں اس کی ڈوبتی کشتی کو طوفان سے سلامت نکال کر، دریا کے کنارہ پر لانے کی جدوجہد کے لئے، اپنی زندگی اور دوسرے تمام مقاصد فنا کردیں، اور قال اللہ وقال الرسول صلى الله عليه کا بھولا ہوا سبق، پوری ملت اسلامیہ کے کانوں اور دل میں پوری طرح اتار دیں۔
 اس مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) کا ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ (پنجشنبہ ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء) کو بے سروسامانی کی حالت میںآ غاز ہوا تھا، افتتاح کے وقت اس میں صرف ایک استاذ تھے اور ان کے سامنے بیٹھنے والے دو تین طالب علم تھے، مدرسہ کی کوئی عمارت تھی نہ کچھ اور سامان، دیوبند کی ایک کئی سو سال پرانی مسجد (چھتہ) کے صحن میں موجود، انار کے ایک 
درخت کے نیچے اس کی ابتداء ہوئی تھی، مگر حق تعالیٰ شانہ کو اس مکتب ومدرسہ کے بانیوں کا اخلاص، ان کی حسن نیت اور سادگی کا عمل کچھ ایسا پسند آیا کہ یہی چھوٹا سا مکتب اور مدرسہ آگے بڑھ کر، ایک بڑا دارالعلوم، ایک ممتاز عالمی درس گاہ، ایک بہت بڑی، بہت کثیر المقاصد، بہت ہمہ جہت اور بہت دوراندیش تحریک ثابت ہوئی، اس مدرسہ کے قیام نے برصغیر (ہندوپاکستان، بنگلہ دیش) کے دینی ماحول میں امیدوں کے چراغ روشن کردئیے، اور پوری ملت اسلامیہ کو ایک واضح طریقہ عمل اورایسی شاہراہ مستقیم عنایت کردی کہ برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی باشعور اور دیندار اکثریت، اس کے سایہ میں سفرکررہی ہے۔ دیوبند کے مدرسے کے قیام اور دینی تعلیم جاری ہونے اور اس کے باقاعدہ عمدہ انتظام کی، اس قدر پذیرائی، تحسین اور پرجوش تعاون ہوا کہ مدرسہ دیوبند کے بلند مرتبہ رہنماؤں میں سب سے ممتاز شخصیت، حضرت مولانا محمد قاسم نے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے، مختلف مقامات پر اسی قسم کے پانچ مدرسے اور قائم کئے، ان سے بھی اس طرح علم اور دین پر عمل کا چرچا شروع ہوا، اور ان میں ہر ایک مدرسہ نے دارالعلوم دیوبند کے مقاصد، طریقہ تعلیم اور دینی عقیدہ ونظریات کو اپنا رہنما قرار دیا اور پھر یہ مدرسے بھی بڑھتے بڑھتے گھنے درخت بن گئے، اور اب ان مدرسوں کے تعلیم و تربیت یافتہ لاکھوں افراد، خصوصاً ہندوستان اور عموماً دنیاکے گوشہ گوشہ میں، دینی اصلاحی، تبلیغی، ملی خدمات، پورے اطمینان اور توجہ سے انجام دے رہے ہیں۔
 دارالعلوم صرف ایک مدرسہ نہیں علمی وعملی تحریک بھی ہے:
 دارالعلوم دیوبند، جس کی ابتداء مسلمانوں کو دین وشریعت سے جوڑنے اور علوم نبوی کے احیاء کے لئے ہوئی تھی، بعد میں ایک بڑی، بہت با فیض، بہت طاقتور اور کثیر الجہت تحریک بن گئی تھی۔ جس نے اس برصغیر میں مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا، دینی فکر ومزاج، اتباع شریعت وسنت، علوم اسلامیہ کی خدمت وآبیاری، وعظ وارشاد، اصلاح وتربیت، تذکیر وتصنیف، حکومت وسیاست، اختلاف نظریات وعقائد، کلام ومعقولات، یعنی برصغیر کی ملت اسلامیہ کی عمومی زندگی اور شعور کا، کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تحریک نے متاثر نہ کیاہو،اور آج جب دارالعلوم کو قائم ہوئے تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں، دارالعلوم کی آواز، اس کا پیغام اور اس کے نظریات وتعلیمات دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے ہیں، دنیا کا شاید کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں ہے جہاں دارالعلوم دیوبند سے استفادہ کرنے والے، وہاں کے فارغ طلباء، علماء اور دارالعلوم سے وابستہ ارباب وفضل وکمال نہ پہنچے ہوں اور اس خطہ کی دینی، علمی اصلاحی فضاؤں پر اپنے گہرے نقوش نہ ثبت کئے ہوں۔
 دارالعلوم اب ایک ادارہ نہیں ایک عالم گیر دعوت ہے، ایک تحریک ہے، ایک جدوجہد ہے، ایک نصب العین ہے،جس کے ساتھ مقاصد ومستقبل کی تعمیر کا، ایک بامعنی خوب تجربہ کیاہوا اور ایسا طریقہٴ عمل ہے کہ اس کی ایسی جامع، موٴثر ، دیرپا اور عالم گیر، اثر انداز مثال تلاش کرلینا آسان نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دارالعلوم کی اس آفاقیت، ہمہ گیریت، مقاصد کے تنوع اور بلند نگہی اور تاثیر ونفع میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا بہت بڑا اور خاص حصہ ہے۔ اگر مدرسہ دیوبند کو اوّل دن سے حضرت مولانا کی سرپرستی اور رفاقت حاصل نہ ہوتی، تو ممکن تھا کہ یہ بہت اچھا مدرسہ بن جاتا، مگر اس کا ملت اسلامیہ کا حصن حصین اور ہر طرح کے مصائب ومسائل میں ملت کی پناہ گاہ اور امیدوں کا مرکز بننا مشکل تھا۔
 بانئ دارالعلوم کی دیگر دینی خدمات:
 حضرت مولانا محمدقاسم دینی ملی معاملات میں اعلیٰ درجہ کے صاحب فکر، حساس اور دردمند عالم تھے، حضرت مولانا کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا، کہ کوئی اہم دینی ملی معاملہ سامنے آئے اور وہ خاموش بیٹھے رہیں، درس وتعلیم کی مسند ہو، خانقاہ وارشاد کی تعلیمات ہوں، وعظ واصلاح کا میدان ہو، تصنیف وتالیف کی جلوہ فرمائی ہو، مناظرہ ومباحثہ کی ضرورت ہو، یا دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کے اسلام و شریعت پر سوالات واعتراضات کا جواب، حضرت مولانا ہر ایک میں نمایاں اور پیش پیش رہتے تھے، جہاں جس طرح کی ضرورت ہو اس کا بروقت احساس اوراس کا ویساہی علاج اور دفاع فرماتے تھے، جیسی ضرورت وتقاضہ ہو۔ مسلمانوں کے وہ طبقات ہوں جو عقائد وکلام کے معاملات میں راہ سے بے راہ ہوگئے تھے، یا بدعات ورسوم کے خوگر افراد ہوں، اہل تشیع یا کوئی اور! دینی معاملہ، عقیدہ سلف واہل سنت سے انحراف کی بات ہو، یا دین وشریعت کے مسائل ومباحث اور عقائد کے کلام کی گفتگو ان کو قرآن وسنت سے حل کرنے، اور ان کی عقلی توجیہ کی ضرورت، حضرت مولانا کا ہر ایک میں سرگرم اور بڑا حصہ رہتا تھا۔
 اس دور میں خصوصاً عیسائیوں اور ہندوؤں کی ایک نوزائیدہ جماعت آریہ سماج نے خصوصاً اسلام کے خلاف ایک پرزور محاذ کھولا ہوا تھا، ان کے پادری اور پنڈت جگہ جگہ عیسائیت اور ہندو مذہب کی منادی کرتے، مسلمان علماء کو مناظرہ کا چیلنج دیتے اور عیسائیت واسلام کے مسائل وموضوعات پر بحث وگفتگو کے لئے چھیڑتے تھے۔ حضرت مولانا ان کا مقابلہ کرنے، جواب دینے اور ان کے اعتراضات کی حقیقت واضح کرنے کے لئے، ہمیشہ تیار رہتے تھے، جہاں علی الاعلان بحث ومقابلہ کی بات ہوتی وہاں اس کا اہتمام کرتے، جہاں لکھنے اور گلی کوچوں میں اطلاعات کا کام ہوتا، وہاں اس کا انتظام فرماتے تھے۔
 حضرت مولانا کے عیسائی پادریوں اور ہندو پنڈتوں سے، کئی نہایت کامیاب مناظرے بھی ہوئے، جس میں عیسائیوں سے مباحثہ شاہجہاں پور اور مشہور ہندوسماجی مصلح اور مذہبی پیشوا، سوامی دیانند سرسوتی سے گفتگو اور جوابات کی ملک بھر میں شہرت ہوئی، بعد میں حضرت مولانا نے ان مباحث میں پیش آئے، سوالات پر کتابی صورت میں لکھا، ان میں سے ہر ایک تصنیف اپنی جگہ جوے رواں اور علم وبصیرت کا شاہکار ہے۔
 حضرت مولانا نے اپنی کتابوں میں قرآن مجید، حدیث، سنت وشریعت کی جو گرہ کشائی فرمائی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت کا ایک منفرد حصہ ہے۔ خصوصاً شریعت اور عقائد واعمال کی حکمتوں اور اسرار وحکم پر حضرت مولانا کے افادات وتحریرات، ایک نئے اور مستقل علم کلام کی حیثیت رکھتے ہیں، ضرورت ہے کہ ان سب کا جامع مطالعہ کرکے، ایک لڑی میں پروکر، امت کے سامنے پیش کیاجائے۔ اس سے نہ صرف ہمارے عقلی کلامی ذخیرہ میں ایک وقیع اضافہ ہوگا، بلکہ اس کی اساس پر اور بھی کئی مشکل مباحث ومسائل حل کئے جاسکیں گے۔                  

Saturday 12 May 2012

آزاد ہندوستان کی تاریخ ساز شخصیتیں


محمد جسیم الدین ،ریسرچ اسکالر
شعبہ عربی ،دہلی یونیورسٹی،دہلی
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دِل میں مری بات
’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
ہندوستان میں1857سے1947تك انگریز حکمراں ان کے خلاف مسلسل جد وجہد کے بعد ہندوستان کو آزادی نصیب  ہوئی اورہندوستان ۱۵؍اگست  ۱۹۴۷ کو دنیاکے نقشے میں  ایک آزاد اور جمہوری ملک کی حیثیت سے متعارف ہوا،آزادی کے بعد ۱۴؍مئی ۱۹۵۴ کو ہندوستان کاجدید  آئین نافذ ہوا یہ آئین غیر معمولی غور وخوض  وباہمی صلاح و مشورہ سے مرتب ہوا۔ اس کےلئے ۱۹۴۶ میں ایک ا ٓئین ساز اسمبلی قائم کی گئی او رملک کے مشہور قانون داں بیرسٹر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی سرکردگی میں ایک ڈرافٹنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ کمیٹی کے ممبران نے دنیا کے مختلف دستوروں کا مطالعہ کیااورآئین ہند کےلئے مفید نکات جمع کئے اوران نکات کی روشنی میں تقریبا تین سال کی مدت میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے عین مطابق  ایک جامع آئین مرتب کیا جس میں ہندوستان کے چند قدیم قوانین کو بھی شامل کیا گیا۔ کسی حد تک  اسلامی قوانین سے بھی استفادہ کیا گیا اورشب و روز کی عرق ریزی کےبعد یہ آئین ملک میںنافذ ہوا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے ڈرافٹنگ کمیٹی کی چیئرمین  کی حیثیت سے آئین کو پاس کرا نے کے سلسلے میں قائدانہ خدمات انجام دیں۔ چونکہ آزاد ملک کے ہم آزاد شہری ہیں چنانچہ ہندوستانی شہری ہونے کےناطے آئین ہند کی عزت ہمارا قومی فریضہ ہے۔
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
ہندوستان ایسا ملک ہے جس میں مختلف مذاہب اور عقائد رکھنے و الے لوگ بستے ہیں۔ اس ملک کا اتحاد، اس کی سالمیت، یگانگت صحیح معنوں میں اس وقت قائم رہ سکتی ہے جب یہاںحقیقی معنوں میں وفاقی نظام قائم ہو، تمام مذاہب اور عقائد کو تحفظ حاصل ہو لیکن چھوٹی قوموں کے حقوق پامال کرکے عملا وحدانی طرز حکومت قائم کردیاگیا ہے جس میں سب مالیات اور ذرائع مرکز کی تحویل میں ہیں اور ریاستیں مرکز کی دست نگر ہیں، مذہبی ا قلیتوں میں احساس عدم تحفظ پایاجاتا ہے بلکہ وہ خوفزدہ ہیں، حکمرانوں نےسیاسی اغراض کے لئے ملک کو ذات برادریوں میں تقسیم کررکھا ہے جس سے قومی یک جہتی بھی خطرے میں پڑی  ہے، جب تک حقیقی معنوں میں فیڈرل نظام قائم نہیں ہوتا، مذہبی اقلیتوں کو تحفظ نہیں ملتا، ذات برادری کی تقسیم ختم نہیں ہوتی، تب تک قومی یک جہتی کیسے قائم ہوسکتی ہے؟  حکمراں بے شک قومی اتحاد کے ڈنکے بجاتے رہیں۔اس ملک میں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں، شہری آزادیاں غارت ہورہی ہیں اور آزادی تحریر و تقریر کی نفی ہورہی ہے، معصوم لوگ مارےجارہے ہیں، بے گناہ لوگ تختہ مشق بن رہے ہیں، زبانوں پر تالےلگائے جارہے ہیں، سخت گیرانہ قوانین وضع ہورہے ہیں، یہ سب ان خوابوں کی نفی ہےجو عوام نے دیکھے تھے حکمران بے شک  اسے آزادی کا نام دیں۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

 ہندوستان کی قومی تحریک نے جن عظیم ترین دانشوروں کی تربیت کی ان میںمولانا ابوالکلام آزاد کا مقام بہت بلند ہے۔وہ بیک وقت عالم دین، صحافی، سیاسی رہنما اور صاحب طرز ادیب تھے۔ وہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے عظیم رہنما اور ہندوستانی مسلمانوں کی آبرو کی منفرد علامت تھے۔ جس تیزی سے آزاد کی شخصیت کا ارتقاءہوا اس کی مثال بیسویں صدی کے نصف اول میں کسی اور عالم وسیاسی لیڈر کی نہیں ملتی۔
مولانا آزاد کی جدو جہد تین ادوار میں منقسم نظر آتی ہے۔ پہلا دور 1906 سے 1915 تک کا ہے ۔ اس میں آزاد اردو ادب وصحافت کے مطلع پر ایک مسلم محب وطن کی حیثیت سے نمودار ہوئے۔ اس زمانہ میں آپ پر ایک ہی جذبہ حاوی تھا اور وہ تھا مغربی استعمار کی ریشہ دوانیوں کے خلاف اتحاد اسلامی کو مضبوط کرنا اورروشن خیالی ومعقولیت پر اسلام کے احیاءکی بنیاد رکھنا ۔دوسرا دور 1920 سے 1923 تک محیط ہے۔ اس دور میں مولانا آزاد نے خلافت تحریک کے رہنما اور مفکر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ آپ نے مہاتما گاندھی کی طرح سول نافرمانی اور ستیہ گرہ کے لیے عوام کو منظم کیا۔ مولاناآزاد غالباً پہلے شخص تھے جنہوں نے انگریز حکومت سے عدم تعاون کے پروگرام پر گاندھی جی کی پوری حمایت کی۔تیسرا دور 1923 سے 1958 تک کا ہے۔اس دور میں مولانا آزاد متحدہ تہذیب اور سیکولر قومیت کی اقدار کے زبردست مبلغ اور محافظ نظرآتے ہیں۔ 
 ہمارا ملک ہندوستان اگر سانحہءتقسیم کے باوجود سیکولر زم کی راہ پر گامزن رہا تو اس کا سہرا بڑی حد تک مولانا کے سر جاتا ہے۔ مولانا کی قیادت، ان کے تدبر ، ان کی شخصیت میں مرکوز ہندوستانی امتزاج اور ان کی مشترکہ تہذیب کی زندہ جاوید علامت ہونے کی بدولت ہی ہندوستان سیکو لر بنا رہا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک ایسے دانشور تھے جس کی نگاہِ دور رس نے بھانپ لیا تھا کہ ملک کی تقسیم کسی طرح بھی مسلمانوں کے لئے سودمند نہ ہوگی۔ اگر ملک کا بٹوارہ ہوا تو مسلمان ہندوستان میں ایک کمزور اقلیت بن کر رہ جائیں گے اور اکثریت کے رحم وکرم پر زندگی گزاریں گے۔ از اول تا آخر پاکستان کے حالات شاہد ہیں کہ تقسیم کی بابت مولانا آزاد کا انتباہ بالکل درست تھا ۔ مولانا نے اپنی کتابIndia wins Freedomمیں لکھا ہے: ”میں نے مسلم لیگ کی پاکستا نی اسکیم پر ہر زاویے سے غور کیا تو میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ یہ پورے ہندوستان اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے مسائل کے حل کے بجائے مزید مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ لفظ پاکستان ہی میری فکر کے خلاف ہے۔ اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک ہیں اور باقی ناپاک۔ علاقوں کی یہ تقسیم غیر اسلامی ہے“
مولانا آزاد کوجب کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا تو ان کی عمر محض 35 سال تھی۔ آزاد ہند کے وہ پہلے وزیر تعلیم منتخب ہوئے اور وفات تک ےہ قلمدان آپ کے پاس رہا۔ آپ کے 
دور میں تعلیمی میدان میں کئی پیش رفت ہوئیں۔ مثلاً ےہ اصول تسلیم کیا گیا کہ صرف کتابی علم حاصل کرنے کا نام تعلیم نہیں ہے۔ سائنسی اور تکنیکی تعلیم، اساتذہ کی ٹریننگ، لسانی تربیت، مندرجہ درج فہرست ذاتوں اور قبیلوں و دیگر پسماندہ طبقوں کے لئے وظیفوں کی اسکیمیں ان سب کا نفاذ انہی کی وزارت میں ہوا۔ آپ نے تکنیکی تعلیم کی آل انڈیا کونسل ازسرنومنظم کی، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن(یوجی سی) قائم کیا، ڈاکٹر رادھا کرشنن اور جواہر لعل نہرو کے ساتھ مل کر موسیقی، ادب اور آرٹ جیسی تین ممتاز اکادمیوں کے تصور کو عملی جامہ پہنایا۔ آپ انڈین کونسل برائے تہذیبی تعلقات(آئی سی سی آر) کے بانی اور پہلے صدر تھے۔ یہی نہیں بلکہ آپ کا تعلق یونیسکو سے کئی سال تک رہا اور دہلی میں 1956 میں یونیسکو کی جنرل کانفرنس کی صدارت کی۔آل انڈیا خلافت کمیٹی کے آپ صدر بھی منتخب ہوئے۔ ہندوستان میں مولانا آزاد کے نام سے بہت سی اکادمیاں، تحقیقی وتعلیمی ادارے، ٹرسٹ، ڈاک ٹکٹ اور بے شمار ادبی انجمنیںقائم ہیں۔ حکومت ہند نے انہیں 1992 میں بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا۔
آئے عشّاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
’اب انہیں ڈھونڈچَراغِ رُخِ زیبا لے کر!‘
آج مولانا آزاد کا احترام تو لوگ کرتے ہیں مگر ان کے پیغام اور تعلیم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہندوستانی قومی تحریک کے عظیم رہنماؤں میں مولانا آزاد کی تعلیمات کو محض ادھورا سمجھا گیا ہے۔ عوام کی اکثریت کے سامنے ان کی حیثیت بس ایک قوم پرست مسلم رہنما کی ہے۔ آزاد کی قومی تحریک ایک جذباتی یادگار، نشانی، بھولی بسری وراثت کے طور پر تو باقی رہ گئی ہے جس کی عزت تو کی جاتی ہے مگر اسے واضح اور تنقیدی طور پر سمجھنے کا احساس نہیں ہوتا۔ مولانا کے لیے سب سے بڑا خراج تحسین یہ ہوگا کہ ہم ان اصولوں اور اقدار کو اپنائیں جس کی وہ زندگی بھرنمائندگی کرتے رہے۔ آزاد کے خوابوں کا ہندوستا ن ایک مضبوط خود اعتمادی سے معمور سیکولر ہندوستان تھا۔
پنڈت جواہرلال نہرو 
  1964-1889 
  پنڈت جواہرلال نہرو1889میں پیداہوئے۔ برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور بیرسڑ بنے۔ 1918میںسکریٹری، ہوم رول لیگ کے۔ 1918سے کل ہند کانگریس کمیٹی کےممبررہے۔ شروعاتی غیرتعاون ورکرتھے۔1921اور 1922میں سزائےقید۔ 1923میں کانگریس کےجنرل سکریڑی۔1927میں بوسلس میں دلت وطن پرستوں کی کانگریس میں شمولیت۔ مدراس کانگریس میں آزادی کی تجویز پیش کی۔ 1927میں کانگریس کے جنرل سکریٹری بنے۔ 1927میں جھریا میں کل ہند کانگریس ٹریڈ یونین کانگریس کےصدررہے۔ انڈ ی پنڈ نس آف انڈیا لیگ کےسکریڑی بنے۔ 1929میں لاہورمیں کل ہند قومی کانگریس کےصدر رہے۔ اپریل 1930میں گرفتارہوئے۔ اکتوبر میں رہا اور پھر گرفتار۔ موتی لال کی موت،گاندھی ارون معاہدہ، یو۔ پی کاشتکاری تحریک کی قیادت کی۔ دسمبر1931میں گرفتار ہوئے۔ ڈھائی سال قید بامشقت کی سزاہوئی۔ اگست 1933میںرہاہوئے۔ فروری 1934میں پھر گرفتار اور2 سال کی سزاہوئی۔ ستمبر1935میں رہائی ملی اور بیمارکملا نہرو کو دیکھنے کیلئے جرمنی گئے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد کملانہروکی موت ہوگئی۔ 1935میں لکھنؤ میں قومی کانگریس کےصدربنےاور دوبارہ 1937میں فیض پورمیں ۔1936کےانتخاب میں کانگریس کی کامیابی کیلئےزوردار دوراکیا۔ 1937میں کارگذار کمیٹی کی مدد کی۔ چین کا سفر۔ قومی منصوبہ کمیٹی کےصدر۔ نومبر1940میں چارسال کیلئےقید بامشقت کی سزا۔ دسمبر1941میں رہاہوئے۔ کرپس کےساتھ گفتگومیں کانگریس کی طرف سےقیادت کی۔ 9 اگست 1942کوگرفتار ہوگئے۔ احمد آباد قلعہ میں نظربند کردئیےگئے۔ 1946میں رہاہوئے۔ کل ہند ریاستی اجلاس کی صدارت کی۔ 1947میں قائم ہوئی ہندستانی حکومت کےلیڈربنے۔ ہندستانی وزیراعظم اوروزیرخارجہ بنے۔ 1947میں پہلی باردلّی میں ایشائی رشتےپرکانفرنس کا انعقاد کیا۔ عالمی لیڈر،مصنف جنہوں نےاپنی سوانہ حیات اورہند ستان ایک تلاش کےنام سےکتابیں لکھیں۔
مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:
مولانا کی زندگی کا ایک بڑا باب سیاسیات سے متعلق ان کے کارہائے نمایاں کا ہے‘ دوران طالب علمی جمعیت علمائے ہند میں بحیثیت ممبر شمولیت پھر اپنے اخلاص کی بدولت اپنے اساتذہ کرام جو عرصہ سے میدان سیاست میں شہسواری کررہے تھے‘ کی نظر کرم سے خصوصی استفادہ‘ پھر جرأت واستقلال‘ دور اندیشی اور گہری فکری صلاحیتیں اور مولانا حسین احمد مدنی جیسی باکمال شخصیت کی ہمراہی نے مولانا کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے۔ مولانا کی ہمہ گیر وہمہ جہت شخصیت واقعی اس بات کی مستحق تھی کہ ان کے متعلق چہار دانگ عالم سے خراج تحسین وصول کیا جاتا اور ان کے تمام علمی ‘ عملی اور سیاسی کارناموں کو اجاگر کیا جاتا۔ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری نے مولانا سیوہاروی کے متعلق لکھے گئے مضامین ومقالات تالیف فرماکر مرتب کئے تو تقریباً پونے چار سو صفحات پر حاوی ایک ضخیم جلد تیار ہوگئی‘ اسی کتاب کے اخیر میں تقریباً سوا دو سو صفحات میں مولانا کے مختلف خطبات وتحریرات اور حسین مرقعات کو یکجا کردیا گیا ہے‘ یہ کتاب (جو کل ۵۰۸ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے) مئی ۲۰۰۱ء میں جمعیت پلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی‘ اس کتاب میں بنیادی طور پر مولانا کے سیاسی رخ زندگی کے متعلق لکھے گئے مضامین یکجا کئے گئے ہیں‘ تاہم اس کتاب کو مولانا کی سوانح حیات کہنا بے جا نہ ہوگا‘ دیگر یہ کہ شائقین سیاست کے لئے یہ کتاب اپنے اندر بیش بہا خزانے سموئے ہوئے ہے‘ جس کے ضمن میں قاری پر مولانا کے سیاسی موقف کے درست خد وخال نمایاں ہوتے ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد اپنی سیاسی کاوشوں کو یوں رائیگاں دیکھ کر مولانا کے معاصرین خود مولانا کی دل شکنی اور اندرونی غم محسوس کرتے تھے‘ لیکن اپنے اس بے پایاں اخلاص کی بدولت 
تقسیم ہند کے بعد بھی ارباب علم ودانش کے حلقہ میں بہرحال مقبول رہے اور مسلم وغیر مسلم میں یکساں مقبولیت حاصل کرتے رہے‘ گردوں کا کینسر جان لیوا ثابت ہوا‘ کھانسی نے مزید نقاہت میں اضافہ کردیا‘ عمر بھر کی جانفشانی اور محنت سے چور جسم وجان نے یکم ربیع الاول ۱۳۸۳ھ بمطابق ۲/ اگست ۱۹۶۲ء کو ان بکھیڑوں سے نجات پائی اور مولانا داعئی اجل کو لبیک کہتے ہوئے رفیق اعلیٰ سے جا ملے‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ کی تصانیف میں سے ”قصص القرآن“ (جو ہمارا موضوع سخن ہے) البلاغ المبین‘ اسلام کا اقتصادی نظام‘ ”اخلاق اور فلسفہٴ اخلاق“ اور ”رسول کریم“ خوب شہرہ رکھتی ہیں‘ مولانا ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں:
”اس طویل سیاسی جد وجہد کے ساتھ جس کا مزاج علمی کاموں اور تحقیق وتصنیف سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا‘ انہوں نے اپنے علمی ذوق‘ تصنیف وتحقیق کی صلاحیت اور لکھنے پڑھنے سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی‘ وہ ندوة المصنفین دہلی کے بانیوں اور مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے نہ صرف شریک کار اور ندوة المصنفین کے ایک معمار تھے‘ بلکہ ان دونوں حضرات کو ان سے تقویت اور ندوة المصنفین کو ان سے اعتبار وعزت حاصل تھی‘ اس سلسلے میں ان کی دو تصنیفات ایک تو ”قصص القرآن“ دوسرے ”اسلام کا اقتصادی نظام“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اردو میں ہمارے علم میں قصص القرآن‘ انبیاء علیہم السلام کی سوانح حیات اور ان کی دعوت حق کی مستند تاریخ وتفسیر (جو قرآن مجید کے گہرے مطالعے اور صحف قدیم اور جدید تحقیقات کی مدد سے مرتب کی گئی ہو‘ اس سے پہلے نہیں تھی‘ عربی میں البتہ مصر کے نامور عالم شیخ عبد الوہاب نجار کی قصص القرآن موجود ہے (غالباً قصص القرآن طباعت کی غلطی ہے‘ اصل نام قصص الانبیاء ہے)
امیرِالہندمولانا اسعد مدنی کی سیاسی زندگی کا آغاز:
حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس سرہ‘ مجاہدِ ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی وفات حسرت آیات سے جمعیت علماءٴ ہند اور مسلمانانِ عالم میں جو خلاء پیدا ہوا تھا‘ اس کو حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے اپنے تقویٰ ومجاہدانہ کردار سے اس طرح پُر کیا کہ جب ۱۹۶۳ء میں جمعیت علمائے ہند کے ناظم عمومی بنائے گئے تو پورے ملک میں جمعیت کی شاخوں کا جال بچھادیا۔ اس کے تمام شعبوں کو اتنا جاندار اور فعال بنادیا کہ جمعیت کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت شیخ الاسلام اور حضرت مجاہد ملت کے بعد لگتا تھا کہ اکابر کا لگایا ہوا یہ پوداشایدامر جھاجائے گا‘ لیکن حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے نا صرف یہ کہ اس پودے کو اپنے خونِ جگر سے سینچا‘ بلکہ تناور درخت بنادیا۔
مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن ہندوستانی پارلیمنٹ کا الیکشن اس لئے لڑتے تھے کہ ایوانِ حکومت میں مسلمانوں کی ترجمانی کرسکیں‘ ان کے انتقال پُرملال کے بعدپار لیمنٹ میں مسلمانوں کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہ رہا‘ ۱۹۶۸ء میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے ہندوستانی پارلیمنٹ (راجیاسبھا) کی رکنیت قبول فرمالی‘ تاریخ شاہد ہے کہ ایوانِ حکومت حضرت موصوف کی وجہ سے حق وصداقت کی آواز سے گونجتا رہا ۔ فرقہ وارانہ فسادات کا مسئلہ ہو ‘ مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک ہو یا بابری مسجد کا قضیہ نامرضیہ ہو‘ ہرمسئلہ پر حضرت موصوف دوٹوک رائے کا اظہار کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے اسلاف کے سچے جانشین اور اکابر کے ورثے کے رہنما ہونے کے ناطے جمعیت علمائے ہند کے وقار اور اس کے اثرات میں ہی اضافہ نہیں کیا‘ بلکہ اس کے وسائل وذرائع میں بھی اتنا اضافہ کیا کہ کسی ناگہانی آفت کے آجانے پر چندہ وصول ہونے سے پہلے ہی جمعیت علمائے ہند بروقت متأثرین کی خدمت انجام دے دیتی ہے۔
امیرِ ہند کی وسعتِ ظرفی:
اتنے اوصاف سے متصف اور اکابر کے عظیم ورثہ کے رہنما ہونے کے باوجود اس حالت میں کہ جمعیت علمائے ہند اور مولاناسید اسعد مدنیلازم وملزوم یا یک جان ودوقالب تھے‘ حضرت موصوف کا مزاج غیر معمولی طور پر شورائی تھا۔ جمعیت کے تمام فیصلے مجلس عاملہ کے اراکینِ محترم کے صلاح ومشورہ سے ہوتے تھے اور مجلسِ عاملہ کے اجلاسوں میں بعض اوقات حضرت والا کی آراء سے اختلاف بھی کیا جاتا تھا‘ مگر اس اختلافِ رائے کے باوجود تمام فیصلے اتفاق رائے یا کثرت رائے سے کئے جاتے تھے۔
امیرِ ہندمیں قومی وملی خدمت کا جذبہ
آپ بحمد للہ! اپنے والدِ گرامی حضرت شیخ الاسلام کے سچے جانشین تھے‘ اس لئے ملی امور یا مسلمانوں کے مسائل میں کبھی مصلحت کوشی سے کام نہیں لیتے تھے‘ اس خصوصیت کی وجہ سے وہ ملک بھر کی تمام سیاسی پارٹیوں میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے‘ پورے ملک میں حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی شخصیت ہی تھی جو فرقہ پرستی کے خلاف ملک کی تمام سیکولرپارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتی تھی‘ حضرت مولانا سید اسعد مدنی کو قدرت نے تعمیری ذہن بخشا تھا‘ اس لئے ان کو تعمیرات سے بھی خصوصی شغف تھا۔ مدنی ہال کی شاندار عمارت اور مسجد کے اطراف کی خوبصورت عمارتیں ان کے اس ذوق کا مظہر ہیں‘ جمعیت علمائے ہند فرقہ وارانہ فسادات کے متأثرین کی امداد وآباد کاری کا کام اگرچہ پہلے بھی کرتی رہی ہے‘ لیکن فدائے ملت حضرت سید اسعد مدنی کے دورِ امارت میں جتنے بڑے پیمانے پر یہ کام جاری ہوا‘ اس کی مثال بھی جمعیت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
امیرِ ہند کی خدماتِ جلیلہ کا اجمالی تذکرہ:
تقسیمِ ہند کے ہولناک نتائج سے امتِ مسلمہ پر جو قیامت ٹوٹی وہ ہر کس وناکس پر عیاں ہے‘ تقسیم ہند کے تاریک ایام میں ہندوستانی مسلمانوں کو جن بڑے مسائل سے دوچار ہونا پڑا ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱:- فسادات کی روک تھام اور مظلومین کی امداد۲:- مسئلہ آسام‘ ۳:-مسئلہ کشمیر‘ ۴:- مسلم اوقاف کی حفاظت ۵:- اردو کا تحفظ اور اس کی بقاء ۶:-عالم اسلام سے ملت کا واسطہ ۷:- بابری مسجد ۸:- علمی پروگرام امداد ووظائف ۹:- مسلم یونیورسٹی کا تحفظ ۱۰:- مسئلہ ارتداد ۱۱:- مسلمانوں کی اقتصادی بحالی کے پروگرام ۱۲:- مسلم پرسنل لاء ۱۳:- تحفظ حرمین شریفین وغیرہ ۔
تفسیم وطن سے ہندوستان میں جو فرقہ پرستی کا زہر گھولاگیا تھا اس کا تدارک ممکن ہی نہ تھا‘ اگر یہاں حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی‘ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد‘ مفتی کفایت اللہ‘ حضرت مولانا احمد سعید‘ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور مولانا حفظ الرحمن جیسی بلند قامت شخصیات نہ ہوتیں۔ایک طرف تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ لوگ جب بھی اس خالق کے بنائے ہوئے طریقہ پر چلتے ہیں تو کامیابیاں اور کامرانیاں قطار باندھے ایسے لوگوں کی قدم بوسی کے لئے ترستی ہیں‘دوسری طرف تاریخ نے یہ بات بھی واضح کردی کہ اگر اس کے برعکس اس طریق کار سے ہٹ کر یا کسی اور طریق کار پر قوموں نے اپنی تعمیر کی ہے تو ناصرف یہ کہ کوتاہیوں اور ناکامیوں کا منہ انہیں دیکھنا پڑا‘ بلکہ وہ خود دوسری قوموں کے لئے ایک بدترین مثال بن کررہ گئیں اور لعنت ورسوائی نے ان کے چہروں کود اغدارکردیا‘ ہندوستانی مسلمانوں کی حالتِ زار پر تعجب نہ ہوتا اگر ان کے پاس خدا کا پیغام اور نظام زندگی نہ ہوتا۔
فرد قائم ربط مِلّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں